روزنامہ جنگ کے کالم نگار وجاہت مسعود پچیس تیس سال پہلے کمیونسٹ اور سوویت یونین کے عاشق تھے مگر کمیونزم اور سوویت یونین کے خاتمے کے بعد سے اب وہ امریکا اور اس کے لبرل ازم کے عاشق ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پچیس تیس سال پہلے سوویت یونین اور اس کا کمیونزم اسلام اور مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن تھا اور اب مدتوں سے امریکا اور اس کا سیکولر ازم اور لبرل ازم اسلام اور مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ وجاہت مسعود کی اصل دشمنی اسلام اور مسلمانوں سے ہے۔ خیر انسان کسی سے بھی دوستی یا دشمنی کرسکتا ہے مگر اس کی دوستی اور دشمنی دونوں کو مدلل ہونا چاہیے۔ بدقسمتی سے وجاہت مسعود کی دوستی مدلل ہوتی ہے نہ دشمنی۔ اس کی ایک تازہ ترین مثال وجاہت مسعود کی ویب سائٹ ’’ہم سب‘‘ پر 9 جولائی 2020ء کو سامنے آنے والے ان کا مضمونچہ ہے۔ مضمونچے کا عنوان ہے: ’’جماعت اسلامی، جنرل ضیا الحق اور اسلامی نظام کی ناکامی‘‘۔ اس مضمونچے کے سب سے اہم فقرے یہ ہیں۔
’’مغرب دشمنی دہشت گردوں کا خاص ہتھیار ہے۔ کوئی ریاست مغرب دشمنی کو فروغ دے کر دہشت گردوں کا یکسوئی کے ساتھ مقابلہ نہیں کرسکتی‘‘۔
جیسا کہ ظاہر ہے ان فقروں میں ’’دہشت گردوں‘‘ کی کوئی تعریف ہی موجود نہیں۔ بس دہشت گردوں کی تعریف یہ ہے کہ جِسے وجاہت مسعود اور ان کا ’’تازہ خدا‘‘ امریکا دہشت گرد کہہ دے وہ لوگ دہشت گرد ہیں۔ وجاہت مسعود کا اصرار ہے کہ مغرب دشمنی دہشت گردوں کا خاص ہتھیار ہے۔ یعنی جو مغرب کا دشمن ہے وہ دہشت گرد ہے۔ اس اعتبار سے تو امریکا کا ممتاز دانش ور نوم چومسکی بھی دہشت گرد ہے کیوں کہ وہ مغرب کے امام امریکا کو بدمعاش ریاست کہتا ہے۔ اس اعتبار سے تو ایڈورڈ سعید بھی دہشت گرد ہے کیوں کہ اس نے اپنی تصانیف Orientalism اور Culture and Imperialism میں مغرب پر شدید تنقید کی ہے۔ وجاہت مسعود کی تعریف کی رو سے تو اقبال بھی دہشت گرد ہیں کیوں کہ انہوں نے اپنی شاعری میں مغرب کے پرخچے اُڑا دیے ہیں۔ اس اعتبار سے تو امام غزالی بھی دہشت گرد تھے کیوں کہ انہوں نے اپنی کتاب تہافت الفلاسفہ میں یونانی فکر کو رد کرکے رکھ دیا ہے۔ اس اعتبار سے تو مولانا مودودی بھی دہشت گرد تھے کیوں کہ مولانا نے اپنی تحریروں میں مغرب کو جاہلیت خالصہ، شجر خبیث اور ثمر خبیث جیسی سخت اصطلاحوں میں یاد کیا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اصل قصہ یہ ہے کہ جو شخص مغرب پر تنقید نہیں کرتا وہ انسان نہیں شیطان ہے۔ اسی دعوے کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔
مغرب نے کروڑوں انسانوں سے ان کا خدا چھین لیا، ان کی آسمانی کتابیں چھین لیں، ان کے پیغمبر چھین لیے، ان کی تہذیب چھین لی، ان کی تاریخ چھین لی، ان کا اخلاق چھین لیا۔ ان انسانوں میں عیسائی بھی ہیں، مسلمان بھی، یہودی بھی ہیں، ہندو بھی، بدھسٹ بھی ہیں اور سکھ بھی۔ ایسے مغرب پر جو شخص تنقید نہیں کرتا وہ انسان نہیں شیطان ہے۔ انسان کی ایک تعریف یہ ہے کہ وہ جہاں خیر دیکھتا ہے اس کی تعریف کرتا ہے، جہاں شر دیکھتا ہے اس کی تنقید کرتا ہے۔ اس کے برعکس شیطان خیر کی مذمت کرتا ہے اور شر کو پسند کرتا ہے۔ بلاشبہ جدید مغرب اس وقت دنیا میں شر کا سب سے بڑا سر چشمہ ہے۔
ساری دنیا جانتی ہے کہ امریکا اصل میں ریڈ انڈینز کا ملک تھا جہاں وہ صدیوں سے آباد تھے۔ ان کی تہذیب انتہائی ترقی یافتہ تھی۔ ریڈ انڈینز انتہائی مہذب تھے، مگر مغرب کے سفید فام شیطانوں نے امریکا پر قبضہ کرلیا۔ مغرب کے ایک ممتاز دانش ور مائیکل مان نے اپنی تصنیف The Dark Side of Democracy میں صاف لکھا ہے کہ سفید فاموں نے امریکا میں 8 سے 10 کروڑ انسانوں کو مار ڈالا۔ مغرب کے سفید فام اتنے ’’مہذب‘‘ ہیں کہ انہوں نے آج تک 10 کروڑ افراد کے قتل پر نہ افسوس کا اظہار کیا نہ معافی مانگی۔ یہاں تک کہ انہوں نے ’’معذرت‘‘ کرنا بھی پسند نہیں کیا۔ آپ ہی بتائیے جو شخص ایسے مغرب کی مذمت نہ کرے اس پر تنقید نہ کرے وہ کس طرح انسان کہلا سکتا ہے۔ وہ تو شیطان ہے۔
اہل مغرب نے صرف امریکا ہی میں قتل عام نہیں کیا۔ انہوں نے آسٹریلیا میں بھی قتل عام کی تاریخ دہرائی۔ آسٹریلیا ایب اوریجنلز کا ملک تھا۔ سفید فاموں نے آسٹریلیا پر قبضہ کرنے کے لیے 45 لاکھ ایب اوریجنلز کو مار ڈالا۔ آسٹریلیا میں قتل عام کرنے والوں نے بھی آج تک متاثرہ لوگوں سے معافی نہیں مانگی۔ ایسے مغرب پر تنقید نہ کرنے والے لوگ بلاشبہ انسان نہیں شیطان ہیں۔
جدید مغرب کا انسان دراصل ایک حقیقی جنگجو ہے۔ یعنی وہ امن کو ناپسند اور جنگ کو پسند کرتا ہے۔ اس کا ٹھوس ثبوت جدید مغرب کے ایک ممتاز ماہر نفسیات ایرک فرام کی کتاب The Anatomy of Human Destructiveness ہے۔ اس کتاب میں ایرک فرام نے بتایا ہے کہ یورپی اقوام نے گزشتہ پانچ سو برسوں میں 2600 جنگیں لڑی ہیں۔ ایرک فرام نے لکھا ہے کہ قتل تو قدیم انسان بھی کرتا تھا مگر ایسا وہ دفاع میں کرتا تھا مگر جدید (مغربی) انسان کے لیے قتل ایک کھیل ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسے مغرب پر تنقید نہ کرنے والا انسان ہے یا شیطان؟۔
مغرب کے لوگوں کے لیے قتل کے کھیل ہونے کی بات مذاق نہیں۔ جدید مغرب نے جنگ کو کھیل بنادیا ہے۔ امریکا نے کوریا کی جنگ میں تیس سے چالیس لاکھ لوگ مار ڈالے۔ ویت نام میں پچیس سے تیس لاکھ لوگوں کو قتل کردیا۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں نے عراق، افغانستان اور پاکستان میں گزشتہ سولہ سال کے دوران جو جنگیں ایجاد کی ہیں ان میں خود مغربی ذرائع کے مطابق 15 لاکھ مسلمان شہید ہوئے ہیں۔ امریکا نے 1990ء کی دہائی میں عراق پر اقتصادی پابندیاں عاید کی تھیں ان پابندیوں سے عراق میں پانچ لاکھ بچوں سمیت دس لاکھ لوگ غذا اور دوائوں کی قلت سے ہلاک ہوگئے۔ اس سلسلے میں بی بی سی کے ایک صحافی نے امریکا کی سابق وزیر خارجہ میڈلن البرائیٹ سے رابطہ کیا تو انہوں نے ان ہلاکتوں کے بارے میں سفاکی سے کہا:
It is acceptable and worth it۔ کیا کوئی انسان دس لاکھ لاشوں پر کھڑا ہو کر ایسا فقرہ بول سکتا ہے۔ اس لیے ہم عرض کررہے ہیں کہ مغرب پر تنقید نہ کرنے والا انسان ہو ہی نہیں سکتا وہ شیطان ہے۔ کیوں کہ صرف شیطان ہی شیطنت پر خاموش رہ سکتا ہے۔ جیسا کہ وجاہت مسعود اور مسلم دنیا کے اکثر سابق کمیونسٹ، سیکولر اور لبرل لوگ مغرب کی دہشت گردی اور انسانیت سوزی پر خاموش رہتے ہیں۔
یہ جدید مغرب ہی تھا جس نے 19 ویں صدی میں نو آبادیاتی تجربہ خلق کیا اور کم و بیش پوری دنیا کو اپنا غلام بنا لیا۔ مغرب نے نوآبادیاتی عہد کے دوران کمزور ایشیائی اقوام کے وسائل کو لوٹ لیا۔ بھارت کی ممتاز محقق اُتسا پٹنائک کی تحقیق کے مطابق انگریز برصغیر سے صرف 45 ہزار ارب ڈالر لوٹ کر لے گئے۔ ممتاز مغربی مورخ ولیم ڈیل ریمپل نے اپنی تصنیف ’’The Anarchy‘‘ میں لکھا ہے کہ جب انگریز برصغیر میں آئے تو برصغیر دنیا کی مجموعی پیداوار کا 25 فی صد پیدا کررہا تھا مگر جب انگریز برصغیر سے واپس جارہے تھے تو برصغیر دنیا کی مجموعی پیداوار کا صرف ساڑھے چار فی صد پیدا کر رہا تھا۔ یعنی انگریز جب مغلوں کے ہندوستان میں آئے تھے تو مغلوں کا ہندوستان دنیا کا امیر ترین خطہ تھا اور جب انگریز یہاں سے واپس لوٹ کر گئے تو برصغیر دنیا کا غریب ترین علاقہ تھا۔ اسی لیے ہمارا اصرار ہے کہ مغرب پر تنقید نہ کرنے والا انسان نہیں شیطان ہے۔
مغرب کا نوآبادیاتی دور ختم ہوگیا مگر دیکھا جائے تو نوآبادیاتی دور کا تسلسل ابھی تک برقرار ہے۔ مغرب نے دنیا کی کمزور قوموں کو سیاسی اور معاشی اعتبار سے آج بھی اپنا غلام بنایا ہوا ہے۔ امریکا اور یورپ چاہتا ہے تو مسلم ملکوں میں جمہوریت آجاتی ہے، امریکا اور یورپ اشارہ کرتے ہیں تو مسلم ملکوں میں جرنیل آدھمکتے ہیں، مغرب کے مالیاتی اداروں نے پوری غریب دنیا کو اپنے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ اس وقت کمزور اقوام مغرب کی 4000 ارب ڈالر کی مقروض ہیں۔ مدتوں سے دنیا کی 70 معیشتیں آئی ایم ایف کی گرفت میں ہیں۔ یہ معیشتیں آئی ایم ایف کی رہنمائی اور قرضوں کے باوجود کبھی بحران سے نہیں نکل پاتیں، اس لیے کہ آئی ایم ایف انہیں بحران سے نکلنے ہی نہیں دیتا۔ پاکستان کا یہ حال ہوگیا ہے کہ گزشتہ مالی سال میں ہماری قومی آمدنی 6000 ارب روپے تھی۔ اس آمدنی میں سے 3000 ارب روپے ہم نے قرض کی ادائیگی پر صرف کیے، یعنی مغرب ہماری قومی آمدنی کا نصف لے اُڑا۔ چوں کہ ہمارے قرضے بڑھ رہے ہیں اس لیے قرضوں کی ادائیگی مستقبل میں ہمارے بجٹ کا زیادہ بڑا حصہ ہڑپ کرے گی۔ اسی لیے ہم یہ بات بار بار دہرا رہے ہیں کہ مغرب پر تنقید نہ کرنے والا انسان ہو ہی نہیں سکتا، وہ شیطان ہے، وہ وجاہت مسعود ہے، سابق کمیونسٹ ہے، موجودہ سیکولر اور لبرل ہے۔
مغرب خود کو جدید کہتا ہے، خود کو مہذب کہتا ہے مگر مغرب قوم پرست ہے، نسل پرست ہے اور کوئی قوم پرست اور نسل پرست کبھی حقیقی معنوں میں مہذب نہیں ہوسکتا۔ رڈیارڈ کپلنگ مغرب کا نوبل انعام یافتہ ادیب ہے مگر اس کی نسل پرستی کا یہ عالم ہے کہ اس نے اپنی ایک نظم میں مشرق کے بارے میں کہا ہے کہ وہ آدھا بچہ ہے اور آدھا شیطان ہے۔ مشرق آدھا بچہ اس لیے ہے کہ وہ مغرب کی طرح عقل پرست نہیں ہے، مشرق آدھا شیطان اس لیے ہے کہ وہ عیسائی نہیں۔ اقبال کو مغرب کی نسل پرستی کا ٹھیک ٹھیک اندازہ تھا۔ چناں چہ انہوں نے اپنی نظم ’’اشاعتِ اسلام فرنگستان‘‘ میں فرمایا ہے۔
ضمیر اس مدنیت کا دیں سے ہے خالی
فرنگیوں میں اخوت کا ہے نسب پہ قیام
بلند تر نہیں انگریز کی نگاہوں سے
قبول دینِ مسیحی سے برہمن کا مقام
اگر قبول کرے دینِ مصطفی انگریز
سیاہ روز مسلماں رہے گا پھر بھی غلام
اس تناظر میں بھی دیکھا جائے تو ہم ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ جو شخص مغرب پر تنقید نہیں کرتا وہ انسان نہیں شیطان ہے۔