محاورے کی رو سے ان دنوں کراچی کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑھائی میں ہے۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ میاں شہباز شریف نے کراچی پہ ڈیڑھ دو منٹ گفتگو کے لیے وقت نکالا۔ پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نہ صرف یہ کہ دو دن کے لیے کراچی کے دورے پر تشریف لائے بلکہ انہوں نے شہری سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا فضائی جائزہ بھی لیا۔ عمران خان بہ نفس نفیس کراچی آئے اور کراچی کے لیے ایک پیکیج کا اعلان فرمایا۔ جہاں تک جنرل باجوہ کا تعلق ہے تو انہوں نے صرف کراچی کے لیے دو روز ہی صرف نہیں کیے بلکہ انہوں نے آفت زدہ کراچی کے حوالے سے تجزیہ بھی پیش فرمایا۔ جنرل صاحب نے فرمایا کہ کوئی شہر قدرتی آفت کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ وسائل کا نہیں ترجیحات کا ہے۔ انہوں نے شہری انتظامیہ سے کہا کہ وہ ایسی آفات سے بچنے کے لیے ترجیحات کا تعین کرے۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ قوم کو ضرورت کے وقت مایوس نہیں کریں گے۔ بلاشبہ جنرل باجوہ نے اکثر باتیں ٹھیک کہی ہیں مگر ان کا یہ تجزیہ درست نہیں کہ کوئی شہر ایسی قدرتی آفت کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ جنرل باجوہ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ کراچی کو جتنی آفات کا سامنا ہے ان میں سے کوئی آفت بھی قدرتی نہیں۔ یہ تمام آفات ’’انسانی ساختہ‘‘ یا ’’Man Made‘‘ ہیں۔
رسول اکرمؐ کا یہ ارشاد مبارک ہر پڑھے لکھے مسلمان کے علم میں ہے کہ اپنے شہروں کو ایک حد سے زیادہ نہ پھیلنے دو۔ شہر حد سے زیادہ پھیلنے لگے تو دوسرا شہر آباد کرو۔ اس کا سبب یہ ہے کہ شہر ایک حد سے زیادہ پھیل جائے تو پھر اس پر قابو رکھنا ناممکن ہوجاتا ہے۔ یوں تو پاکستان کے تمام شہر ہی پھیلے ہیں مگر کراچی جس طرح پھیلا ہے اس کی کوئی دوسری مثال موجود نہیں۔ قیام پاکستان کے وقت کراچی کی آبادی 10 لاکھ سے کم تھی لیکن آج کراچی کی آبادی کسی طرح بھی 3 کروڑ سے کم نہیں۔ کراچی کا یہ پھیلائو ’’قدرتی آفت‘‘ نہیں ’’انسانی ساختہ آفت‘‘ ہے۔ پاکستان کے سول اور فوجی حکمران چاہتے تو کراچی کو ایک حد سے زیادہ پھیلنے سے روک سکتے تھے مگر جنرل ایوب سے عمران خان تک کسی نے اس جانب توجہ نہ دی۔ خیر کراچی پھیل رہا تھا تو بھلے سے پھیل جاتا مگر اس کے پیچھے کوئی منصوبہ بندی تو ہوتی۔ ہر شہر کی طرح کراچی کا بھی ایک ماسٹر پلان تھا مگر اس ماسٹر پلان پر کبھی عمل نہ ہوسکا۔ یہ بھی ’’قدرتی آفت‘‘ نہیں۔ یہ بھی ’’انسانی ساختہ آفت‘‘ ہے۔
کراچی میں شہری سیلاب یا urban flooding کی صورت حال زیادہ بارش سے پیدا نہیں ہوئی بلکہ اس لیے پیدا ہوئی کہ کراچی میں نکاسی آب کا کوئی مناسب بندوبست ہی نہیں۔ ہندوستان کے علاقے پانڈے چیری میں دنیا کے کسی بھی علاقے سے زیادہ بارش ہوتی ہے مگر پانڈے چیری میں آج تک سیلابی صورت پیدا نہیں ہوئی۔ اس لیے کہ وہاں نکاسی آب کا مناسب بندوبست ہے۔ کراچی کا قصہ یہ ہے کہ یہاں درجنوں نالے ہیں مگر تمام نالے کچرے سے بھرے ہوئے ہیں اور انہیں تجاوزات نے نالا نہیں رہنے دیا۔ سوال یہ ہے کہ کراچی کے نالے اگر کچرے سے بھرے ہوئے ہیں اور ان پر تجاوزات قائم ہیں تو کیا یہ ’’قدرتی آفت‘‘ ہے؟ یا یہ ’’انسانی ساختہ‘‘ صورت حال ہے۔ پاکستان بالخصوص سندھ علی الخصوص کراچی کے حکمران چاہتے تو نالوں پر تجاوزات قائم نہ ہونے دیتے اور نالوں کو کچرے سے نہ بھرنے دیتے مگر فوجی آمر ہوں یا نواز لیگ، پیپلز پارٹی ہو یا ایم کیو ایم کسی نے اس جانب توجہ نہ دی۔
عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق کراچی میں روزانہ 12 ہزار ٹن کچرا پیدا ہوتا ہے۔ ایکسپریس ٹربیون کی ایک خبر کے مطابق کراچی میں 14 سے 16 ہزار ٹن کچرا پیدا ہوتا ہے۔ اس میں سے آدھا کچرا اُٹھایا ہی نہیں جاتا۔ چناں چہ یہ کچرا نالوں اور نکاسی آب کے نظام کو متاثر کرتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر برسوں سے کراچی کا کچرا ٹھکانے نہیں لگایا جارہا تو کیا یہ کوئی ’’قدرتی آفت‘‘ ہے یا یہ ’’انسانی ساختہ‘‘ آفت ہے؟۔ کراچی میں شہری سیلاب کی صورت حال پیدا ہوئی تو معلوم ہوا کہ کراچی کے پوش علاقے DHA میں نکاسی آب کا نظام سرے سے موجود نہیں۔ شہری سیلاب سے نیا ناظم آباد کا بھی بڑا حصہ بارہ بارہ فٹ پانی میں ڈوب گیا۔ معلوم ہوا کہ نیا ناظم آباد کے بنانے والوں نے بھی اس پروجیکٹ میں نکاسی آب کا بندوبست نہیں کیا۔ سوال یہ ہے کہ جب یہ علاقے تعمیر ہورہے تھے تو حکمرانوں نے اس بات کو یقینی کیوں نہیں بنایا کہ ان علاقوں میں نکاسی آب کا مناسب نظام موجود ہو۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ صورت حال بھی قدرتی آفت ہے؟ نہیں جنرل صاحب یہ انسانی ساختہ آفت ہے۔
کراچی کی ایک ’’آفت‘‘ قلت آب کا مسئلہ ہے۔ کراچی کو روزانہ 12 سو ملین گیلن پانی درکار ہے مگر شہر کو صرف 650 ملین گیلن پانی فراہم ہورہا ہے۔ یہ صورت حال ’’راز‘‘ نہیں۔ اس بات کا علم جنرل پرویز مشرف کو بھی تھا، میاں نواز شریف کو بھی تھا، بے نظیر کو بھی، بلاول زرداری کو بھی، الطاف حسین اور ان کی ایم کیو ایم بھی یہ بات جانتی ہے مگر کسی نے بھی کراچی کو قلت آب کے مسئلے سے نجات دلانے کی کوشش نہیں کی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو قلت آب بھی کوئی ’’قدرتی آفت‘‘ نہیں بلکہ یہ بھی ایک ’’انسانی ساختہ‘‘ آفت ہے۔
کراچی کی آبادی ڈھائی سے تین کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ مگر کراچی میں ٹرانسپورٹ کی سہولتیں 50 لاکھ لوگوں کے لیے بھی کفایت نہیں کرتیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ نہ کراچی میں ریل کا زیر زمین نظام موجود ہے، نہ سرکلر ریلوے کام کررہی ہے، نہ شہر میں بڑی بسوں کا کوئی بیڑہ موجود ہے۔ یہ صورت حال بھی کسی قدرتی آفت کے نتیجے میں رونما نہیں ہوئی بلکہ یہ صورت حال بھی سراسر انسانی ساختہ ہے۔
اس بات پر پورے ملک میں کامل اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ کراچی کی تباہی میں ایم کیو ایم نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ اس نے شہر کو دہشت گردی کا تحفہ دیا ہے، بوری بند لاشوں کے کلچر سے نوازا ہے، چائنا کٹنگ بھی ایم کیو ایم کی ’’ایجاد‘‘ ہے۔ ایم کیو ایم بلدیاتی سطح سے صوبائی سطح تک اور صوبائی سطح سے وفاقی سطح تک ہمیشہ اقتدار میں رہی ہے مگر اس نے کراچی کو کچھ نہ دیا۔ چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد نے چند روز پیش تر ہی کہا ہے کہ وسیم اختر چار سال تک کراچی کے میئر رہے مگر انہوں نے چار برسوں میں ایک نالی تک نہیں بنوائی۔ حالاں کہ اس وقت بھی بلدیہ کراچی کا بجٹ بیس پچیس ارب ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ایم کیو ایم کس نے بنائی؟ اسے کس نے شہر پر مسلط کیا اور مسلط کیے ہی رکھا۔ بلاشبہ الطاف حسین اور ایم کیو ایم سے بڑی آفت کراچی کو کبھی لاحق نہیں ہوئی مگر ایم کیو ایم جنرل ضیا الحق کی تخلیق ہے۔ آج بھی ایم کیو ایم کے تمام دھڑے ایجنسیوں کے زیر اثر ہیں۔ مصطفی کمال الطاف حسین کے جرائم میں برابر کے شریک ہیں مگر ریاستی اداروں سے انہیں ’’مسٹر کلین‘‘ بنا کر کھڑا کردیا ہے۔ مثل مشہور ہے سو چوہے کھا کر بلی حج کو چلی۔ مصطفی کمال کے چوہوں کی تعداد تو ہزاروں میں ہوگی۔ سوال یہ ہے کہ کراچی کو لاحق ایم کیو ایم کی آفت ’’قدرتی‘‘ ہے یا ’’انسانی ساختہ‘‘؟۔
کراچی کے حوالے سے بلاول زرداری کے مشہور زمانہ فقرے ہیں۔ بارش ہوتی ہے تو پانی آتا ہے۔ زیادہ بارش ہوتی ہے تو زیادہ پانی آتا ہے۔ یعنی اگر زیادہ بارش سے کراچی ڈوبتا ہے تو پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت اس کی ذمے دار نہیں۔ اب جنرل باجوہ نے بھی کراچی کی سیلابی صورت حال کو قدرتی آفت قرار دے دیا ہے اور فرمایا ہے کہ ایسی قدرتی آفت کا مقابلہ کوئی شہر نہیں کرسکتا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو کراچی کے حوالے سے بلاول زرداری اور جنرل باجوہ ایک ہی پیج پر کھڑے ہیں۔