اگر آپ اپنے معاشرے سے زندہ تعلق رکھتے ہیں تو اخبار کی خبریں بھی پستول کی گولیوں کی طرح آپ کے سینے میں اُتر سکتی ہیں۔ ذرا روزنامہ جنگ کراچی میں حنیف خالد کی بائی لائن کے ساتھ شائع ہونے والی یہ خبر تو ملاحظہ کیجیے۔
’’چیئرمین بحریہ ٹائون ملک ریاض حسین نے اربوں روپے کے ذاتی خرچ سے دنیا کی تیسری بڑی مسجد تعمیر کرادی ہے۔ یہ مسجد بحریہ ٹائون میں واقع ہے۔ اس کی ساری لاگت ملک ریاض حسین نے اپنی ذاتی جیب سے ادا کی ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں ملک کے سربراہ یا کسی سرمایہ دار سے کوئی معاونت حاصل نہیں کی۔ اس جامع مسجد میں بیک وقت آٹھ لاکھ نمازیوں کی گنجائش ہے۔ ملک ریاض نے جنگ کو بتایا کہ مساجد کی تعمیر بحریہ ٹائون کی روایت اور ان کا مذہبی شوق ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی اس کاوش کو قبول کرے آمین‘‘۔ (روزنامہ جنگ کراچی 5 جولائی 2020)
اب آپ روزنامہ جنگ ہی میں حنیف خالد کی بائی لائن اور صفحہ اول پر چار سرخیوں کے ساتھ شائع ہونے والی خبر کی صرف چار سرخیاں ملاحظہ کرلیجیے۔
’’ملک ریاض ہر سال 25 طلبہ کو غیر ملکی یونیورسٹیوں سے PHD کرائیں گے۔
طلبہ کا انتخاب ملک کی پانچ یونیورسٹیوں سے میرٹ پر کیا جائے گا۔
پنجاب، پشاور، قائد اعظم، کراچی یونیورسٹی اور این ای ڈی یونیورسٹی سے چنائو ہوگا۔
جملہ اخراجات بیگم اختر رخسانہ میموریل ٹرسٹ کرے گا۔ چیئرمین بحریہ ٹائون‘‘۔
(روزنامہ جنگ کراچی۔ 6 جولائی 2020ء)
یہ خبریں اگر کسی عام آدمی کے حوالے سے شائع ہوئی ہوتیں تو یہ خبریں ہر اعتبار سے مثبت کہلاتیں مگر بدقسمتی سے یہ خبریں بحریہ ٹائون کے مالک ملک ریاض کے بارے میں ہیں۔ ملک ریاض کے بارے میں کون نہیں جانتا کہ وہ پاکستان کی تاریخ کے بدعنوان ترین شخص ہیں۔ اس لیے کہ پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت نے آج تک کسی پاکستانی پر 460 ارب کا جرمانہ نہیں کیا۔ مگر ملک ریاض پر سپریم کورٹ آف پاکستان نے یہ ثابت کرکے 460 ارب روپے کا جرمانہ کیا کہ ملک ریاض نے جس ہزاروں ایکڑ اراضی پر کراچی کا بحریہ ٹائون تعمیر کیا ہے وہ ناجائز طریقے سے حاصل کی گئی ہے۔ ملک ریاض نے عدالت کا یہ فیصلہ قبول کیا اور 460 ارب روپے کا جرمانہ ادا کرنے کا وعدہ کیا۔ یعنی ملک ریاض عام مجرم نہیں ’’اقراری مجرم‘‘ ہے۔ ایسا شخص ملک کا دشمن ہے۔ قوم کا دشمن ہے۔ معاشرے کا دشمن ہے۔ ہماری تاریخ کا دشمن ہے۔ ہماری تہذیب کا دشمن ہے اس لیے کہ اس نے ہزاروں ایکڑ اراضی پر ناجائز قبضہ کرکے کراچی میں بدنام زمانہ بحریہ ٹائون تعمیر کیا۔ اس نے اپنی رہائشی اسکیم کی بنیاد ایک بھیانک جرم پر رکھی۔ یہ تو سپریم کورٹ نے مہربانی کی ورنہ سپریم کورٹ اگر جرمانے کے بجائے زمین واگزار کرالیتی تو بحریہ ٹائون میں پلاٹ اور گھر بنانے والے لاکھوں لوگوں کی زندگیاں تباہ ہوجاتیں۔ ایسے شخص کا تو نام بھی ذرائع ابلاغ میں نہیں آنا چاہیے مگر یہاں ملک کے بڑے اخبار میں ملک ریاض کو ہیرو بنا کر پیش کیا جارہا ہے۔ ایسا ہیرو جس نے کراچی میں دنیا کی تیسری بڑی مسجد تعمیر کی ہے۔ جس نے قابل طلبہ کو بیرون ملک PHD کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ کاروباری افراد کا کہنا ہے کہ ملک ریاض نے بحریہ ٹائون سے کئی ہزار ارب روپے کمائے ہیں۔ ان میں سے 460 ارب روپے اس نے جرمانے کے طور پر ادا کردیے۔ ڈیڑھ دو ارب روپے سے اس نے ایک مسجد بنا ڈالی۔ ہماری تاریخ کا اصول ہے کہ مسجد کبھی حرام پیسے سے تعمیر نہیں کی جاتی مگر ملک ریاض حرام کے سرمائے سے نہ صرف یہ کہ مسجد تعمیر کررہا ہے بلکہ ذرائع ابلاغ کا ایک حصہ اس حوالے سے ملک ریاض کو ایک ہیرو کے طور پر پیش کررہا ہے۔ جس شخص کا خود کوئی میرٹ نہیں وہ میرٹ پر طلبہ کو پی ایچ ڈی کرائے گا۔ جس شخص کو علم چھو کر نہیں گزرا وہ فروغ علم کے لیے کام کرے گا۔ واہ ملک ریاض واہ۔ واہ ملک ریاض کو ہیرو بناکر پیش کرنے والو واہ۔ ماضی میں ایک سلطانہ ڈاکو ہوا کرتا تھا اس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ امیروں کو لوٹتا ہے اور غریبوں میں بانٹتا ہے۔ ملک ریاض ایک جدید سلطانہ ڈاکو ہے وہ معاشرے اور ریاست کو لوٹتا ہے اور لوٹے ہوئے سرمائے سے کہیں مسجد بناتا ہے۔ کہیں غریبوں کو کھانا کھلاتا ہے، کہیں غریبوں کو مفت علاج کی سہولت فراہم کرتا ہے۔ کہیں نوجوانوں کو پی ایچ ڈی کراتا ہے۔ اس پر بعض صحافی اور اخبارات خود بھی تالیاں بجاتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ معاشرہ بھی تالیاں بجائے۔ تالیاں بجائے اور معاشرے کے بدترین دشمن کو معاشرے کا ہیرو تسلیم کرلے۔ واہ کیا صحافت ہے۔ کیا ملک و قوم کی خدمت ہے۔ سلیم احمد کا شعر ہے۔
مجھ کو قدروں کے بدلنے سے یہ ہوگا فائدہ
میرے جتنے عیب ہیں سارے ہنر ہو جائیں گے
ملک ریاض عیبوں کا ہمالہ ہے مگر اس کے سارے عیب ہنر بنانے کی سازش کی جارہی ہے۔
معاشرے میں ’’ہیروز‘‘ اہم ہوتے ہیں۔ جیسے جس معاشرے کے ہیروز ہوتے ہیں ویسا ہی وہ معاشرہ ہوتا ہے۔ ایک وقت تھا کہ ہمارے معاشرے کے ہیروز انبیا و مرسلین تھے۔ رسول اکرمؐ کے اصحاب تھے۔ امام غزالی، امام رازی، مجدد الف ثانی، شاہ ولی، مولانا مودودی، مولانا اشرف علی تھانوی، اعلیٰ حضرت، اقبال اور قائد اعظم جیسی شخصیات تھیں۔ یہ شخصیات جیسا معاشرہ تخلیق کرسکتی تھیں ان کا معاشرہ ٹھیک ویسا ہی تھا۔ اب ہمارے معاشرے کا ایک ہیرو نواز شریف ہے۔ اب ہمارے معاشرے کا ایک ہیرو بلاول زرداری ہے۔ اب ہمارے معاشرے کا ایک ہیرو الطاف حسین ہے۔ اب ہمارے معاشرے کا ایک ہیرو عمران خان ہے۔ اب ہمارا معاشرہ ٹھیک ویسا ہی ہے جیسا کہ اس کے ہیرو ہیں۔ ہمارے معاشرے کے ہیروز کی ایک اور سطح ہے۔ اس سطح پر ہمارے معاشرے کے ہیرو اداکار ہیں۔ گلوکار ہیں۔ ماڈل گرلز ہیں۔ کرکٹرز ہیں۔ ہماری نئی نسل خود کو ان ہیروز کی طرح بنانا چاہتی ہے۔ اداکاروں، گلوکاروں، ماڈل گرلز اور کرکٹرز میں جو ’’عظمت‘‘ ہے وہ سب کو معلوم ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہمارے معاشرے کی اکثریت نے انسانی عظمت پر تھوک دیا ہے اور زندگی کی بہت معمولی سطح کو ’’مثالی زندگی‘‘ کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے۔
معاشرہ ہمیشہ سرمائے کے لیے بھی کشش محسوس کرتا رہا ہے۔ سیدنا عثمانؓ اور عبدالرحمن بن عوف اپنے زمانے کے ارب پتی تھے مگر سیدنا عثمانؓ کا سرمائے سے یہ تعلق تھا کہ آپ غنی کہلاتے ہیں۔ عبدالرحمن بن عرف بھی اسلام اور مسلمانوں پر سرمایہ لٹاتے تھے مگر اس سرمائے کا ایک ایک درہم حلال اور مقدس تھا۔ رسول اکرمؐ نے ایماندار تاجروں کی بڑی تعریف فرمائی ہے۔ کہا ہے کہ ایماندار تاجر آخرت میں انبیا کے ساتھ ہوں گے مگر ملک ریاض کے سرمائے کا پورا ماڈل حرام پر کھڑا ہوا ہے۔ ان کا فلسفہ بہت سیدھا سادا ہے۔ کھربوں کی لوٹ مار کرو اور پھر چند ارب اچھے کاموں پر لگا کر اپنے جرم کو دھو ڈالو۔ یہ ماڈل معاشرے اور اس کی اقدار کے لیے زہر ہے۔
ملک ریاض معاشرے میں اس بات کی علامت نہیں ہے کہ آپ کو صنعت و تجارت اور کاروبار کے ذریعے مال کمانا ہے تو علم حاصل کرو، سخت محنت کرو، ایمانداری سے کام کرو۔ تم یہ سب کچھ کرو گے تو پانچ سات، دس بارہ یا پندرہ بیس سال میں کروڑ پتی بھی بن سکتے ہو۔ ارب پتی بھی اور کھرب پتی بھی۔ ملک ریاض کی ’’امارت‘‘ کا پورا ماڈل اس بات پر کھڑا ہے کہ جہاں ممکن ہو وہ دل کھول کر بے ایمانی کرو۔ رشوت دینی ہے دل کھول کر دو۔ زمین ہڑپ کرنی ہے پوری انتظامیہ بلکہ پوری حکومت کو خرید لو۔ ان سرگرمیوں سے کھربوں کمائو۔ جب کھربوں کما چکو تو پھر چند ارب روپے ’’فلاحی کاموں‘‘ پر بھی خرچ کردو۔ اس سے تمہارا خراب تاثر بھی درست ہوجائے گا اور معاشرے میں تمہاری واہ واہ بھی ہوجائے گی۔ ذرا سوچیے اگر ملک ریاض کے ماڈل سے ہمارے معاشرے کے دس بیس ذہین نوجوان بھی متاثر ہوگئے اور انہوں نے عملی زندگی میں ملک ریاض کے ہتھکنڈوں کو برت لیا تو ہمارے اخلاقی اعتبار سے تباہ حال معاشرے کا کیا ہوگا۔
ایک وقت تھا کہ صحافت کو پیغمبری شعبہ کہا جاتا تھا اس لیے کہ پیغمبری بھی حق کی بالادستی اور باطل کی بیخ کنی سے عبارت تھی اور صحافت کا کام بھی یہی سمجھا جاتا تھا۔ قائد اعظم نے خود کہا ہے کہ صحافت اور معاشرے کا عروج و زوال ایک ساتھ ہوتا ہے۔ مگر افسوس اب صحافت قومی مجرموں کو قومی ہیروز بنا کر پیش کررہی ہے۔ اس لیے صحافت معاشرے کی طاقت نہیں اس کی کمزوری بن گئی ہے۔