میاں نواز شریف اور نواز لیگ کے 43 رہنمائوں پر غداری کا مقدمہ قائم کیا گیا مگر بالآخر نواز لیگ کے 43 رہنمائوں کے نام واپس لے لیے گئے اور اب صرف نواز شریف غداری کے الزام کی زد میں ہیں۔ پاکستان میں غداری اور وفاداری کی اسناد سیاسی کھیل کا حصہ ہیں۔ جنرل ایوب کے زمانے میں مادرِ ملت فاطمہ جناح پر غداری کا الزام لگایا گیا اور ان کے خلاف اخبارات میں بڑے بڑے اشتہارات شائع کرائے گئے۔ مادرِ ملت فاطمہ جناح پر غداری کا الزام عاید کرنا ایسا ہی تھا جس طرح قائد اعظم کو غدار قرار دیا جائے مگر پاکستان کے حکمران طبقے نے طاقت کے کھل میں مادرِ ملت کو بھی نہ بخشا۔ جی ایم سید کا معاملہ اس کے برعکس رہا۔ انہوں نے اب پاکستان ٹوٹ جانا چاہیے کہ عنوان سے ایک کتاب لکھی ہوئی تھی مگر جنرل ضیا الحق نے پیپلز پارٹی کی دشمنی میں جی ایم سید سے بھی ہاتھ ملا لیا اور انہیں وفادار کی سند عطا کردی۔ جی ایم سید پیپلز پارٹی کے دشمن تھے اور جنرل ضیا الحق کا خیال تھا کہ جی ایم سید سے ہاتھ ملا کر انہیں سندھ میں سیاسی فائدہ ہوسکتا ہے۔ تو کیا میاں نواز شریف کے خلاف غداری کا الزام اور مقدمہ بھی سیاسی کھیل کا حصہ ہے؟
بدقسمتی سے میاں نواز شریف خود غداری کی اسناد بانٹتے رہے ہیں۔ انہوں نے ایک دو بار نہیں درجنوں بار بے نظیر بھٹو کو ’’سیکورٹی رسک‘‘ قرار دیا۔ بے نظیر کو سیکورٹی رسک قرار دے کر میاں نواز شریف دراصل بے نظیر کو غدار ہی قرار دے رہے تھے اس لیے کہ ایک غدار ہی سیکورٹی رسک ہوسکتا ہے۔ بلاشبہ اس وقت میاں صاحب بھی اقتدار کی رسہ کشی کے کھیل کا حصہ ہیں مگر یہ بھی ایک تلخ اور ٹھوس حقیقت ہے کہ میاں نواز شریف کیا ان کا پورا خاندان کبھی بھی پاکستان کا اس طرح وفادار نہیں رہا جیسا کہ حقیقی حب الوطنی کا تقاضا ہے۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ پاکستان جسم ہے تو اس کی روح اس کا نظریہ یعنی اسلام ہے۔ جو اسلام کا وفادار اور طرف دار ہے وہی اصل معنوں میں پاکستان کا وفادار ہے۔ بدقسمتی سے میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کا معاملہ یہ ہے کہ وہ کبھی نظریۂ پاکستان سے اس طرح وفاداری کا اظہار نہیں کرسکے جیسا کہ اس نظریے سے وفاداری کا حق ہے۔ میاں نواز شریف جب بھی اقتدار میں آئے انہوں نے کبھی پاکستان کے نظریے سے وابستگی کا اظہار ضروری نہیں سمجھا۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ہر شخص اپنے نظریے سے وفاداری کا اظہار کرتا ہے۔ جنرل ایوب اور جنرل پرویز مشرف سیکولر اور لبرل تھے اور انہوں نے ہمیشہ سیکولر ازم اور لبرل ازم کا پرچم بلند کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو سوشلسٹ تھے۔ چناں چہ انہوں نے ’’اسلامی سوشلزم‘‘ ایجاد کرلیا اور اس سے وابستگی کا اظہار کرتے رہے۔ جنرل ضیا الحق دس سال تک خود کو ’’اسلامسٹ‘‘ ظاہر کرتے رہے۔ عمران خان جب سے اقتدار میں آئے ہیں نام ہی کو سہی ریاست مدینہ کی بات کررہے ہیں مگر میاں نواز شریف نے کبھی کھل کر نہیں کہا کہ وہ ’’اسلامسٹ‘‘ ہیں۔ اس لیے کہ اسلام سے ان کی کوئی گہری فکری اور جذباتی وابستگی ہی نہیں۔ اس کے برعکس چودھری شجاعت نے اپنی خود نوشت میں لکھا ہے کہ جب انہوں نے میاں نواز شریف کے ساتھ شراکت اقتدار کا سمجھوتا کیا تو میاں شہباز شریف قرآن اُٹھا لائے اور فرمایا کہ یہ قرآن ہمارے اور آپ کے درمیان اس بات کے لیے ضامن ہے کہ ہم آپ سے کیے گئے معاہدے کی ایک ایک شق پر عمل کریں گے۔ چودھری شجاعت کے بقول شریف خاندان نے قرآن کو ضامن بنانے کے باوجود معاہدے کی ایک شق پر بھی عمل نہ کیا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ شریف خاندان نے قرآن پر جھوٹ بولا۔ کیا یہ بات سمجھنے کے لیے علامہ اقبال کی ذہانت اور علم درکار ہے۔ قرآن پر وہی لوگ جھوٹ بول سکتے ہیں جن کا اللہ اس کی کتاب اور دین اسلام سے وفاداری کا کوئی تعلق نہ ہو۔ ظاہر ہے جو اسلام کا وفادار نہیں وہ پاکستان کا بھی وفادار نہیں۔ خاص طور پر اس صورت میں جب کہ وہ مسلمان بھی ہو۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ میاں نواز شریف نے اپنے اور اپنی جماعت کے لبرل امیج کو مغرب میں عام کرنے کی کوشش کی ہے۔ چناں چہ اسی لیے میاں نواز شریف کی جماعت کے اہم رہنما خواجہ آصف نے ایک مغربی ملک میں بیٹھ کر یہ کہنا ضروری سمجھا کہ تحریک انصاف ایک مذہبی جماعت ہے مگر نواز لیگ ایک لبرل پارٹی ہے۔ یہ بات بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ میاں نواز شریف نے ملک کی ایک اہم جامعہ کے ایک شعبے کو قادیانی عبدالسلام سے منسوب کیا۔ ایک قادیانی سے کسی شخص کو اسی وقت محبت ہوسکتی ہے جب وہ اسلام سے محبت نہ کرتا ہو۔ میاں نواز شریف ہندوستان کو خوش کرنے کے لیے یہ بھی فرما چکے ہیں کہ ہندو ازم کا بھگوان اور اللہ ایک ہی ہیں۔ حالاں کہ ہندو اپنے دیوتائوں کو بھی بھگوان قرار دیتے ہیں۔ مثلاً وہ شری رام اور شری کرشن کو بھگوان کہتے ہیں۔
آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس کے سابق سربراہ جنرل اسد درانی نے اپنی کتاب ’’اسپائی کرونیکلز‘‘ میں صاف لکھا ہے کہ میاں شہباز شریف بھارتی پنجاب اور پاکستانی پنجاب کو ایک کرنے کے لیے بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ راجا امریندر سنگھ کے ساتھ مذاکرات کررہے تھے۔ ظاہر ہے کہ یہ گریٹ پنجاب کا کھیل تھا اور میاں شہباز شریف میاں نواز شریف کی مرضی کے بغیر اس کھیل میں حصہ نہیں لے سکتے تھے۔ اہم اور دلچسپ بات یہ ہے کہ شریف خاندان نے آج تک ’’اسپائی کرونیکلز‘‘ میں لگائے گئے الزام کی تردید کی اور نہ اسٹیبلشمنٹ نے اسپائی کرونیکلز کے حوالے سے آج تک شریف خاندان پر ملک سے غداری کا الزام لگایا۔ حد تو یہ ہے کہ عمران خان تک اسپائی کرونیکلز پڑھنے اور شریف خاندان کا اصل چہرہ سامنے لانے کے لیے تیار نہیں۔ کیا اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ ’’گریٹر پنجاب‘‘ کے ’’کھیل‘‘ میں شریف خاندان کے علاوہ اور قوتیں بھی شریک تھیں؟
ملک سے وفاداری اور غداری کا ایک معیار اور ایک پیمانہ یہ ہے کہ کوئی شخص یا خاندان ملک کا خادم ہے یا اس کو لوٹ کر کھانے والا؟ اس حوالے سے شریف خاندان کا جائزہ لیا جائے تو شریف خاندان ملک کو لوٹ کر کھانے والا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جو خاندان ملک کو لوٹ کر کھا گیا ہو وہ ملک کا وفادار ہے یا اس کا غدار؟ دنیا میں آج تک جتنے عظیم رہنما ہوئے ہیں وہ ملک کو دینے والے تھے مگر شریف خاندان صرف ملک سے لینے والا ہے؟ اور وہ بھی لوٹ مار کے وسیلے سے۔
پاکستان میں وفاداری اور غداری کا ایک پیمانہ یہ ہے کہ کوئی رہنما امریکا اور بھارت کی مزاحمت کرنے والا ہے یا ان کے جوتے چاٹنے والا اور ان کی بالادستی کے لیے کام کرنے والا۔ بدقسمتی سے اس دائرے میں بھی میاں نواز شریف کی ’’کارکردگی‘‘ افسوس ناک ہے۔ میاں نواز شریف صرف امریکا ہی کو نہیں بھارت کو بھی پاکستان پر بالادست بنانے کے لیے کوشاں رہے ہیں۔ انہیں مودی نے اپنی تقریب حلف برداری میں اس طرح بلایا جس طرح بادشاہ کسی درباری کو اپنے دربار میں طلب کرتے رہے ہیں۔ بدقسمتی سے میاں نواز شریف گرتے پڑتے مودی کے دربار میں حاضر ہوئے۔ کیا یہ طرزِ عمل کسی ایسے شخص سے منسوب کیا جاسکتا ہے جسے ملک و قوم کی عزت اور وقار عزیز ہو جو ملک و قوم کے ساتھ وفاداری کا شدید جذبہ رکھتا ہو؟ بدقسمتی بھارتی صحافی برکھادت نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ میاں نواز شریف نے نیپال میں مودی کے ساتھ ’’خفیہ ملاقات‘‘ کی۔ آخر پاکستان کے وفادار رہنما کو مودی سے چھپ چھپ کر ملنے کی کیا ضرورت ہوسکتی ہے؟ پاکستان میاں نواز شریف کو جہیز میں نہیں ملا۔ چناں چہ اس کے مفادات پر گفت و شنید کے لیے خفیہ ملاقات کسی طرح کفایت نہیں کرتی۔
پاکستان کا وفادار پورے پاکستان کی سیاست کرے گا اس لیے کہ پاکستان ایک وحدت ہے۔ مگر میاں نواز شریف کا پاکستان صرف پنجاب ہے۔ ان کی سیاست پنجاب سے شروع ہوتی ہے۔ پنجاب میں آگے بڑھتی ہے اور پنجاب ہی میں ختم ہوجاتی ہے۔ میاں نواز شریف آئی جے آئی کی سیاست کے دور میں جاگ پنجابی جاگ کا نعرہ لگا چکے ہیں۔ نواز لیگ کے رہنما احسن اقبال نے ابھی کچھ عرصہ پہلے ’’پنجاب بچائو‘‘ تحریک چلانے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ چند روز پیش تر خواجہ سعد رفیق لاہور کے ایک جلسے میں ایک بار پھر جاگ پنجابی جاگ کا نعرہ بلند کرچکے ہیں۔ کیا یہی پاکستان سے وفاداری ہے؟۔ یہ وفاداری ہے تو غداری کسے کہتے ہیں؟۔