امیر مینائی کا مشہور زمانہ شعر ہے
خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کو تسلیم کرکے اس کے ساتھ امن معاہدے کی راہ ہموار کی تو جماعت اسلامی پاکستان نے ملک گیر احتجاج منظم کردیا۔ اس پر حسن نثار اپنے کالم میں بلبلا اُٹھے۔ انہوں نے لکھا کہ آخر سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں کیوں ہے؟ انہوں نے مشورہ دیا کہ آج کل تو جگر کا ٹرانسپلانٹ ہوجاتا ہے۔ چناں چہ جن لوگوں کے دل میں سارے جہاں کا درد ہے وہ اپنا جگر تبدیل کرالیں۔ (روزنامہ جنگ 17 اگست 2020) اس سلسلے میں سلیم صافی نے بھی ایک کالم لکھ مارا۔ اس ضمن میں سلیم صافی نے قرآن مجید کی ایک آیت تک غلط استعمال کر ڈالی۔ قرآن کی آیت ہے لایکلف اللہ نفسا الا وسعھا۔ اس آیت کا ترجمہ سلیم صافی نے یہ کیا۔ ہر انسان اپنی استطاعت کے مطابق ہی مکلف ہے۔ سلیم صافی نے مزید لکھا کہ ہمارا دین ہمیں آنکھیں بند کرکے دیوار سے ٹکرانے کا حکم نہیں دیتا بلکہ ’’زمینی حقائق‘‘ کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی استطاعت کے مطابق آگے بڑھنے کا درس دیتا ہے۔ انہوں نے جماعت اسلامی کا نام لیے بغیر یہ بھی لکھا کہ بعض مذہبی جماعتیں متحدہ عرب امارات کو ناراض کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔ (روزنامہ جنگ: 19 اگست 2020)
سوال یہ ہے کہ کیا حسن نثار اور سلیم صافی کا کوئی علاج ہے؟ اس سوال کا جواب نفی میں ہے مگر بعض چیزوں کے سلسلے میں حجت تمام کرنا ضروری ہوتا ہے۔ چناں چہ یہ کالم حجت تمام کرنے کے لیے ہی لکھا جارہا ہے۔ حسن نثار اور سلیم صافی کو اللہ ہی سمجھے گا۔
حسن نثار کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ جماعت اسلامی کے دل میں سارے جہاں کا درد اس لیے ہے کہ قرآن پاک مسلمانوں کو ہدایت کرتا ہے کہ اپنے مظلوم مسلمان بھائیوں کی مدد کرو۔ خواہ تمہارے پاس کم وسائل ہی کیوں نہ ہوں۔ رسول اکرمؐ نے صاف فرمایا ہے کہ ہر مسلمان ایک دوسرے کا بھائی ہے۔ چناںچہ ہر مسلمان کو مشکل وقت میں مظلوم مسلمان کے لیے آواز اُٹھانی چاہیے۔ رسولِ اکرمؐ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اُمت مسلمہ ایک جسدِ واحد ہے اس کے کسی حصے میں بھی درد ہو اس کی تکلیف پورا جسم محسوس کرتا ہے۔ ان باتوں کا مفہوم یہ ہے کہ مسلمانوں بالخصوص جماعت اسلامی کے دل میں سارے جہاں کا درد اللہ اور اس کے رسولؐ نے پیدا کیا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو حسن نثار کا اعتراض دردِ جگر یا دردِ جگر کے حامل افراد پر نہیں اللہ اور اس کے رسولؐ پر ہے۔ جیسا کہ ثابت ہے جماعت اسلامی کا دردِ جگر اس کا شوق نہیں۔ یہ دردِ جگر ثابت کرتا ہے کہ جماعت اسلامی کی مذہبی، تہذیبی، تاریخی اور اخلاقی حِس زندہ ہے۔ اس لیے وہ کبھی مظلوم کشمیریوں کے لیے احتجاج کرتی ہے۔ کبھی مظلوم فلسطینیوں کے لیے سڑکوں پر نکلتی ہے۔ کبھی روہنگیا مسلمانوں کے لیے بلکتی ہوئی پائی جاتی ہے۔ مگر حسن نثار کو جماعت اسلامی کے زندہ ہونے پر اعتراض ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ جس طرح پورا معاشرہ اور امت کا بڑا حصہ مردہ ہوچکا ہے اُسی طرح جماعت اسلامی بھی مردہ ہوجائے۔ دنیا بھر کے مسلمانوں پر خواہ پہاڑ ٹوٹ پڑے جماعت اسلامی خاموش ہوجائے۔ یہاں ہمیں حالی کا شعر یاد آگیا۔ حالی نے کہا ہے۔
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ اطاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کرو بیاں
حالی کہہ رہے ہیں کہ انسان پیدا ہی دردِ دل کے واسطے کیا گیا ہے ورنہ اطاعت کے لیے تو فرشتے بھی کافی تھے۔ حسن نثار یہ شعر پڑھیں گے تو کہیں گے کہ ایسے دل کا بھی ٹرانسپلانٹ کرالو جو ’’درد‘‘ کا حامل ہو۔ ایسا لگتا ہے کہ حسن نثار کو سنگ دل لوگ یا روبوٹس انسان اچھے لگتے ہیں۔ ایسے لوگ جن میں نہ جذبات ہوتے ہیں نہ احساسات ہوتے ہیں۔ جو نہ کسی مظلوم کا دکھ محسوس کرتے ہیں نہ کسی کمزور کی آہ و بکا سنتے ہیں۔
اس سلسلے میں حسن نثار کو ایک اور بات یاد دلانے کی ضرورت ہے۔ اور وہ یہ کہ جب پاکستان میں حسن نثار مزے کررہے ہیں وہ ’’درد دل‘‘ اور ’’درد جگر‘‘ رکھنے والوں کی کدو کاوش کا نتیجہ ہے۔ پاکستان پنجاب، سندھ، کے پی کے اور بلوچستان میں بن رہا تھا اور اس کی تحریک دلّی، یوپی اور سی پی میں چل رہی تھی۔ دلی، یوپی اور سی پی کے مسلمانوں کو معلوم تھا کہ ان کے علاقے ہرگز پاکستان کا حصہ نہیں ہوں گے مگر انہوں نے اس کے باوجود تحریک پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ حسن نثار کی اطلاع کے لیے یہ عرض ہے کہ جیسا درد دل اور درد جگر برصغیر کے مسلمانوں بالخصوص اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں میں پایا جاتا ہے ویسا درد دل اور درد جگر اب مکے اور مدینے میں بھی نہیں پایا جاتا۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ خلافت عثمانیہ ترکی میں ختم ہورہی تھی اور اس کا ماتم دلی، یوپی اور سی پی میں ہورہا تھا۔ یہی درد دل اور درد جگر بالآخر تحریک پاکستان کے لیے بھی بروئے کار آیا۔ یہ درد دل اور درد جگر نہ ہوتا تو آج حسن نثار پاکستان میں فائیو اسٹار زندگی نہ بسر کررہے ہوتے۔
سلیم صافی کی بدباطینی کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ انہوں نے اپنی ’’جہالت‘‘ کو ’’علم‘‘ ثابت کرنے کے لیے قرآن کی آیت کا مفہوم ہی بدل ڈالا۔ لایکلف اللہ نفسا الا وسعھا کا ترجمہ یہ نہیں ہے کہ ہر انسان اپنی استطاعت کے مطابق مکلف ہے بلکہ اس کا صحیح ترجمہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر انسان پر اس کی استطاعت کے مطابق بوجھ ڈالتا ہے۔ انسان پر کوئی مشکل آتی ہے تو وہ بلبلا اٹھتا ہے۔ سوچتا ہے کہ اس پر وہ بوجھ ڈال دیا گیا جس کو اٹھانے کی اس میں سکت نہیں۔ لیکن خدا کسی کے ساتھ ظلم نہیں کرتا وہ انسانوں کو ان کی گنجائش کے مطابق ہی آزماتا ہے۔ لیکن سلیم صافی نے ایک غلط بات کو درست ثابت کرنے کے لیے قرآن کی آیت کا مفہوم ہی بدل ڈالا۔
سلیم صافی نے یہ بھی لکھا ہے کہ ہمارا دین ہمیں آنکھیں بند کرکے دیوار سے ٹکرانے کا حکم نہیں دیتا بلکہ ’’زمینی حقائق‘‘ کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی استطاعت کے مطابق آگے بڑھنے کا درس دیتا ہے۔ یہ بات بھی تاریخی اعتبار سو فی صد غلط ہے۔ سیدنا ابراہیم ؑ نے جب نمرود کو چیلنج کیا تو سیدنا ابراہیم ؑ صرف ایک فرد تھے اور ان کا مقابلہ بادشاہِ وقت اور پوری ریاست کی طاقت سے تھا۔ ’’زمینی حقائق‘‘ یہ تھے کہ نمرود اور سیدنا ابراہیم ؑ کا کوئی مقابلہ ہی نہ تھا سیدنا ابراہیم ؑ کے پاس حکومت تھی نہ ریاست تھی نہ کوئی فوج تھی یہاں تک کہ ان کے پاس ایک چھوٹی سی جماعت بھی نہ تھی مگر اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا کہ جائو نمرود کو چیلنج کرو۔ سیدنا موسیٰؑ اور فرعون کا بھی کوئی مقابلہ نہ تھا۔ فرعون بادشاہِ وقت تھا۔ سیدنا موسیٰؑ کے ساتھ ان کی قوم تھی مگر وہ قوم غلام تھی اور کسی طرح بھی فرعون سے لڑنے کی پوزیشن میں نہ تھی مگر اللہ تعالیٰ نے سیدنا موسیٰؑ اور ان کے بھائی سیدنا ہارون ؑ کو فرعون کے مقابل لا کھڑا کیا۔ رسول اکرم ؐ نے بھی جب مکے میں کارِ نبوت کا آغاز کیا تو آپؐ کے ساتھ چند لوگوں کے سوا کوئی نہ تھا۔ دوسری طرف کافر اور مشرک تھے۔ ان کے پاس مالی طاقت بھی تھی۔ عسکری طاقت بھی۔ قبائلی طاقت بھی تھی اور معاشرے کی طاقت بھی تھی مگر رسول اکرمؐ کو حکم ہوا کہ کفر اور شرک کی طاقتوں کو چیلنج کریں۔ یہ تو خیر ماضی کے واقعات ہیں۔ عہد حاضر میں جب مجاہدین افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف صف آرا ہوئے تو ان کے پاس 19 ویں صدی کی بندوقیں اور رائفلیں تھیں۔ دوسری طرف سوویت یونین تھا جو وقت کی دو سپر پاورز میں سے ایک تھا، مگر مجاہدین کا جذبہ اور شوقِ شہادت تمام ’’زمینی حقائق‘‘ کو نگل گیا اور مجاہدین نے سوویت یونین کو مار گرایا۔ طالبان اور امریکا کی جنگ کے زمینی حقائق یہ تھے کہ امریکا سیاسی اعتبار سے ایک ہزار گنا طاقت ور تھا، معاشی اعتبار سے ایک لاکھ گنا طاقت ور تھا، عسکری اعتبار سے ایک ارب گنا طاقت ور تھا، مگر طالبان کے جذبہ ٔ جہاد اور شوق ِ شہادت نے ’’زمینی حقائق‘‘ کا کچومر بنا کر رکھ دیا۔ سلیم صافی کا کہنا ہے کہ بعض مذہبی جماعتیں متحدہ عرب امارات کو ناراض کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔ حضور والا اگر متحدہ عرب امارات اسرائیل کو تسلیم کرکے اپنے دین کی تعلیم، اپنی تہذیب، اپنی تاریخ کا مذاق اُڑا سکتا ہے تو جماعت اسلامی متحدہ عرب امارات کے فیصلے پر چار مظاہرے کیوں نہیں کرسکتی؟