بی بی سی اردو سروس والے رضا علی عابدی نے اپنے کالم میں اطلاع دی ہے کہ ہندوستان نے اردو کو مادری زبانوں کے دائرے سے نکال باہر کیا ہے۔ رضا علی عابدی نے لکھا ہے کہ اردو اس طرح ختم ہونے والی نہیں۔ انہوں نے مزید لکھا ہے کہ بھارت کے انتہا پسند اردو سے کہاں تک جان چھڑائیں گے۔ رضا علی عابدی کے بقول خود لفظ ’’ہندی‘‘ اور ’’ہندوستان‘‘ فارسی اور ترکی سے آئے ہیں۔ کیا انتہا پسند ان الفاظ کو بھی ترک کردیں گے؟ رضا عابدی نے یہ واقعہ بھی لکھا ہے کہ ایک بار پاکستان سے کسی نے انہیں خط لکھا اور کہا کہ اگر بی بی سی والے خالص اردو اور خالص ہندی سے گریز کریں تو ان کی زبان عام لوگ بھی سمجھ سکتے ہیں۔ رضا علی عابدی نے یہ بات بی بی سی ہندی سروس کے ایک ذمے دار کو بتائی تو اس نے کہا کہ ہم جب ہندی کو آسان کرتے ہیں تو وہ اردو بن جاتی ہے۔ برصغیر کے مسلمانوں کی تاریخ گواہ ہے کہ انہوں نے کبھی ہندی سے نفرت نہیں کی۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ جس شخص کو اردو سے محبت ہے وہ عربی اور فارسی کے علاوہ ہندی سے بھی محبت کرنے پر خود کو مجبور پاتا ہے، اس لیے کہ اردو کی لغت کا ایک بڑا حصہ اسے ہندی سے فراہم ہوا ہے۔ لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ ہندو قیادت نے ہمیشہ اردو سے نفرت کی ہے۔ اس سلسلے میں ایک استثنائی مثال نہرو کی ہے۔ یہ نہرو ہی تھے جنہوں نے اردو کو بھارتی آئین میں دوسری قومی زبانوں کے ساتھ شامل کیا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جب نہرو نے دیکھا کہ بھارتی آئین کے مسودے میں اردو کا نام شامل نہیں ہے تو انہوں نے آئین سازوں سے پوچھا کہ اردو آئین میں قومی زبان کی حیثیت سے شامل کیوں نہیں ہے۔ آئین ساز حضرات نے کہا کہ اردو ہم میں سے کسی کی مادری زبان نہیں ہے۔ نہرو نے ایک لمحے توقف کیا اور کہا کہ اردو میری مادری زبان ہے۔ چناں چہ آئین سازوں کو مجبوراً اردو کو آئین میں جگہ دینی پڑی۔ لیکن اب اردو سے یہ مرتبہ چھین لیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح اردو کو ختم کیا جاسکتا ہے؟
اردو زبانوں کی تاریخ کا ایک معجزہ ہے۔ ویسے تو اردو کی تاریخ پانچ سو سال سے بھی زیادہ پرانی ہے لیکن اردو کے تشخص کی تاریخ تین سو سال سے زیادہ نہیں۔ یہ اتنی کم مدت ہے کہ اس مدت میں زبانیں ٹھیک سے چلنا بھی نہیں سیکھ پاتیں مگر اردو نے اتنی کم مدت میں خود کو ایک بڑی زبان کی حیثیت سے منوالیا ہے۔ اردو کے لسانی تنوع کا یہ عالم ہے کہ ایک جانب اردو مذہب کی زبان ہے، دوسری جانب میر، غالب اور اقبال کی زبان ہے۔ تیسری جانب وہ قرۃ العین حیدر، بیدی اور منٹو کی زبان ہے۔ چوتھی جانب اس نے محمد حسن عسکری جیسا نقاد پیدا کرکے دکھایا ہے۔ پانچویں جانب اردو ہزاروں فلموں اور ہزاروں فلمی گیتوں کی زبان ہے۔ فلمی گیتوں سے یاد آیا کہ پورے ہندوستان کا شعری حافظہ صرف فلمی گیت ہیں۔ یہ گیت ہزاروں ہندو کرداروں پر فلمائے گئے ہیں۔ آئیے بھارت کے چند فلمی گیتوں کی جھلکیاں ملاحظہ کرتے ہیں۔
ڈمَ ڈمَ ڈیگا ڈیگا
موسم بھیگا بھیگا
بن پیئے میں تو گرا ہائے اللہ
صورت آپ کی سبحان اللہ
٭٭
ایک فلمی کردار:
اے کاش کسی دیوانے کو ہم سے بھی محبت ہوجائے
ہم لٹ جائیں دل کھوجائے بس ایک قیامت ہوجائے
دوسرا فلمی کردار:
ہے وقت ابھی توبہ کرلو
اللہ مصیبت ہوجائے
٭٭
وہ دل کہاں سے لائوں تری یاد جو بھلا دے
مجھے یاد آنے والے کوئی راستہ بتادے
رہنے دے مجھ کو اپنے قدموں کی خاک بن کر
جو نہیں تجھے گوارا مجھے خاک میں ملا دے
٭٭
چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں
نہ میں تم سے کوئی اُمید رکھوں دل نوازی کی
نہ تم مری طرف دیکھو غلط انداز نظروں سے
نہ میرے دل کی دھڑکن لڑکھڑائے میری باتوں میں
نہ ظاہر ہو تمہاری کشمکش کا راز نظروں سے
٭٭
تری آنکھ کا جو اشارہ نہ ہوتا
تو بسمِل کبھی دل ہمارا نہ ہوتا
٭٭
اگر پھول تیری ہنسی نہ چراتے
تو بیچارے باغوں کے دل ٹوٹ جاتے
چمن کی یہ محفل نہ آباد ہوتی
بہاروں کا ایسا نظارہ نہ ہوتا
٭٭
یہ لڑکا ہائے اللہ کیسا ہے دیوانہ
کتنا مشکل ہے توبہ اس کو سمجھانا
کہ ہوتے ہوتے دل بے قرار ہوتا ہے
ہوتے ہوتے ہوتے پیار ہوتا ہے
٭٭
جانے کیا ڈھوتی رہتی ہیں یہ آنکھیں مجھ میں
راکھ کے ڈھیر میں شعلہ ہے نہ چنگاری ہے
٭٭
آرزو جرم وفا جرم تمنا ہے گناہ
یہ وہ دنیا ہے جہاں پیار نہیں ہوسکتا
کیسے بازار کا دستور تجھے سمجھائوں
بک گیا جو وہ خریدار نہیں ہوسکتا
٭٭
ابتدائے عشق میں ہم ساری رات جاگے
اللہ جانے کیا ہوگا آگے
مولا جانے کیا ہوگا آگے
٭٭
پھولوں سے مکھڑے والی
نکلی ہے اک متوالی
گلشن کی کرنے سیر
خدایا خیر
لے تھام لے میری بانہیں
اونچی نیچی ہیں راہیں
کہیں پھسل نہ جائے پیر
خدایا خیر
٭٭
لو چہرہ سرخ شراب ہوا
آنکھوں نے ساغر چھلکایا
یہ غصہ تیرا سبحان اللہ
اک حُسن کا دریا چڑھ آیا
یہاں قارئین سے ہماری گزارش ہے کہ وہ ان گیتوں کے ’’مواد‘‘ پر توجہ نہ دیں۔ وہ صرف گیتوں کی زبان، بیان اور اسلوب کو دیکھیں۔ قارئین کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ بھارتی فلموں میں یہ تمام گیت ’’ہندو کرداروں‘‘ پر فلمائے گئے ہیں۔ ان میں سے کچھ کردار مرد ہیں اور کچھ کردار خواتین، مگر اہم بات یہ ہے کہ یہ تمام کردار مسلمانوں کی زبان بول رہے ہیں۔ ان کا ’’اظہار محبت‘‘ مسلمانوں کے اظہار محبت کا چربہ ہے۔ ان کی زبان مسلمانوں کی زبان ہے۔ ان کا بیان مسلمانوں کا بیان ہے۔ ان کا اسلوب مسلمانوں کا اسلوب ہے۔ ان کی نفسیات مسلمانوں کی نفسیات ہے۔ ان کے جذبات مسلمانوں کے جذبات ہیں۔ ان کے پورے وجود کو مسلمانوں کی شعری روایت نے اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے۔ کہنے کو بھارت کی فلم ’’ہندی فیچر فلم‘‘ کہلاتی ہے مگر وہ اپنی اصل میں ’’اردو فیچر فلم‘‘ ہے۔ چناں چہ ہندوستان جب اردو کا گلہ گھونٹے گا تو اسے اس کے ساتھ ہی اپنی فلمی صنعت کا بھی گلہ گھونٹنا ہوگا۔ کیا بھارت ایسا کرسکے گا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ بھارت میں فلم صرف فلم نہیں ہے وہ بھارت کو جوڑنے والی ایک قوت ہے۔ بھارت کی فلم کروڑوں ہندوستانیوں کو خواب دکھاتی ہے اور یہ خواب گزشتہ سو سال سے اردو کے سانچے میں اپنا اظہار کررہے ہیں۔ چناںچہ ہندوستان میں اردو کو فنا کردینا آسان نہیں۔ اردو بول چال کی زبان کی حیثیت سے آج بھی ہندوستان میں رابطے کی واحد زبان ہے۔ جس چیز کو ’’شدھ ہندی‘‘ یا خالص ہندی کہا جاتا ہے وہ تو صرف بھارت کی Hindi Belt تک محدود ہے البتہ اردو پورے ہندوستان میں سمجھی جاتی ہے۔ اردو کو پورے ہندوستان کی زبان بنانے میں بھارت کی فلم انڈسٹری کا بڑا کردار ہے۔ بلاشبہ اللہ اس بات پر قادر ہے کہ وہ شر سے خیر پیدا کرسکتا ہے۔
ہم نے اردو کو زبانوں کی تاریخ کا معجزہ کہا ہے اور یہ بات کئی حوالوں سے درست ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ اردو صرف شاعری کی زبان ہے لیکن حیدر آباد دکن میں اردو میڈیکل اور انجینئرنگ کی زبان رہ چکی ہے یہ اور بات کہ یہ تجربہ عام نہ ہوسکا۔ زبانیں سرکاری سرپرستی میں آگے بڑھتی ہیں مگر اردو ہندوستان اور پاکستان میں سرکاری زبان بنے بغیر پروان چڑھی ہے۔ یہ ٹھیک وہی عمل ہے جو برصغیر میں اسلام کے حوالے سے رونما ہوا۔ برصغیر کے مسلم بادشاہ اگر اسلام پھیلانے میں دلچسپی لیتے تو آج سارا ہندوستان مسلمان ہوتا مگر بادشاہوں کی عدم دلچسپی کے باوجود اسلام اپنی قوت سے خود پھیلا اور آج برصغیر میں جو 65 کروڑ مسلمان ہیں ان کی اکثریت نو مسلم ہے۔ اردو کو بھی سرکار اور دربار نے مکمل عام کرنے کی کوشش نہ کی مگر اردو پورے برصغیر میں اپنی قوت سے پھیل کر رہی۔ بدقسمتی سے اردو کبھی بھی ’’روزگار‘‘ کی زبان نہیں رہی۔ اردو اپنی تاریخ کے کسی مرحلے میں روزگار کی زبان ہوتی اور چار دانگ عالم میں اس کا چرچا ہوجاتا ہے تو یہ کوئی خاص بات نہ ہوتی مگر اردو ہندوستان کیا پاکستان میں بھی بہترین روزگار کی زبان نہیں ہے۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ برصغیر میں اردو نے ایک مذہبی زبان کا درجہ حاصل کرلیا ہے۔ چناں چہ جب تک اسلام کی تعلیم باقی رہے گی اس وقت تک اردو بھی باقی رہے گی۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اسلام کی طرح اردو کے مرکز بھی بدلتے رہے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ اردو کا مرکز دلّی تھی، لکھنؤ تھا، حیدر دکن تھا۔ آج ہندوستان میں اردو کا مرکز بہار ہے۔ پاکستان میں لاہور اور کراچی اردو کے بڑے مراکز ہیں۔ اس تناظر میں کہا جاسکتا ہے کہ مستقبل میں اردو کے اور مراکز وجود میں آسکتے ہیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اسلام بالآخر دنیا پر غالب آکر رہے گا چوں کہ اردو اسلام کے ابلاغ کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔ اس لیے برصغیر میں اسلام غالب ہوگا تو اردو کو بھی ہندوستان پر چھاجانے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔