جاوید چودھری ملک کے اہم کالم نگار ہیں مگر بدقسمتی سے ان کے بیش تر کالموں میں کوئی نہ کوئی قابل اعتراض بات ہوتی ہے۔ لیکن کبھی کبھی وہ تمام حدود پھلانگ جاتے ہیں۔ مثلاً انہوں نے اپنے ایک حالیہ کالم میں ایمان کو بے توقیر کر ڈالا ہے۔ جاوید چودھری کے بقول عیسائی دنیا اور اسرائیل سے مقابلے کے سلسلے میں ایمان ہماری کوئی خاص مدد نہیں کرسکتا۔ جاوید چودھری کا اصل فقرہ یہ ہے کہ طاقت کے لیے صرف ایمان کافی نہیں ہوتا۔ یعنی معاذ اللہ مسلمان کمزور ہیں تو ان کا خدا بھی کمزور ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ عیسائی دنیا سے مقابلے کے لیے ہمیں ایمانداری، علم، سسٹم، معیشت اور قوت بازو کی ضرورت ہے۔ جاوید چودھری کے مطابق جب تک ہمارا ہر بچہ ڈرون بنانے اور اڑانے کا ماہر نہیں بنے گا بات نہیں بنے گی۔ جاوید چودھری نے لکھا ہے کہ مسلمان آکسفورڈ اور ہاروڈ جیسی سو یونیورسٹیاں بنالیں پھر دیکھیں کیا ہوتا ہے؟۔ (روزنامہ ایکسپریس 3 ستمبر 2020ء)
یہ حقیقت راز نہیں کہ مسلمانوں کی تہذیب اور تاریخ کی ساری عظمت ایمان میں ہے۔ اقبال نے کہا ہے۔
ولایت، پادشاہی، علمِ اشیا کی جہانگیری
یہ سب کیا ہیں فقط اک نکتۂ ایماں کی تفسیریں
اقبال کہہ رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اگر کسی کو اپنا ولی یا اپنا دوست بناتا ہے تو اس کے رنگ اور نسل کی وجہ سے نہیں اس کی دولت اور طاقت کی وجہ سے نہیں صرف اس کے ایمان کی وجہ سے۔ اقبال کے مطابق اگر خدا کسی کو اقتدار بخشتا ہے تو اس کے خاندان، اس کے بینک بیلنس، اس کی معیشت اور فوجی طاقت کی وجہ سے نہیں صرف اس کے ایمان کی وجہ سے۔ اگر باری تعالیٰ کسی کو اشیا کے علم سے نوازتا ہے تو صرف اس کے ایمان کی بدولت۔ مگر جاوید چودھری کا کہنا ہے کہ عیسائی دنیا اور اسرائیل کے مقابلے کے لیے ایمان کافی نہیں۔ اقبال کا ایک اور شعر یاد آگیا۔ اقبال نے کہا ہے۔
خرد نے کہہ بھی دیا لاالٰہ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
بیچارے جاوید چودھری کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ زبان سے کہے گئے لاالٰہ کو ایمان سمجھتے ہیں۔ اسلام میں زبان سے کیے گئے اقرار کی بڑی اہمیت ہے مگر اسلام چاہتا ہے کہ لاالٰہ الا اللہ صرف زبان پر جاری نہ ہو۔ اسے ہمارے قلب، ہماری فکر، ہمارے جذبات، احساسات غرضیکہ پورے وجود میں سرائیت کرجانا چاہیے۔ اس کے بغیر ہمارے دل و نگاہ مسلماں نہیں بن سکتے اور جب تک ہمارے دل و نگاہ مسلماں نہ بنیں اس وقت تک لاالٰہ الااللہ سے تعلق کے تقاضے پورے نہیں ہوسکتے۔ اقبال کا ایک اور شعر ہے۔
ثباتِ زندگی ایمانِ محکم سے ہے دنیا میں
کہ المانی سے بھی پائندہ تر نکلا ہے تورانی
اقبال کہہ رہے ہیں کہ زندگی کا سارا ثبات، ساری پائیداری، ساری استواری محکم ایمان سے ہے۔ ایمان محکم نہ ہو تو زندگی تغیرات کا کھیل بن کر رہ جاتی ہے اور اس کا سارا حسن جمال اور ساری معنویت فنا ہوجاتی ہے۔ اقبال کبھی کبھی ’’یقین‘‘ کا لفظ بھی ایمان کے معنوں میں استعمال کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں۔
یقیں افراد کا سرمایۂ تعمیر ملت ہے
یہی قوت ہے جو صورت گرِ تقدیرِ ملت ہے
اقبال کے مطابق ایمان کے بغیر نہ ملت کی تعمیر ہو سکتی ہے نہ ملت کی تقدیر کی صورت گری ہوسکتی ہے مگر جاوید چودھری فرماتے ہیں کہ طاقت کے مقابلے کے لیے صرف ایمان کافی نہیں۔ اقبال کا ایک اور شعر یاد آگیا۔
تو اے مولائے یثرب آپ میری چارہ سازی کر
مری دانش ہے افرنگی مرا ایماں ہے زُنّاری
اقبال نے اس شعر میں رسول ِ اکرمؐ کو مدد کے لیے پوری قوت، شدت اور اخلاص کے ساتھ پکارا ہے۔ اقبال کے بقول وہ دو بڑی خرابیوں سے دوچار ہیں۔ ان کا ایمان ہندوانہ ہے اور ان کی دانش مغربی ہے۔ اور جس کے ایمان اور علم میں خرابی ہو اس کی زندگی اکارت ہے۔ اقبال نے ایمان اور اس سے پیدا ہونے والے سجدے کی طاقت کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے۔
وہ سجدہ، روحِ زمیں جس سے کانپ جاتی تھی
اُسی کو آج ترستے ہیں منبر و محراب
یہاں پہنچ کر اقبال کی ایک نظم کفر و اسلام یاد آگئی۔ اس کے چند اشعار یہ ہیں۔
ایک دن اقبال نے پوچھا کلیمِ طور سے
اے کہ تیرے نقشِ پا سے وادیِ سینا چمن
آتشِ نمرود ہے اب تک جہاں میں شُعلہ ریز
ہو گیا آنکھوں سے پنہاں کیوں ترا سوزِ کُہن
تھا جوابِ صاحبِ سینا کہ مسلم ہے اگر
چھوڑ کر غائب کو تُو حاضر کا شیدائی نہ بن
ذوقِ حاضر ہے تو پھر لازم ہے ایمانِ خلیلؑ
ورنہ خاکستر ہے تیری زندگی کا پیرہن
اقبال کہہ رہے ہیں کہ ایک دن میں نے سیدنا موسیٰؑ سے پوچھا کہ آتش ِ نمرود اب تک کیوں بھڑکی ہوئی ہے۔ اور اب سوز آنکھوں سے کیوں اوجھل ہوگیا ہے۔ اس کے جواب میں سیدنا موسیٰؑ نے فرمایا کہ اگر تو مسلمان ہے تو غائب یعنی خدا کو چھوڑ کر حاضر یعنی دنیا کا دیوانہ نہ بن اور اگر تجھے حاضر کا ذوق لاحق ہے تو پھر تیرے ایمان کو سیدنا ابراہیمؑ کے ایمان کی طرح ہونا چاہیے ورنہ تیری زندگی برباد ہوجائے گی۔ اقبال یہ فرمارہے ہیں اور جاوید چودھری غائب یعنی خدا پر ایمان کو ناکافی قرار دے رہے ہیں اور مسلمانوں کو ’’حاضر‘‘ کا ’’عاشق‘‘ بنانے پر تُلے ہوئے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں اصل چیز تو طاقت، معیشت اور سسٹم ہے۔ یہ لیجیے پھر اقبال یاد آگئے۔ فرماتے ہیں۔
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسا
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
اس شعر کی روشنی میں تو جاوید چودھری بھی کسی کافر سے کم نہیں۔ ایک بار پھر لاحول ولاقوۃ۔
جیسا کہ ظاہر ہے اب تک کی گفتگو ایک طرح کی ’’نظری بحث‘‘ تھی۔ چناں چہ اب نظری گفتگو سے آگے بڑھ کر تاریخ پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ غزوئہ بدر میں رسول اکرمؐ 313 صحابہ کرام کو لے کر ایک ہزار کے لشکر جرار کے مقابل کھڑے ہوگئے۔ مسلمانوں کے پاس اس وقت تک نہ معیشت تھی، نہ کوئی سسٹم تھا، نہ کوئی عسکری طاقت تھی، مسلمانوں کے پاس ایک گھوڑا اور چند اونٹ تھے۔ 313 کے لشکر میں شامل اکثر لوگوں کے پاس نہ تلوار تھی، نہ ڈھال، نہ زرہ بکتر۔ مگر اس لشکر کے پاس ایسا ایمان تھا کہ تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ چناں چہ 313 نے ایک ہزار کے لشکر کو مار گرایا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کی فتح میں آسمانی مدد کا بھی دخل تھا۔ بیشک تھا مگر یہ آسمانی مدد بھی نبی اکرمؐ اور صحابہ کرامؓ کے ایمان کا حاصل تھی۔ اعلیٰ ترین درجے کا ایمان نہ ہوتا تو آسمانی مدد بھی فراہم نہ ہوئی ہوتی۔ لیکن یہ معجزہ اسلامی تاریخ میں صرف ایک بار نہیں ہوا۔ بار بار ہوا۔ سیدنا عمرؓ کے عہد میں مسلمانوں نے وقت کی دو سپر پاورز کو مار گرایا۔ اس وقت بھی مسلمانوں کے پاس نہ کوئی سائنس تھی، نہ کوئی ٹیکنالوجی تھی، نہ کوئی معیشت تھی اور اگر کچھ معیشت تھی بھی تو اس کا مسلمانوں کی فتح میں کوئی کردار نہ تھا۔ مسلمانوں کی فتح صرف اور صرف ان کے ایمان اور ان کے اسلام کا حاصل تھی۔ سیدنا عمرؓ کے زمانے میں فتوحات بہت کثرت سے ہوئیں۔ مسلمانوں کی فوج کے سپہ سالار اس وقت خالد بن ولید تھے۔ سیدنا عمرؓ نے اچانک خالد بن ولید کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا۔ لوگوں نے اس کی وجہ پوچھی تو سیدنا عمرؓ نے کہا کہ مسلمانوں کو فتوحات خالد کی وجہ سے نہیں اسلام کی وجہ سے حاصل ہوئی ہیں۔ اقبال نے بالکل ٹھیک کہا ہے۔
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذتِ آشنائی
جاوید چودھری کو کیا معلوم کہ جب کوئی خدا کا ہوجاتا ہے تو اس سے زیادہ طاقت ور کوئی نہیں ہوتا۔
بہت سے لوگ سمجھتے تھے کہ رسول اکرمؐ عہد خلافت میں جو کچھ ہوا وہ انہی زمانوں کے لیے تھا۔ عہد حاضر میں ہمارا ماضی خود کو دہرا نہیں سکے گا۔ لیکن اسلام ایک دائمی حقیقت ہے۔ ہر زمانہ اسلام کا زمانہ ہے۔ چناں چہ ہم نے دیکھا کہ افغانستان میں مجاہدین نے وقت کی دو سپر پاورز میں سے ایک سپر پاور یعنی سوویت یونین کو منہ کے بل گرادیا۔ سوویت یونین کو افغانستان میں شکست ہوئی تو اسلام دشمنوں نے یہ دلیل گھڑی کہ یہ اسلام یا مجاہدین کی فتح تھوڑی ہے۔ یہ تو امریکا اور یورپ کی فتح ہے۔ امریکا اور یورپ مجاہدین کی مدد نہ کرتے تو انہیں کبھی سوویت یونین پر غلبہ حاصل نہ ہوتا۔ لیکن یہ ایک بودی اور لایعنی دلیل تھی۔ چناں چہ نائن الیون کے بعد افغانستان میں تاریخ نے خود کو ایک بار پھر دہرایا۔ اس بار افغانستان میں مجاہدین کا مقابلہ وقت کی واحد سپر پاور امریکا اور اس کے اتحادیوں سے تھا۔ امریکا اور مجاہدین کی طاقت میں کوئی توازن ہی نہ تھا۔ سیاسی دائرے میں مجاہدین اور امریکا کی طاقت میں ایک اور ایک لاکھ کا فرق تھا۔ معاشی میدان میں مجاہدین کی طاقت ایک کے برابر تھی اور امریکا کی طاقت ایک کروڑ کے برابر۔ عسکری دائرے میں مجاہدین اور امریکا کی طاقت میں ایک اور ایک ارب کی نسبت تھی مگر مجاہدین نے اس کے باوجود امریکا کو مار گرایا۔ مجاہدین کے پاس ایمان اور شوق شہادت کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ افغانستان میں امریکا کی شکست سے ایک بار پھر ثابت ہوا مسلمانوں کے پاس ایمان کی طاقت ہو تو دنیا کی کوئی قوت انہیں زیر نہیں کرسکتی۔