ملک کے معروف صحافی اور کالم نگار مظہر عباس نے اپنے ایک حالیہ کالم میں جماعت اسلامی اور اس کی سیاست کو موضوع بحث بنایا ہے۔ مظہر عباس نے لکھا ہے کہ جماعت اسلامی پاکستان کی سب سے منظم جماعت ہے اور اس کے اندر ’’خاصی حد تک‘‘ جمہوریت ہے لیکن اس کے باوجود اس کی سیاست میں ایک خلا پایا جاتا ہے۔ اس خلا کے نتیجے میں جماعت اسلامی کو انتخابی کامیابی نہیں مل پاتی۔ مظہر عباس نے لکھا ہے کہ جماعت سے زیادہ انتخابی کامیابی جمعیت علمائے اسلام کو مل جاتی ہے۔ مظہر عباس کے بقول اس کی وجہ جے یو آئی کے مدرسے ہیں۔
پاکستانی معاشرہ تعصبات میں ڈوبا ہوا معاشرہ ہے۔ اس معاشرے میں حریف کی تعریف کرنی پڑ جائے تو لوگ اس میں بھی ڈنڈی مارتے ہیں۔ مظہر عباس نے جماعت اسلامی کی تعریف کرتے ہوئے یہی کیا ہے۔ اس کا ٹھوس ثبوت یہ ہے کہ ان کے بقول جماعت اسلامی ’’خاصی حد تک‘‘ جمہوری ہے۔ اب اگر جماعت اسلامی خاصی حد تک جمہوری ہے تو پھر پاکستان کی باقی تمام جماعتیں یقینا جمہوریت کی دشمن ہیں۔ جماعت اسلامی پاکستان کی واحد جماعت ہے جس میں ہر سطح پر داخلی انتخابات کا نظام موجود ہے۔ اس کا مرکزی امیر ہی نہیں اس کا ضلعی امیر بھی منتخب ہو کر آتا ہے۔ اور یہ انتخاب بھی آزادانہ ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں نہ کوئی گروہ بندی ہوتی ہے نہ کوئی انتخابی مہم چلتی ہے۔ اس سلسلے میں نہ کہیں صنعت و تجارت کام کرتی ہے، نہ روپے پیسے کا کوئی کردار ہوتا ہے۔ جماعت اسلامی جب سے بنی ہے اس وقت سے اب تک اس میں تواتر کے ساتھ انتخابات ہورہے ہیں لیکن اس کے باوجود مظہر عباس کہہ رہے ہیں کہ جماعت اسلامی میں ’’خاصی حد تک‘‘ جمہوریت ہے۔ چلیے مظہر عباس نے جماعت اسلامی کے اندر ’’خاصی حد تک‘‘ جمہوریت تلاش کی ہے تو کوئی بات نہیں مگر وہ یہ بھی تو بتائیں کہ انہوں نے اپنی صحافیانہ زندگی میں کتنی بار پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کو غیر جمہوری یا جمہوریت دشمن قرار دیا ہے۔ پیپلز پارٹی جب سے بنی ہے بھٹو خاندان کے ہاتھ میں ہے اور پیپلز پارٹی کبھی بھٹو خاندان سے نجات حاصل نہ کرسکے گی۔ نواز لیگ پہلے دن سے آج تک شریف خاندان کی باندی ہے اور نواز لیگ کے اس ’’مقام‘‘ میں کبھی کوئی ردوبدل نہیں ہوسکتا۔ مگر ہمارے کالم نگاروں کی عظیم اکثریت کبھی پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے غیر جمہوری ہونے کا ماتم نہیں کرتی۔ ہمیں یاد نہیں پڑتا کہ مظہر عباس نے کبھی پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کو جمہوریت دشمن ہونے پر مطعون کیا ہو۔ وہ اس بات کا ذکر بھی کرتے ہیں تو سرسری طور پر۔ ان کی زیادہ توجہ ان جماعتوں کے مقبول عوام ہونے پر رہتی ہے۔ لیکن اگر صرف مقبول عوام ہونا ہی سب کچھ ہے تو ہٹلر بھی بہت مقبول عوام تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی انتخابات میں 7 کروڑ ووٹ حاصل کیے ہیں۔ اور مودی کا فاشزم بھی عوامی مقبولیت پر کھڑا ہوا ہے۔
مظہر عباس نے جماعت اسلامی کی سیاست میں یہ ’’خلا‘‘ تلاش کیا ہے کہ بیچاری جماعت اسلامی انتخابی کامیابی حاصل نہیں کر پاتی۔ مگر مظہر عباس نے اس کی وجہ نہیں بتائی۔ ہماری قومی سیاسی زندگی کی ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہماری سیاست گلے گلے تک تعصبات میں ڈوبی ہوئی ہے۔ پنجابی پنجابی کو ووٹ دیتا ہے، مہاجر مہاجر کو ووٹ ڈالتا ہے، سندھی سندھی کو انتخابی کامیابی دلاتا ہے، پشتون پشتون کے سر پر انتخابی کامیابی کا تاج رکھتا ہے اور بلوچ بلوچ کو ووٹ کے ذریعے آگے بڑھاتا ہے۔ مذہبی دائرے میں یہ حقیقت بھی راز نہیں کہ دیوبندی دیوبندی کو ووٹ دیتا ہے اور بریلوی بریلوی کے لیے حق رائے دہی استعمال کرتا ہے۔ جماعت اسلامی کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ نہ پنجابیوں کی جماعت ہے، نہ مہاجروں کی جماعت ہے، نہ سندھیوں کی جماعت ہے، نہ پشتونوں اور بلوچوں کی جماعت ہے۔ اس طرح جماعت اسلامی پر نہ دیوبندیت کی چھاپ ہے نہ وہ بریلویت کا پرچم اٹھائے ہوئے ہے۔ سوال یہ ہے کہ پھر جماعت اسلامی کو ووٹ پڑیں تو کس طرح اور جماعت اسلامی انتخابی کامیابی سے ہمکنار ہو تو کیونکر؟ پاکستان میں انتخابی کامیابی کا ایک ذریعہ Electables بھی ہیں۔ ان میں جاگیردار ہیں، وڈیرے ہیں، بڑے سرمایہ دار ہیں۔ اتفاق سے جماعت اسلامی کے پاس بدنام زمانہ Electables بھی نہیں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پھر جماعت اسلامی کی سیاست کا ’’خلا‘‘ کس طرح دور ہو اور اس پر ووٹوں کی بارش ہو تو کس طرح؟ پاکستان میں ’’انتخابی کامیابی‘‘ کا ’’ہما‘‘ ان لوگوں اور ان جماعتوں کے سر پر بھی بیٹھتا ہے جن کو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہوتی ہے۔ خوش قسمتی یا بدقسمتی سے جماعت اسلامی اسٹیبلشمنٹ کی پارٹی بھی کبھی نہیں رہی۔ تاریخ گواہ ہے کہ جماعت
اسلامی نے مشرقی پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کے شانہ بشانہ پاکستان کی بقا کی جنگ لڑی۔ جماعت اسلامی نے افغانستان میں اسٹیبلشمنٹ کے شانہ بشانہ داد شجاعت دی۔ جماعت اسلامی نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کشمیر کے جہاد میں حصہ لیا اور سیکڑوں قربانیاں پیش کیں۔ مگر اس کے باوجود جماعت اسلامی انتخابی کامیابی کے حوالے سے کبھی اسٹیبلشمنٹ کی پارٹی نہ بن سکی اس لیے کہ اسٹیبلشمنٹ کو جماعت اسلامی جیسی ’’صاحب کردار‘‘ جماعت ’’سوٹ‘‘ ہی نہیں کرتی۔ اسٹیبلشمنٹ کو ’’سوٹ‘‘ کرتا ہے تو بدعنوان شریف خاندان، اسٹیبلشمنٹ کو سوٹ کرتا ہے تو بدعنوان آصف علی زرداری یا ان کا فرزند ارجمند بلاول زرداری۔ اسٹیبلشمنٹ کو سوٹ کرتی ہے تو بدعنوان نواز لیگ۔ اسٹیبلشمنٹ کو سوٹ کرتی ہے تو بدعنوان پیپلز پارٹی۔ اسٹیبلشمنٹ کو جماعت اسلامی جیسی باکردار اور صاف ستھری جماعت سوٹ ہی نہیں کرتی۔ اسٹیبلشمنٹ بدعنوان سیاست دانوں اور جماعتوں کے خلاف واویلا تو کرتی ہے مگر اسے پسند یہی جماعتیں ہیں کیوں کہ ان جماعتوں کو کسی بھی وقت جوتا مار کر اقتدار سے باہر کیا جاسکتا ہے۔ جماعت اسلامی اقتدار میں آگئی تو آخر اسے کس الزام کے تحت اقتدار سے باہر کیا جائے گا؟ کیا جماعت اسلامی پر یہ الزام لگایا جاسکے گا کہ وہ کرپٹ ہے؟ کیا جماعت اسلامی کے بارے میں یہ کہا جاسکے گا وہ مودی کی یار ہے یا وہ امریکا کی ’’گڈ بکس‘‘ میں شامل ہے۔ اس تناظر میں سوال یہ ہے کہ جماعت اسلامی کی سیاست کا خلا کس طرح پُر ہو اور جماعت اسلامی انتخابی سطح پر کامیاب ہو تو کس طرح؟۔
جماعت اسلامی کا اصل تشخص اور اس کی سب سے بڑی قوت اس کا ’’نظریاتی‘‘ ہونا ہے۔ جماعت اسلامی صرف مذہبی جماعت نہیں بلکہ وہ اپنی اصل میں ایک نظریاتی جماعت ہے۔ ہماری مذہبی جماعتیں کبھی اپنے ملک اور فرقے سے بلند نہیں ہوپاتیں، مگر جماعت اسلامی ایک سطح پر قومی جماعت ہے، دوسری سطح پر ملی جماعت ہے اور تیسری سطح پر وہ امت کی علامت ہے۔ اس کے تصورِ دین میں اسلام ایک مکمل ضابطہ ٔ حیات ہے۔ جماعت اسلامی ایک جانب ’’الحق‘‘ کو فروغ دینے والی جماعت ہے اور دوسری جانب وہ مقامی اور بین الاقوامی باطل کو چیلنج کرنے والی جماعت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی ملک کی واحد جماعت ہے جس نے معاشرے میں نظریاتی کشمکش کو برپا کیا۔ اسلامی جمعیت طلبہ نے طلبہ کے دائرے میں اسی نظریاتی کشمکش کو اختیار کیا۔ اس نے ایک جانب طلبہ کو الحق سے وابستہ کیا اور دوسری جانب اس نے طلبہ میں کام کرنے والے سوشلسٹ، سیکولر اور لبرل عناصر کو چیلنج کیا۔ اسلامی جمعیت طلبہ کے اس کردار نے جمعیت کو طلبہ سیاست کے مرکزی دھارے میں لاکھڑا کیا اور ایک وقت ایسا آیا جب جمعیت کی ’’انتخابی قوت‘‘ یا ’’انتخابی اہلیت‘‘ اتنی بڑھ گئی کہ اس کے نظریاتی حریف متحد ہو کر ہی جمعیت کا مقابلہ کرسکتے تھے۔ جمعیت طلبہ میں نظریاتی کشمکش برپا نہ کرتی تو وہ کبھی ایک بڑی نظریاتی اور انتخابی قوت نہ بنتی۔ محنت کشوں کے دائرے میں بھی جماعت اسلامی کی برپاکی ہوئی نظریاتی کشمکش نے اپنا کام دکھایا اور جماعت اسلامی سے وابستہ مزدور انجنوں نے ملک کے بڑے بڑے اداروں میں سوشلسٹوں کو بدترین انتخابی ہزیمت سے دوچار کیا۔ خود قومی سیاست کے دائرے میں جماعت اسلامی کی نظریاتی ساکھ نے جماعت اسلامی کو ایک بڑی سیاسی جماعت بنا کر کھڑا کردیا۔ اکثر لوگ یہ تو بتاتے ہیں کہ 1970ء کے انتخابات میں جماعت اسلامی نے پورے ملک سے 4 نشستوں پر کامیابی حاصل کی مگر وہ یہ نہیں بتاتے کہ ان انتخابات میں جماعت اسلامی کو 24 لاکھ سے زیادہ ووٹ ملے۔ یہ لسانی اور صوبائی تعصب کو ملنے والے ووٹ نہیں تھے۔ یہ فرقے اور مسلک کے ووٹ نہیں تھے۔ یہ اوّل او آخر جماعت اسلامی کے نظریے کے ووٹ تھے۔ یہ جماعت اسلامی کے نظریاتی تشخص کو ملنے والے ووٹ تھے اور ووٹوں کی یہ تعداد بتارہی تھی کہ جو جماعت اپنی نظریاتی قوت سے 24 لاکھ ووٹ حاصل کرسکتی ہے وہ اپنی نظریاتی کشمکش سے 48 لاکھ ووٹ حاصل کرکے غیر معمولی انتخابی کامیابی بھی حاصل کرسکتی تھی۔ مگر بدقسمتی سے جنرل ضیا الحق کے مارشل لا کے بعد ملک میں نظریاتی سیاست کا خاتمہ ہوگیا اور سیاست شخصی، خاندانی اور گروہی ہوتی چلی گئی۔ سوویت یونین اور کمیونزم کے خاتمے نے نظریاتی کشمکش کو قومی منظرنامے سے یکسر غائب کردیا۔ اس منظرنامے میں جماعت اسلامی بڑی قوت بنے تو کیسے؟ چناں چہ مسئلے کا حل یہ ہے کہ جماعت اسلامی معاشرے میں ایک بار پھر نظریاتی کشمکش برپا کرے۔ اس کشمکش کے لیے حالات پوری طرح سازگار ہیں۔ یہ کشمکش معاشرے میں برپا ہوگئی تو جماعت اسلامی ماضی کی طرح قومی سیاست کا مرکزی کردار ہوگی۔ اسی کردار سے جماعت اسلامی کی انتخابی کامیابی بھی برآمد ہوگی۔ ایسا نہیں ہوگا تو بھی جماعت اپنے قیام کا حق تو ادا کر ہی رہی ہوگی۔