گزشتہ ڈھائی تین برس سے ایک صاحب مسلسل میرے مطالعے میں ہیں ان صاحب کی خصوصیات یہ ہیں کہ زندگی کا ہر واقعہ ان کے ساتھ پیش آچکا ہے۔ آپ ان سے کسی شخص کی برجستگی یا دلداری کا قصہ بیان کریں گے تو وہ اسی وقت آپ سے اس برجستگی اور دلداری سے ملتا جلتا اپنی برجستگی اور دلداری کا کوئی قصہ بیان کردیں گے۔ آپ کسی اعلیٰ عہدیدار سے اپنے مراسم کا تذکرہ کریں گے تو وہ آپ کو بیٹھے بیٹھے دس اعلیٰ عہدیداروں سے اپنے قریبی مراسم کے واقعات سنادیں گے۔ یہاں تک کہ اگر آپ ان کو بتائیں گے کہ ایک بار آپ نے کنویں میں چھلانگ لگادی تھی تو وہ آپ کو فوراً ہی بتائیں گے کہ وہ خود دو مرتبہ کنویں میں چھلانگ لگا چکے ہیں۔ یہ صاحب Height of Delight کی طرز پر Height of Frustration یا ’’احساسِ ناکافیت‘‘ کے ایک انتہائی رجحان کے نمائندہ ہیں۔
ہم نے مندرجہ بالا سطور میں جن صاحب کی مثال آپ کی خدمت میں پیش کی ہے وہ اس امر کا واضح طور پر اظہار کرتی ہے کہ ایک شخص اپنی ’’ناکافیت‘‘ کے خلا کو پُر کرنے کے لیے جھوٹ کی طرف کس طرح اور کس شدت کے ساتھ مائل ہوسکتا ہے؟
اس مثال سے معاشرے کے کئی منفی رویے بھی اُبھر کر ہمارے سامنے آتے ہیں جو یقینا انسان کو جھوٹ بولنے کی طرف رغبت دلانے کا باعث ہیں۔ مثلاً پہلا منفی رویہ تو ہمارے سامنے یہ آتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں انسان صرف ایک انسان کی حیثیت سے کوئی اہمیت نہیں رکھتا اس کی اہمیت ہے تو اس کے تعلقات کے ساتھ یعنی مرتبہ ذہانت و فطانت اور امارت وغیرہ۔
دوسرا منفی گوشہ یہ سامنے آیا ہے کہ ہمارے معاشرے میں نظام مراتب کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا یعنی ہم یہ بات نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ ہر شخص کو ہر صلاحیت دے کر پیدا نہیں کرتا لیکن ہر شخص کو ایک خاص صلاحیت یا (uniqueness) دے کر پیدا کرتا ہے۔ کچھ ہی لوگ ہوتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ کئی صلاحیتیں دے کر پیدا کرتا ہے۔ انسانوں کی انہی صلاحیتوں کے اعتبار سے معاشرے میں ایک خاص نظام مراتب وجود میں آتا ہے۔ اس نظام میں کوئی شخص غیر اہم نہیں ہوتا البتہ ایک شخص دوسرے شخص سے بعض خصائص کی بنا پر زیادہ اہم ہوتا ہے۔ اس نظام میں روحانی سرگرمیوں میں مصروف لوگوں کا مقام سب سے بلند ہوتا ہے۔ اس کے بعد تخلیقی کام کرنے والوں کا نمبر آتا ہے۔ اس کے بعد ہنر مندوں اور پھر جسمانی محنت کرنے والوں کی باری آتی ہے۔
ان افراد کے مرتبے تو ایک دوسرے سے جدا ہوتے ہیں لیکن یہ ایک دوسرے کے لیے ناگزیر ہوتے ہیں۔ ان سب کو ایک دوسرے کی ضرورت ہوتی ہے یہی ضرورت انہیں مستقل اہم بنائے رکھتی ہے۔
اس نظام مراتب کا تصور رکھنے والے اور اس تصور پر یقین رکھنے والے معاشروں میں حسد کا مادہ اور اس حوالے سے جھوٹ کا رجحان بہت کم ہوتا ہے کیوں کہ ان معاشروں میں ہر مرتبے پر فائز شخص کو اپنی اہلیت و اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے جس کے باعث وہ، وہ بننے کی کوشش نہیں کرتا جو کہ وہ نہیں ہوتا اسی لیے وہ ناکافی پن کے احساس کا شکار نہیں ہوتا جو کہ ہمارے معاشرے میں اور دنیا کے دیگر معاشروں میں بہت عام ہوچکا ہے۔
جھوٹ بولنے کا جو دوسرا سبب ہم نے بیان کیا ہے وہ ہے ذمے داری سے بچنے کا رجحان۔ اگرچہ ذمے داری سے بچنے کا رجحان بھی انسان کی پست اخلاقی حالت کی طرف اشارہ کرتا ہے لیکن انسان جب اس سے ایک قدم آگے بڑھ جاتا ہے تو ہم اسے پست اخلاقی کی انتہا قرار دے سکتے ہیں۔ یہ اگلا قدم ہے اپنی ذمے داری یا اس کے نتائج کو دوسروں پر منتقل کرنا۔ اس صورتِ حال کے مظاہر ہم عام زندگی سے لے کر قومی زندگی کے اہم ترین معاملات تک آسانی سے دیکھ سکتے ہیں۔
گھر میں بچے نے گلاس توڑ دیا کسی نے نہیں دیکھا کچھ دیر بعد والدین نے پوچھا تو بچہ گلاس توڑنے سے صاف مکر گیا۔ اگر صورتِ حال اجازت دے یعنی گلاس کے ٹوٹنے کے وقت اس کا چھوٹا بھائی (جو اپنی صفائی پیش نہیں کرسکتا) اس کے پاس ہو تو وہ گلاس کی ذمے داری اس کے سر ڈال دے گا۔ بچے کی نفسیات سادہ ہوتی ہے اس مرحلے پر اس کے ذہن میں صرف خوف کا عنصر غالب ہوتا ہے اسے معلوم ہے کہ گلاس توڑنے کی سزا ملے گی اسے سزا کے معنی معلوم نہیں اسے معلوم نہیں کہ سزا جرم کی کثافت کو دور کرکے انسان کو جرم سے پہلی والی حالت میں لے آتی ہے۔ بچے کو اس جھوٹ پر ملامت نہیں کی جاسکتی کیوں کہ اس کے اندر ابھی کوئی منظم اخلاقی نظام وجود میں نہیں آیا ہے۔ اس کی قوت فیصلہ کمزور ہے وہ ابھی اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ اپنے اخلاقی معیارات کو دوسروں پر عائد کرے یا ٹھونسے۔ اپنی اس مخصوص حیثیت کے باعث وہ کسی سے جواب طلب نہیں کرسکتا وہ ابھی صحیح معنوں میں ذمے دار نہیں ہے۔
اب ذرا اپنی قومی زندگی پر نظر ڈالیے۔ پورے اخلاقی نظام سے واقف لوگ موجود ہیں انہیں اپنی ذمے داری کا بھرپور احساس ہے چوں کہ یہ لوگ جواب طلب کرسکتے ہیں اس لیے جواب دینے کے مکّلف بھی ہیں، پاکستان دو ٹکڑے ہوگیا کوئی اس کی ذمے داری قبول نہیں کرتا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس کے ذمے دار بھٹو صاحب ہیں، بھٹو صاحب کہتے ہیں کہ وہ اس کے ذمے دار نہیں۔ اس کی ذمے دار عوامی لیگ ہے، عوامی لیگ کو مغربی پاکستان کے سب سے بڑے صوبے سے مسلسل شکایتیں تھیں۔ کوئی ذمے داری قبول نہیں کرتا کتنا بڑا سانحہ ہے مگر سب جھوٹ بول رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے پاکستان نہیں ٹوٹا کانچ کا کوئی معمولی سا گلاس ٹوٹ گیا ہے جس کی ذمے داری کے تعین کی کوئی خاص ضرورت نہیں۔ قوم جھوٹی ہے اور اس کے رہنما جھوٹوں کے سردار۔
گلاس توڑنے والے بچے اور ان افراد کی نفسیات میں بظاہر کوئی فرق نہیں مگر غور سے دیکھیے تو بڑا ہولناک فرق ہے۔ بچہ اپنی اخلاقی ذمے داری سے واقف نہیں مگر یہ سب لوگ واقف ہیں اس اعتبار سے ان سب افراد کی شبیہیں کوڑے دان کی شکل میں ڈھال کر ملک کے کونے کونے میں رکھ دینی چاہئیں۔ تا کہ لوگ ان کے اندر کوڑا کرکٹ ڈال کر ان کے حقیقی وجود کی علامت کو دنیا کے سامنے پیش کرسکیں مگر ایسا کبھی نہیں ہوگا۔
میں نے گزشتہ سطور میں بعض ایسی صورتوں کا تذکرہ کیا تھا جن میں انسان بہ یک وقت زندہ رہتا ہے۔ مثال کے طور پر علمی صورت حال، معاشی صورت حال وغیرہ۔ ان تمام صورتوں میں میں نے مذہبی صورت حال کا تذکرہ نہیں کیا تھا اور ایسا میں نے جان بوجھ کر کیا ہے کیوں کہ میرے خیال میں ہمارے معاشرے میں کوئی حقیقی مذہبی صورت حال موجود نہیں ہے۔ نعرے بازی اور حماقت کی حدود کو چھوتی ہوئی سادہ لوحی کی بات اور ہے ورنہ درحقیقت ہمارا معاشرہ مذہب سے بے نیاز دکھائی دیتا ہے۔ میں نے ایسے بے شمار لوگوں کو دیکھا ہے جو دوسروں کی معاشی صورت حال کو بہتر دیکھ کر اپنی معاشی حالت کو بہتر بنانے کی تگ و دو میں مصروف ہیں۔ میں نے ایسے افراد بھی دیکھے ہیں جو دوسروں کے بلند سماجی مرتبوں کو دیکھ کر اپنے سماجی مرتبوں کو بلند کرنے کے لیے کمر ہمت کس کے میدان عمل میں کودے ہوئے ہیں مگر میں نے آج تک ایسا آدمی نہیں دیکھا جو کسی متقی پرہیز گار آدمی کو دیکھ کر اپنے روحانی مرتبے کی بلندی کے لیے کوشاں ہوا ہو۔ دوسروں کی بہتر معاشی حالت اور بلند سماجی مرتبے ہمیں ہمارے ناکافی ہونے کا احساس دلاتے ہیں۔ مگر کسی کی روحانی ترقی کو دیکھ کر ہمیں ایک لمحے کے لیے بھی یہ احساس نہیں ہوتا کہ ہم اس میدان میں کتنے پیچھے ہیں اور ہمیں اس شخص کی طرح اس میدان میں آگے بڑھنا چاہیے۔
خدانخواستہ میرے کہنے کا یہ مطلب نہیں کہ ہمارے معاشرے میں سچے مذہبی لوگ نہیں ہیں میرا یقین ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایسے لوگ موجود ہیں اور یہ معاشرہ انہی کے اعمال کی برکتوں سے ابھی تک سالم اور قائم ہے مگر یہ لوگ تعداد میں اتنے ہیں کہ
ہر چند کہیں کہ ہیں، نہیں ہیں
سیاست کے میدان میں جھوٹ کے احساس جرم کو کم کرنے کے لیے بڑی دلکش اصطلاحات وضع کی گئی ہیں۔ مقامی سیاست میں جھوٹ کو حکمت عملی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے جب کہ بین الاقوامی سیاست میں اسے ڈپلومیسی کہا جاتا ہے۔ ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی حکمت عملی اور ڈپلومیسی کے پاٹوں کے درمیان پس رہی ہے۔ نہ جانے کب تک پستی رہے گی؟؟