پاکستان کے سیکولر اور لبرل کالم نگاروں کے اکثر کالموں میں ایک گہری تشویش موجود ہوتی ہے۔ اس تشویش کو شعر میں بیان کرنا ہو تو اس سے بہتر شعر ممکن ہی نہیں۔
کریں گے کیا جو جہالت میں ہوگئے ناکام
ہمیں تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا
زبیدہ مصطفی پاکستان کی اہم سیکولر کالم نگار ہیں ان کا ایک حالیہ کالم پڑھ کر ہمیں مذکورہ بالا شعر بہت شدت سے یاد آیا۔ بدقسمتی سے زبیدہ مصطفی کا پورا کالم اس بات کی شہادت ہے کہ زبیدہ مصطفی اپنے پسندیدہ مضمون جہالت میں بھی بُری طرح ناکام ہوگئی ہیں۔
زبیدہ مصطفی نے اپنے کالم میں روزنامہ ڈان کے کالم نگار آنجہانی ایم ایچ عسکری کا 1920ء کا ایک واقعہ سنایا ہے۔ ایم ایچ عسکری کے بقول وہ دہلی کے اینگلو عربک اسکول میں داخل ہوئے تو اسکول کے پرنسپل نے ان سے پوچھا تم سنّی دینیات پڑھو گے یا شیعہ دینیات۔ ایم ایچ عسکری کے بقول انہوں نے گھر آکر یہ سوال اپنے والد سے کیا تو انہوں نے فرمایا کہ میرا بیٹا اسکول میں کوئی دینیات نہیں پڑھے گا۔ اس سے زبیدہ مصطفی نے یہ نتیجہ نکالا کہ ماضی میں دینیات ایک ’’ذاتی معاملے‘‘ کے سوا کچھ نہ تھی۔ آپ کا دل چاہے تو پڑھیں نہ چاہیں تو نہ پڑھیں۔ (ڈان کراچی: 17 جولائی 2020)
جیسا کہ ظاہر ہے ایم ایچ عسکری بھی زبیدہ مصطفی کی طرح سیکولر تھے۔ ان کی شخصیت کس طرح کی تھی اس کا اندازہ ایم ایچ عسکری سے متعلق واقعے سے بخوبی کیا جاسکتا ہے۔ آج سے پندرہ بیس سال پہلے کی بات ہے۔ ہمارے دوست طیب زیدی نے ہمیں فون کیا اور انکشاف کیا کہ اردو کی ممتاز ناول نگار قرۃ العین حیدر رشتے میں ان کی نانی ہیں۔ دوسرا انکشاف انہوں نے یہ کیا کہ وہ قرۃ العین حیدر سے ہماری ملاقات کرواسکتے ہیں۔ ہم طیب زیدی کے ساتھ قرۃ العین حیدر سے ملنے پہنچے اور ڈیڑھ دو گھنٹے تک ان کا انٹرویو کرتے رہے۔ انٹرویو کے اختتام پر ایم ایچ عسکری صاحب بھی قرۃ العین حیدر سے ملنے آپہنچے۔ آتے ہی کہنے لگے کہ عینی آپا آپ کو تو معلوم ہے قائد اعظم نے پاکستان اسلام کے لیے نہیں بنایا تھا مگر افسوس ہماری نوجوان نسل میں مذہب بہت پھیل گیا ہے۔ یہ کہہ کر انہوں نے ہمارے دوست طیب زیدی کی طرف اشارہ کیا۔ طیب کے اس وقت بھی ڈاڑھی تھی۔ ہم تجسس سے قرۃ العین حیدر کی طرف دیکھنے لگے کہ دیکھیں وہ اس سوال کے جواب میں کیا کہتی ہیں۔ قرۃ العین نے چند لمحے توقف کیا پھر کہنے لگیں عسکری بھائی جناح صاحب نے پاکستان تو خیر اسلام کے نام پر ہی بنایا تھا۔ چناں چہ یہ کہنا کہ پاکستان اسلام کے نام پر نہیں بنا تھا جناح صاحب پر بہتان باندھنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ جناح صاحب نے پاکستان اسلام کے نام پر نہیں بنایا تھا تو وہ دراصل یہ کہتا ہے کہ جناح نے پاکستان بنانے کے لیے نام تو اسلام کا استعمال کیا مگر دراصل وہ پاکستان کو سیکولر ریاست بنانا چاہتے تھے۔ قرۃ العین حیدر کے اس جواب سے ایم ایچ عسکری کا منہ بھیگے ہوئے تولیے کی طرح ہوگیا اور انہوں نے قرۃ العین حیدر کے بیان کی تردید کرنے کی جرأت نہیں کی۔ خیر اس سے معلوم ہوگیا کہ جو شخص دینیات نہیں پڑھتا اس کا کردار کیسا ہوجاتا ہے۔
یہاں کہنے کی دوسری بات یہ ہے کہ دینیات اینگلو عربک اسکول یا کالج کے نصاب کا حصہ تھی اور کوئی طالب علم یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ نصاب کا ایک حصہ ہرگز نہیں پڑھے گا۔ دوسری بات یہ کہ مسلمانوں کی پوری تاریخ میں مذہب کبھی بھی فرد کا ذاتی مسئلہ نہیں رہا۔ یہ عیسائیت کی تاریخ کا مسئلہ ہے اور پاکستان کے سیکولر اور لبرل دانش ور اور کالم نگار چاہتے ہیں کہ مسلم دنیا میں عیسائیت کی تاریخ کے تجربے کو دہرایا جائے۔ خدا کا شکر ہے کہ مسلمانوں کی تاریخ میں نہ کوئی مارٹن لوتھر تھا نہ ہے اور نہ اس کے سامنے آنے کا کوئی امکان ہے۔ چناں چہ کوئی کمزور سے کمزور مسلمان بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ اپنے بچوں کو دین نہیں سکھائے گا۔ البتہ سیکولر اور لبرل شیاطین کی بات اور ہے۔ 1920ء کا زمانہ مسلمانوں میں مذہب کی تعلیم کا زمانہ تھا۔ شاہ ولی اللہ اور ان کے خانوادے کی کوششوں سے برصغیر کے مسلمانوں میں قرآن و حدیث کی تعلیم کا شوق عام ہوچکا تھا۔ چناں چہ اس زمانے میں کوئی ’’نارمل مسلمان‘‘ دینیات سے بیزاری کا اظہار کر ہی نہیں سکتا تھا۔ یہاں اس امر کی نشاندہی بھی ضروری ہے کہ اگر بالفرض ایک شخص اپنے بیٹے کو دینیات پڑھانے پر آمادہ نہ ہو تو اس کا ’’ذاتی فعل‘‘ ہوگا۔ چناں چہ اس فعل کا ذکر اس طرح نہیں کیا جاسکتا جیسے کہ یہ اس زمانے کا عام رجحان ہو۔
زبیدہ مصطفی نے لکھا ہے کہ 1970ء تک آتے آتے مذہبیات پاکستان کے تعلیمی نظام کا حصہ بن چکی تھیں۔ ان کے بقول مذہبیات کی تعلیم میں ایک بھارت دشمن جذبہ موجود تھا۔ چناں چہ انہوں نے اپنی بیٹیوں کو اس منفیت سے بچانے کے لیے بڑی محنت کی اور بقول ان کے انہوں نے اپنی بیٹیوں کو تصویر کا ’’دوسرا رُخ‘‘ دکھایا۔ ہم زبیدہ مصطفی کے کالم کا یہ حصہ پڑھ کر حیران رہ گئے۔ اس لیے کہ اسلامیات کے کسی بھی نصاب کا ہندوستان سے کوئی تعلق ہو ہی نہیں سکتا۔ بھارت مخالفت کا جذبہ اگر کہیں موجود ہوگا تو مطالعہ پاکستان کے مضمون میں۔ مگر زبیدہ مصطفی کو اسلام سے ایسی نفرت ہے کہ انہوں نے بھارت دشمنی کے جذبے کو بھی اسلامی نصاب سے منسلک کردیا۔ یہاں سوال تو یہ بھی ہے کہ اگر پاکستان کے کسی بھی نصاب میں بھارت کو بُرا بھلا کہا گیا ہے تو اس پر ناک منہ بنانے کا کیا جواز ہے۔ بھارت پاکستان کا ازلی و ابدی دشمن ہے۔ وہ 1971ء میں پاکستان توڑ چکا ہے اور باقی پاکستان کو کھا جانے کا منصوبہ بنائے بیٹھا ہے۔ بھٹو صاحب سیکولر بھی تھے اور لبرل بھی۔ مگر وہ کہتے تھے کہ اگر ہمیں بھارت سے ایک ہزار سال بھی جنگ کرنی پڑی تو کریں گے۔ ان کا مشہور زمانہ فقرہ ہے ’’ہم گھاس کھائیں گے مگر ایٹم بم بنائیں گے‘‘ اور حالات نے ثابت کیا کہ اگر پاکستان کے پاس ایٹم بم نہ ہوتا تو اب تک بھارت بچے کھچے پاکستان کو بھی ٹھکانے لگا چکا ہوتا۔ ان حقائق سے معلوم ہوا کہ زبیدہ مصطفی دوسرے سیکولر اور لبرل عناصر کی طرح صرف اینٹی اسلام نہیں ہیں وہ اینٹی پاکستان بھی ہیں۔
زبیدہ مصطفی نے اپنے کالم میں دو سفید جھوٹ بھی ایجاد کیے ہیں۔ ان کا پہلا جھوٹ یہ ہے کہ جنرل ضیا الحق نے پاکستان کے پورے تعلیمی بندوبست کو مشرف بہ اسلام کر ڈالا۔ زبیدہ مصطفی کا دوسرا سفید جھوٹ یہ ہے کہ جنرل ضیا نے اپنے دور میں تعلیم کی وزارت جماعت اسلامی کے سپرد کردی تھی جو دین کو ایک مکمل ضابطہ حیات سمجھتی ہے۔ چناں چہ اس نے لائف اسٹائل، ڈریس کوڈ اور زبان و بیان تک کو اسلامائز کر ڈالا۔ یہاں پہلے زبیدہ مصطفی کے دوسرے سفید جھوٹ کا پوسٹ مارٹم ہو جائے۔ جماعت اسلامی نے جنرل ضیا الحق کی کابینہ کا حصہ بن کر ہمالے سے بڑی غلطی کی تھی۔ جماعت اسلامی اپنی اصل میں ایک انقلابی پارٹی ہے کسی اسٹیبلشمنٹ کا ’’بغل بچہ‘‘ نہیں مگر یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ جنرل ضیا الحق نے تعلیم کی وزارت جماعت اسلامی کو نہیں دی تھی۔ جماعت اسلامی کے پاس تین وفاقی وزارتیں تھیں۔ اطلاعات و نشریات، تجارت و صنعت اور بجلی و پانی۔ اطلاعات کی وزارت محمود اعظم فاروقی کے پاس تھی، تجارت کے وفاقی وزیر پروفیسر غفور احمد تھے اور بجلی اور پانی کی وزارت چودھری رحمت الٰہی کے پاس تھی۔ پروفیسر خورشید منصوبہ کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین تھے۔ تعلیم کی وفاقی وزارت جماعت کے پاس تھی ہی نہیں مگر زبیدہ مصطفی کے سیکولر اور لبرل قلم نے سفید جھوٹ تخلیق کرکے یہ وزارت بھی جماعت کو دلوادی۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ جنرل ضیا الحق نے پوری تعلیم کو ’’اسلامائز‘‘ کر ڈالا تو یہ بھی سفید جھوٹ کے سوا کچھ نہیں۔ جنرل ضیا الحق نے اسلامیات کو ایک لازمی مضمون کی حیثیت سے نصاب کا حصہ ضرور بنایا لیکن انہوں نے دیگر مضامین کو مشرف بہ اسلام کرنے کی رتی برابر بھی کوشش نہیں کی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام جنرل ضیا کی ’’سیاسی ضرورت‘‘ تھا۔ ان کی ’’روحانی ضرورت‘‘ نہیں۔ اسلام جنرل ضیا الحق کی تہذیبی، تاریخی اور علمی ضرورت بھی نہیں تھا، ہوتا تو وہ تعلیم کو اسلامائز کرنے کی کوشش ضرور کرتے۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ آخر ہمارے سیکولر اور لبرل کالم نویس پاکستان کے تعلیمی نظام کے مشرف بہ اسلام ہونے کے امکان سے اتنے خوف زدہ کیوں ہیں۔ ارے بھائی ساری کمیونسٹ دنیا میں تعلیم مشرف بہ کمیونزم تھی۔ سوویت یونین کے لوگ ادب تک کو کمیونسٹ اور غیر کمیونسٹ میں تقسیم کرتے تھے۔ یہاں تک کہ وہ اپنی سائنس کو بھی صرف سائنس نہیں کہتے تھے۔ ’’سوویت سائنس‘‘ کہتے تھے۔ ساری لبرل دنیا ’’لبرل آرٹس‘‘ پڑھ اور پڑھا رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اسلام نے ایسا کیا قصور کیا ہے کہ کسی اسلامی معاشرے میں علوم و فنون ’’اسلامی‘‘ نہیں ہوسکتے۔ پاکستان تو بنا ہی اسلام کی وجہ سے۔ چناں چہ تعلیم کہیں اسلامی ہو یا نہ ہو پاکستان میں تو ضرور ہونی چاہیے۔