مغربی دنیا کو اگر عہدِ حاضر کا معاشی، سیاسی اور عسکری شیطان کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ مغربی دنیا کی معاشی شیطنت کا یہ عالم ہے کہ اس کی اطلاع عمران خان جیسے شخص کو بھی ہوگئی ہے۔ اقوام متحدہ کے پینل سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ ترقی پزیر ممالک سے ہر سال ایک ہزار ارب ڈالر وائٹ کالر کرائمز کی صورت میں ترقی یافتہ ممالک کی جانب منتقل ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مغرب کے بینکوں میں ترقی پزیر ممالک کے 7 ہزار ارب ڈالر پڑے ہوئے ہیں۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ مغرب کی ملٹی نیشنل کمپنیاں ہر سال غریبوں ملکوں میں 600 ارب ڈالر کی ٹیکس چوری کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کی معاشی عدم مساوات کا یہ عالم ہے کہ دنیا کی بیش تر دولت دنیا کے صرف 26 افراد کے ہاتھ میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ترقی پزیر ملکوں کو چاہیے کہ وہ مغرب میں پڑی ہوئی اپنی رقم کی واپسی کے لیے قوانین بنائیں۔ انہوں نے کہا کہ غربت عالمی امن کے لیے خطرہ ہے۔ (روزنامہ جنگ کراچی۔ 25 ستمبر 2020ء)
عمران خان کوئی ’’انقلابی رہنما‘‘ نہیں ہیں مگر مغرب کی معاشی لوٹ مار، اقتصادی شیطنت اور مالیاتی بدمعاشی نے انہیں بھی انقلابیوں کی طرح گفتگو پر مجبور کردیا ہے۔ عمران خان کہہ رہے ہیں کہ غریب ملکوں کے سیکڑوں نواز شریف اور زرداری ہر سال ایک ہزار ارب ڈالر امیر ملکوں میں منتقل کرتے ہیں۔ ایک ہزار ارب ڈالر ایک بہت بڑی رقم ہے۔ بھارت اور برطانیہ جیسے ملکوں کی مجموعی قومی پیداوار صرف 2 ہزار ارب ڈالر ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ رقم اگر غریب ملکوں کے عوام کی فلاح وبہبود پر خرچ ہو تو اس سے غریب ملکوں کے بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ مگر مغرب کے امیر ملک ایسا نہیں ہونے دیتے۔ وہ غریب ملکوں کے نواز شریفوں اور آصف زرداریوں کو لوٹ مار کرنے دیتے ہیں اور ان کی لوٹی ہوئی رقم کو اپنے بینکوں میں جمع ہونے دیتے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ وہ غریب ملکوں کے ’’شریفوں اور زرداریوں‘‘ کو اپنے یہاں پناہ بھی دیتے ہیں۔ عمران خان کی اطلاع کے مطابق اس وقت مغرب کے بینکوں میں غریب ملکوں کے 7 ہزار ارب ڈالر پڑے ہوئے ہیں۔ یہ رقم اگر غریب ملکوں کو واپس مل جائے تو ان کے یہاں تعلیم عام ہو سکتی ہے، سب لوگوں کو سرکاری خرچ پر طبی سہولتیں میسر آسکتی ہیں مگر دنیا کے غریب ملکوں کی قیادتیں نہ اپنی رقم کی واپسی کا مطالبہ کرتی ہیں نہ مغرب کی ’’مہذب‘‘ سیاسی قیادتیں اس سلسلے میں اپنی ’’اخلاقی ذمے داری‘‘ پوری کرتی ہیں۔
پاکستان میں حسن نثار اور جاوید چودھری جیسے لوگ آئے دن پاکستانیوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ ایمانداری سیکھنی ہو تو اہل مغرب سے سیکھو مگر اہل مغرب غریب اقوام کے ساتھ جو بے ایمانی کررہے ہیں اس پر حسن نثاروں اور جاوید چودھریوں کی نظر نہیں جاتی۔ عمران خان کے بیان کے مطابق مغرب کی ملٹی نیشنل کمپنیاں ہر سال 600 ارب روپے کے ٹیکس چوری کرتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان کی چوری کا مرکز بھی غریب اور ترقی پزیر اقوام ہیں۔ 600 ارب ڈالر بھی معمولی رقم نہیں۔ پاکستان کا پورا بجٹ پچاس ساٹھ ارب ڈالر کا ہوتا ہے۔ ہماری مجموعی قومی پیداوار تین سو ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اگر غریب ملکوں کو ہر سال 600 ارب ڈالر کی آمدنی ہوجایا کرے تو ان کے کئی معاشی مسائل دور ہوسکتے ہیں مگر مغرب کی ملٹی نیشنل کمپنیاں اس کی نوبت نہیں آنے دیتیں۔
حسن نثار کئی بات اپنے کالم اور اپنی گفتگو میں یہ فرما چکے ہیں کہ جب برطانیہ میں آکسفورڈ یونیورسٹی تعمیر ہورہی تھی تو برصغیر میں مسلم حکمران تاج محل بنارہے تھے اور برصغیر کے مسلمان نکبت و ادبار میں ڈوبے ہوئے تھے۔ مگر برطانیہ کے ممتاز مورخ ولیم ڈیل ریمپل نے اپنی معرکہ آراء تصنیف ’’The Anarchy‘‘ میں لکھا ہے کہ انگریز برصغیر میں آئے تو مسلم برصغیر معاشی اعتبار سے اتنا طاقت ور تھا کہ وہ عالمی پیداوار کا 25 فی صد پیدا کررہا تھا۔ مغرب کے ممتاز دانش ور مائیکل مورگن ہملٹن نے اپنی یادگار تصنیف Lost History میں مسلم برصغیر کو سائنس کے اہم مراکز میں شمار کیا ہے۔ جہاں تک تاج محل کا تعلق ہے تو اس کا وجود اس بات کی علامت ہے کہ مسلمان انجینئرنگ کے شعبے میں غیر معمولی مہارت رکھتے تھے اور ان کا ’’تصورِ جمال‘‘ اعلیٰ ترین تھا۔ اس کی شہادت امریکا کے عظیم شاعر اور نقاد ایزراپاونڈ نے بھی دی ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ تاج محل جیسا شاہکار وہی قوم تخلیق کرسکتی تھی جو سود خور نہ ہو۔ یعنی سود خور قوموں کا تصورِ جمال اتنا اعلیٰ ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ تاج محل تخلیق کرسکیں۔ مگر یہ باتیں مغرب زدہ حسن نثاروں اور جاوید چودھریوں کی سمجھ میں تھوڑی آسکتی ہیں۔
یہاں ہمیں بھارت کی ممتاز محقق اُتسا پٹنائک کی تحقیق یاد آگئی۔ اُتسا کی تحقیق یہ ہے کہ ’’مہذب انگریز‘‘ برصغیر سے صرف 45 ہزار ارب ڈالر لوٹ کر لے گئے۔ امریکا اور چین دنیا کی دو بڑی معاشی طاقتیں ہیں ان کی مجموعی قومی پیداوار آج بھی 45 ہزار ارب ڈالر سے کم ہے۔ برطانیہ اور بھارت کی مجموعی قومی پیداوار کو دیکھا جائے تو ان کی گیارہ سال کی مجموعی قومی پیداوار 45 ہزار ارب ڈالر بنتی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ انگریز جس مسلم برصغیر میں آئے وہ واقعتا ’’سونے کی چڑیا‘‘ تھی مگر انگریزوں کی لوٹ مار نے اسے ’’مٹی کا پیالہ‘‘ بنادیا۔ اس کے باوجود بھی انگریز ’’مہذب‘‘ بھی ہیں، ’’تعلیم یافتہ‘‘ بھی، ’’باشعور‘‘ بھی ہیں اور ’’انسان دوست‘‘ بھی، ’’قانون‘‘ کے ’’پابند‘‘ بھی ہیں اور ’’ضابطوں‘‘ کے ’’اسیر‘‘ بھی۔
مغربی اقوام کی ’’سیاسی شیطنت بھی بے مثال ہے۔ مغرب چاہتا ہے تو مسلم دنیا میں مارشل لا لگتا ہے۔ مغرب چاہتا ہے تو مسلم دنیا میں جمہوریت بحال ہوتی ہے، مغرب چاہتا ہے تو جمہوری حکومتیں چلتی ہیں۔ مغرب نہیں چاہتا تو اربکان، حماس اور مرسی کی جمہوری حکومتیں منہ کے بل گر جاتی ہیں۔ مغرب کا اصرار ہے کہ بادشاہتوں کا زمانہ ختم ہوچکا۔ مگر مشرق وسطیٰ کے مسلم ملکوں میں بادشاہتیں اپنی بہاریں دکھا رہی ہیں اور مغرب ان بادشاہوں کی پشت پر کھڑا ہے۔ بلکہ ڈونلڈ ٹرمپ نے تو خود اعتراف کیا ہے کہ سعودی عرب کی بادشاہت امریکا کے دم قدم سے قائم ہے۔ امریکا اس کی پشت پناہی نہ کرے تو ٹرمپ کے بقول سعودی عرب کی بادشاہت دو ہفتوں میں مسمار ہوجائے۔
مغرب آزادی کی بات کرتا ہے مگر اسے مسلم دنیا میں کہیں بھی آزاد سیاسی رہنما درکار نہیں۔ مغرب کو مسلم دنیا میں دوستوں کی نہیں ’’ایجنٹوں‘‘ اور ’’غلاموں‘‘ کی ضرورت ہے۔ مغرب کا ایجنٹ بادشاہ ہو یا فوجی آمر یا جمہوری رہنما مغرب کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مغرب کو ایجنٹ ہر لباس میں قبول ہیں۔
اقوام متحدہ مغرب کی سیاسی شیطنت کی ایک بہت ہی بڑی مثال ہے۔ اقوام متحدہ عالمی تنازعات کو حل کرنے کے لیے بنائی گئی ہے مگر وہ آج تک کوئی بھی بڑا عالمی تنازع حل نہیں کرسکی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ جمہوری ادارہ نہیں ہے، اقوام متحدہ ایک آمرانہ ادارہ ہے، اس کا ثبوت یہ ہے کہ اقوام متحدہ دو اداروں میں منقسم ہے۔ اقوام متحدہ کا ایک ادارہ جنرل اسمبلی ہے، یہ تقریروں کا ادارہ ہے، عالمی رہنما آتے ہیں اور ہر سال جنرل اسمبلی میں تقریر کرکے چلے جاتے ہیں۔ اقوام متحدہ کا اصل ادارہ سلامتی کونسل ہے جہاں پانچ عالمی غنڈوں کو ویٹو پاور حاصل ہے۔ ویٹو پاور، عقل، دلیل، جمہوریت ہر چیز کی نفی ہے۔ مگر سلامتی کونسل 75 سال سے ویٹو پاور کے ساتھ کام کررہی ہے۔ ویٹو پاور پر نہ امریکا کو اعتراض ہے، نہ فرانس اور برطانیہ کو، نہ مغرب کے کسی اور ملک کو۔ اس لیے کہ ویٹو پاور مغرب کی بالادستی کی علامت ہے۔ اس سے عقل اور دلیل کی مٹی خراب ہوتی ہے تو ہوا کرے۔ اس سے جمہوریت کی عصمت تار تار ہوتی ہے بیشک ایسا ہو۔
مثل مشہور ہے بد اچھا بدنام برا۔ چنگیز بد بھی تھا اور بدنام بھی۔ مگر مغرب کا معاملہ یہ ہے کہ وہ چنگیز خان سے لاکھوں گنا بد ہے مگر مغرب بدنام نہیں ہے۔ مغرب کے معروف دانش ور مائیکل مان نے اپنی تصنیف Dark Side of the democracy میں لکھا ہے کہ مغرب کے سفید فام لوگوں نے امریکا پر قبضہ کرنے کے لیے ’’Americas‘‘ میں 8سے 10کروڑ لوگوں کو مار دیا۔ چنگیز خان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے ایک کروڑ سے زیادہ انسانوں کو مارا۔ مگر ایک کروڑ انسانوں کو قتل کرنے والا تو شیطان کہلاتا ہے مگر 10 کروڑ لوگوں کو قتل کرنے والے ’’مہذب‘‘ کہلاتے ہیں۔ ’’صاحب شعور‘‘ کہلاتے ہیں۔ ’’آزادی‘‘ کے ’’پروانے‘‘ اور ’’انسان دوست‘‘ کہلاتے ہیں۔ چنگیز خان نے زندگی میں جو جنگیں لڑیں ان کی تعداد دو سو سے زیادہ نہیں۔ لیکن مغرب کے ممتاز ماہر نفسیات ایرک فرام نے اپنی کتاب The Anatomy of Human Destructiveness میں اعداد و شمار سے ثابت کیا ہے کہ مغرب کی اقوام نے گزشتہ پانچ سو سال میں دو ہزار سے زیادہ جنگیں لڑی ہیں مگر چنگیز خان ’’لعنتی‘‘ ہے البتہ مغرب کی اقوام ’’مہذب‘‘ ہیں۔ ایرک فرام نے اس کتاب میں لکھا ہے کہ قدیم آدمی جسے مغرب وحشی کہتا ہے صرف اپنے دفاع میں دوسرے انسانوں کو مارتا تھا مگر ایرک فرام کے بقول مغربی انسان نے قتل کو کھیل بنادیا ہے مگر قدیم آدمی ’’وحشی‘‘ ہے اور مغرب کا انسان مہذب۔ واہ صاحب واہ۔