فرانس کے صدر امانوئل مکرون نے ایک ٹویٹ میں ایسا دعویٰ کیا ہے کہ ایسا دعویٰ ایک جاہل مطلق بھی نہیں کرسکتا۔ انہوں نے فرمایا ہے۔
Secularism has never killed any one
یعنی سیکولرازم نے کبھی کسی کو ہلاک نہیں کیا۔ غور کیا جائے تو اس ٹویٹ کے پس منظر میں اسلام کھڑا ہے اور فرانس کے صدر کہہ رہے ہیں کہ اسلام تو دہشت گردی سکھاتا ہے مگر سیکولرازم نے کبھی دہشت گردی نہیں کی۔ اسلام ’’غیر مہذب‘‘ ہے اور سیکولرازم سراپا ’’تہذیب‘‘ ہے۔ لیکن سیکولرازم کی تاریخ اتنی خون آشام ہے کہ اس کے بیان کے لیے کالم کیا ایک کتاب بھی کم ہے۔
سوشلزم ایک سیکولر نظریہ تھا اور کون نہیں جانتا کہ چین اور روس کے انقلابات میں بہت بڑے پیمانے پر قتل عام ہوا۔ ایک اندازے کے مطابق چین کے انقلاب میں چار کروڑ لوگ مارے گئے اور روس کے انقلاب میں 80 لاکھ لوگ قتل ہوئے۔ بلاشبہ ان انقلابات میں قتل ہونے والوں کا تعلق طبقہ امرا سے تھا مگر طبقہ امرا سے تعلق رکھنے والا ہر شخص استحصالی نہیں ہوتا۔ بالائی طبقات سے تعلق رکھنے والا ہر شخص واجب القتل نہیں ہوتا مگر چین اور روس کے انقلابات میں چار کروڑ 80 لاکھ لوگ ہلاک ہوگئے۔ اسلام میں جان کی حرمت یہ ہے کہ اگر کسی شخص نے ایک انسان کو بھی بلاسبب مار دیا تو گویا اس نے پوری انسانیت کو قتل کردیا اور اگر کسی شخص نے ایک انسان کی جان بچالی تو گویا اس نے پوری انسانیت کو محفوظ کرلیا۔ رسول اکرمؐ کی مدنی زندگی کے 10 سال جہاد و قتال کے دس سال ہیں اور رسول اکرمؐ کے اس عہد مبارک میں 60 سے زیادہ غزوات اور سرایا ہوئے لیکن ان معرکوں میں بمشکل چند سو افراد مارے گئے۔ اسلام نے جنگ کے اتنے سخت اصول متعارف کرائے کہ جنگ کی سرحد کو امن کی سرحد سے ملادیا۔ اسلام کا جنگی اصول ہے کہ جنگ میں خواتین اور بچوں کو کچھ نہیں کہا جائے گا۔ جو شخص ہتھیار ڈال دے اس کی جان بخش دی جائے گی۔ جو شخص میدان جنگ سے بھاگ کھڑا ہوا اس سے درگزر کیا جائے گا۔ فصلوں کو آگ نہیں لگائی جائے گی۔ عبادت گاہوں کو نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔ عبادت گاہوں میں عبادت کرنے والوں کو کچھ نہیں کہا جائے گا مگر چین اور روس کے سیکولر انقلابات میں 4 کروڑ 80 لاکھ افراد ذبح کردیے گئے۔ چین اور روس کے سیکولر انقلاب نے صرف انسانوں کو قتل نہیں کیا، ان انقلابات نے مذاہب کو بھی صفحہ ہستی سے مٹادیا۔ کسی ایک مذہب کو نہیں ہر مذہب کو۔ اسلام، یہودیت، عیسائیت، بدھ ازم کوئی بھی چین اور روس کے سیکولر انقلابات کے خونیں پنجے سے نہ بچ سکا۔
یورپ کی ایجاد کردہ دو عالمی جنگیں اپنی اصل میں سیکولر جنگیں تھیں اور ان جنگوں میں 80 کروڑ افراد ہلاک ہوئے۔ جب جنگ میں ایک شخص ہلاک ہوتا ہے تو اندازاً تین لوگ زخمی ہوتے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ دو عالمی جنگوں میں 30 کروڑ افراد زخمی ہوئے۔ جنگ کا تعلق کبھی کبھی برتر اصول کے تحفظ سے بھی ہوتا ہے۔ مگر دو عالمی جنگیں کسی برتر اصول کے تحفظ کے لیے نہیں لڑی گئیں۔ ان جنگوں کا تعلق یورپی ممالک کے مفادات سے تھا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ یورپ کی سیکولر ریاستوں نے اپنے مفادات کے لیے دس کروڑ لوگوں کو مار ڈالا اور 30 کروڑ لوگوں کو زخمی کردیا۔ اس کے باوجود فرانس کا صدر سینہ تان کے کہہ رہا ہے کہ سیکولرازم نے کبھی کسی کو قتل نہیں کیا۔
یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ امریکا نے کوریا کی جنگ میں 30 لاکھ اور ویت نام کی جنگ میں 15 لاکھ لوگوں کو ہلاک کیا۔ امریکا نے یہ جنگیں ایک سیکولر ملک اور ایک سیکولر طاقت کی حیثیت سے لڑیں۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ دونوں جنگیں امریکا نے شروع کیں۔ امریکا اور یورپ کی سیکولر ریاستوں نے صدام حسین کے عراق پر اقتصادی پابندیاں عاید کیں جن سے عراق میں غذا اور دوائوں کی قلت ہوگئی۔ اس قلت سے پانچ لاکھ بچوں سمیت دس لاکھ عراقی ہلاک ہوگئے۔ یہ عراقی کسی طرح بھی صدام حسین کے کسی جرم میں شریک نہ تھے۔ یہ عام لوگ تھے۔ معصوم لوگ تھے مگر سیکولرازم کو معصوم لوگوں پر کیا پانچ لاکھ معصوم بچوں پر بھی رحم نہ آیا اور وہ انہیں غذا اور دوائوں کی قلت سے مرتے ہوئے دیکھتا رہا۔ اس کے باوجود فرانس کا صدر دعویٰ کررہا ہے کہ سیکولر ازم نے کبھی کسی کو ہلاک نہیں کیا۔ عراق کی کہانی دس لاکھ افراد کی ہلاکت پر ختم نہیں ہوگئی۔ سیکولر امریکا نے دعویٰ کیا کہ صدام حسین کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں۔ اس دعوے کی آڑ میں سیکولر امریکا اور اس کے سیکولر اتحادی عراق پر چڑھ دوڑے۔ امریکا کی جان ہوپکنگ یونیورسٹی کے اعداد وشمار کے مطابق سیکولر امریکا اور اس کے سیکولر اتحادیوں نے عراق پر قبضے کے ابتدائی پانچ برسوں میں چھ لاکھ عراقیوں کو مار ڈالا۔ ان میں سے ایک لاکھ لوگ براہِ راست جنگ سے مارے گئے اور پانچ لاکھ لوگوں کو جنگ کے اثرات کھا گئے۔ مگر فرانس کا صدر پوری بے حیائی اور ڈھٹائی کے ساتھ کہہ رہا ہے کہ سیکولرازم نے کبھی کسی کو ہلاک نہیں کیا۔ سیکولر امریکا اور اس کے سیکولر اتحادیوں نے نائن الیون کے بعد افغانستان کے خلاف ننگی جارحیت کا ارتکاب کیا اور 19 برسوں میں ڈیڑھ سے دو لاکھ افغانیوں کو مار ڈالا۔ اس دوران سیکولر امریکا اور اس کے سیکولر اتحادیوں نے شادی کی تقریبات اور جنازوں تک پر بمباری کی۔ نیویارک کے ایک تھنک ٹینک کے اعداد وشمار کے مطابق امریکا نے عراق، افغانستان، صومالیہ، یمن اور پاکستان میں ایک سال کے دوران 26171 بم گرائے، مگر فرانس کے صدر کا دعویٰ ہے کہ سیکولرازم نے کبھی کسی کو ہلاک نہیں کیا۔ یہ بات بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ سیکولر امریکا نے جاپان میں ایک نہیں دو ایٹم بم گرائے اور دو لاکھ سے زیادہ انسانوں کو مار ڈالا۔ اہم بات یہ ہے کہ بم گرانے سے قبل امریکا نے جاپانی فوج کے خفیہ پیغامات کو پکڑ لیا تھا اور امریکا کو ان کی بنیاد پر معلوم ہوگیا تھا کہ جاپانی فوج ہتھیار ڈالنے ہی والی ہے۔ یعنی جاپان کے خلاف ایٹم بموں کے استعمال کا کوئی عسکری جواز نہ تھا، مگر پھر بھی سیکولر امریکا نے جاپانیوں کے سر پر دو ایٹم بم دے مارے۔
خود سیکولر فرانس کی دہشت گردی اور ہلاکت آفرینی تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے۔ اعداد وشمار کے مطابق فرانس کے سیکولر انقلاب نے ’’صرف‘‘ 40 ہزار لوگوں کو قتل کیا۔ فرانس نے 1836 سے 1962 تک الجزائر کو غلام بنائے رکھا اور غلامی کے اس عرصے میں فرانس نے ’’صرف‘‘ 15 لاکھ افراد کو شہید کیا۔ فرانس کے فوجیوں کو مسلمانوں کے سر کاٹنے کا ’’شوق‘‘ تھا۔ چناں چہ انہوں نے سیکڑوں لوگوں کے سر کاٹے۔ پیرس کے ایک میوزیم میں آج بھی انسانوں کی 18000 کھوپڑیاں رکھی ہوئی ہیں۔ ان کھوپڑیوں میں الجزائر کی جنگ آزادی کے رہنمائوں اور مجاہدین کی کھوپڑیاں بھی شامل ہیں۔ فرانسیسیوں نے الجزائر میں صرف مسلمانوں ہی کو قتل نہیں کیا۔ وہ دہشت پھیلانے کے لیے کھڑی فصلوں کو آگ لگا دیتے تھے۔ انہوں نے شعوری طور پر مساجد کو شہید کیا اور ان کی جگہ گرجے بنائے۔ فرانسیسیوں کو جھوٹ بولنے میں بھی خصوصی مہارت حاصل ہے۔ جب نپولین نے 1798ء میں مصر کے خلاف جارحیت کی تو اس نے مصریوں کو یقین دلایا کہ نپولین خود بھی مسلمان ہے اور اس کے فوجی بھی ’’صاحب ایمان‘‘ ہیں۔ اس نے مصریوں سے کہا کہ وہ انہیں مملوکوں سے نجات دلانے کے لیے آیا ہے۔ یہ تو اچھا ہوا کہ اہل مصر نے نپولین کا اعتبار نہ کیا۔ جس طرح انگریزوں نے برصغیر میں ’’لسانی دہشت گردی‘‘ کرتے ہوئے فارسی اور اردو کو پس منظر میں دھکیل کر پورے برصغیر پر انگریزی مسلط کر دی، اسی طرح فرانسیوں نے الجزائر میں الجزائر کے باشندوں پر فرانسیسی تھوپ دی۔ فرانسیوں کی آمد سے قبل الجزائر کے تعلیمی اداروں میں عربی کو ’’ذریعہ تعلیم‘‘ کی حیثیت حاصل تھی مگر الجزائر پر فرانس کے قبضے کے بعد فرانس کے تعلیمی اداروں میں ذریعہ تعلیم فرانسیسی بن گئی اور عربی تعلیمی اداروں میں ’’غیر ملکی زبان‘‘ کی حیثیت سے پڑھائی جانے لگی۔
اس وقت فرانس کی تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ فرانس میں مسلمانوں کی آبادی 65 لاکھ ہے اور مسلمان فرانس کی آبادی کا دس فی صد ہیں مگر فرانس کے منتخب ایوانوں میں فرانس کے مسلمانوں کی نمائندگی صفر ہے۔ فرانس کے مسلمانوں کو ’’معاشی دہشت گردی‘‘ کا بھی سامنا ہے۔ اگر فرانس میں بیروزگاری کی شرح 10 فی صد ہے تو فرانس کے مسلمانوں میں بیروزگاری کی شرح 20 فی صد ہے۔ فرانس کے اپنے اعداد وشمار کے مطابق 2019ء میں اسلاموفوبیا کے 1043 واقعات رونما ہوئے جو 2017ء سے 77 فی صد زیادہ تھے۔ اطلاعات کے مطابق فرانس کے مسلمانوں پر جسمانی حملوں میں 6.5 فی صد امتیازی سلوک میں 59.3 فی صد، نسلی اور لسانی نفرت کے واقعات میں 20 فی صد، غنڈہ گردی کے واقعات میں 8.9 فی صد اور عبادت گاہوں پر حملوں میں 2.1 فی صد اضافہ ہوا ہے۔ اس کے باوجود فرانس کے صدر کا اصرار ہے کہ سیکولرازم معصوم ہے، بے ضرر ہے، اللہ میاں کی گائے ہے، مہذب ہے، البتہ اسلام غیر مہذب ہے۔ سوال یہ ہے کہ سیکولر ازم انسان کش بالخصوص مسلم کش کیوں ہے؟۔
تاریخ کا تجزیہ بتاتا ہے کہ جب تک انسان اور انسان کے تعلق کے درمیان خدا موجود ہوتا ہے اس وقت تک انسان خدا کے سامنے جواب دہی کے احساس سے سرشار رہتا ہے اور وہ دوسرے انسانوں کے لیے اچھا رہتا ہے لیکن جب انسانوں کے درمیان سے خدا ہٹ جاتا ہے اور انسان خود خدا بن جاتا ہے تو پھر وہ مخلوق خدا کی زندگی جہنم بنادیتا ہے۔ سیکولرازم ایک بے خدا نظریہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر سیکولر عناصر کے سینوں میں دل کی جگہ سِل دھڑکتی ہے اور اسے بتاتی ہے تو بڑا معصوم ہے۔