اقبال نے کہا تھا
ہم مشرق کے مسکینوں کا دل مغرب میں جا اٹکا ہے
واں کنٹر سب بلورّی ہیں یاں ایک پرانا مٹکا ہے
اقبال نے بالکل درست کہا ہے۔ جب انسان کو کسی سے محبت ہوجاتی ہے تو پھر بدصورت عورت ’’ہیروئن‘‘ اور بدصورت مرد ’’ہیرو‘‘ نظر آنے لگتا ہے۔ مغرب کا معاملہ بھی یہی ہے۔ مشرق کے کروڑوں لوگ لاعلمی کے چشمے سے مغرب کو دیکھتے ہیں تو مغرب انہیں چندے آفتاب اور چندے ماہتاب نظر آتا ہے۔ اس سلسلے میں جاوید چودھری کا حالیہ کالم ایک اچھی مثال کی حیثیت رکھتا ہے۔ جاوید چودھری لکھتے ہیں کہ فرانس کے جس رسالے نے رسول اکرمؐ کے کارٹون شائع کیے اس کے مالکان ’’شرارتی ذہنیت‘‘ کے مالک ہیں۔ (یکم اکتوبر 2020، روزنامہ ایکسپریس)
شرارت اکثر صورتوں میں ایک معصومانہ حرکت ہوتی ہے اس لیے ہم بچوں کے سلسلے میں ’’شرارتی بچوں‘‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو فرانس کے جس رسالے نے رسول اکرمؐ کے کارٹون شائع کیے اس کے مالکان شرارتی ذہنیت کے حامل نہیں بلکہ ’’شیطانی ذہنیت‘‘ کے حامل ہیں۔ مگر جاوید چودھری چوں کہ مغرب کی محبت میں گرفتار ہیں اس لیے انہیں مغرب کی ’’شیطنت‘‘ بھی ’’شرارت‘‘ نظر آتی ہے۔ کیا فرانس کے زیر بحث رسالے کے مالکان کو معلوم نہیں کہ دنیا میں ایک ارب 80 کروڑ مسلمان موجود ہیں اور یہ مسلمان رسول اکرمؐ سے ایسی محبت اور ایسی عقیدت رکھتے ہیں کہ ایسی محبت اور ایسی عقیدت انہیں اپنے والدین سے بھی نہیں ہوتی۔ چناں چہ رسول اکرمؐ کے کارٹون شائع ہونے سے مسلمانوں کو انتہائی درجے کی روحانی، نفسیاتی اور جذباتی اذیت ہوتی ہے۔ کسی کی ’’شرارت‘‘ سے انسان کو ہنسی آتی ہے اور ’’شیطنت‘‘ سے غصہ آتا ہے۔ مغرب کے رسالوں اور اخبارات میں رسول اکرمؐ کے کارٹون شائع ہوتے ہیں تو ایک ارب 80 کروڑ مسلمان غصے سے بھر جاتے ہیں۔ مگر اس کے باوجود جاوید چودھری کو فرانس کے رسالے کے مالکان ’’شرارتی ذہنیت‘‘ کے حامل نظر آتے ہیں۔ کہیں اس کی وجہ یہ تو نہیں کہ خود جاوید چودھری بھی شیطانی ذہنیت کے حامل ہیں؟ آخر مغربی لوگوں کا ایک ’’شیطانی فعل‘‘ انہیں صرف ’’شرارت‘‘ کیوں نظر آتا ہے؟۔
جاوید چودھری نے لکھا ہے کہ فرانس کے رسالے نے رسول اکرمؐ کے کارٹون شائع کیے تو فرانس میں مقیم ایک پاکستانی نوجوان ظہیر حسن محمود فرانسیسی رسالے کے پرانے دفتر جا پہنچا اور جب اس کو کچھ سمجھ نہ آیا تو اس نے دفتر کے باہر کھڑے ہوئے دو لوگوں کو حملہ کرکے زخمی کردیا۔ جاوید چودھری نے لکھا ہے کہ اہل مغرب کو رسول اکرمؐ کی اہمیت حملوں سے نہیں صرف ’’مکالمے‘‘ سے سمجھائی جاسکتی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ہمیں یہ مسئلہ اقوام متحدہ میں اٹھانا چاہیے۔ مغرب کی عدالتوں میں اٹھانا چاہیے۔
مغرب سے ’’مکالمے‘‘ کی خواہش بڑی نیک ہے مگر جاوید چودھری کو اتنی سی بات بھی معلوم نہیں کہ ’’طاقت ور‘‘ کبھی کمزور کے ساتھ مکالمہ نہیں کرتا۔ مغرب اور مسلمانوں کے تعلق کی بنیادی حقیقت یہ ہے کہ مغرب طاقت ور ہے اور مسلمان کمزور۔ چناں چہ مغرب مسلمانوں کے سامنے آجاتا ہے تو ’’مکالمے‘‘ کے لیے نہیں ’’خودکلامی‘‘ کے لیے۔ مسلمانوں کے ساتھ ’’گفتگو‘‘ کرنے کے لیے نہیں انہیں ’’حکم‘‘ سنانے کے لیے۔ یہ صرف مغرب کا معاملہ نہیں۔ کوئی طاقت ور کبھی کسی کمزور سے مکالمہ کرتا ہوا نہیں پایا گیا۔ کیا جاوید چودھری نے کبھی دیکھا ہے کہ کوئی وڈیرہ اپنے ہاری سے مکالمہ کررہا ہے۔ کیا پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کبھی کسی جماعت سے مکالمہ کرتی ہے؟ کیا کوئی ظالم شوہر مظلوم بیوی سے یا ظالم بیوی مظلوم شوہر سے مکالمہ کرتی ہے؟ مکالمہ ہمیشہ مساوی قوتوں کے درمیان ہوتا ہے۔ ٹریکٹر کے ٹائر اور سائیکل کے ٹائر میں کبھی مکالمہ نہیں ہوتا۔ ایک زمانے میں جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد پوری نیک نیتی کے ساتھ اہل مغرب کے ساتھ مکالمے کے لیے امریکا اور یورپ جایا کرتے تھے۔ ہم نے ان سے عرض کیا کہ آپ اپنا وقت اور توانائیاں خوامخواہ ضائع کررہے ہیں کیوں کہ اہل مغرب مسلمانوں سے مکالمہ نہیں کرتے۔ وہ مسلمانوں کو ساتھ بٹھا کر ہمیشہ خود کلامی فرماتے ہیں۔ قاضی صاحب نے اس وقت ہماری رائے سے اتفاق نہ کیا مگر چند تجربات کے بعد انہوں نے ہم سے کہا کہ آپ کی رائے ٹھیک تھی۔ اہل مغرب واقعتاً مسلمانوں سے مکالمہ نہیں کرتے۔ وہ خود کلامی کرتے ہیں۔ وہ صرف احکامات صادر کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اہل مغرب ایسا کیوں کرتے ہیں؟
مغرب کا طاقت ور ہونا بالکل عیاں ہے مگر مسئلہ صرف اتنا سا نہیں ہے۔ جس میں فریزر نے اپنی مشہور زمانہ کتاب The Golden Bough میں انسانی تاریخ کو چار ادوار میں تقسیم کیا ہے۔ جیمس فریزر کے مطابق انسانیت کا بچپن جادو کے عہد میں بسر ہوا۔ انسانیت کچھ بڑی ہوئی تو مذہب کا زمانہ شروع ہوا۔ انسانیت جوان ہوئی تو فلسفے کا دور شروع ہوگیا۔ اب انسانیت پختگی کی منزل سے ہمکنار ہوئی ہے تو وہ سائنس کے عہد میں سانس لے رہی ہے۔ مغرب مذہب کو اسی تناظر میں دیکھتا ہے اسے لگتا ہے کہ مذہب ہزاروں سال پرانی ذہنی اور علمی پسماندگی کی علامت ہے۔ چوں کہ دنیا میں مسلمان سب سے زیادہ مذہب سے چمٹے ہوئے ہیں اس لیے مغرب کو مسلمان سب سے زیادہ پسماندہ محسوس ہوتے ہیں۔ اہل مغرب کو لگتا ہے ہم سائنسی عہد میں زندہ ہیں اور مسلمان ابھی تک مذہب کے زمانے میں سانس لے رہے ہیں۔ اس لیے بھی اہل مغرب مسلمانوں سے مکالمے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ مغرب کا ایک مسئلہ اور ہے۔ مغرب نسل پرست ہے۔ اس کی نظر میں سفید امریکیوں اور یورپی باشندوں سے زیادہ برتر کوئی نہیں۔ مغرب کے ممتاز اور نوبل انعام یافتہ ادیب رڈیارڈ کپلنگ نے صرف مسلمانوں کو نہیں پورے مشرق کو آدھا بچہ اور آدھا شیطان قرار دیا ہے۔ بچہ اس لیے کہ مشرق مذہب کی علامت ہے۔ شیطان اس لیے کہ مشرق نہ عیسائی ہے نہ سفید فام ہے۔ اس تناظر میں جاوید چودھری بتائیں کہ بیچارے مسلمان مغرب سے مکالمہ کریں تو کس طرح؟ ابھی حال ہی میں امریکا نے طالبان سے مکالمہ کیا ہے۔ مذاکرات فرمائے ہیں مگر اس کی وجہ یہ ہے کہ طالبان نے افغانستان میں امریکا کو بدترین شکست سے دوچار کردیا ہے۔ امریکا 19 سال تک طالبان سے لڑتا رہا۔ اس دوران اس نے ایک بار بھی طالبان سے مذاکرات نہیں کیے مگر جب طالبان نے ثابت کردیا کہ افغانستان میں سپر پاور امریکا نہیں اسلام ہے۔ امریکا نہیں مجاہدین ہیں، تب امریکا نے طالبان سے کہا آئو بات کرتے ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو مغرب سے بامعنی مکالمہ بھی مغرب کی مزاحمت کا حاصل ہے۔ مسلمان مغرب کی کامیاب مزاحمت کریں گے تو مغرب مسلمانوں کے آگے ہاتھ جوڑے گا۔ کہے گا آئو بات کرتے ہیں۔ آئو مذاکرات، مذاکرات کھیلتے ہیں۔ آئو دلیل کی زبان استعمال کرتے ہیں۔
جاوید چودھری کا خیال ہے کہ مسلمانوں کو توہین رسالت کا معاملہ اقوام متحدہ میں اٹھانا چاہیے۔ ضرور اٹھانا چاہیے لیکن جاوید چودھری نے کبھی اقوام متحدہ کی ’’ساخت‘‘ پر غور کیا ہے؟ اقوام متحدہ کے دو ادارے ہیں۔ ایک جنرل اسمبلی، دوسرا سلامتی کونسل۔ دنیا کا ہر ملک جنرل اسمبلی کا رکن ہے مگر جنرل اسمبلی صرف نشتند، گفتند، برخواستند کا کھیل چلتا ہے۔ وہاں صرف تقریریں ہوتی ہیں اور صرف تقریروں سے توہین رسالت کا مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔ اقوام متحدہ کا دوسرا ادارہ سلامتی کونسل ہے۔ سلامتی کونسل میں اصل فیصلے ہوتے ہیں مگر ان فیصلوں کا اختیار ویٹو پاورز کے ہاتھ میں ہے اور مسلمانوں کا کسی ویٹو پاور پر بس نہیں چلتا۔ امریکا، روس، چین، فرانس اور برطانیہ کے لیے توہین رسالت کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ چناں چہ مسلمان توہین رسالت کا مسئلہ اقوام متحدہ سے حل نہیں کراسکتے۔ جاوید چودھری نے مسلمانوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ توہین رسالت کے مسئلے کو مغرب کی عدالتوں میں اٹھائیں۔ مسلمانوں نے اسکارف کے مسئلے کو مغرب کی کئی عدالتوں میں اٹھایا مگر مغرب کی کسی عدالت نے مسلمانوں کی بات نہیں سنی۔ چناں چہ مغرب کی عدالتوں سے مسلمانوں کو توہین رسالت پر پابندی کے سلسلے میں کوئی ریلیف نہیں مل سکتا۔
جاوید چودھری نے اپنے کالم میں مسلمان نوجوانوں سے کہا ہے کہ مسلمانوں اور مغرب کے درمیان تہذیبوں کا تصادم برپا ہے۔ چناں چہ وہ اتنی بڑی چیز کو اپنے ہاتھ میں نہ لیں۔ وہ مسلم حکومتوں کو کچھ کرنے دیں۔ ذرا جاوید چودھری اس مسلم حکومت کی نشاندہی کریں جو تہذیبوں کے تصادم کی قائل ہو اور اس سلسلے میں مسلمانوں کی مدد کررہی ہو۔ مسلم عوام میں غصہ ہے تو اس لیے کہ ان کی حکومتیں ان کے دین، ان کے نبیؐ اور ان کی تہذیب کے تحفظ کے لیے کچھ نہیں کررہیں۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ مسلم دنیا کے حکمرانوں کی عظیم اکثریت مغرب کی غلام ہے اور غلام کبھی آقا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نہیں کرسکتے۔ چناں چہ جو کچھ کرنا ہے عام مسلمانوں کو کرنا چاہیے۔