پاکستان کے کالم نویسوں کی اکثریت اس اعتبار سے قوم کی غدار ہے کہ انہوں نے وحشیوں اور درندوں کو ’’مہذب‘‘ کھوٹے کو ’’کھرا‘‘ کالے کو ’’سفید‘‘ اور ذلت مآبوں کو ’’عزت مآب‘‘ ثابت کیا ہے۔ اس سے پہلے کے اصل بات شروع ہو ذرا جاوید چودھری کے حالیہ کالم کا یہ اقتباس ملاحظہ فرمالیجیے۔ لکھتے ہیں۔
’’آپ کو شام کا وہ بچہ یاد ہوگا، والد اسے کمر پر باندھ کر سمندر میں تیر رہا تھا، وہ تیر تیر کر تھک گیا، ہمت ہار گیا اور سمندر میں ڈوب گیا، بچہ اس کی کمر سے نکلا‘ وہ بھی ڈوبا اور مر گیا، سمندر نے بعدازاں بچے کی لاش ساحل پر پھینک دی، کسی فوٹو گرافر نے بچے کی لاش کی تصویر بنائی، یہ تصویر مغربی میڈیا میں شائع ہوئی اور مہذب دنیا میں کہرام مچ گیا، عالمی ضمیر بیدار ہوا اور دنیا شام کے مہاجرین کے لیے اپنے دروازے کھولنے پر مجبور ہوگئی، یورپ، امریکا، آسٹریلیا، جاپان اور عرب ملکوں نے گیارہ لاکھ شامی مہاجرین کو پناہ دی اور اس پناہ پر ان ملکوں کے اربوں روپے خرچ ہوگئے، یہ ستمبر 2015ء کا واقعہ تھا، مجھے آج بھی جب یہ واقعہ یاد آتا ہے تو میں سوچتا ہوں بچے کی اس لاش میں ایسی کیا چیز تھی جس نے مہذب دنیا کو اپنے دروازے شامی مہاجرین کے لیے کھولنے پر مجبور کردیا؟ میں سوچتا ہوں تو صرف ایک چیز سامنے آتی ہے اور وہ چیز ہے انسانی جان کی حرمت، دنیا کا ہر وہ ملک جس میں انسانی جان کی قدر اور قیمت ہوتی ہے وہ ملک مہذب بھی کہلاتا ہے اور ترقی یافتہ بھی، جب کہ جن ملکوں میں انسان اور ان کی جانوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی وہ ملک کبھی ترقی کرتے ہیں اور نہ ہی تہذیب اور شائستگی کے معیار پر پورے اترے ہیں، یہ ملک بے چارے کبھی ملک بھی نہیں بن پاتے اور ہمارے زوال کی سب سے بڑی وجہ انسانی جان کی بے قدری ہے، ہمارے سامنے خواہ ہزار لوگ مرجائیں ہمیں کوئی پروا نہیں ہوتی، ہمارے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی‘‘۔
(روزنامہ ایکسپریس 2 جون 2020ء)
اس اقتباس کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ جاوید چودھری مغربی دنیا کو ’’مہذب‘‘ سمجھتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ مہذب قومیں ہی ’’ترقی یافتہ‘‘ بنتی ہیں۔ مغرب چوں کہ مہذب ہے اس لیے ترقی یافتہ بھی ہے۔ ہم چوں کہ مہذب نہیں ہیں اس لیے ترقی یافتہ بھی نہیں ہیں۔
انسانی تاریخ کے سب سے بڑے شاعر مولانا روم نے فرمایا ہے کہ اصل تہذیب احترام آدمیت ہے۔ مغربی اقوام کی تاریخ میں احترام آدمیت کا کیا مقام ہے آئیے دیکھتے ہیں۔ ایرک فرام مغرب کے ممتاز ماہر نفسیات ہیں ان کی تصنیف
The Anatomy of Human Destructiveness کو کلاسک کا درجہ حاصل ہے۔ اس کتاب میں ایرک فرام نے مغربی اقوام کی ’’جنگ پسندی‘‘ پر ایک نگاہ ڈالی ہے۔ اس کے بقول مغرب کی ’’مہذب اقوام‘‘ نے گزشتہ پانچ سو برسوں میں 2659 جنگیں لڑی ہیں۔ ان جنگوں کی تفصیل یہ ہے۔
جنگوں کی تعداد…سال
9…1499…1480
87…1599… 1500
239… 1699…1600
781…1799…1700
651…1899…1800
892…1940…1900
جاوید چودھری کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ مغربی اقوام نے یہ جنگیں آپس میں لڑیں۔ ان جنگوں میں دو عالمی جنگیں بھی شامل ہیں۔ ان جنگوں میں ’’صرف‘‘ 10 کروڑ انسان مارے گئے۔ اصول ہے کہ جنگ میں ایک آدمی مرتا ہے تو تین زخمی ہوتے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ دو عالمی جنگوں میں 30 کروڑ انسان زخمی بھی ہوئے۔ اس سے اندازہ کی جاسکتا ہے کہ گزشتہ پانچ سو سال میں مغربی اقوام نے کتنے ٹن تہذیب پیدا کی ہے اور کتنے ٹن احترام آدمیت کا مظاہرہ کیا ہے۔
مغرب کے ایک اور ممتاز دانش ور ہیں ان کا نام مائیکل مان ہے۔ انہوں نے اپنی مشہور زمانہ تصنیف ’’Dark Side of The Democracy‘‘ میں بتایا ہے کہ مغرب کے سفید فام مہذب لوگوں نے ’’Americas‘‘ پر قبضے کے لیے ’’صرف‘‘ 10 کروڑ ریڈ انڈینز کو قتل کیا۔ امریکا سفید فاموں کو جہیز میں نہیں ملا یہ 10 کروڑ انسانوں کو قتل کرکے حاصل کیا گیا ملک ہے۔ مغرب کے ’’مہذب‘‘ لوگوں نے آسٹریلیا پر قبضے کے لیے آسٹریلیا کے اصل باشندوں یعنی ایب اوریجنلز پر وہ قیامتیں ڈھائیں کہ ان کی نسل ہی تقریباً نابود ہوگئی۔ مغرب کے ’’مہذب‘‘ لوگوں نے آسٹریلیا میں 45 لاکھ ایب اوریجنلز کو قتل کیا۔ ڈاکٹر حق حقی کی تصنیف کے مطابق مغرب کے مہذب لوگوں نے افریقا کے چار کروڑ سیاہ فاموں اور ایک کروڑ مسلم سیاہ فاموں کو قتل کیا۔ اعداد و شمار کے مطابق امریکا نے کوریا کی جنگ میں 30 لاکھ اور ویت نام کی جنگ میں 10 لاکھ انسانوں کو قتل کیا۔ مغرب کے اپنے ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکا نے گزشتہ 14 ماہ میں عراق، افغانستان اور پاکستان سمیت مختلف اسلامی ملکوں میں صرف 16 لاکھ مسلمانوں کو قتل کیا ہے۔ صدام حسین کے عراق میں امریکا اور اس کے مغربی اتحادایوں کی اقتصادی پابندیوں سے 10 لاکھ افراد غذا اور دوائوں کی قلت سے ہلاک ہوئے، ان میں پانچ لاکھ معصوم بچے بھی شامل تھے۔ بی بی سی کے ایک صحافی نے امریکا کی سابق وزیر خارجہ میڈلین آلبرائٹ سے پوچھا کہ آپ دس لاکھ عام افراد کی ہلاکت پر کیا کہتی ہیں۔ جاوید چودھری کی مہذب مغربی خاتون نے فرمایا۔
it is acceptable and worth it
یعنی 10 لاکھ معصوم اور مظلوم لوگوں کی ہلاکت ’’قابل قبول‘‘ بات بھی ہے اور اس میں کوئی قباحت بھی نہیں ہے۔ یہ مغربی اقوام کی ’’تہذیب‘‘ کی چند عسکری جھلکیاں ہیں۔ جاوید چودھری اور ان جیسے ’’تہذیب پرست‘‘ مغربی اقوام کی اقتصادی دہشت گردی کی بھی چند جھلکیاں ملاحظہ کریں۔
اُتساپٹنائک بھارت کی ممتاز محقق ہیں ان کی تحقیق کے مطابق انگریز برصغیر سے 45 ہزار ارب ڈالر لوٹ کر لے گئے۔ یہ اتنی بڑی رقم ہے کہ اس سے پورے برصغیر کی معاشی تقدیر بدلی جاسکتی تھی مگر ’’مہذب انگریز‘‘ برصغیر کی ایک ایک چیز لوٹ کر لے گئے۔ برطانیہ کے ممتاز مورخ ولیم ڈیل ریمپل نے اپنی تصنیف دی انارکی میں لکھا ہے کہ جب انگریز برصغیر میں آئے تو برصغیر پوری دنیا کی کل پیداوار کا 25 فی صد پیدا کررہا تھا اور جب جاوید چودھری کے ’’مہذب‘‘ انگریز برصغیر کو چھوڑ کر بھاگے تو برصغیر پوری دنیا کی مجموعی پیداوار کا صرف ساڑھے چار فی صد پیدا کررہا تھا۔ اعداد و شمار کے مطابق مغرب کے پیدا کیے ہوئے مالیاتی اداروں نے اس وقت دنیا کی غریب اقوام کو چار ہزار ارب ڈالر کا مقروض بنایا ہوا ہے۔ غریب اور کمزور اقوام کا قرض اتنا بڑھ گیا ہے کہ وہ اسے ادا کرنے کے قابل ہی نہیں رہیں۔ پاکستان اس کی بہترین مثال ہے۔ 2019ء میں پاکستان کا قومی بجٹ 6 ہزار ارب روپے تھا۔ اس بجٹ میں سے 3000 ارب روپے صرف مغربی اقوام کے قرضوں کی مد میں ادا کیے گئے۔ ہم پر قرض نہ ہوتا تو یہ 3000 ارب روپے قوم کی تعلیم، صحت، صاف پانی کی فراہمی، ٹرانسپورٹ اور سڑکوں کی تعمیر پر خرچ ہوتے۔ ابھی قرضوں کی ادائیگی ہمارا 50 فی صد بجٹ کھارہی ہے، حالات یہی رہے تو اندیشہ ہے کہ آنے والے برسوں میں قرضوں کی ادائیگی ہمارا60 اور 70 فی صد بجٹ کھا جایا کرے گی۔ آپ نے دیکھا اقتصادی دائرے میں مغرب کی مہذب اقوام کتنی تہذیب اور کتنے احترام آدمیت کا مظاہرہ کررہی ہیں۔
افراد، گروہ اور قومیں اپنے ساتھ تو اچھا ہی سلوک کرتی ہیں۔ چناں چہ ان کی ’’تہذیب‘‘ کی اصل حقیقت ’’دوسروں‘‘ کے ساتھ سلوک سے ظاہر ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے مغرب کے ’’مہذب لوگ‘‘ تہذیب کے س معیار پر بھی پورا نہیں اُترتے۔ مغرب کے نوبل انعام یافتہ ادیب کپلنگ نے پورے ایشیا کو بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایشیا آدھا شیطان ہے اور آدھا بچہ ہے۔ ایشیا آدھا شیطان اس لیے ہے کہ ’’عیسائی‘‘ نہیں ہے، آدھا بچہ اس لیے ہے کہ اس کے پاس ’’عقل‘‘ نہیں ہے۔ وہ عقل کے بجائے ’’عشق‘‘ میں اُلجھا ہوا ہے۔ طبیعیات کے بجائے مابعد طبیعیات میں غرق ہے۔ ’’دوسرے‘‘ کے ساتھ مہذب مغرب کے تعلق کی ایک صورت یہ ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ 1095 میں عیسائیت کے رہنما پوپ اربن دوئم نے ایک چرچ میں کھڑے ہو کر اسلام کو ایک شیطانی مذہب قرار دیا اور کہا کہ خدا نے یہ بات میرے قلب میں القا کی ہے کہ ہم شیطانی مذہب اور اس کے ماننے والوں کو صفحہ ہستی سے مٹادیں۔
پوپ نے یورپ کی تمام اقوام کو دعوت دی کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک جھنڈے کے نیچے جمع ہوں اور 1099 میں تمام یورپی طاقتیں ایک صلیبی جھنڈے کے نیچے جمع ہوئیں اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ان صلیبی جنگوں کا آغاز ہوا جو کم و بیش 200 سال تک جاری رہیں۔ اس کے برعکس ’’غیر مہذب‘‘ مسلمانوں نے کبھی کسی ’’دوسرے‘‘ کے مذہب کو بُرا نہیں کہا۔ مسلمانوں نے ایک ہزار سال تک ہندوستان پر حکومت کی اور ہندو ازم کو ہاتھ نہ لگایا۔ مسلمانوں نے 800 سال تک اسپین کے وسیع علاقے پر حکومت کی اور ان کی ریاست میں عیسائی اور یہودی خوب پھلے پھولے مگر جیسے ہی اسپین مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل کر عیسائیوں کے ہاتھ میں گیا۔ ’’مہذب‘‘ اہل مغرب نے مسلمانوں کے سامنے تین ’’امکانات‘‘ رکھ دیے۔ ایک یہ کہ عیسائی بن جائو۔ دوسرا یہ کہ اسپین سے بھاگ جائو۔ تیسرا یہ کہ قتل ہوجائو۔ بدقسمتی سے عیسائیوں نے ان تینوں امکانات ہی کو بروئے کار لا کر دکھایا۔ انہوں نے مسلمانوں کو زبردستی عیسائی بھی بنیا، عیسائی نہ بننے والوں کو قتل بھی کیا اور کچھ کو اسپین سے نکال باہر کیا۔ آپ نے دیکھا جاوید چودھری کے اہل مغرب کتنے ’’مہذب‘‘ ہیں۔
تہذیب کا ایک پیمانہ یہ ہے کہ فرد، گروہ یا قوم ’’کمزوروں‘‘ کے ساتھ کیا معاملہ کرتی ہے۔ مغرب نے کمزوروں کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے اس کی کچھ مثالیں پیش کی جاچکی ہیں۔ چند مثالیں اور عرض ہیں۔ مسئلہ مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان کے عیسائیوں کا ہو تو مسئلہ دو تین سال میں حل ہوجاتا ہے لیکن مسئلہ کمزور فلسطینیوں اور کشمیریوں کا ہو تو 72 سال میں بھی مسئلہ حل نہیں کرپاتے۔ خیر مہذب مغرب کمزور مسلمانوں کی مدد کو نہیں آتا تو سمجھ میں آتا ہے مگر کورونا کی وبا کے دوران مہذب مغرب تو اپنے بوڑھوں کی مدد کو بھی نہیں آیا۔ خود مغرب کے ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکا، یورپ بالخصوص اٹلی اور برطانیہ میں حکومتوں نے بوڑھوں کو مرنے کے لیے تنہا چھوڑ دیا اور ہزاروں بوڑھے Old Houses اور Care Homes میں بے یارومددگار مر گئے۔ یہ ہے جدید مغرب کی اصل تہذیب۔ بوڑھے ’’ناکارہ‘‘ ہیں انہیں مرنے دو۔ جوان کام آسکتے ہیں انہیں بچالو۔ یہ ہے جاوید چودھری کی مہذب اور ترقی یافتہ دنیا۔
تہذیب کا ایک معیار یہ ہے کہ تہذیب اپنے مثالیوں، اپنے Ideals کے ساتھ کیا معاملہ کرتی ہے ان Ideals کے ساتھ جو آفاقی ہوتے ہیں۔ مغرب کا ایک آئیڈیل آزادی ہے۔ مگر مغرب اپنے سوا کسی کو آزاد نہیں دیکھنا چاہتا۔ مغرب کا ایک آئیڈیل جمہوریت ہے۔ جمہوریت کی کہانی یہ ہے کہ مسلم دنیا میں سیکولر اور لبرل جماعت انتخابات میں کامیابی حاصل کرلے تو مغرب اسے سینے سے لگاتا ہے لیکن اگر کسی مسلم ملک میں کوئی اسلامی جماعت کامیاب ہوجائے تو مغرب یا تو انتخابات کے عمل کو مکمل ہی نہیں ہونے دیتا۔ انتخابات مکمل ہوجائیں اور اسلامی جماعت اقتدار میں آجائے تو مغرب اس جماعت کی حکومت کو فوج سے گروا دیتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو مغرب اپنے Ideals پر خود تھوک دیتا ہے۔
جاوید چودھری کا خیال ہے کہ تہذیب اور مادی ترقی میں ایک تعلق ہے۔ یہاں ہم مغرب کے ممتاز مورخ ٹوائن بی سے رجوع کرتے ہیں۔ ٹوائن بی نے صاف لکھا ہے کہ اخلاقی زوال اور تکنیکی ترقی میں ایک ربط باہمی یا Corelation پایا جاتا ہے۔ یعنی جب کوئی قوم اخلاقی اعتبار سے قوی ہوتی ہے تو وہ تکنیکی طور پر ترقی نہیں کرتی لیکن جب کوئی قوم تکنیکی اعتبار سے ترقی کرتی ہے تو اس کی اخلاقی حالت اچھی نہیں ہوتی۔ جہاں تک مسلمانوں کے زوال کا تعلق ہے تو جاوید چودھری کے لیے اقبال کا صرف ایک شعر کافی ہے۔ اقبال نے کہا ہے۔
سبب کچھ اور ہے تو جس کو خود سمجھتا ہے
زوال بندۂ مومن کا بے زری سے نہیں