جاوید احمد غامدی کے شاگرد خورشید ندیم میں ایک برائی یہ بھی ہے کہ وہ مذہب کی حقیقی تعبیر کو افسانہ اور مذہب کی افسانوی تعبیر کو حقیقت باور کرانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ ترکی میں رجب طیب اردوان نے آیا صوفیہ کو مسجد میں ڈھالا تو خورشید ندیم افسانے کو حقیقت اور حقیقت کو افسانہ باور کرانے کے لیے متحرک ہوگئے۔ ویسے تو اس سلسلے میں ان کا پورا کالم ہی قابل اعتراض ہے مگر چوں کہ پورے کالم کا حوالہ دینا ناممکن ہے اس لیے ان کے کالم کے چند حصے قارئین کے لیے پیش کیے جارہے ہیں۔ خورشید ندیم لکھتے ہیں۔
’’ہم بھی جیسے ہی مذہب کی دنیا میں قدم رکھتے ہیں، یہ بھول جاتے ہیں کہ نہ تو ہم کسی دارالاسلام کے شہری ہیں اور نہ دوسری طرف کوئی دارالحرب ہے۔ ہم قومی ریاستوں کے دور میں زندہ ہیں اور اب دنیا کا نقشہ تبدیل ہو چکا۔ یہ استنبول ہو یا بغداد، ہمارے لیے واشنگٹن اور لندن کی طرح ہیں۔ ہر جگہ جانے کے لیے ہمیں ویزا چاہیے۔ یہاں تک کہ ہم مکہ مکرمہ بھی وہاں کے حکمرانوں کی اجازت کے بغیر داخل نہیں ہو سکتے جہاں داخلے پر پابندی کا حق کسی کو دینی طور پر حاصل نہیں ہے۔
میرا احساس ہے کہ جیسے ہی اس ذہنی کیفیت سے نکل کر سوچیں گے، ہم معاملے کو بہتر طور پر سمجھ پائیں گے۔ آج ہم قومی ریاستوں اور کثیرالمذاہب معاشروںکے باسی ہیں۔ اب دنیا کے ممالک مذہبی بنیادوں پر قائم نہیں ہیں۔ آج شہریت کی اساس مذہب نہیں ہے۔ ہر ملک میں شہریت کے حصول کا ایک قانون ہے، جو اس پر پورا اُترتا ہے، اس ملک کا شہری بن سکتا ہے۔ اسی اصول پر یہودی، مسیحی، مسلمان اور ہندو، امریکا یا برطانیہ کے شہری بنتے ہیں۔ اب کوئی دار الاسلام ہے نہ دارالحرب۔ یہ دُنیا کی نئی تجسیم ہے اور اس کے چلانے کے ضوابط بھی نئے ہیں۔
اردوان اصلاً اسلام کی سیاسی تعبیر کے قائل ہیں۔ ان کے نزدیک اسلام ایک عصبیت اور دیگر مذاہب سے برسرِ پیکار ایک سیاسی قوت ہے۔ وہ دنیا کو مسلم اور غیر مسلم کی بنیاد پر منقسم دیکھ رہے ہیں۔ اب ارطغرل اور محمد فاتح کو مسلم دنیا کے نئے ہیروز کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ مسلمانوں کو باور کرایا جا رہا ہے کہ یہی مردِ جری ان مجاہدوں کا جانشین ہے جنہوں نے ’دیں اذانیں کبھی یورپ کے کلیسائوں میں‘۔ اس تعبیر نے بین المذاہب تعلقات کی نوعیت کو جوہری طور پر بدل دیا ہے۔ اب اسلام اور غیر مسلموں کے مابین تعلق کی اساس مخاصمت ہے۔ یہ دو متحارب گروہ ہیں۔ کہیں مسلمانوں کا مقابلہ ہندوئوں سے ہے، کہیں مسیحیوں سے اور کہیں یہودیوں سے۔ یہ ذہن ابھی تک انسانوں کو دو گروہوں میں منقسم دیکھ رہا ہے اور زمین کو دو خطوں دارالاسلام اور دار الحرب میں۔ یہ اسلام آباد کا مندر ہو یا استنبول کا کلیسا، دونوں کے بارے میں اسی بنیاد پر فیصلہ دیا جا رہا ہے۔ دوسری طرف موجود اسلاموفوبیا نے اس تعبیر کو کمک فراہم کی ہے۔
(روزنامہ دنیا۔ 13 جولائی 2020ء)
دنیا کو اسلام اور غیر اسلام کی بنیاد پر اقبال، مولانا مودودی یا رجب طیب اردوان نے تخلیق نہیں کیا یہ تقسیم خود اسلام کی پیدا کردہ ہے۔ اسلام کی ایک اصطلاح ایمان ہے۔ ایک کفر ہے۔ ایک نفاق ہے۔ اس بنیاد پر ایمان والے اہل ایمان کہلاتے ہیں۔ کفر کرنے والے کافر کہلاتے ہیں۔ شرک کرنے والے مشرک کہلاتے ہیں اور نفاق میں مبتلا لوگ منافق گردانے جاتے ہیں۔ یہ کوئی ایسی تقسیم نہیں جو رسول اکرمؐ یا خلافت راشدہ کے زمانے کے لیے ہو یہ ایک دائمی تقسیم ہے۔ اس کا اطلاق ہر معاشرے اور ہر زمانے پر ہوگا اس لیے کہ اسلام ایک دائمی حقیقت ہے۔ رسول اکرمؐ نے اسلام کا اعلان کیا تو گھر تقسیم ہوگئے، معاشرہ تقسیم ہوگیا، قبائل تقسیم ہوگئے، دنیا تقسیم ہوگئی۔ کفار اور مشرکین رسول اکرمؐ کے بارے میں جو بری باتیں کہتے تھے ان میں سے ایک بری بات یہ تھی کہ آپؐ تقسیم کرنے والے ہیں۔ آپؐ ’’Divider‘‘ ہیں۔ آپؐ نے بیٹے کو باپ کے مقابل لاکھڑا کیا۔ آپ نے شوہر اور بیوی کے درمیان ایمان اور غیر ایمان کی بنیاد پر جدائی پیدا کردی۔ آپؐ کے پیغام نے بھائی کو بھائی کا حریف بنادیا۔ بلاشبہ رسول اکرمؐ ہمارے درمیان موجود نہیں مگر آپؐ کا پیغام قرآن و سنت اور قرآن و حدیث کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہے۔ یہ پیغام انسانوں اور دنیا کو ایمان اور کفر، ایمان اور شرک، داراسلام اور دارالعرب کے تناظر میں دیکھتا ہے اور رہتی دنیا تک دیکھتا رہے گا۔ چناں چہ خورشید ندیم اتنی بڑی حقیقت کو افسانہ بنانے کی سازش نہ کریں۔ یہ مولانا مودودی، اقبال یا رجب طیب اردوان کے خلاف نہیں اللہ، اس کے رسول اور قرآن و سنت کے خلاف سازش ہے۔ خورشید ندیم کی چالاکی نما جہالت یا جہالت نما چالاکی دیکھیے فرمارہے ہیں کہ مذہب کی اس تعبیر نے بین المذاہب تعلق کی نوعیت کو بدل ڈالا ہے۔ اسلام اور مسلمانوں پر اس سے بڑا بہتان کوئی ہو نہیں سکتا۔ مسلم اسپین کی تاریخ گواہ ہے کہ مسلم اسپین میں عیسائیوں اور یہودیوں نے وہ ترقی کی جو وہ اپنے معاشروں میں بھی نہ کرسکے۔ برصغیر پر مسلمانوں نے ایک ہزار سال حکومت کی اور کبھی ہندو ازم میں مداخلت نہ کی۔ اس وقت بھی اکثر مسلم ملکوں میں غیر مسلم اقلیتیں پرسکون زندگی بسر کررہی ہیں۔ ان کا مذہب خطرے میں ہے نہ اس کی عبادت گاہوں کو کوئی خطرہ لاحق ہے۔ کوئی ان کے پرسنل لا میں مداخلت کررہا ہے نہ کوئی ان کا معاشی قتل عام کررہا ہے۔ قرآن نے اہل کتاب سے صاف کہا ہے کہ آئو ان امور پر متفق ہوجائیں جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہیں۔ مثلاً خدا، رسالت، آسمانی کتاب، آخرت معروضی اخلاق یعنی Objective Morality۔ مگر نہ کوئی عیسائی مسلمانوں کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے نہ کوئی ہندو مسلمانوں کا ہم نوا بنتا ہے۔ کوئی یہودی مسلمانوں کو اپنا کہتا ہے نہ کوئی بدھسٹ مسلمانوں کا ہاتھ تھامتا ہے۔ مسلمانوں نے کسی مذہب کے ماننے والوں پر ظلم نہیں کیا البتہ مسلمانوں پر عیسائیوں، یہودیوں، ہندوئوں اور بدھسٹوں نے ظلم کی انتہا کردی ہے۔ یہی ظلم اصل میں بین المذاہب تعلق یا تعلقات کو تباہ کرنے والا ہے۔ کتنی عجیب بات ہے خورشید ندیم کو اسلام اور مسلمانوں پر مغرب کا وہ ظلم تو نظر نہیں آرہا جو وہ ایک ہزار سال سے کررہا ہے اور جو ظلم اسلام اور مسلمانوں نے مغرب یا اہل کتاب پر کیا ہی نہیں وہ خورشید ندیم کو پوری طرح دکھائی دے رہا ہے۔ ہم خورشید ندیم سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ صلیبی جنگیں مسلمانوں نے شروع کیں یا عیسائیوں نے؟ دو سو سال تک جاری رہنے والی صلیبی جنگوں سے جو نفسیات پیدا ہوئی وہ مسلمانوں کی تخلیق ہے یا مغرب کی؟ ہم خورشید ندیم سے سوال کرتے ہیں کہ مسلمانوں پر دو سو سال کا نوآبادیاتی تجربہ کس نے مسلط کیا۔ اہل کتاب نے یا دنیا کو اسلام اور کفر کے تناظر میں دیکھنے والے مسلمانوں نے؟ خورشید ندیم سے عرض ہے۔
اتنی نہ بڑھا پاکیٔ داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ
غامدی صاحب کے بارے میں تو ہمیں یقین ہے کہ وہ امریکی سی آئی اے کے لیے کام کرتے ہیں۔ کیا خورشید ندیم نے بھی یہ پیشہ اختیار کرلیا ہے؟
خورشید ندیم کی اس بات پر ہم ہنس ہنس کے لوٹ پوٹ ہوگئے کہ ہم اب قومی ریاستوں کے عہد میں زندہ ہیں اور اب دنیا کے ممالک مذہبی تشخص سے کوئی تعلق نہیں۔ خورشید ندیم کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ نائن الیون کے بعد جارج بش نے امریکی قوم سے خطاب کیا تو اپنے خطاب میں ’’کروسیڈ‘‘ یا صلیبی جنگ کی اصطلاح استعمال کی۔ اس پر اعتراض ہوا تو کہہ دیا گیا کہ جارج بش کی زبان پھسل گئی۔ مغرب کے ممتاز ماہر نفسیات سگمنڈ فرائیڈ نے اتفاق سے زبان پھسلنے کے موضوع پر ایک پورا مضمون لکھا ہوا ہے۔ اس مضمون میں فرائیڈ نے ثابت کیا ہے کہ زبان پھسلنے کا عمل ’’اتفاقی‘‘ نہیں ہوتا بلکہ اس کا بھی ایک نفسیاتی اور جذباتی پس منظر ہوتا ہے۔ لیکن بات کروسیڈ تک محدود کہاں رہی۔ نائن الیون کے فوراً بعد اٹلی کے وزیراعظم سلویو برلسکونی نے اخباری نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ مغربی تہذیب اسلامی تہذیب سے برتر ہے اور اس نے جس طرح کمیونزم کو شکست دی ہے اسی طرح وہ اسلامی تہذیب کو بھی شکست دے گی۔ خورشید ندیم سے سوال ہے کہ کیا قومی ریاستوں کے سربراہ ایسی اصطلاحوں میں کلام کرتے ہیں؟ مغرب تو کہہ رہا تھا کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کرنے نکلا ہے مگر جارج بش اور سلویو برلسکونی کے بیانات سے ظاہر تھا کہ قومی ریاستوں کے لیے مذہبی اصطلاحیں اور مذہبی لب و لہجہ بڑا اہم ہے۔ سلویو برلسکونی کے بعد تو حد ہی ہوگئی۔ جارج بش کے اٹارنی جنرل ایش کرافٹ نے واشنگٹن ڈی سی میں ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صاف کہا کہ عیسائیت کا خدا اسلام کے خدا سے برتر ہے۔ اس لیے کہ اسلام کا خدا ایسا خدا ہے جو اپنے مانے والوں سے جہاد میں جان کی قربانی طلب کرتا ہے۔ اس کے برعکس عیسائیت کا خدا ایسا خدا ہے جس نے انسانیت کی نجات کے لیے (معاذ اللہ) اپنے بیٹے سیدنا عیسیٰؑ کی قربانی دے دی۔ مغرب کہہ رہا تھا کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کرنے نکلا ہے۔ خورشید ندیم فرماتے ہیں کہ ہم قومی ریاستوں کے عہد میں زندہ ہیں اور ان ریاستوں کا کوئی مذہبی تشخص ہی نہیں ہے اور جارج بش کا اٹارنی جنرل 21 ویں صدی میں کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اسلامی تہذیب اور عیسائی تہذیب کے تصورِ خدا کا موازنہ کررہا تھا۔ اس سے مغرب اور خود خورشید ندیم کا اصل باطن پوری طرح عیاں ہے۔ لیکن نائن الیون کے بعد ایک اس سے بھی بڑا واقعہ ہوا۔ بی بی سی ورلڈ کے ایک پروگرام میں یورپ میں ناٹو کے سابق کمانڈر جنرل کلارک کا ایک انٹرویو نشر ہوا۔ مغرب کہہ رہا تھا کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے نکلا ہے۔ خورشید ندیم فرماتے ہیں کہ ہم قومی ریاستوں کے دور میں سانس لے رہے ہیں اور ان ریاستوں کا کوئی مذہبی تشخص یا مذہبی حوالہ نہیں ہوتا مگر جنرل کلارک نے اپنے انٹرویو میں کھل کر کہا کہ ہماری جنگ اسلام کی تعبیر متعین کرنے کی جنگ ہے۔ انہوں نے کہا طے یہ کرنا ہے کہ اسلام ایک پرامن مذہب ہے جیسا کہ مسلمان کہتے ہیں یا اسلام اپنے ماننے والوں کو اسامہ بن لادن کی طرح تشدد پر اکساتا ہے۔ اس بیان سے بھی مغرب کا مذہبی باطن عیاں ہے اور خورشید ندیم کا باطن بھی پوری طرح آشکار ہے۔
ساری دنیا جانتی ہے کہ ترکی 50 سال سے یورپی یونین کا رکن بننے کے لیے کوشاں ہے مگر یورپی یونین نے اسے ابھی تک یورپی یونین کا حصہ نہیں بنایا۔ یورپی یونین نے پہلے ترکی سے کہا کہ ہم تمہیں یورپی یونین کا حصہ تو بنا لیں مگر تم جمہوری نہیں ہو، ترکی جمہوری ہوگیا۔ پھر یورپی یونین نے ترکی سے کہا کہ تمہارے یہاں آزادی اظہار موجود نہیں۔ ترکی نے آزادی اظہار کی فراوانی کردی۔ پھر کہا گیا کہ تمہارے بعض قوانین سخت ہیں۔ ترکی نے قوانین نرم کردیے۔ اس دوران کراچی میں ہماری ملاقات ایک جرمن افسانہ نگار سے ہوئی۔ وہ کوئٹے انسٹی ٹیوٹ کے ایک ادبی اجلاس میں شریک تھے۔ وہاں انہیں کراچی کے کئی شاعروں ادیبوں نے گھیر لیا۔ انہوں نے پوچھا کہ آپ ترکی کو یورپی یونین کا حصہ کیوں نہیں بناتے۔ وہ کافی دیر تک بات کو ٹالتے رہے بالآخر تنگ آکر انہوں نے کہا بات یہ ہے کہ یورپی یونین ایک ’’کرسچن کلب‘‘ ہے اور ترکی ایک مسلمان ملک۔
ہم نے عرض کیا کہ اب آپ نے اصل بات کہی ہے۔ تو یہ ہیں خورشید ندیم کی وہ قومی ریاستیں جن کا کوئی مذہبی تشخص نہیں ہوتا۔
بلاشبہ مسلمانوں میں درجنوں ہی خرابیاں ہیں۔ مگر مسلمانوں میں جو خرابی کبھی بھی موجود نہیں تھی اور نہ آج موجود ہے وہ یہ ہے کہ وہ مذہبی بنیادوں پر غیر مسلموں کے ساتھ بُرا سلوک نہیں کرتے۔ وہ ہمیشہ غیر مسلموں سے مکالمہ چاہتے ہیں، اس کی ایک بہت بڑی مثال ڈاکٹر ذاکر نائیک ہیں۔ وہ جب تک ہندوستان میں رہے بین المذاہب مکالموں کی راہ ہموار کرتے اور اسلام کی حقانیت آشکار کرتے رہے مگر بالآخر ہندوستان نے انہیں اُگل دیا یہاں تک کہ برطانیہ جیسے سیکولر ملک نے بھی ان کے برطانیہ میں داخلے پر پابندی لگادی۔ کیا خورشید ندیم کی قومی ریاستیں ایسی ہوتی ہیں؟۔