جاوید چودھری ہمارے ان لکھنے والوں میں سے ہیں جن کی تحریروں میں نہ ان کا مذہب بولتا ہے نہ ان کی تہذیب کلام کرتی ہے نہ ان کی تاریخ کی آواز سنائی دیتی ہے نہ ان کا ضمیر گفتگو کرتا ہے نہ ان کا علم کچھ فرماتا ہے۔ ان کے بے شمار کالم ایسے ہوتے ہیں جو کسی نہ کسی سنی گئی بات کا حاصل ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے وہ سنی گئی بات پر غور کیے بغیر اسے آگے بڑھا دیتے ہیں۔ ان کا ایک حالیہ کالم اس کی بہترین مثال ہے۔ اس کالم کے ’’مضمرات‘‘ ہولناک ہیں مگر کالم کے مضمرات پر گفتگو سے قبل ملاحظہ کیجیے کہ جاوید چودھری نے لکھا کیا ہے۔ دراصل ایک سفر کے دوران جاوید چودھری کی ملاقات ایک یہودی ربیّ ہارون سے ہوئی۔ یہودی نے جاوید چودھری سے کیا کہا جاوید چودھری کی زبانی سنیے۔ یہودی جاوید کو ’’ناوید‘‘ کہہ کر مخاطب کررہا ہے۔ جاوید چودھری نے لکھا۔
’’برادر ناوید انسان کو اس وقت ٹینشن ہوتی ہے جب وہ حال میں بیٹھ کر ماضی کو ٹھیک کرنے اور آج میں رہ کر آنے والے کل کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتا ہے، یہ کوشش جتنی تیز، جتنی زیادہ ہوتی جاتی ہے انسان کی اینگزائٹی اور ڈپریشن بھی اتنا ہی بڑھتا چلا جاتا ہے لہٰذا برادر ناوید آپ اگر ٹینشن سے بچنا چاہتے ہو تو پھر وقت کے ساتھ ساتھ چلو، اس سے ٹکرانے، اس سے لڑنے اور اس سے آگے نکلنے کی کوشش نہ کرو، تم خوش اور سکھی ہوجائو گے‘‘۔ ربیّ ہارون کی بات سیدھی دل میں اُتر گئی اور محسوس ہوا وقت کے ساتھ ساتھ چلنے والے لوگ ٹینشن، اینگزائٹی اور ڈپریشن سے بچے رہتے ہیں جب کہ اس سے لڑنے والے ہمیشہ پریشان رہتے ہیں چناں چہ انسان کو خود کو وقت کے حوالے کردینا چاہیے، قدرت کی اسکیم کا حصہ بن جانا چاہیے، یہ پر سکون ہوجائے گا، میں ربیّ ہارون سے ملنے کے بعد پچھلے سات برسوں سے دیکھ رہا ہوں لمحہ موجود میں زندگی گزارنے والے لوگ مطمئن اور پرسکون رہتے ہیں، میں روز دیکھتا ہوں، آپ بھی اردگرد دیکھیے، شاید آپ کو بھی ایسے لوگ مل جائیں‘‘۔
(روزنامہ ایکسپریس 5 جولائی 2020ء)
دنیا میں انبیا و مرسلین اور مجددین کی سنت ہی کفر و شرک اور غیر اسلام سے لبریز ’’حاضر و موجود‘‘ کو چیلنج کرنا ہے مگر جاوید چودھری انبیا اور مرسلین اور مجددین کی سنت کے برعکس اپنے قارئین کو یہ پٹی پڑھا رہے ہیں کہ آپ کو جیسا ماحول اور جیسی دنیا ملی ہے اسے ویسا ہی قبول کرلو۔ دنیا میں کفر غالب ہے تو کفر کے مطابق زندگی بسر کرو ایسا نہیں کرو گے تو Anxiety (اضطراب) اور depression (یاسیت) کا شکار ہوجائو گے۔ دنیا میں شرک غالب ہو تو شرک سے خود کو ہم آہنگ کرو۔ شرک کے آگے سر جھکادو۔ شرک سے لڑنے کی کوشش نہ کرو۔ شرک سے لڑو گے تو اضطراب اور یاسیت پیدا ہوگی اور کون نہیں جانتا کہ نفسیات کی اصطلاحوں میں یہ دونوں چیزیں نفسیاتی عوارض کی حیثیت رکھتی ہیں۔
سیدنا ابراہیمؑ کے پاس نہ کوئی ریاست تھی نہ فوج تھی۔ یہاں تک کہ ان کے ساتھ کوئی جماعت بھی نہ تھی، وہ تنہا تھے مگر انہیں حکم ہوا کہ جائو اور نمرود کے باطل کو چیلنج کرو اور اسے حق کی طرف بلائو۔ نمرود کا باطل کوئی خیالی پلائو نہیں تھا وہ وقت کا حاضر و موجود تھا اور سیدنا ابراہیمؑ نے تن تنہا نمرود کے حاضر و موجود کو چیلنج کیا۔ سیدنا موسیٰؑ کے پاس بھی نہ کوئی ریاست تھی، نہ فوج تھی، نہ کوئی ایسی جماعت تھی جو ان کی طرف سے فرعون کے خلاف صف آرا ہوسکتی، مگر انہیں اور ان کے بھائی سیدنا ہارونؑ کو حکم دیا گیا کہ جائو فرعون کے حاضر و موجود کو چیلنج کرو اور سیدنا موسیٰؑ اور سیدنا ہارونؑ نے ایسا ہی کیا۔ رسول اکرمؐ کی 13 سالہ مکی زندگی میں رسول اکرمؐ کے پاس بھی نہ کوئی ریاست تھی نہ فوج تھی مگر آپؐ کو حکم ہوا کہ مکے کے حاضر و موجود کو چیلنج کریں اور رسول اکرمؐ نے ایسا ہی کیا۔ ہمیں یقین ہے کہ جاوید چودھری اگر سیدنا ابراہیمؑ کے زمانے میں ہوتے تو نمرود کے حاضر و موجود کے ساتھ اور اس سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہوتے۔ جاوید چودھری سیدنا موسیٰؑ کے عہد میں ہوتے تو وہ فرعون کے حاضر و موجود کے ساتھ ہوتے اور بلکہ اس کے آگے سجدہ ریز ہوتے۔ وہ سیدنا موسیٰؑ کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہ دیکھتے۔ جاوید چودھری رسول اکرمؐ کے زمانے میں ہوتے تو وہ ابوجہل اور ابولہب کے حاضر و موجود کو پوج رہے ہوتے اور رسول اکرمؐ سے کوئی تعلق استوار نہ کرتے۔ یا اللہ ہر مسلمان کو ایسی بدبختی سے بچا اور کسی کو بھی جاوید چودھری نہ بنا۔
انبیا کی سنت کی پیروی کرتے ہوئے مسلم دنیا کے تمام بڑے مجددین نے اپنے زمانے کے حاضر و موجود کو چیلنج کیا۔ مجدد الف ثانی ایک فرد تھے۔ ان کے پاس کوئی ریاست اور فوج نہ تھی مگر انہوں نے جہانگیر کو چیلنج کیا۔ انہوں نے جہانگیر سے کہا کہ تمہارے دربار میں سجدئہ تعظیمی کیا جاتا ہے جو خلاف اسلام ہے۔ تم نے ہندوئوں کو خوش کرنے کے لیے گائے کے ذبیحے پر پابندی لگا رکھی ہے۔ یہ بھی خلاف اسلام ہے۔ اقبال مذہبی معنوں میں مجدد نہیں تھے مگر ان کی پوری شاعری تجدیدی روح کی حامل ہے۔ حیرت ہے کہ جاوید چودھری کی نظر سے کبھی اقبال کی یہ نظم نہیں گزری۔
تونے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے
حق تجھے میری طرح صاحب اسرار کرے
ہے وہی تیرے زمانے کا امامِ برحق
جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے
دے کہ احساس زیاں تیرا لہو گرما دے
فقر کی سان چڑھا کر تجھے تلوار کرے
موت کے آئینے میں تجھ کو دکھا کر رخِ دوست
زندگی تیرے لیے اور بھی دشوار کرے
فتنۂ ملت بیضہ ہے، امامت اُس کی
جو مسلماں کو سلاطیں کا پرستار کرے
جاوید چودھری اور ان کے رہنما ’’ربیّ ہارون‘‘ نے جو کچھ فرمایا ہے اقبال اپنی معرکہ آرا نظم میں ٹھیک اس کے خلاف بات کررہے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ امامِ زمانہ وہی ہے جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے۔
ہمیں یقین ہے کہ اگر جاوید چودھری انگریزوں کی غلامی کے عہد میں ہوتے تو وہ مسلمانوں سے کہتے کہ قائد اعظم نے پاکستان کا مطالبہ کرکے حاضر و موجود کو چیلنج کردیا ہے۔ انہوں نے اپنے زمانے سے ٹکر لے لی ہے۔ اس سے خود قائد اعظم اور مسلمانوں میں ’’Anxiety‘‘ اور ’’Depression‘‘ پیدا ہوگا اس لیے قائد اعظم اور مطالبہ پاکستان سے لاتعلق ہوجائو۔ برطانیہ وقت کی واحد سپر پاور ہے۔ اس سے چمٹ جائو۔ اس کی غلامی پر فخر کرو۔ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ سرسید تمہیں غلامی پر فخر کرنا سکھا کر جاچکے۔ ان سے کچھ سیکھو۔ غلام بنو، غلام یہی ’’انسان‘‘ بننے کا اصل طریقہ ہے۔ ذرا برطانیہ کے حاضر و موجود کو تو دیکھو اس کی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا۔ اس حاضر و موجود کو سجدہ کرو۔
ہر زمانے کی تاریخ بالخصوص 20 ویں اور 21 ویں صدی کی تاریخ بتاتی ہے کہ باطل کے حاضر و موجود کی مزاحمت سے زیادہ سعادت اور بابرکت بات اور کوئی نہیں۔ سوویت یونین افغانستان پر قابض ہوا اور اس کے خلاف جہاد کا آغاز ہوا تو جامعہ کراچی میں ہمارے کمیونسٹ دوست ہنستے ہوئے کہا کرتے تھے۔ سوویت یونین وقت کی دو سپر پاورز میں سے ایک ہے۔ اس کے خلاف ان مجاہدین کا جہاد کیسے کامیاب ہوگا جن کے پاس 19 ویں صدی کے ہتھیار ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے باطل کے حاضر و موجود کے خلاف مزاحمت کرنے والوں کے کام میں برکت ڈال دی۔ مٹھی بھر مجاہدین نے افغانستان میں سوویت یونین کو ہرا دیا۔ نائن الیون کے بعد امریکا افغانستان میں آیا تو کہنے والوں نے کہا اب افغانستان میں وہی ہوگا جو امریکا چاہے گا مگر امریکا اور ناٹو کے حاضر موجود کے خلاف برسرپیکار مجاہدین نے کہا امریکا کے پاس گھڑی ہے ہمارے پاس وقت ہے۔ وقت ہمیشہ اس کے پاس ہوتا ہے جس کے پاس حق اور باطل کے حاضر و موجود کے خلاف مزاحمت کا جذبہ ہوتا ہے۔ چناں چہ بالآخر افغانستان میں امریکا کو شکست ہوگئی کہ اور وہ طالبان سے مذاکرات کی بھیک مانگتا ہوا پایا گیا اور طالبان نے امریکا کو مذاکرات کی بھیک دی۔ کیا جاوید چودھری کو معلوم ہے کہ افغانستان میں امریکا کی شکست کا مفہوم کیا ہے؟ اس کا مفہوم یہ ہے کہ اصل چیز اللہ اور اس کا قانون ہے۔ امریکا کی کوئی اوقات اور بساط نہیں۔ جو اللہ اور اس کے قانون کے ساتھ ہوگا فتح یاب وہی ہوگا اور فتح یاب نہ بھی ہو تو باطل کی مزاحمت بجائے خود ایک سعادت ہے۔ ایسی سعادت جس کا صلہ جنت اور اللہ کی رضا ہے۔ مگر جاوید چودھری کو مزاحمت، سعادت، جنت اور اللہ کی رضا جیسے تصورات سے کیا لینا دینا ان کا مذہب تو حاضر و موجود کی پرستش ہے۔
جاوید چودھری کے ’’فلسفۂ حیات‘‘ کو دیکھا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ اگر کوئی طاقت ور شخص چاہے تو طاقت کے ذریعے جاوید چودھری کے گھر پر قبضہ کرکے انہیں اور ان کے اہل خانہ کو گھر سے نکال سکتا ہے۔ یہ جاوید چودھری کی اصطلاح میں ان کا ’’وقت‘‘ ہوگا اور وہ خود کو پوری طرح ’’وقت‘‘ کے حوالے کردیں گے۔ بلکہ وہ اپنے بیوی بچوں سے کہیں گے کہ ہمیں گھر پر قبضہ کرنے والوں کے خلاف کوئی ایف آئی آر نہیں کٹوانی چاہیے کیوں کہ ’’قدرت کی اسکیم‘‘ یہی دکھائی دے رہی ہے کہ کوئی ہمارے گھر پر قبضہ کرلے۔ مشاہدہ تجربہ اور علم بتاتا ہے کہ انسان سرطان جیسے موذی مرض میں بھی مبتلا ہوجاتا ہے تو وہ بیماری کے آگے ہتھیار نہیں ڈالتا۔ وہ اسے اپنا ’’حاضر و موجود‘‘ نہیں بناتا۔ وہ اسے اپنا ’’وقت‘‘ قرار نہیں دیتا۔ وہ سرطان سے لڑتا ہے۔ سرطان آخری اسٹیج پر بھی ہو تو وہ ہار نہیں مانتا وہ اپنے حال اور مستقبل کو بدلنے کے لیے سرطان کی شدید مزاحمت کرتا ہے۔ البتہ ہمیں یقین ہے کہ خدانخواستہ جاوید چودھری کو سرطان ہوگیا تو وہ کہہ دیں گے یہ تو ’’میرا وقت‘‘ ہے۔ یہ تو ’’خدائی اسکیم‘‘ کا حصہ ہے۔ یہ تو میرا حاضر و موجود ہے۔ چناں چہ میں سرطان کا علاج نہیں کروں گا۔
جاوید چوھدری نے اپنے کالم میں Anxiety اور Depression کا ذکر بڑے زور و شور سے کیا ہے انہیں اتنی سی بات معلوم نہیں کہ ان بیماریوں کا ایمان اور انسانی تعلقات کی کمزوری سے بہت گہرا تعلق ہے۔ ایمان اور انسانی تعلقات مضبوط ہوں تو Anxiety اور Depression کسی کو چھو نہیں سکتے۔ دوسری بات کہنے کی یہاں یہ ہے کہ پوری مغربی دنیا حاضر و موجود کی دیوانی بنی ہوئی ہے۔ مگر سب سے زیادہ Anxiety اور سب سے زیادہ Depression اہل مغرب ہی کو لاحق ہے۔ حالاں کہ وہ اپنے حاضر و موجود کو بدلنے کی معمولی سے خواہش بھی نہیں رکھتے۔