معروف صحافی ثروت جمال اصمعی کا ایک مضمونچہ سوشل میڈیا کے توسط سے ہم تک پہنچا ہے۔ اس مضمونچے میں ثروت صاحب نے یہ سوال اُٹھایا ہے کہ جماعت اسلامی بحالی ٔ جمہوریت کی تحریک سے الگ کیوں کھڑی ہے۔ ثروت جمال صاحب کے بقول سید مودودیؒ کی کوشش یہ رہی ہے کہ ملک میں جمہوری آزادیوں، سویلین بالادستی اور آئین و قانون کی حکمرانی کی ہر تحریک میں شمولیت اختیار کی جائے کیوں کہ فوجی جکڑ بندیوں میں معاشرے کی اصلاح ممکن نہیں ہوتی۔ ثروت بھائی نے لکھا ہے کہ جماعت نے ایوبی آمریت کی مزاحمت کی۔ ثروت بھائی نے یہ بھی لکھا ہے کہ سید مودودی کا فلسفہ یہ تھا کہ جمہوری آزادیوں کی بحالی ٔ اگر جمہوریت کے دشمنوں کے تعاون سے بھی ضروری ہو تو ایسا کرنا ضروری ہے۔ ثروت بھائی نے لکھا ہے کہ جماعت نہ صرف یہ کہ بحالی ٔ جمہوریت کی تحریک سے الگ کھڑی ہے بلکہ وہ یہ بھی نہیں بتا پارہی کہ وہ کیوں الگ کھڑی ہے۔ ثروت بھائی کے بقول اس وقت بحالی ٔ جمہوریت کی تحریک میں جمعیت علما اسلام بھی شامل ہے اور جمعیت علمائے پاکستان اور جمعیت اہل حدیث بھی تحریک کا حصہ ہیں۔
بلاشبہ جماعت اسلامی جمہوریت کی بحالی کی تحریکوں کا حصہ رہی ہے مگر ثروت جمال اصمعی جس تحریک کو جمہوریت کی بحالی کی تحریک کہہ رہے ہیں وہ اپنی اصل میں میاں نواز شریف کی بحالی کی تحریک ہے اور نواز شریف کی بحالی کی تحریک سے جماعت اسلامی جیسی نظریاتی اور اصولی جماعت کو کیا دلچسپی ہوسکتی ہے۔ پی ڈی ایم کی تحریک نواز شریف کی بحالی کی تحریک ہے۔ یہ بات راز نہیں مگر کتنی عجیب بات یہ ہے کہ اس کی اطلاع ثروت جمال اصمعی جیسے باخبر صحافی کو نہیں ہوسکی ہے۔ بدقسمتی سے میاں نواز شریف کبھی بھی جمہوریت کے حامی نہیں رہے۔ وہ ملک میں جمہوری آمریت کی علامت ہیں۔ چناں چہ ان کی بحالی ملک میں جمہوری آمریت کی بحالی ہوگی۔ سوال یہ ہے کہ جماعت اسلامی کو جمہوری آمریت کی بحالی کی تحریک سے کیا دلچسپی ہوسکتی ہے؟ یہ ایک المناک حقیقت ہے کہ وطن عزیز میں عوام کبھی بھی فوجی آمریت اور جمہوریت میں سے کسی ایک کے انتخاب کے مرحلے سے نہیں گزرتے۔ انہیں ہمیشہ فوجی اور سول آمریت میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔
یہ ٹھیک ہے کہ جماعت اسلامی بحالی ٔ جمہوریت کی تحریکوں کا حصہ رہی ہے مگر جماعت اسلامی بہرحال ہر تحریک کا حصہ نہیں رہی۔ مثلاً جماعت اسلامی 1980ء کی دہائی میں چلنے والی ایم آر ڈی کی بحالی ٔ جمہوریت تحریک کا حصہ نہیں تھی اور اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ایم آر ڈی کی تحریک بحالی ٔ جمہوریت کی تحریک نہیں تھی وہ پیپلز پارٹی کے اقتدار کی بحالی کی تحریک تھی اور پیپلز پارٹی کے اقتدار کی بحالی سے جماعت اسلامی اور ملک و قوم کو کیا فائدہ ہوسکتا تھا۔ جماعت اسلامی نواب زادہ نصر اللہ کی اے آر ڈی کی تحریک کا حصہ بھی نہیں تھی۔ اس لیے کہ یہ تحریک بھی بحالی ٔ جمہوریت کی تحریک نہیں تھی بلکہ یہ بحالی نواز شریف کی تحریک تھی۔ اس تحریک میں نواب زادہ نصر اللہ خان نے دل و جان سے حصہ لیا اور پچھتائے۔ اس لیے کہ نواب زادہ جب جنرل پرویز مشرف کے خلاف تحریک چلا رہے تھے تو میاں نواز شریف جنرل مشرف کے ساتھ سودے بازی کرکے ملک سے فرار ہورہے تھے۔ میاں نواز شریف نے اس سلسلے میں کسی اور کو کیا نواب زادہ نصر اللہ خان تک کو اعتماد میں نہ لیا اور ایک سہانی صبح اپنے پورے خاندان کے ساتھ وہ سعودی عرب فرار ہوگئے۔ اس وقت بھی ملک میں بحالی ٔ جمہوریت کے عنوان سے جو تحریک چل رہی ہے وہ اپنی اصل میں نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کے مفادات کی تحریک ہے۔ اطلاعات یہ ہیں کہ اس تحریک کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ اور پیپلز پارٹی کے درمیان قربتیں بڑھنے لگی ہیں۔ بظاہر میاں نواز شریف نے اسٹیبلشمنٹ کو للکارا ہے اور وہ اسٹیبلشمنٹ سے دور کھڑے نظر آرہے ہیں مگر ابھی تک اسٹیبلشمنٹ اور میاں نواز شریف میں مفاہمت کے تمام در بند نہیں ہوئے ہیں۔ نواز لیگ کے ممتاز رہنما خواجہ آصف، احسن اقبال اور رانا تنویر اسٹیبلشمنٹ کی ہدایت پر میاں شہباز شریف سے ملے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ اور میاں نواز شریف دونوں کی قوت کا مرکز پنجاب ہے۔ دونوں کے مفادات طویل عرصے سے ایک رہے ہیں۔ چناں چہ میاں نواز شریف اور اسٹیبلشمنٹ ایک بار پھر کسی بھی وقت ڈیل کی طرف جاسکتے ہیں۔ مگر اصمعی صاحب ان تمام امکانات یا اندیشوں کو نظر انداز کرکے بحالی نواز شریف کی تحریک کو بحالی ٔ جمہوریت کی تحریک کا نام دے رہے ہیں اور انہیں اس بات پر حیرت ہے کہ جماعت اسلامی میاں نواز شریف کی بحالی کی تحریک میں اپنا حصہ کیوں نہیں ڈال رہی؟ سوال یہ ہے کہ کیا جماعت اسلامی میاں نواز شریف کی خدمت کے لیے برپا ہوئی ہے؟ کیا اسے قومی زندگی کے ہر مرحلے پر میاں نواز شریف کی خدمت بجالانی ہوگی؟
ثروت جمال اصمعی صاحب نے جس تحریک کو بحالی ٔ جمہوریت کی تحریک کا نام دیا ہے وہ صرف بحالی ٔ نواز شریف کی تحریک بھی نہیں ہے وہ میاں نواز شریف کی سول آمریت کی بحالی کی تحریک بھی ہے۔ پاکستان نے جو بڑے سول آمر پیدا کیے ہیں میاں نواز شریف ان میں سے ایک ہیں۔ میاں نواز شریف کو جمہوریت ووٹ کو عزت دو تک عزیز ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو نواز لیگ گزشتہ 20 سال میں جمہوری پارٹی بن چکی ہوتی۔ اس میں انتخابات ہوچکے ہوتے اور میاں نواز شریف انتخابات جیت کر پارٹی کے سربراہ بنے ہوتے۔ مگر میاں نواز شریف اوّل و آخر ایک سول آمر ہیں۔ چناں چہ وہ اپنی جماعت کو خاندانی اور موروثی بنائے ہوئے ہیں۔ آج میاں نواز شریف زندہ ہیں اور وہ نواز لیگ کے سربراہ ہیں۔ کل وہ نہیں ہوں گے تو نواز لیگ کی قیادت مریم نواز یا میاں شہباز شریف کے ہاتھ میں ہوگی۔ یعنی خاندانی آمریت کا تسلسل نواز لیگ میں بہرحال برقرار رہے گا۔ میاں نواز شریف آج جمہوری آزادیوں کی بات کررہے ہیں مگر یاد رہے کہ جب میاں نواز شریف نے بھارتی وزیراعظم واجپائی کو لاہور یاترا پر بلایا تھا تو جماعت اسلامی نے اس یاترا کے خلاف ایک چھوٹا سا احتجاجی مظاہرہ کر ڈالا تھا۔ مگر میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف سے چھوٹا سا مظاہرہ بھی برداشت نہ ہوا۔ پنجاب پولیس کے اہلکار بھوکے کتوں کی طرح جماعت اسلامی کے رہنمائوں اور کارکنوں پر ٹوٹ پڑے۔ پنجاب پولیس نے جماعت اسلامی کے ایک کمرے میں موجود رہنمائوں پر اتنی شیلنگ کی کہ قاضی حسین احمد اور سید منور حسن نے ہمیں بتایا کہ اگر یہ شیلنگ بیس پچیس منٹ مزید جاری رہتی تو جماعت اسلامی کی قیادت دم گھٹنے سے شہید ہوجاتی۔ آج نواز شریف ذرائع ابلاغ کی آزادیوں کی بات کررہے ہیں مگر ہمیں یاد ہے کہ میر شکیل الرحمن کے اخبار دی نیوز میں ایک نظم شائع کرنے پر میاں صاحب نے اخبار اور اس کی ایڈیٹر ملیحہ لودھی کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کرا دیا تھا۔ آج میاں نواز شریف عدالتوں کی آزادی کا نعرہ لگاتے ہیں مگر ہمیں وہ وقت بھی یاد ہے جب نواز لیگ کے غنڈوں نے میاں نواز شریف کی ہدایت پر عدالت عظمیٰ کو نشانہ بنایا تھا۔ اس پر حملہ کیا تھا۔ ہمیں وہ وقت بھی یاد ہے جب شہباز شریف جسٹس قیوم کو احکامات جاری کرتے ہوئے پائے گئے تھے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو میاں نواز شریف کی بحالی کی تحریک اپنی اصل میں میاں نواز شریف کی سول آمریت کی بحالی کی تحریک ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایسی تحریک میں جماعت اسلامی کو حصہ لینا چاہیے؟۔
ثروت جمال اصمعی نے سیّد مودودی کے حوالے سے یہ بھی لکھا ہے کہ وہ جمہوری آزادیوں کی بحالی کے لیے جمہوریت دشمنوں سے بھی تعاون کو بُرا نہیں سمجھتے تھے۔ مگر سیّد مودودی نے یہ کہاں لکھا ہے کہ آپ فوجی آمریت کے خلاف جدوجہد کرکے ملک میں سول آمریت بحال کریں؟ بلاشبہ فوجی جکڑ بندیوں میں معاشرے کی اصلاح کا کام مشکل ہوجاتا ہے۔ مگر سول آمریت میں معاشرے کی اصلاح کا کام بھی آسان نہیں ہوتا۔ عرب بادشاہتیں سول آمریتیں ہیں اور انہوں نے اخوان المسلمون جیسی پرامن اور جمہوری جماعت کو دہشت گرد قرار دے دیا ہے۔ بلاشبہ گزشتہ انتخابات انجینئرڈ تھے مگر پاکستان میں کون سے انتخابات آزادانہ تھے؟ بلاشبہ جمعیت علمائے اسلام یا جمعیت علمائے پاکستان اور جمعیت اہل حدیث اس وقت بحالی نواز شریف تحریک کا حصہ ہیں۔ مگر جمعیت علمائے اسلام اور جمعیت علمائے پاکستان شخصی جماعتیں ہیں۔ ساجد میر سعودی عرب کے قریب ہیں اور سعودی عرب نواز شریف کو اقتدار میں دیکھنا چاہتا ہے۔ کیا ثروت اصمعی چاہتے ہیں کہ جماعت بھی شخصی جماعت کی طرح کا طرز عمل اختیار کرے اور میاں نواز شریف کو اقتدار میں لے آئے۔