مسلمانوں کی گزشتہ دو سو سال کی تاریخ کا اہم ترین سوال یہ ہے کہ مغرب کے ساتھ ہمارے تعلق کی نوعیت کیا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم دو سو سال گزرنے کے باوجود مغرب کے سلسلے میں اپنے ردعمل کو دو اور دوچار کی طرح متعین نہیں کرسکے ہیں۔ مغرب کے سلسلے میں ہمارے معاشرے میں تین رویے پائے جاتے ہیں۔ ہمارے معاشرے کے سیکولر اور لبرل عناصر مغرب کو ’’حق‘‘ سمجھتے ہیں اور انہیں مغرب کی کامل پیروی ہی میں اپنی اور اپنے معاشرے کی ’’نجات‘‘ نظر آتی ہے۔ یہ مغرب کے سلسلے میں ہمارے ردِعمل کی پہلی صورت ہے۔ مغرب کے سلسلے میں ہمارے ردِعمل کی دوسری صورت یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کا ایک بڑا طبقہ جس میں مذہبی لوگ بھی شامل ہیں مغرب کو حیرت اور ہیبت سے دیکھتا ہے۔ یہ طبقہ مغرب سے شعوری یا لاشعوری طور پر اتنا مرعوب ہے کہ یہ اسلام اور مغرب کا ملغوبہ تیار کرنے میں لگا رہتا ہے۔ حالاں کہ اسلام حق ہے اور مغرب باطل۔ چناں ان کا کوئی ملغوبہ تیار ہی نہیں کیا جاسکتا۔ مغرب کے سلسلے میں ہمارے ردِعمل کی تیسری صورت یہ ہے کہ ایک بہت چھوٹا سا طبقہ مغرب کو مکمل طور پر مسترد کرتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو مذہبی اعتبار سے سب سے زیادہ افسوس ناک رویہ ان لوگوں کا ہے جو اسلام اور مغرب کا ملغوبہ یا آمیزہ تیار کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے طرزِ عمل پر یہ شعر پوری طرح صادق آتا ہے۔
کیسا پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں
مغرب سے شعوری یا لاشعوری مرعوبیت کی ایک مثال اکتوبر 2020ء کے ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن میں شائع ہونے والا ثروت جمال اصمعی کا آٹھ صفحات پر مشتمل طویل مضمون ہے۔ اس مضمون میں اتنے ’’مسائل‘‘ ہیں کہ ان کو بنیاد بنا کر ایک کتاب لکھی جاسکتی ہے مگر ہم یہاں مضمون کے چند پہلوئوں ہی پر گفتگو کریں گے۔
ثروت جمال اصمعی نے لکھا ہے کہ انبیائے کرام کی دعوت کی قبولیت میں رکاوٹ بننے والا ایک بڑا سبب توہم پرستی تھا مگر توہمات کا یہ دور اب قصۂ پارینہ بن چکا ہے۔ آج کا انسان ’’سائنٹفک عہد‘‘ کا انسان ہے۔ انسان پر انسان کی براہِ راست خدائی بھی اب ماضی کی بات ہے۔ ہمیں حیرت ہے کہ ثروت جمال اصمعی صاحب کو یہ بات معلوم نہیں کہ عہدِ جدید کے اپنے توہمات ہیں۔ برطانیہ کے نو مسلم دانش ور ابوبکر سراج الدین المعروف مارٹن لنگز نے اس موضوع پر ایک پوری کتاب لکھی ہے۔ کتاب کا عنوان ہے۔
Ancient Beliefs And Modern Superstitions
جیسا کہ کتاب کے نام سے ظاہر ہے مارٹن لنگز کہہ رہے ہیں کہ معتقدات تو قدیم ہی ہیں البتہ توہمات جدید عہد کی پیداوار ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ عہد ِ جدید کے توہمات کیا ہیں؟ عہد ِ جدید کا ایک توہم یہ ہے کہ عہد ِ جدید نے مادے کو خدا بنالیا ہے حالاں کہ اس کی کوئی سند اس کے پاس نہیں۔ عہد ِ جدید میں ’’ترقی‘‘ کا تصور بھی ایک توہم ہے۔ ’’آزادی‘‘ کا تصور بھی عہد ِ حاضر کا ایک توہم ہے۔ ’’مساوات‘‘ کا نعرہ عہد ِ جدید کے توہمات میں شامل ہے۔ میر تقی میر کا شعر یاد آگیا۔
یہ توہم کا کارخانہ ہے
یاں وہی ہے جو اعتبار کیا
اس تناظر میں کہا جاسکتا ہے کہ عہد ِ جدید نے توہم پرستی کا ایک پورا کارخانہ لگایا ہوا ہے۔ اس کارخانے کی مذہبی تناطر میں کوئی اساس ہی نہیں۔ کوئی بنیاد ہی نہیں۔ اصمعی صاحب کا یہ دعویٰ بھی کئی اعتبار سے محلِ نظر ہے کہ جدید عہد میں انسان پر انسان کی خدائی ختم ہوگئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج کے عہد میں انسان پر انسان کی خدائی کا دائرہ اتنا وسیع ہوگیا ہے کہ ماضی میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ پوری جدید مغرب تہذیب کا کلمہ یہ ہے۔
لاالہ الانسان
نہیں ہے کوئی الہ سوائے انسان کے۔ جمہوریت انسان پر انسان کی خدائی کا اظہار نہیں تو اور کیا ہے۔ ماضی میں اقلیت انسان پر انسان کی خدائی کی مظہر تھی اور عہد ِ حاضر میں ’’اکثریت‘‘ انسان پر انسان کی خدائی کی مظہر ہے۔ ان نکات پر گفتگو بہت دور تک جاسکتی ہے مگر پھر اصمعی صاحب کے مضمون کے دیگر نکات پہ بات نہیں ہوسکے گی۔
اصمعی صاحب نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ آج کے دور میں باپ دادا کی اندھی تقلید بھی ختم ہوگئی ہے۔ اصمعی صاحب خدا کا خوف کریں۔ مغرب جتنا نسل پرست ایک ہزار سال پہلے تھا اتنا ہی نسل پرست آج بھی ہے۔ اِسے سفید فاموں کی برتری کا جتنا یقین بارہ سو سال پہلے تھا اتنا ہی یقین آج بھی ہے۔ وہ غیر سفید فاموں سے جتنی نفرت پانچ سو سال پہلے کرتا تھا اتنی ہی نفرت آج بھی کرتا ہے۔ صلیبی جنگیں ایک ہزار سال پرانی بات ہیں۔ مگر مغرب آج بھی مسلمانوں کے خلاف صلیبی جوش و جذبے سے کام کررہا ہے۔ صلیبیوں نے اسلام اور پیغمبر ِ اسلام کی جتنی توہین کی تھی جدید مغرب بھی اتنی ہی توہین کررہا ہے۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے تو کہہ ہی دیا ہے کہ مغرب صلیبی جنگوں کا احیاء چاہتا ہے۔ یہ بھی ایک غلط تجزیہ ہے۔ دراصل مغرب نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف صلیبی جنگ کبھی ترک ہی نہیں کی۔ مختلف ادوار میں اس جنگ کے عنوانات بدلے ہیں جنگ مسلسل جاری ہے۔
اصمعی صاحب نے عہد جدید کو ’’داد‘‘ دیتے ہوئے یہ بھی فرمایا ہے کہ جدید عہد میں عقاید کی تبدیلی کے حوالے سے معاشرتی جبر میں نمایاں کمی ہوئی ہے۔ یہ بھی اصمعی صاحب کی غلط فہمی اور جدید عہد سے مرعوبیت کی ایک مثال ہے۔ مغرب میں اسلام لانے والوں کی اکثریت جب اسلام لانے کی کہانی سناتی ہے تو وہ یہ بھی بتاتی ہے کہ ان کے اسلام لاتے ہی ان کے والدین اور ان کے خاندان نے انہیں ترک کردیا۔ وہ نو مسلموں کے دشمن ہوگئے اور ان سے قطع تعلق کرلیا۔ مغرب کے معاشرتی اور تہذیبی جبر کے سلسلے میں ہمیں ملک کے ممتاز وکیل اور اصمعی صاحب کے ممدوح خالد اسحق کا ایک واقعہ آج بھی یاد ہے۔ خالد اسحق جنرل ضیا الحق کے زمانے میں پی ٹی وی پر ایک پروگرام کرنے لگے تھے۔ اپنے ایک پروگرام میں انہوں نے بتایا کہ وہ امریکا کے کسی شہر میں ہونے والی قانون دانوں کی کانفرنس میں شریک ہوئے۔ کانفرنس سے امریکا کے ایک سابق اٹارنی جنرل نے بھی خطاب کیا۔ اٹارنی جنرل نے اپنے خطاب میں اسلام کی بہت تعریف کی۔ خالد اسحق کے بقول انہوں نے کھانے کی میز پر اٹارنی جنرل سے کہا کہ آپ کو اسلام اتنا پسند ہے تو آپ مسلمان کیوں نہیں ہوجاتے؟ اس کے جواب میں اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں اسلام لائوںگا تو ایک ترقی یافتہ تہذیب سے نکل کر ایک پسماندہ تہذیب کا حصہ بن جائوں گا اور یہ مجھے قبول نہیں۔ یہ معاشرتی اور تہذیبی جبر کی ایک بہت بڑی اور ہولناک مثال ہے۔
اصمعی صاحب نے لکھا ہے کہ عہدِ جدید میں انکارِ خدا پر مبنی نظام ِ زندگی عبرت ناک ناکامی سے دوچار ہوچکا ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے سوویت یونین کی مثال دی ہے۔ یہ بھی عہد جدید سے مرعوبیت کی ایک صورت ہے۔ ورنہ جہاں بے خدا سوویت یونین ناکام ہوا ہے وہیں بے خدا چین سوویت یونین سے کئی ہزار گنا بڑا عالمی ماڈل بن کر اُبھر آیا ہے۔ بلاشبہ مغرب کی جمہوریت اور لبرل ازم بھی بحران کا شکار ہے مگر اس کی ناکامی کی صورت میں کوئی مغربی یا مشرقی انسان یہ کہتا نظر نہیں آتا کہ اب ہمیں ’’خدا مرکز‘‘ زندگی کی طرف لوٹ جانا چاہیے۔ ایلون ٹوفلر مغرب کے ممتاز دانش ور ہیں۔ انہوں نے اپنی تصنیف future shock میں لکھا ہے کہ مغربی تہذیب کا حادثے سے دوچار ہونا یقینی ہے مگر ہمیں اس حادثے سے بچنے کے لیے مذہب کی مدد کی ضرورت نہیں ہے۔
اصمعی صاحب نے نجانے کس بنیاد پر یہ دعویٰ بھی کر ڈالا ہے کہ 19 ویں صدی میں سائنس انکارِ خدا کی علمبردار تھی مگر آج تخلیق کائنات کے جواز کے سلسلے میں وہ ایک خدا کے وجود کی پوری طرح قائل ہوگئی ہے۔ اصمعی صاحب نے دعویٰ کیا ہے کہ آئن اسٹائن خدا کو ایک سائنسی صداقت تسلیم کرتا تھا۔ اصمعی صاحب نے لکھا ہے کہ آج پوری انسانیت اعتراف حق کی اس منزل پر آگئی ہے جس پر انبیا اس کو لانے کے لیے کوشاں رہے ہیں۔
جدید سائنس کے بارے میں بنیادی بات یہ ہے کہ انیسویں صدی میں بھی ایک بے خدا علم تھی۔ 20 ویں صدی میں بھی ایک بے خدا علم تھی اور آج 21 ویں صدی میں بھی ایک بے خدا علم ہے۔ بلاشبہ بعض سائنس دان انفرادی حیثیت میں خدا کو مانتے ہیں مگر ’’سائنٹفک کمیونٹی‘‘ میں ان کی حیثیت وہی ہے جو بھارت کے معاشرے میں ’’شودروں‘‘ کی ہے۔ جہاں تک آئن اسٹائن کا تعلق ہے تو وہ نہ کسی Organized Religion کو مانتا تھا نہ وہ کسی ایسے خدا پر ایمان رکھتا تھا جس پر ایمان لانے کی تلقین تمام مذاہب کرتے ہیں۔ وہ زیادہ سے زیادہ ایک ’’ان دیکھی قوت‘‘ کو مانتا تھا لیکن اس کے اس ایمان کا کوئی اثر سائنس کے نظریات پر نہیں پڑا۔
اس نے کبھی نہیں کہا کہ اب ہمیں زندگی اور کائنات کو ایک خدا کی موجودگی کی روشنی میں سمجھنا چاہیے۔ جدید سائنس پر گفتگو کے لیے اس کی منہج کو سمجھنا ضروری ہے۔ جدید سائنس دو ستونوں پر کھڑی ہے۔ ایک ستون ہے سائنسی مشاہدہ اور دوسرا ستون ہے سائنسی تجربہ۔ سائنس کہتی ہے کہ وہ صرف اس چیز کے وجود کو تسلیم کرے گی جو سائنسی مشاہدہ ہے اور سائنسی تجربے سے ثابت ہوجائے۔ اتفاق سے مذہب کی کوئی بھی اہم چیز سائنس سے ثابت نہیں ہوتی۔ سائنس سے خدا کا وجود ثابت نہیں ہوتا، وحی اور نبوت کا برحق ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ آخرت کا ہونا ثابت نہیں ہوتا، جنت اور دوزخ ثابت نہیں ہوتے۔ فرشتوں اور جنات کا وجود ثابت نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ ان میں سے کچھ بھی ’’مادی‘‘ نہیں۔ یہ سب چیزیں ’’غیر مادی‘‘ ہیں اور سائنس کی دسترس سے باہر ہیں۔ مگر جدید سائنس اپنے علم اور طریقہ کار کی محدودیت یا Limitation کو تسلیم ہی نہیں کرتی۔ وہ کہتی ہے بس وہی حق ہے جو سائنسی مشاہدے اور سائنسی تجربے سے ثابت ہے۔
اصمعی صاحب یہ بھیانک دعویٰ بھی کررہے ہیں کہ قرآنی استدلال جدید سائنٹفک ذہن کے عین مطابق ہے۔ یعنی ان کے نزدیک قرآنی استدلال بھی ’’سائنٹفک‘‘ ہے۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ قرآن کا ایک ایک نقطہ اٹل ہے۔ اس کے برعکس سائنسی نظریات بدلتے رہتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ نیوٹن کی Mechanics تین سو سال تک ’’حتمی حقیقت‘‘ کے طور پر پڑھائی جاتی رہی۔ مگر آئن اسٹائن کے نظریۂ اضافیت نے نیوٹن کی Mechanics کو ازکار رفتہ بنا کر رکھ دیا۔ اب کوانیٹم فزکس آئن اسٹائن کے نظریات پر سوالات اُٹھا رہی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو قرآنی علم اور سائنسی علم میں کوئی باہمی تعلق ہی نہیں۔ اسی طرح قرآنی استدلال اور سائنسی استدلال بھی ایک دوسرے سے جدا ہیں۔