کراچی وہ شہر ہے جس کے بارے میں شاعر نے کہا ہے۔
دل کی ویرانی کا کیا مذکور ہے
یہ نگر سو مرتبہ لوٹا گیا
ایم کیو ایم کے غلبے کے 30 سال ایسے ہیں جب کراچی کا ہر دن قتل و غارت گری اور لوٹ مار کا دن تھا۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ کراچی میں جو کچھ ہوا اس کے بارے میں سوچنا بھی محال تھا لیکن ایسا نہیں ہے۔ کراچی میں جو کچھ ہوا اس کی پیش گوئی پہلے سے موجود تھی۔ سلیم احمد کے یہ دو شعر اس کا ناقابل تردید ثبوت ہیں۔ سلیم احمد نے 1980ء میں کہا تھا۔
یہ شہر ذہن سے خالی نمو سے عاری ہے
بلائیں پھرتی ہیں یاں دست و پا و سر کے بغیر
پھر 1985ء کے بعد لوگوں نے دیکھا کہ کراچی ذہن سے خالی اور نمو سے عاری ثابت ہوا اور شہر پر سرکٹوں کا راج ہوگیا۔ سلیم احمد کا ایک اور شعر ہے۔
جیسے یہ شہر کل نہیں ہوگا
جانے کیا وہم ہو گیا ہے مجھے
شہروں کے مٹ جانے کا عمل صرف ان کے صفحہ ہستی سے مٹ جانے کی صورت میں رونما نہیں ہوتا۔ کبھی کبھی شہر اپنی اصل سے ہٹ کر بھی فنا ہوجاتے ہیں۔ کراچی انہی معنوں میں فنا کے تجربے سے گزرا۔ کراچی کا تشخص، علم تھا، تہذیب تھی، شعور تھا، شعر و ادب تھا، تنقید و تحقیق تھی، انسان پروری تھی۔ مگر الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے عروج کے بعد دنیا نے کراچی کو علم سے دور ہوتے دیکھا۔ تہذیب سے عاری ہوتے دیکھا۔ شعور سے محروم ہوتے دیکھا۔ شعر و ادب کی روح سے بیگانہ ہوتے دیکھا۔ تنقید و تحقیق سے بے نیاز ہوتے دیکھا۔ سلیم احمد کو وہم ہوگیا تھا کہ کل یہ شہر نہیں ہوگا۔ سلیم احمد کا یہ وہم یقین بن کر اُبھرا۔ الطاف حسین اور ایم کیو ایم نے کراچی کو اس کے تشخص کی ہر جہت سے محروم کردیا۔ کراچی کے جو راستے کبھی علم، شعور، تہذیب، شعر و ادب، تنقید و تحقیق اور انسان پروری کی طرف جاتے تھے ان سب راستوں کو ہم نے الطاف حسین اور ایم کیو ایم اور ان کی سیاست کی طرف جاتے دیکھا۔ اور کراچی انتظار حسین کی اصطلاح میں ایک شہر ِ افسوس بن کر اُبھرا۔ 1990ء کی دہائی میں بوسنیا ہزیگووینا میں خانہ جنگی شروع ہوئی تو بوسنیا کا دارالحکومت سرائیو تین حصوں میں تقسیم ہوگیا۔ ایک حصہ مسلمانوں کے زیر انتظام تھا۔ دوسرے حصے پر جارح سرب غالب تھے۔ تیسرے حصے پر کروٹس کا قبضہ تھا۔ مسلمانوں کا علاقہ سربوں اور کروٹس کے لیے غیر محفوظ تھا اور سربوں اور کروٹس کے علاقے مسلمانوں کے لیے غیر محفوظ تھے۔ مگر الطاف حسین اور ایم کیو ایم اور ان کی سرپرست فوجی اسٹیبلشمنٹ نے کراچی میں جو تشدد پیدا کیا اس کے نتیجے میں کراچی کی ہر گلی دشمن کی گلی بن گئی۔ محاورہ یہ ہے انسان بھاگ ورنہ کتّے کی موت مارا جائے گا، مگر الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی سیاست نے کراچی میں ایک نیا محاورہ تخلیق کیا۔ کتے بھاگ ورنہ انسان کی موت مارا جائے گا۔ محاورے کی اس تبدیلی کا سبب یہ تھا کہ شہر میں انسان ہی نہیں کتے تک خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگے تھے۔ کراچی کی گلیوں میں رات گئے کتوں کا راج ہوتا تھا مگر الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے تخلیق کیے ہوئے کراچی میں اتنی فائرنگ ہوتی تھی کہ کتے تک ڈر کر کہیں دبک جاتے تھے۔ آپ یہاں کتوں کے مسلسل ذکر سے حیران نہ ہوں کراچی اور کتوں کا گہرا تعلق ہے۔ کراچی کو سیاسی کتوں ہی نہیں اصل کتوں نے بھی بہت بھنبھوڑا ہے مگر اس کا ذکر آگے چل کر ہوگا۔
کراچی کے تشخص کا ایک پہلو یہ ہے کہ کراچی قائد اعظم کا شہر ہے۔ کراچی کو قائد اعظم نے ملک کا دارالحکومت بنایا۔ کراچی کبھی روشنیوں کا شہر کہلاتا تھا۔ کراچی کے سابق ایڈمنسٹریٹر فہیم الزماں کے ایک انٹرویو کے مطابق کراچی وفاق اور سندھ کو ہر سال 3000 ارب روپے کما کر دیتا ہے مگر کراچی کو سال میں صرف 50 ارب روپے ملتے ہیں جو اس کی فراہم کردہ رقم کا ایک اعشاریہ چھ فی صد ہے۔ حال ہی میں کراچی کے حوالے سے
ایک دلچسپ سروے سامنے آیا ہے۔ دی نیوز کراچی میں شائع ہونے والی انصار عباسی کی ایک رپورٹ کے مطابق ایف بی آر کے اعداد و شمار سے ثابت ہوتا ہے کہ ملک میں ہر سال جو انکم ٹیکس جمع ہوتا ہے اس کا 45 فی صد سندھ سے فراہم ہوتا ہے۔ تاہم سندھ سے حاصل ہونے والے انکم ٹیکس کا 41 فی صد کراچی اور باقی 4 فی صد باقی سندھ سے میسر آتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پنجاب کی آبادی ملک کی آبادی کا 52 فی صد ہے مگر پنجاب انکم ٹیکس کا صرف 35 فی صد فراہم کرتا ہے۔ پنجاب کی آبادی 12 کروڑ ہے اور وہ انکم ٹیکس کا صرف 35 فی صد فراہم کرتا ہے جب کہ کراچی کی آبادی گزشتہ مردم شماری میں صرف ڈیڑھ کروڑ دکھائی گئی ہے مگر کراچی قومی انکم ٹیکس کا 41 فی صد مہیا کرتا ہے۔ لاہور کی آبادی ایک کروڑ ہے مگر لاہور انکم ٹیکس کا صرف 19 فی صد فراہم کرتا ہے۔ راولپنڈی انکم ٹیکس کا 3.5 فی صد، فیصل آباد 1.7 فی صد، ملتان 1.65 فی صد، پشاور 1.33 فی صد، کوئٹہ 0.99 فی صد، گوجرانوالہ 0.77 فی صد، ڈیرہ غازی خان 0.62 فی صد، حیدر آباد 0.57 فی صد، سیالکوٹ 0.44 فی صد، سکھر 0.35 فی صد، شیخوپورہ 0.25 فی صد اور بہاولپور 0.24 فی صد فراہم کرتا ہے۔
کراچی انکم ٹیکس کا 41 فی صد فراہم کرتا ہے۔ فہیم الزماں کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق کراچی وفاق اور سندھ کو ہر سال 3000 ارب روپے سے زیادہ مہیا کرتا ہے۔ مگر کراچی کا یہ حال ہے کہ کراچی میں پانی کی بدترین قلت ہے۔ کراچی کی یومیہ ضرورت 1200 ملین گیلن پانی ہے مگر کراچی کو فراہم صرف 650 ملین گیلن پانی ہورہا ہے۔ یعنی کراچی کی ضرورت کے اعتبار سے صرف نصف پانی فراہم ہورہا ہے۔ کراچی میں ٹینکر مافیا کا راج ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ بڑا ٹینکر بارہ سو روپے میں آتا تھا۔ ایک زمانہ یہ ہے کہ بڑا ٹینکر ساڑھے چار ہزار روپے میں فراہم ہوتا ہے۔ کراچی کے کتنے ہی ایسے علاقے ہیں جو بورنگ کے پانی پر چل رہے ہیں اور کون نہیں جانتا کہ کراچی میں بورنگ کا پانی انتہائی کھارا ہے۔ یہ پانی صرف واش روم میں استعمال ہوسکتا ہے۔ یا اس سے صرف برتن دھوئے جاسکتے ہیں۔ انسان کے بالوں اور کھال کے لیے یہ پانی بیش تر صورتوں میں ضرر رساں ہے۔ کراچی میں پانی کی قلت دوچار دن، دوچار ماہ یا دوچار سال کا مسئلہ نہیں۔ کراچی گزشتہ چالیس سال سے پانی کی قلت کی زد میں ہے مگر ملک کو سالانہ 3000 ارب روپے اور ملک کو انکم ٹیکس کا 41 فی صد مہیا کرنے والے کراچی کو پنجاب اور سندھ کے حکمران پانی تک فراہم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ پانی زندگی کی بنیادی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر زندگی کا تصور نہیں کیا جاسکتا مگر کراچی کے لاکھوں شہری اس بنیادی ضرورت کے بغیر زندگی گزار رہے ہیں۔ کراچی کو کے تھری اور کے فور کے منصوبوں کے ذریعے پانی فراہم کیا جاسکتا ہے مگر نہیں کیا جاتا۔ کراچی میں سمندر ہے اور سمندر پر ڈی سیلی نیشن پلانٹ لگا کر کراچی کو صاف پانی فراہم کیا جاسکتا ہے مگر نہیں کیا جاتا۔ یہ ظلم کی انتہا ہے۔ یہ بے شرمی کی انتہا ہے۔ یہ جبر کی انتہا ہے۔ یہ درندگی کی انتہا ہے۔ دنیا کا کوئی بڑا شہر سرکلر ریلوے، زیر زمین ریل کے بندوبست اور بڑی بسوں کے بیڑے کے بغیر ٹرانسپورٹ کا مسئلہ حل نہیں کرسکا ہے مگر ملک کو آمدنی کے 3000 ارب روپے اور ملک کو انکم ٹیکس کا 41 فی صد فراہم کرنے والا ان تینوں سہولتوں سے محروم ہے۔ کراچی میں نکاسی آب کا انتظام بدترین ہے، کراچی میں کچرا تک ٹھکانے نہیں لگایا جارہا۔ روزنامہ دنیا کی صفحہ اول کی ایک خبر کے مطابق کراچی میں گزشتہ آٹھ ماہ کے دوران کتوں کے کاٹنے کے تقریباً 18 ہزار واقعات ہوئے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ کراچی کو سیاسی کتے بھنبھوڑ رہے تھے اور ایک وقت یہ ہے کہ کراچی کو عام کتے بھنبھوڑ رہے ہیں مگر نہ وفاق کے کان پر جوں رینگتی ہے نہ سندھ کی کتا پرست حکومت اس مسئلے پر توجہ دیتی ہے نہ ایم کیو ایم کی بلدیہ نے اس ضمن میں کچھ کیا ہے۔ بلاشبہ کراچی کے المیے کا بیان ایسا ہے کہ اس کے لیے ایک دفتر بھی ناکافی ہے۔ بقول شاعر
دل کی ویرانی کا کیا مذکور ہے
یہ نگر ہو مرتبہ لوٹا گیا