پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا اور یہاں کے سیاسی، معاشی، تعلیمی اور عدالتی نظام کو اسلام کے مطابق ہونا چاہیے تھا مگر ہمارا سیاسی نظام مغرب کی عطا ہے۔ ہمارا معاشی نظام سود پر کھڑا ہے۔ ہمارا تعلیمی نظام مغرب کی نقل ہے۔ ہمارا عدالتی نظام مغربی فکر کا حامل ہے۔ یہاں تک کہ پاکستان میں جاوید چودھری اور ان جیسے لوگ آئے دن اسلام کے تصورِ انسان کا مذاق اُڑاتے رہتے ہیں اور مغرب کے تصورِ انسان کو فروغ دینے میں لگے رہتے ہیں۔ جاوید چودھری نے اپنے ایک حالیہ کالم میں اسلام کے تصورِ انسان کی توہین میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی۔ انہوں نے کیا فرمایا انہی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے۔
’’کریش ہالی ووڈ کی معرکہ الآراء فلم ہے‘ یہ فلم پال ہیگس (Paul Haggis) نے 2004 میں بنائی تھی‘ یہ چھوٹے بجٹ کی فلم تھی‘ اس پر صرف چھ ملین ڈالرز خرچ ہوئے تھے لیکن اس نے باکس آفس پر دھوم مچا دی‘ چھ اکیڈمی ایوارڈز کے لیے منتخب ہوئی اور تین ایوارڈز حاصل کر لیے اور 98 ملین ڈالرز منافع کمایا‘ یہ فلم اتنی مقبول کیوں ہوئی؟ اس کی وجہ اس کا موضوع تھا۔ فلم میں مختلف کرداروں کی چوبیس گھنٹوں کی سرگرمیاں دکھائی گئی تھیں اور یہ بتایا گیا تھا دنیا میں کوئی شخص فل ٹائم فرشتہ یا شیطان نہیں ہوتا‘ ہم لمحہ بہ لمحہ تبدیل ہوتے رہتے ہیں‘ ہم ایک چوک میں فرشتے ہوتے ہیں اور اگلے موڑ پر شیطان‘ انسان دنیا میں بلیک یا وائٹ نہیں ہوتے‘ یہ گرے ہوتے ہیں‘ ہم رحمان اور حیوان کے درمیان ہوتے ہیں‘ ہم کبھی جانور بن جاتے ہیں اور کبھی دیوتا۔
یہ ایک خوب صورت بلکہ حقیقت پر مبنی تصور ہے‘ میں اکثر لوگوں سے درخواست کرتا ہوں آپ لوگوں کو فرشتہ یا شیطان نہ سمجھا کریں‘ آپ انہیں صرف انسان کے روپ میں دیکھا کریں‘ یہ کبھی بہت اچھے ہو جاتے ہیں اور کبھی بہت برے‘ مجھے لاہور کی کیمپ جیل میں ایک امام سے ملاقات کا موقع ملا تھا‘ وہ انتہائی شریف النفس‘ حلیم اور عبادت گزار تھا‘ وہ جیل میں پانچ وقت نماز پڑھاتا تھا اور قیدی اور جیل کا پورا عملہ اس کے پیچھے نماز پڑھتا تھا‘ بہت خوب صورت تلاوت کرتا تھا‘ سارے قیدیوں کے دکھوں کا مداوا بھی کرتا تھا‘ سپرنٹنڈنٹ بھی اس سے دعا کراتا تھا اور اس کے ہاتھ چومتا تھا‘ چہرہ نورانی تھا اور بدن سے ہر وقت نیکی کی خوشبو آتی رہتی تھی‘ میں بھی اس سے متاثر ہو گیا لیکن بعد ازاں پتا چلا وہ تین لوگوں کے قتل میں محبوس تھا اور یہ تینوں قتل اس نے کیے بھی تھے۔
وہ جیل سے باہر ایک ظالم اور غصیلا شخص تھا‘ لوگ اس سے پناہ مانگتے تھے لیکن جیل کے اندر پہنچ کر اس کی کایا پلٹ گئی‘ آپ اب خود فیصلہ کر لیجیے آپ اس شخص کو قاتل سمجھیں گے یا امام؟ میں اسی طرح ایک امام کو بھی جانتا تھا‘ وہ مسجد کے حجرے میں اخلاقی جرم میں پکڑا گیا تھا اور محلے کے لوگوں نے اس کا منہ کالا کر کے‘ اس کے گلے میں ہار ڈال کر اور اسے جوتے مار کر محلے سے نکالا تھا اور یہ وہ شخص تھا جس کے پیچھے سارا محلہ نماز پڑھتا تھا‘ ہم اسے کیا کہیں گے چناں چہ ہم انسانوں کو دوسرے انسانوں کو صرف انسان سمجھنا چاہیے اور ان کے انفرادی افعال کو سامنے رکھ کر عارضی رائے بنانی چاہیے‘‘۔
(روزنامہ ایکسپریس۔ 10 ستمبر 2020ء)
اسلام کے تصورِ انسان کے بیان کی مختلف سطحیں اور جہتیں ہیں۔ اسلام ایک بلند ترین سطح پر بتاتا ہے کہ انسان اس دنیا میں اللہ کا نائب ہے۔ زمین پر اس کا خلیفہ ہے۔ کوئی ایک انسان نہیں ہر انسان۔ چناں چہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید فرقان حمید میں انسانوں سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا ہے کہ ایمان کی دولت کو سینے سے لگائو اور اللہ کا رنگ یا صبغت اللہ کو اختیار کرو۔ انسان کو روئے زمین پر اللہ کا خلیفہ بنانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک لاکھ 24 ہزار انبیاء و مرسلین کو روئے زمین پر بھیجا۔ ان انبیا و مرسلین نے بھٹکے ہوئے انسانوں کو سیدھی راہ دکھائی۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے رسول اکرمؐ کی بعثت کا مقصد یہ بتایا ہے کہ آپؐ کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں اور نفوس کا تزکیہ کرتے ہیں۔ رسول اکرمؐ کے اولین مخاطب صحابہ کرام تھے اور ساری دنیا نے دیکھا کہ کتاب و حکمت کی تعلیم اور نفوس کے تزکیے نے عرب کے بدترین معاشرے کو دنیا کا بہترین معاشرہ بنادیا۔ قرآن پوری انسانیت بالخصوص اہل ایمان سے مخاطب ہو کر صاف کہتا ہے کہ رسول اکرمؐ کی سیرت طیبہ تمام انسانوں کے لیے بہترین نمونہ ہے۔ مگر جاوید چودھری معاشرے میں بہترین نمونے کی طرف مسلمانوں کو مائل و راغب کرنے کے بجائے اس تعلیم کو عام کررہے ہیں کہ انسان نہ فرشتہ ہوتا ہے نہ شیطان بلکہ وہ فرشتے اور شیطاان کا مجموعہ یا ملغوبہ ہوتا ہے۔ وہ اگر امام مسجد ہے تو وہی امام مسجد زنا کرتے ہوئے بھی پکڑا جاسکتا ہے۔ ایک آدمی جیل میں امام ہوتا ہے اور جیل آنے سے قبل وہ ایک شیطان ہوتا ہے۔
اسلام کے دائرے میں تصورِ انسان کی ایک جہت یہ ہے کہ انسان اپنے ’’شعور بندگی‘‘ سے پہچانا جاتا ہے۔ جس کا شعورِ بندگی جتنا عمدہ ہے وہ اتنا ہی اچھا انسان ہے۔ جس کا شعورِ بندگی پست ہے وہ اتنا ہی حقیر انسان ہے۔ مگر جاوید چودھری شعورِ بندگی کے تصور پر توجہ ہی نہیں دیتے۔ ان کی نظر میں انسان نہ ’’سیاہ‘‘ ہوتا ہے نہ سفید ہوتا ہے بلکہ یا تو سفید اور سیاہ کا ملغوبہ ہوتا ہے یا سفید اور سیاہ کے درمیان کی چیز ہوتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو جاوید چودھری کہہ رہے ہیں کہ انسان نہ فرشتہ ہے نہ اسے فرشتہ ہونا چاہیے۔ حالاں کہ مولانا حالی فرما گئے ہیں۔
فرشتوں سے بہتر ہے انسان ہونا
مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ
سوال یہ ہے کہ انسان فرشتوں سے بھی بہتر کیوں ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ فرشتوں میں نیکی اور بدی کی کشمکش ہی نہیں۔ انہیں ارادے و اختیار سے نوازا ہی نہیں گیا۔ لیکن انسان کو نیکی و بدی اور خیر اور شر میں سے کسی ایک کے انتخاب کا حق دیا گیا۔ چناں چہ جو انسان شعوری طور پر شر کو ترک کرتا ہے اس سے صرف نظر کرتا ہے اور صرف خیر کو اختیار کرتا ہے وہ فرشتوں سے بھی افضل ہے۔ مگر جاوید چودھری انسان کو فرشتوں سے افضل نہیں سمجھتے۔ وہ تو کہتے ہیں کہ انسان فرشتہ بھی ہے اور شیطان بھی۔ غور کیا جائے تو جاوید چودھری کہے بغیر یہ کہہ رہے ہیں کہ انسان نہ نیک ہے اور نہ اسے صرف نیک ہونا چاہیے۔ بلکہ اس کے اندر تھوڑی بہت بدی بھی ہونی چاہیے۔ تبھی تو وہ انسان لگے گا۔ اس کے اندر صرف نیکی ہوگی تو وہ فرشتہ کہلائے گا انسان نہیں۔ واہ کیا تصورِ انسان ہے۔
اسلام کے تصورِ انسان کا ایک پہلو ہمارے اکابر، صوفیا اور علما نے بیان کیا ہے۔ انہوں نے انسان کو کائنات اصغر یا Microsome کہا ہے۔ ہمارے خارج میں موجود کائنات، کائنات اکبر ہے اور انسان کائنات اصغر۔ یعنی کائنات اکبر کی ہر چیز انسان کے اندر موجود ہے۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ ہماری یہ کائنات کتنی بڑی ہے؟۔ ایک سائنسی اندازے کے مطابق اگر آپ روشنی کی رفتار سے سفر کریں تو آپ کو کائنات کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک سفر کے لیے 24 ارب سال درکار ہوں گے۔ اتنی بڑی کائنات انسان کے اندر موجود ہے۔ یعنی انسان کائنات اکبر کا خلاصہ ہے۔ انسان کو یہ عظمت اس کے خلیفۃُ اللہ ہونے کی وجہ سے حاصل ہوئی ہے اس کے بیک وقت نیک اور بد یا فرشتہ اور شیطان ہونے کی وجہ سے نہیں۔ جاوید چودھری کے تصورِ انسان کو اختیار کرلیا جائے تو انسان کائنات اصغر کیا ایک اچھا حیوان بھی نہیں رہے گا۔
جاوید چودھری نے کبھی غور نہیں کیا ورنہ اقبال کی شاعری میں اسلام کے ’’مثالی انسان‘‘ کی کئی جھلکیاں موجود ہیں۔ مثلاً:
ہر لحظہ ہے مومن کی نئی آن نئی شان
گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن
قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم
دریائوں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان
ہمسایۂ جبریل امیں بندئہ خاکی
ہے اس کا نشیمن نہ بخارا نہ بدخشاں
٭٭
کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے
مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہے آفاق
٭٭
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسا
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
٭٭
شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن
نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی
٭٭
ہاتھ ہے اللہ کا بندئہ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں، کارکشا، کار ساز
٭٭
عطا مومن کو پھر درگاہِ حق سے ہونے والا ہے
شکوہِ ترکمانی، ذہنِ ہندی نطق اعرابی
٭٭
کوئی اندازہ کرسکتا ہے اس کے زور بازو
نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
اقبال کی شاعری میں اسلام کے مثالی یا ’’آئیڈیل انسان‘‘ کی درجنوں تصویریں بکھری پڑی ہیں مگر یہاں چند مثالوں سے بھی یہ بات عیاں ہوگئی ہے کہ جاوید چودھری کا تصورِ انسان اسلام اور اقبال کے تصورِ انسان کی ضد ہے۔ اسلام اور اقبال کا انسان ’’انسان کامل‘‘ ہے اور جاوید چودھری کا تصورِ انسان ’’شیطان‘‘ یا ’’انسان ناقص‘‘۔ کمال کی بات یہ ہے کہ جاوید چودھری نہ صرف یہ کہ انسان ناقص کے قائل ہیں بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ انسان ناقص ہی کو ’’انسانِ کامل‘‘ سمجھے۔ کیا جاوید چودھری کا کوئی دین، کوئی تہذیب اور کوئی تاریخ ہی نہیں ہے؟ کیا ان کا رشتہ ہر با معنی چیز سے ٹوٹا ہوا ہے؟ کیا انہوں نے طے کیا ہوا ہے کہ اپنے گمراہ کن خیالات سے وہ ہزاروں لاکھوں لوگوں کو گمراہ کرکے رہیں گے؟ کیا انہوں نے گمراہی پھیلانے کو اپنا مشن بنایا ہوا ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اقبال کا ’’مردِ مومن‘‘ محض ایک ’’تصور‘‘ ہے۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں وہ صرف جھوٹے ہی نہیں جاہل بھی ہیں۔ اسلامی تاریخ نے ایک لاکھ سے زیادہ صحابہ کرام پیدا کیے ہیں اور ان صحابہ کے بارے میں رسولِ اکرمؐ نے فرمایا ہے کہ یہ اصحاب آسمان کے روشن ستارے ہیں، تم ان میں سے جس کی پیروی کرو گے فلاح پائو گے۔ لیکن اسلامی تاریخ صحابہ کرام پر ختم نہیں ہوتی۔ اسلامی تاریخ نے ہزاروں صوفی، ہزاروں علما اور ہزاروں دانش ور ایسے پیدا کیے ہیں جن پر اقبال کے تصور مومن کا کامل اطلاق ہوتا ہے۔ مگر جاوید چودھری کا خیال اس طرف جاتا ہی نہیں۔ ان کا خیال صرف گندگی کی طرف جاتا ہے۔ ابن عربی نے کہا ہے کہ پھول کا کیڑا پھول میں خوش، پاخانے کا کیڑا پاخانے میں خوش۔ یہاں ابن عربی کا حوالہ اس لیے دیا گیا ہے کہ جاوید چودھری کے کالموں میں ان کا ذکر آتا رہتا ہے۔ دوسرا سبب اس حوالے کا یہ ہے کہ ابن عربی خود اقبال کے ایک مرد مومن تھے۔
جاوید چودھری کے زیر بحث کالم کے حوالے سے ایک بات یاد آئی۔ زندگی کا مسئلہ صرف یہ نہیں ہے کہ انسان کیسا ہے؟ بلکہ اس سے بھی زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ انسان کو کیسا ہونا چاہیے؟ خالق انسان نے انسان کے اندر خیر اور شر دونوں کا داعیہ رکھا ہے مگر اللہ چاہتا یہ ہے کہ انسان شر کو مسترد کرکے خیر کو سینے سے لگالے۔ مگر جاوید چودھری کے کالم میں اس تصور کا کوئی حوالہ موجود نہیں۔ وہ تو بس انسان کو خیر و شر کا مجموعہ یا ملغوبہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہی ان کا تصورِ انسان ہے۔
ہم نے جب پہلی بار جاوید چودھری کا زیر بحث کالم پڑھنے کا آغاز کیا تو خیال آیا کہ یہ شاید آگے جا کر کسی عیب یا کسی خرابی کو ’’Justify‘‘ کریں گے۔ یہی ہوا۔ جاوید چودھری نے اپنے کالم میں اس خبر کو سراہا کہ پاکستان بھنگ پیدا کرنے والا ملک بننے والا ہے۔ کل شاید وہ اس خبر پر بھی خوش ہوں گے کہ پاکستان کی حکومت نے جسم فروشی کے ذریعے اربوں ڈالر کمانے کا منصوبہ بنالیا ہے۔