مسلم دنیا میں موجود سیکولر ذہن کئی معذوریوں کا شکار ہے۔ وہ جب کلام کرتا ہے جھوٹ بولتا ہے۔ جھوٹ نہیں بولتا تو فریب دیتا ہے۔ فریب نہیں دیتا تو حقائق کو مسخ کرتا ہے۔ جھوٹ مسلم دنیا کے سیکولر ذہن کی تلوار ہے۔ فریب مسلم دنیا کے سیکولر ذہن کی ڈھال ہے۔ حقائق کا مثلہ مسلم دنیا کے سیکولر ذہن کا نیزہ ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ مسلم دنیا کا سیکولر ذہن جھوٹ کیوں بولتا ہے؟ فریب کیوں دیتا ہے؟ حقائق کو مسخ کیوں کرتا ہے؟ ان سوالوں کا جواب یہ ہے کہ مسلم دنیا کا سیکولر ذہن نہ اسلام کے ساتھ ہے، نہ اسلامی تہذیب کے ساتھ ہے، نہ اسلامی تاریخ کے ساتھ ہے، نہ اسلامی اقدار کے ساتھ ہے، وہ ان تمام چیزوں کے خلاف بغاوت کرتا ہے اور اس کے باغیانہ عمل سے جھوٹ، فریب اور حقائق کا مثلہ برآمد ہوتا ہے۔ مسلم دنیا کے سیکولر ذہن کی ان ’’خوبیوں‘‘ کا اشتہار حال ہی میں روزنامہ ڈان کراچی میں شائع ہوا ہے۔ اس اشتہار کے خالق سابق آئی جی پولیس طارق کھوسہ ہیں۔ طارق کھوسہ گاہے گاہے روزنامہ ڈان کے لیے لکھتے ہیں۔ طارق کھوسہ کے ڈان میں شائع ہونے والے مضمون کا عنوان ہے۔
“Jinnah’s Pakistan Needed”
اس مضمون میں طارق کھوسہ نے جھوٹ بھی بولا ہے۔ فریب سے بھی کام لیا ہے اور حقائق کو مسخ بھی کیا ہے۔
طارق کھوسہ کا جھوٹ یہ ہے کہ قائد اعظم نے 11 ستمبر 1947ء کو قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا۔
“We Shall not be an Islamic State, but a liberal democratic muslim State”
ترجمہ: ’’ہم ایک اسلامی ریاست نہیں بلکہ ایک لبرل، جمہوری مسلم ریاست ہوں گے‘‘۔ (روزنامہ ڈان 4 جولائی 2020ء)
حقیقت یہ ہے کہ قائد اعظم کی تقریر میں یہ الفاظ سرے سے موجود ہی نہیں۔ قائد اعظم نے کبھی اپنی تقریروں یا بیانات میں سیکولر ازم یا لبرل ازم کی اصطلاح استعمال ہی نہیں کی۔ قائد اعظم نے صاف کہا ہے کہ پاکستان ایک Premier Islamic State ہوگی۔ انہوں نے کہا ہے کہ پاکستان کو دستور بنانے کی ضرورت نہیں کیوں کہ ہمارا دستور قرآن ہوگا۔ انہوں نے فرمایا کہ پاکستان اسلام کی تجربہ گاہ ہوگا۔ انہوں نے ارشاد کیا ہے کہ پاکستان اسلام کی نشاط ثانیہ کا مرکز ہوگا۔ ظاہر ہے یہ باتیں کہنے والا کبھی بھی پاکستان کو ’’لبرل ریاست‘‘ بنانے کا اعلان نہیں کرسکتا۔ سیکولر اور لبرل لوگوں میں جھوٹ بولنے کی عادت اتنی عام ہے کہ شاید ہی کوئی سیکولر اور لبرل جھوٹ بولنے سے بچا ہوا ہو۔ جسٹس منیر پاکستان کی تاریخ کا ایک بدنام کردار ہیں۔ موصوف سیکولر اور لبرل تھے اور انہوں نے اپنی تصنیف میں قائد اعظم کی 11 اگست کی تقریر کوٹ کی ہوئی ہے۔ معروف محقق سلینا کریم نے یہ تقریر پڑھی تو اس میں انہیں گرامر کی ایک غلطی نظر آئی۔ سلینا کریم نے سوچا قائد اعظم بہرحال گرامر کی غلطی نہیں کرسکتے۔ چناں چہ انہوں نے قائد اعظم کی تقریر کا اصل مسودہ دیکھا تو ان پر انکشاف ہوا کہ قائد اعظم نے وہ فقرے کہے ہی نہیں جو جسٹس منیر نے قائد اعظم سے منسوب کیے ہوئے ہیں۔ ابھی کچھ عرصے پہلے معروف سیکولر اور لبرل دانش ور پرویز ہود بھوئے نے اپنے ڈان میں شائع ہونے والے کالم میں دعویٰ کیا کہ مذہب اور سیاست کی یکجائی کا تصور اقبال اور مولانا مودودی کی اختراع ہے۔ پرانے زمانے کے علما اور دانش وروں بالخصوص ابن خلدون مذہب اور سیاست کی علیحدگی کے قائل تھے۔ ہم نے ابن خلدون کا مقدمہ دیکھا تو معلوم ہوا کہ پرویز ہود بھوئے نے جھوٹ بولا ہوا ہے۔ ابن خلدون مذہب اور سیاست کی یکجائی کے اسی طرح قائل تھے جیسے اقبال اور مولانا مودودی تھے۔ اب طارق کھوسہ نے قائد اعظم کے حوالے سے جھوٹ گھڑا ہے۔
طارق کھوسہ نے اپنے مضمون میں یہ بھی فرمایا ہے کہ دو قومی نظریے کی ایک مذہبی تعبیر ہے اور ایک سیاسی تعبیر ہے۔ یہ جھوٹ بھی ہے، فریب بھی اور حقائق کو مسخ کرنے کا عمل بھی۔ اس لیے کہ دو قومی نظریہ اوّل و آخر صرف ایک مذہبی حقیقت ہے۔ دو قومی نظریے کی سیاست بھی سرتاپا مذہبی سیاست ہے۔ گاندھی اور نہرو اور ان کی جماعت انڈین نیشنل کانگریس ہندوئوں اور مسلمانوں کو ایک قوم کہتے تھے۔ خود قائد اعظم بھی ایک زمانے میں ایک قومی نظریے کے قائل تھے مگر بالآخر دو قومی نظریہ قائد اعظم کا تشخص بن کر اُبھرا۔ قائد اعظم نے صاف کہا ہے کہ مسلمان ہر اعتبار سے ہندوئوں سے مختلف ہیں۔ ان کا مذہب الگ ہے، تہذیب جدا ہے، تاریخ مختلف ہے، ان کے قوانین اور ہیروز مختلف ہیں۔ قائد اعظم کا یہ بیان اس اعتبار سے اہم ہے کہ مسلمانوں کی تہذیب، تاریخ، اقدار، قوانین، غرضیکہ ہر چیز مذہب سے نمودار ہوئی ہے۔ مسلمانوں کو ہندوئوں کے غلبے کا خوف صرف اس لیے نہیں تھا کہ ہندو مسلمانوں سے ان کی معاش چھین لیں گے بلکہ اس لیے تھا کہ مسلمان متحدہ ہندوستان میں اپنے مذہب کے تمام تقاضوں کو پورا نہیں کرسکیں گے۔ وہ قرآن کو متحدہ ہندوستان میں اپنا دستور حیات بنائیں گے تو یہ ممکن نہ ہوگا۔ وہ اپنی تعلیم کو مذہبی تناظر فراہم کرنا چاہیں گے تو متحدہ ہندوستان میں اس کی گنجائش نہیں ہوگی۔ وہ قرآن و سنت کے مطابق عدل کرنا چاہیں گے تو متحدہ ہندوستان میں یہ بھی ممکن نہ ہوگا۔ چناں چہ طارق کھوسہ کی یہ بات سو فی صد جھوٹ اور فریب ہے کہ دو قومی نظریے کی ایک مذہبی تعبیر تھی اور ایک سیاسی تعبیر تھی اور ان دونوں میں کوئی تعلق نہ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ دوقومی نظریہ اسلام تھا۔ صرف اسلام، ورنہ دو قومی نظریے کے ظہور کے زمانے میں قوم اور قومیت کا تعین جغرافیے، نسل اور زبان سے ہوتا تھا لیکن دو قومی نظریے نے اعلان کیا کہ مسلمان اپنے مذہب اور اس سے پیدا ہونے والی تہذیب اور تاریخ کی بنیاد پر ہندوئوں سے مختلف ہیں۔ یہاں طارق کھوسہ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ مسلمانوں کی ہر چیز اسلام ہے۔ مسلمانوں کا دین انہیں بتاتا ہے کہ یہ سورج، چاند، ستارے، شجر اور حجر تک اپنے خالق کو پہچانتے ہیں اور اسے سجدہ کرتے ہیں۔ چناں چہ مسلمانوں کی سیاست بھی ہر صورت میں مذہبی ہوگی اور جو سیاست مذہبی نہیں ہوگی اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہ ہوگا۔
طارق کھوسہ نے اپنے مضمون میں یہ بھی فرمایا ہے کہ پہلے علما نے تخلیق پاکستان کی مخالفت کی مگر جب پاکستان بن گیا تو قرار داد مقاصد کے ذریعے پاکستان کو اسلامی بنانے کی کوشش کی۔ حقیقت یہ ہے کہ صرف چند علما نے قیام پاکستان کی مخالفت کی اور قومیت کو اوطان سے وابستہ کیا لیکن علما کی عظیم اکثریت نے مطالبہ پاکستان کی حمایت کی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ پاکستان کا مطالبہ اسلام کے نام پر کیا جارہا تھا اور بظاہر پاکستان کو ایک عظیم الشان اسلامی ریاست میں ڈھلنا تھا۔ چناں چہ علما کس طرح پاکستان کے قیام کی مخالفت کرسکتے تھے۔ مولانا حسین احمد مدنی نے بلاشبہ ابتدا میں پاکستان کے قیام کی مخالفت کی مگر علامہ شبیر احمد عثمانی جیسے مفسر قرآن نے تحریک پاکستان میں بھرپور کردار ادا کیا۔ خود مولانا حسین احمد مدنی نے پاکستان کے قیام کے بعد یہ کہا کہ جب تک مسجد بن نہیں جاتی اس کے بارے میں ایک سے زیادہ آرا ہوسکتی ہیں مگر جب مسجد بن گئی تو پھر اس کے سلسلے میں کوئی اختلاف باقی نہیں رہتا۔ جہاں تک قرارداد مقاصد کا تعلق ہے تو بلاشبہ اس سلسلے میں علما کی بڑی خدمات ہیں مگر اصولی اعتبار سے خود ریاست پاکستان قرار داد مقاصد کی پشت پر موجود تھی۔ اس سلسلے میں پاکستان کے پہلے وزیراعظم اور قائد اعظم کے قریب ترین ساتھی لیاقت علی خان نے اہم کردار ادا کیا اور کیوں نہ کرتے پاکستان قائم ہی اسلام کے نام پر ہوا ہے۔ اسلام نہ ہوتا تو طارق کھوسہ کا ’’سیاسی پاکستان‘‘ بھی نہ ہوتا۔
طارق کھوسہ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ قائد اعظم پاکستان کو ’’Theocracy‘‘ نہیں بنانا چاہتے۔ تھیوکریسی عیسائیت کی اصطلاح ہے اور اس کا مطلب پوپ یا پادریوں کی حکومت ہے۔ چوں کہ اسلام میں کوئی پوپ نہیں ہے اس لیے کوئی بھی اسلامی ریاست کسی پوپ کی ملکیت نہیں ہوسکتی۔ مگر Theo کا ایک مفہوم خدا ہے اس اعتبار سے ’’Theocracy‘‘ کا مطلب ہے ’’خدا مرکز ریاست‘‘ چوں کہ اسلام میں مقتدر اعلیٰ صرف خدا ہے اس لیے ہر اسلامی ریاست ’’خدا مرکز ریاست‘‘ ہے خود پاکستان کا آئین کہتا ہے کہ پاکستان میں قرآن و سنت سے متضاد قانون نہیں بن سکتا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ کم از کم آئینی اعتبار سے پاکستان ایک ’’خدا مرکز ریاست‘‘ ہے۔
طارق کھوسہ نے حسین شہید سہروردی کے حوالے سے یہ بات بھی کہی ہے کہ ایک مذہبی ریاست میں نہ برداشت ہوسکتی ہے نہ مساوات اور نہ بھائی چارہ۔ طارق کھوسہ کی یہ بات بھی جھوٹ اور فریب ہے۔ رسول اکرمؐ اور خلفائے راشدین کی ریاست مدینہ میں برداشت بھی غیر معمولی تھی۔ مساوات بھی لاجواب تھی اور بھائی چارہ بھی غیر معمولی تھا۔ کیا مسلم اسپین میں عیسائی اور یہودی ترقی نہیں کررہے تھے۔ کیا وہ ہر دائرے میں مسلمانوں کے ہم پلّہ نہ تھے اور کیا مسلمانوں کا عیسائیوں اور یہودیوں نے قریبی رابطہ نہ تھا؟ البتہ جدید زمانے کی تمام سیکولر ریاستیں عدم برداشت اور عدم مساوات کی علامت بنی ہوئی ہیں۔ کیا امریکا میں مسلمان اور سیاہ فام سفید فاموں کے غیظ و غضب کا نشانہ نہیں بن رہے؟ کیا سیکولر ہندوستان اور سیکولر اسرائیل مسلمانوں کو کچل نہیں رہا؟ فرانس یورپ کا سب سے زیادہ سیکولر اور لبرل ملک ہے۔ فرانس میں مسلمان آبادی کا دس فی صد ہیں مگر بلدیاتی، صوبائی اور قومی سطح پر ان کی سیاسی نمائندگی صفر ہے۔ فرانس کے مسلمانوں میں بیروزگاری کی شرح قومی شرح سے دوگنا زیادہ ہے۔ مگر مسلم دنیا کے سیکولر اور لبرل ذہن کو یہ حقائق نظر ہی نہیں آتے۔