عہد حاضر میں مغربی تہذیب کا رہنما امریکا ہے۔ امریکا صرف مغربی تہذیب کا رہنما ہی نہیں اس کے تصور آزادی اور مساوات مرد و زن کی بھی علامت ہے۔ لیکن امریکا میں مرد و زن کی مساوات کا یہ عالم ہے کہ امریکی ایوان نمائندگان کی خاتون رکن اوکیژیو کورٹیز نے ری پبلکن پارٹی کے کانگریس مین ٹیڈ یوہو پر الزام لگایا ہے کہ انہوں نے رپورٹرز کے سامنے انہیں جنسی طور پر ہراساں کیا۔ انہیں جنسی گالی دی ان کی طرف انگلی سے جنسی اشارہ کیا۔ انہیں غلیظ اور پاگل قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ اس واقعے کا نہیں خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنا امریکا کا کلچر بن چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکا کا پورا پاور اسٹرکچر خواتین کے خلاف پرتشدد زبان بلکہ پرتشدد عمل کی حمایت کرتا ہے۔ امریکا کے ایوان نمائندگان کی رکن باربرا لی نے کہا کہ انہیں توہین اور جنسی امتیاز کا سامنا کرتے ہوئے پوری عمر ہوگئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکا کے ایوان نمائندگان کی رکن بن کر بھی انہیں ان مسائل سے نجات نہیں ملی۔ (ڈان کراچی۔ 25 جولائی 2020ء)
امریکا کی اجتماعی جنسی زندگی کے اعداد و شمار دل دہلا دینے والے ہیں۔ امریکا میں 2006ء کے دوران جنسی حملوں کے 2 لاکھ 32 ہزار سے زیادہ واقعات ہوئے۔ اعداد و شمار کے مطابق امریکا میں ہر 73 سکینڈ میں ایک امریکی جنسی حملے کا شکار ہوجاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ شکار ہونے والوں کی اکثریت خواتین پر مشتمل ہوتی ہے۔ ایک سروے سے معلوم ہوا ہے کہ امریکا میں پانچ خواتین میں سے ایک خاتون زندگی میں کبھی نہ کبھی Rape ہوتی ہے جب کہ 70 مردوں میں سے ایک مرد کو اس جرم کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق 32 کروڑ کی آبادی کے امریکا میں 2 کروڑ عورتیں Rape ہوچکی ہیں جو عورتوں کی آبادی کا 18 فی صد ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق امریکا میں پورنو گرافی کی صنعت 10 سے 15 ارب ڈالر سالانہ کی ہے۔ ایک سروے سے معلوم ہوا ہے کہ گزشتہ سال امریکا میں ایک کروڑ افراد گھریلو تشدد کا شکار ہوئے۔ اعداد و شمار کے مطابق چار خواتین میں سے ایک اور 9 مردوں میں سے ایک تشدد کا نشانہ بنا۔ ایک خبر کے مطابق امریکا میں ایک نارمل دن میں متعلقہ اداروں کو تشدد کے حوالے سے 20 ہزار ٹیلی فون کالز موصول ہوتی ہیں۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ امریکا میں مرد کو جس کام کے 100 روپے ملتے ہیں عورت کو اس کام کے صرف 81 روپے ملتے ہیں۔ امریکا میں ’’جنس زدگی‘‘ کس قدر تیزی سے آگے بڑھی اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ 1994ء میں صرف 32 فی صد افراد نے اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ ان کے خاندان یا احباب میں کوئی ہم جنس پرست موجود ہے مگر 1998ء میں ایسے لوگوں کی تعداد بڑھ کر 41 فی صد ہوگئی۔ 1978ء میں ہم جنس پرستی 35 فی صد لوگوں کے لیے قابل قبول تھی لیکن 1998ء میں ہم جنس پرستی 52 فی صد لوگوں کے لیے قابل قبول ہوچکی تھی۔ 1994ء میں ایسے لوگوں کی تعداد 42 فی صد تھی جو ہم جنس پرستوں کو اسکولوں میں پڑھانے کی اجازت دینے پر آمادہ تھے لیکن 1998ء میں ایسے لوگوں کی تعداد بڑھ کر 52 فی صد ہوگئی تھی۔
سوال یہ ہے کہ امریکا کیا پورے مغرب کی جنس زدگی اور خواتین کے خلاف بے پناہ جرائم کا کیا سبب ہے؟ اردو کے معروف نقاد، خاکہ نویس اور مزاح نگار رشید احمد صدیقی نے ایک معرکہ آراء فقرہ لکھا ہے۔ رشید احمد صدیقی نے کہا ہے کہ جس مرد کا تصور عورت پست ہوتا ہے اس کا تصور خدا بھی پست ہوتا ہے۔ اس فقرے پر تشریحاً عرض ہے کہ تصور عورت کے پست ہونے سے تصور خدا اس لیے پست ہوجاتا ہے کہ عورت خدا کی صفت رحمت کی علامت ہے۔ چناں چہ جس شخص کا تصور عورت پست ہوگا اس کا تصور خدا ازخود پست ہوجائے گا۔ اسلامی تہذیب میں عورت ماں ہے، شریک حیات ہے، بہن ہے، بیٹی ہے، خالہ ہے، چاچی ہے، مامی ہے، عم زاد یا کزن ہے۔ ان تمام رشتوں میں ایک ’’عظمت‘‘ ہے، ایک ’’وقار‘‘ ہے، ایک ’’تکریم‘‘ ہے، ایک ’’حسن‘‘ ہے، ایک ’’معنویت‘‘ ہے، ایک ’’گہرائی‘‘ ہے، ایک ’’وسعت‘‘ ایک ’’پختگی‘‘ ہے۔ اس کے برعکس مغربی تہذیب میں ’’عورت گناہ کا مرکز‘‘ ہے۔ عیسائیت کی تعلیمات کے مطابق جنت میں شیطان نے اماں حوّا کو بہکایا جس کی وجہ سے سیدنا آدم اور اماں حوّا دونوں کو جنت سے نکلنا پڑا۔ اس کے برعکس اسلامی تہذیب کا موقف یہ ہے کہ شیطان نے اماں حوّا اور سیدنا آدم دونوں کو بہکایا۔ جہاں تک جدید مغرب کا تعلق ہے تو اس نے عورت کو صرف جنس کی علامت بنا کر رکھ دیا ہے۔ اب ذرا غور تو کیجیے امریکا میں ننگی فلموں اور ننگی تصویروں کی صنعت 10 سے 15 ارب ڈالر کا سالانہ بزنس کرتی ہے۔ امریکا کی آبادی 32 کروڑ سے کچھ زیادہ ہے۔ جب ایک معاشرے میں سالانہ 10سے 15 ارب ڈالر عورت کو عریاں کرنے اور اسے مرد کی جنسی ہوس کا سامان بنانے پر صرف ہوں گے۔ اس معاشرے میں عورت ماں، بہن، بیٹی، بیوی یا کسی اور رشتے میں کیسے ’’باوقار‘‘ رہ جائے گی؟ عورت کی ’’تقدیس‘‘ کا اس کے Image سے گہرا تعلق ہے۔ جب عورت ایک جاں نثار ماں کے روپ میں سامنے آتی ہے تو کروڑوں سر اس کی عظمت اور محبت کے آگے جھکنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ جب ایک عورت ’’شریک حیات‘‘ کی حیثیت سے معاشرے میں زیر بحث ہوتی ہے تو کروڑوں دلوں میں خود بخود اس کی تکریم پیدا ہوجاتی ہے۔ مگر عورت صرف Sex Symbol کی حیثیت سے معاشرے میں معروف ہوجاتی ہے تو پھر کسی دل میں اس کی عزت نہیں ہوتی، کسی ذہن میں اس کا وقار نہیں ہوتا۔ پھر وہ صرف ایک ’’بازاری شے‘‘ ہوتی ہے۔ پھر وہ صرف جنسی بھوک جگانے اور مٹانے والی ایک مشین ہوتی ہے۔ ایسی مشین جسے کوئی بھی چند درجن، چند سو یا چند ہزار ڈالر میں خرید سکتا ہے۔ پھر برگر اور عورت میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا۔ برگر بھی کھانے کے کام آتا ہے اور عورت بھی کھانے کے کام آتی ہے۔ فرق یہ ہے کہ برگر پیٹ کی بھوک مٹاتا ہے اور عورت جنس کی بھوک مٹاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ انسان ایک برگر کا کتنا احترام کرسکتا ہے؟ اس سے کتنی عظمت وابستہ کرسکتا ہے؟ اس سے کتنی گہرائی منسلک کرسکتا ہے؟ اس طرح صرف ایک Sex Symbol سے کتنی عزت و توقیر وابستہ کی جاسکتی ہے؟ اس تناظر میں دیکھا جائے تو امریکا ہو یا مغرب کا کوئی اور ملک مرد و زن کی مساوات کا نعرہ محض ایک نعرہ ہے۔ اصل چیز مرد و زن کی عدم مساوات کا ’’تجربہ‘‘ ہے۔ ہولناک تجربہ۔
مغرب کے ابلیس ثانی ہونے میں کوئی شبہ ہی نہیں ہے۔ مغرب نے عورت کو اس کے تمام روایتی کرداروں سے محروم کرکے اسے صرف ایک Sex Symbol بنادیا مگر اس نے عورت کو یہ باور کرایا کہ یہ تمہاری ’’آزادی‘‘ ہے۔ یہ تمہاری ’’Empowerment‘‘ ہے۔ یہ تمہاری ’’عزت افزائی‘‘ ہے۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ یہ چیزیں تم نے خود اپنی آزاد مرضی سے حاصل کی ہیں۔ حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ عورت اگر صرف Sex Symbol میں ڈھلی ہے تو اس کی پشت پر مغرب کا مرد کھڑا ہے۔ لیکن یہ صرف مغرب کا مسئلہ نہیں کسی بھی تہذیب میں جب عورت بے راہ رو ہوئی ہے تو اسے بے راہ رو کرنے میں مرد نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ اس سلسلے میں ڈی ایچ لارنس کا چھوٹا سا مضمون Give her a pattern بے مثال ہے۔ اس مضمون میں لارنس نے بنیادی بات یہ کہی ہے کہ عورت ہر زمانے میں خود کو مرد کی خواہش کے مطابق بناتی ہے۔ مرد عورت کو ماں کی حیثیت سے چاہتا ہے، بیوی کی حیثیت سے پسند کرتا ہے تو عورت بہترین ماں اور بہترین بیوی بن جاتی ہے۔ مرد عورت کو شاعر ادیب دیکھنے کی تمنا کرتا ہے تو عورت خود کو شاعر اور ادیب بنانے کے لیے کوشاں ہوجاتی ہے۔ مرد عورت کو ایک اداکار، ایک گلوکار، ایک ماڈل گرل، ایک طوائف اور ایک Sex Symbol دیکھنا چاہتا ہے تو عورت اداکار، گلوکار، ماڈل گرل، طوائف اور Sex Symbol بن جاتی ہے۔ لارنس سر تا پا مغرب تھا مگر اس کے اس مضمون پر مشرقی فکر کا گہرا اثر ہے۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا ہے کہ اگر خدا کے سوا کسی اور کے لیے سجدہ روا ہوتا تو عورت اپنے شوہر کو سجدہ کرتی۔ ہندو تہذیب میں شوہر کو خدا کا روپ کہا گیا ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ جدید مغرب نے عورت کی تذلیل کا جو ایک دفتر رقم کیا ہے وہ مغرب کے ذلیل اور گھٹیا مردوں کی خواہشات کے عین مطابق ہے۔ مغرب کے مردوں نے ایک ماں، ایک شریک حیات، ایک بیٹی، ایک بہن، ایک انسان کی حیثیت سے عورت کی عزت کی ہوتی تو مغرب کی عورت وہ کبھی نہ بنتی جو کہ وہ بنی۔
اس مسئلے کا ایک اور بہت اہم پہلو ہے۔ اس پہلو کا ذکر ہم نے 29 اور 30 جنوری 1999ء کے اپنے دو کالموں میں کیا تھا۔ آج ہم ان کالموں کی بعض باتوں کو دہراتے ہیں۔ کولن ولسن مغرب کا ایک اہم نقاد ہے۔ اس کی کتاب The outsider مشہور زمانہ ہے۔ کولن ولسن کے ’’آئوٹ سائیڈر‘‘ کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ معاشرے میں اجنبی ہوگیا ہے۔ اس کی شناخت گم ہوگئی ہے۔ چناں چہ اس کی اولین ضرورت معاشرے میں خود کو Relocate کرنا ہے تا کہ اس کی شناخت متعین ہوسکے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ وہ یہ کام کیسے کرے؟ اور کس کے ذریعے کرے؟ اقدار کا پیمانہ اس کے پاس نہیں، معاشرے سے اس کا تعلق آویزش اور تصادم کا ہے۔ اب اس کے پاس ایک ہی چیز باقی رہ گئی ہے اس کی انا۔ لیکن انا ایک مجرد شے ہے اس کے بروئے کار آنے کے لیے کسی ٹھوس چیز کی ضرورت ہے یہاں جبلتیں خاص طور پر جنسی جبلت اس کے کام آتی ہے۔ کولن ولسن نے اپنی کتاب دی آئوٹ سائیڈر میں مغرب کے ایک ناول نگار کا ایک اقتباس پیش کیا ہے۔ اس ناول کا ایک کردار کہتا ہے کہ اُسے صرف ایک عورت درکار نہیں بلکہ تمام عورتیں درکار ہیں۔ ایک ایک کرکے سب عورتیں۔ یہ ہے مغرب کے مرد کا تصور عورت۔