پاکستان کی مذہبی جماعتوں نے قومی اسمبلی سے منظور شدہ اسلام آباد کیپٹل ٹیریٹری بل 2020ء کی شدید مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ حکومت مساجد کا کنٹرول حاصل کرنا چاہتی ہے اور مساجد کو تحریری خطبے دینا چاہتی ہے۔ قومی اسمبلی یہ بل منظور کرچکی ہے۔ یہ بل اب ایوانِ بالا میں پیش کیا گیا ہے۔ ایوان بالا سے منظوری کے بعد اس بل کو صدر سے منظور کرایا جائے گا۔ بل میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی مسجد میں تنازع کی صورت میں حکومت مسجد کا منتظم مقرر کرے گی اس طرح مسجد حکومت کی تحویل میں چلی جائے گی اور اندیشہ ہے کہ اس کے بعد مسجد سے صرف سرکاری خطبات سنائی دیں گے۔ پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی محمود اقبال خان نے کہا کہ ماضی میں منبر کا غلط استعمال ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں تحریری یعنی سرکاری خطبوں میں کوئی حرج نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح مساجد کے سیاسی استعمال کو روکا جاسکتا ہے۔
(روزنامہ جسارت 26 اگست 2020ء)
اس خبر سے ہمیں یاد آیا کہ جنرل پرویز کے عہد روشن خیالی میں بھی مساجد کے خطبوں کو سرکاری اور درباری بنانے کی سازش ہوئی تھی مگر مذہبی طبقات کے شدید احتجاج اور مزاحمت کے باعث مساجد کے خطبوں کو ’’قومیانہ‘‘ ممکن نہ ہوسکا۔ اس زمانے میں ہم نے ’’نئی دنیا‘‘ کے عنوان سے ایک نظم تحریر کی تھی۔ مذکورہ بالا خبر پڑھ کر ہمیں یہ نظم یاد آگئی۔ نظم یہ ہے۔
غلامی فلسفہ ہے
بزدلی پر حکمتیں سایہ فگن ہیں
خوف کی انگڑائیوں کا حُسن
خیرہ کررہا ہے جیسے آنکھوں کو
صدائے بے ضمیری
دانش سقراط و افلاطون سے بڑھ کر ہے
اُدھر دیکھو!
شہیدوں نے حماقت کی حدود کو پار کر ڈالا
سُنا ہے
مسجدوں میں اب اماموں کی جگہ
روبوٹس ہوں گے
اور خطیبوں کی جگہ توتے
امیر شہر کی باتیں
تلاوت کے لیے ہوں گی
نئی دنیا کا ہر منظر نیا ہوگا
پرانا پن
بجائے خود سزا ہوگا
اقبال نے کہا ہے
قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
جذبِ باہم جو نہیں محفلِ انجم بھی نہیں
مسلمانوں کی اصل طاقت مذہب ہے اور مذہب کی اصل طاقت یہ ہے کہ اس کی تشریح اور تعبیر پر کوئی سرکاری مہر نہ لگی ہوئی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ امام ابوحنیفہ ہوں یا امام مالک امام حنبل ہوں یا امام غزالی ہمارے علما سرکار اور دربار سے دور رہے ہیں۔ انہوں نے ظلم سہے، صعوبتیں برداشت کیں لیکن جابروں اور آمروں کو مذہب پر سرکاری مہر لگانے کی اجازت نہیں دی۔ اسلام زندہ ہے تو انہی علما کی وجہ سے۔ جہاں تک مسجد کا تعلق ہے تو مسجد مسلمانوں کا سب سے بڑا روحانی مرکز ہے۔ اس مرکز کی آزادی مسلمانوں کی قوت ہے۔ ایک وقت تھا کہ اقتدار اور مسجد باہم مربوط تھے۔ مگر آج مسلم حکمرانوں کا مسجد سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ چناں چہ وہ مسجد کی تقدیس سے بھی آگاہ نہیں۔ مسجد خدا کا گھر ہے اور کوئی مسلمان خدا کے گھر میں ڈاکے ڈالنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ رہے امام اور خطیب تو بدقسمتی سے ہمارے مذہبی طبقات نے ان مناصب کی توقیر کی حفاظت نہیں کی ورنہ امام کا، خطیب کا منصب یہ ہے کہ کبھی رسول اکرمؐ مسجد میں امام اور خطیب تھے۔ کبھی سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا عمرؓ مسجد میں امامت کراتے تھے اور خطبہ دیتے تھے۔ مگر اب امامت اور خطابت صرف ایک ’’پیشہ‘‘ بن کر رہ گئی ہے۔ لیکن جن لوگوں کو اپنی مذہبی روایت کا شعور ہے انہیں معلوم ہے کہ مسجد کے امام اور خطیب کو ’’سرکاری‘‘ اور ’’درباری‘‘ بنانا کتنا بڑا جرم ہے۔ بلاشبہ عرب ممالک میں اماموں اور خطبوں کو سرکاری اور درباری بنالیا گیا ہے لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ عرب معاشرے حقیقی دینی، ملی اور اُمتی شعور سے محروم ہوگئے ہیں۔ مسجد کا بیانیہ اللہ کے گھر کا بیانیہ ہے۔ اس جگہ کا بیانیہ ہے جہاں کبھی رسول اکرمؐ اور خلفائے راشدین حکمت کے موتی لٹایا کرتے تھے۔ چناں چہ جن مسلم حکمرانوں نے مسجد کے بیانیے کو کنٹرول کیا ہے انہوں نے خانہ خدا کی حرمت کو پامال کیا ہے۔ انہوں نے منصب نبوت اور منصب خلافت کی توہین کی ہے۔ جنرل پرویز مشرف ایک لبرل شخص تھا۔ چناں چہ اس نے مسجد کے بیانیے کو کنٹرول کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تو بات سمجھ میں آتی ہے مگر عمران خان تو ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں۔ چناں چہ ان کے دورِ حکومت میں مسجد کے بیانیے کو کنٹرول کرنے کی خواہش اور کوشش ناقابل فہم ہے۔ عمران خان کو معلوم ہونا چاہیے کہ مسجد کے اماموں اور خطیبوں کی آزادی ہماری مذہبی، تہذیبی اور تاریخی روایت کی آزادی ہے۔ اقبال برصغیر کے ’’ملّا‘‘ سے سخت ناراض تھے مگر افغانستان کے ملّا سے بہت خوش تھے۔ اس لیے کہ افغانستان کا ملّا ہر عہد میں آزاد رہا ہے۔ اس نے کبھی کسی کی غلامی کو قبول نہیں کیا۔ افغانستان میں جب تک امن ہوتا ہے ملّا مسجد اور مدرسے میں بروئے کار آتا رہتا ہے لیکن جیسے ہی کوئی دشمن افغانستان میں داخل ہوتا ہے افغانستان کا ملّا ہتھیار اُٹھا کر ایک لمحے میں ’’مجاہد‘‘ بن جاتا ہے۔ چناں چہ اقبال نے کہا ہے۔
افغانیوں کی غیرت دین کا ہے علاج
ملا کو اس کے کوہ و دمن سے نکال دو
یہ افغانستان کے ملّاکی آزادی اور مجاہدانہ روش جس نے پہلے برطانیہ کو شکست دی۔ پھر سوویت یونین کو ہرایا اور اب امریکا کو منہ کے بل گرایا۔ یہ کام سرکاری اور درباری امام اور خطیب نہیں کرسکتے۔
تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی محمد اقبال خان نے زیر بحث مسئلے کے حوالے سے عجیب بات کہی ہے۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ ماضی میں منبر کا غلط استعمال ہوا ہے۔ ضرور ہوا ہوگا۔ لیکن کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ چند اماموں اور چند خطیبوں کی سزا پورے ادارے کو دی جائے۔ ہمارے ملک میں پولیس کیا فوج تک کا غلط استعمال ہوا ہے تو کیا اس بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ملک میں پولیس اور فوج کے ادارے کو نہیں ہونا چاہیے؟ ہم نے جب سے شعور کی آنکھ کھولی ہے قومی اسمبلی کو ہنگامے اور جوتم پیزار کے لیے ہی بروئے کار آتا دیکھا ہے تو کیا اس کے معنی یہ ہیں کہ ملک سے قومی اسمبلی کے وجود کو مٹا دیا جائے؟ محمد اقبال خان نے یہ بھی فرمایا ہے کہ خطبوں کو سرکاری اور درباری بنا کر مساجد کے سیاسی استعمال کو روکا جاسکتا ہے۔ یہ اوّل و آخر ایک سیکولر دلیل ہے۔ مغرب کے سیکولر معاشروں میں مذہب اور سیاست کو ایک دوسرے سے الگ کردیا گیا ہے لیکن اسلام میں دین اور مذہب ایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں۔ چناں چہ مغرب کے تجربے کو کسی مسلم معاشرے میں نہیں دہرایا جاسکتا۔ دیکھا جائے تو مسلم معاشرے میں مسجد سیاست کی نگراں ہے۔ ہماری مساجد کے اماموں اور خطیبوں نے اگر ملک کے حکمرانوں پر تنقید کا حق ادا کیا ہوتا تو پاکستان کی سیاسی تاریخ مختلف ہوتی۔ عمران خان کہتے ہیں کہ وہ کرپٹ سیاست دانوں کے سخت خلاف ہیں۔ لیکن عمران خان نے کبھی اس بات پر غور نہیں کیا کہ ملک میں کرپشن اس لیے آئی کہ کرپٹ لوگوں کے خلاف بروقت رائے عامہ ہموار نہ ہو سکی۔ اگر اس سلسلے میں منبر و محراب سے آواز بلند ہوئی ہوتی تو یا تو کرپٹ لوگ حاکم ہی نہ بن پاتے یا حاکم بن بھی جاتے تو ان کا اقتدار طویل نہ ہوتا۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ حکمرانوں کا ایک تصور قوم ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے فوجی اور سول حکمرانوں کا تصور قوم یہ ہے کہ قوم کو بونوں بلکہ بالشتیوں پر مشتمل ہونا چاہیے۔ ان کے پاس نہ دل ہو نہ دماغ ہو۔ چناں چہ حکمران جو بھی کہیں عوام اسے من و عن قبول کرلیں۔ عوام کیا دانش ور، صحافی اور مسجدوں کے امام اور خطیب بھی وہی کچھ کہیں جو حکمرانوں کی زبان پر ہے۔ جیسا کہ صاف ظاہر ہے یہ ایک پست تصور ہے اور اس تصور کے دائرے میں حکمران آقا ہیں اور پوری قوم ان کی غلام۔ حکمرانوں میں شرم ہوتی تو اس تصور قوم پر وہ شرم سے کہیں ڈوب مرتے۔