واشنگٹن میں ’’نسل کشی اور بھارتی مسلمان‘‘ کے موضوع پر ہونے والے بین الاقوامی سیمینار میں عالمی ماہرین نے بھارت میں آباد 20 کروڑ مسلمانوں کی نسل کشی کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ بین الاقوامی تنظیم جنیوا سائڈ واچ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی جاری ہے۔ مقالہ نگار ٹینا رمریز نے کہا کہ مسلم آبادی پر ظلم مسلمانوں کی معاشی حالت کو بدتر بنا رہا ہے۔ ڈاکٹر ریساس نے کہا کہ بھارت کے مسلمانوں کو ان کے آئینی حقوق دینے سے انکار کیا جارہا ہے۔ (روزنامہ 92 نیوز: 22 نومبر، 2020ء)
نسل کشی ہزاروں یا زیادہ سے زیادہ لاکھوں لوگوں کو ہوتی ہے مگر بھارت مسلمانوں کے لیے اتنی بڑی بلا بن چکا ہے کہ 20 کروڑ لوگ نسل کشی کی زد میں آگئے ہیں۔ اور اس بات کی گواہی مغرب کے ماہرین بھی دے رہے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو بھارت نے ہٹلر کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ عام خیال یہ ہے کہ ہٹلر نے جرمنی میں 60 لاکھ یہودیوں کو قتل کیا۔ مگر بھارت کی ہندو قیادت 20 کروڑ لوگوں کو قتل کرانے کی نیت رکھتی ہے۔ لیکن بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی آج کل کی بات نہیں۔ یہ نسل کشی 73 سال سے جاری ہے۔ قیام پاکستان کے وقت ہونے والے مسلم کش فسادات میں 10 لاکھ سے زیادہ مسلمان شہید ہوئے تھے لیکن 10 لاکھ لوگوں کا خون بھی بھارت کی ہندو قیادت کی پیاس نہ بجھا سکا۔ چناں چہ گزشتہ 70 سال میں بھارت میں پانچ ہزار سے زیادہ مسلم کش فسادات ہوئے ہیں۔ ان فسادات میں لاکھوں مسلمان شہید ہوئے ہیں اور ان کی انفرادی اور اجتماعی معیشتیں تباہ ہوئی ہیں مگر بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد مسلمانوں کے لیے خطرات اور بھی بڑھ گئے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ بی جے پی کے اجتماعی دل میں مسلمانوں کے لیے کانگریس سے زیادہ نفرت ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ ایک انٹرویو میں مودی سے پوچھا گیا کہ کیا آپ کو مسلمانوں کی موت پر افسوس نہیں ہوتا؟ مودی نے اس کے جواب میں کہا آپ کی گاڑی کے نیچے کتے کا پلا آئے گا تو آپ کو افسوس تو ہوگا۔ یہ مودی کا منفی تبصرہ نہیں ان کا تصور مسلمان ہے۔ بھارتی ریاست اتر پردیش میں ایک عوامی جلسے میں اترپردیش کے وزیراعلیٰ جوگی ادتیہ ناتھ بھی موجود تھے۔ ان کی موجودگی میں بی جے پی کے ایک رہنما نے کہا کہ اگر مسلمان عورتوں کو قبروں سے نکال کر بھی ریپ کرنا پڑے تو ضرور کرنا چاہیے۔ یہ بھی بی جے پی کا ’’تصور مسلمان‘‘ ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو 20 کروڑ بھارتی مسلمانوں کی نسل کشی کا اندیشہ بہت حقیقی ہے۔ لیکن اس سلسلے میں چند حقائق کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے۔
ہندوستانی مسلمان؛ مسلمانوں کی ایک ’’نایاب قسم‘‘ ہیں۔ ان کی قوت مزاحمت کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ وہ ایک ہزار سال سے ہندوئوں کے سمندر میں ایک جزیرے کی طرح ہونے کے باوجود بھی اپنی مذہبی، تہذیبی، تاریخی اور سماجی ثقافت کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ ہندوستان کا تجربہ یہ ہے کہ ہندو ازم یا تو دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو اپنی طرح بنا لیتا ہے یا انہیں ہندوستان سے باہر نکال دیتا ہے۔ سکھ ازم ہندو ازم سے مختلف چیز ہے۔ سکھ ازم کے بانی بابا گرونانک توحید پرست تھے۔ سکھوں کی مذہبی کتاب گروگرنتھ صاحب میں مسلم صوفیا کے اقوال موجود ہیں مگر ہندوئوں نے سکھوں کو اس طرح بدلا کہ اب ہندوئوں اور سکھوں میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ بدھ ازم برہمن ازم کے خلاف بغاوت تھا اس لیے برہمنوں نے بدھ ازم کو بھارت میں ٹکنے ہی نہ دیا۔ بدھ ازم بھارت میں رہا بھی تو صرف اس کے مضافات میں۔ اس کے برعکس بھارت کے مسلمانوں نے عظیم ہندو اکثریت کے درمیان رہتے ہوئے اپنی مذہبی، تہذیبی، تاریخی، علمی، سماجی، نفسیاتی اور جذباتی شناخت کو باقی رکھا۔ یہ شناحت باقی نہ رہتی تو دو قومی نظریہ نہ جنم لیتا، دو قومی نظریہ جنم نہ لیتا تو پاکستان وجود میںنہ آتا۔
ہندوستان کے جغرافیے میں آباد مسلمانوں کی قوت مزاحمت بے مثال ہے۔ ٹیپو سلطان نمودار ہوا تو ہندوستان کے مسلم اقلیتی علاقوں سے ٹیپو کی اہمیت یہ ہے کہ جب تک ٹیپو زندہ رہا انگریزوں نے کبھی بھارت کو ’’اپنا‘‘ نہیں سمجھا۔ ٹیپو شہید ہوا تو وہاں موجود انگریز سپاہیوں اور افسروں نے نعرہ مارا کہ اب ہندوستان ہمارا ہے۔ سراج الدولہ اُٹھا تو ہندوستان کی خاک سے۔ جس کے بارے میں شاعر کو کہنا پڑا۔
غزالاں تم تو واقف ہو کہو مجنوں کے مرنے کی
دوانہ مرگیا آخر کو ویرانے پہ کیا گزری
جنرل بخت خان سامنے آیا تو ہندوستان کے مسلم اقلیتی علاقے سے۔ اس نے بہادر شاہ ظفر کو قلعے سے نکالنے کی بہت کوشش کی۔ بہادر شاہ ظفر جنرل بخت خان کی بات مان لیتے تو ہندوستان کی تاریخ مختلف ہوسکتی تھی۔ یہ ہندوستان کے مسلم اقلیتی علاقوں کے مسلمان ہیں جنہوں نے ’’دیوبند‘‘ خلق کیا۔ ’’بریلی‘‘ وضع کیا۔ ’’ندوۃ العلما‘‘ ایجاد کیا۔ ’’علی گڑھ‘‘ کی صورت گری کی۔ یہ ہندوستان کے مسلم اقلیتی علاقے ہیں جنہوں نے علما، شاعروں اور ادیبوں کی کہکشاں تخلیق کی۔ اردو کی کلاسیکل شاعری کا 98 فی صد مسلم اقلیتی صوبوں کی عطا ہے۔ انہی علاقوں نے شبلی کی صورت میں سب سے بڑا سیرت نگار پیدا کیا۔ انہی علاقوں نے مولانا مودودی کو جنم دیا۔ انہی علاقوں نے مولانا اشرف علی تھانوی کو پیدا کیا۔ انہی علاقوں نے اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی کو نمود بخشی۔ انہی علاقوں سے وہ شاہ ولی اللہ طلوع ہوئے جنہوں نے برصغیر میں قرآن اور حدیث کے علم کو زندہ کیا۔
یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر ہے کہ ایسا کوئی گروہ تاریخ میں موجود نہیں جس نے اپنے نظریے کے لیے اپنے حال اور مستقبل کو شعوری طور پر خطرے میں ڈالا ہو۔ ہندوستان کے مسلم اقلیتی صوبوں کے مسلمان ایسا ہی گروہ ہیں۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ پاکستان پنجاب، سندھ، کے پی کے، بلوچستان اور بنگال میں بن رہا تھا مگر تحریک پاکستان دلی یوپی اور سی پی میں چل رہی تھی۔ حالاں کہ ان علاقوں کے مسلمانوں کو معلوم تھا کہ وہ کبھی نہ پاکستان کا حصہ ہوں گے نہ پاکستان بننے کے فوائد میں ان کا کوئی حصہ ہوگا۔ اس کے برعکس ہندو انہیں اور ان کی آئندہ نسلوں کو پاکستان بنانے کے
جرم میں مطعون کریں گے۔ ان سے انتقام لیں گے اور ان کا جینا حرام کردیں گے۔ دنیا کا ہر انسان فائدے اور نقصان کے تناظر میں سوچتا ہے مگر بھارت کے اقلیتی صوبوں کے مسلمان پاکستان کی تخلیق کے حوالے سے فائدے اور نقصان کو بھول گئے وہ فائدے اور نقصان سے بلند ہوگئے۔ یہ ایک ناقابل تردید تاریخی حقیقت ہے کہ پنجاب پر 1946ء تک یونینسٹ پارٹی کا غلبہ تھا اور یونینسٹ پارٹی ایک جانب انگریزوں کی ایجنٹ تھی اور دوسری جانب کانگریس کی حلیف تھی۔ اسی طرح 1946ء تک صوبہ سرحد پر اس سرحدی گاندھی غفار خان کا قبضہ تھا جس نے مرنے کے بعد پاکستان میں دفن ہونا بھی پسند نہیں کیا اور جس نے قیام پاکستان کے بعد گاندھی کو مخاطب کرکے کہا کہ آپ نے ہمیں بھیڑیوں کے آگے ڈال دیا ہے۔ مگر ہندوستان کے مسلم اقلیتی صوبوں کے مسلمان پہلے دن سے قائد اعظم کے ساتھ تھے۔ ان کا خواب تھا کہ پاکستان دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست بن کر اُبھرے اور اسلام کے احیا کا خواب شرمندہ تعبیر ہو۔ ہندوستان کے اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں کے اس غیر معمولی تاریخی کردار کی وجہ سے قائداعظم کو اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں سے بڑی محبت تھی۔ قیام پاکستان کے بعد ایک اجلاس میں قائد اعظم سے کسی نے کہا کہ پاکستان بن گیا ہے مگر اقلیتی صوبوں کے مسلمان رہنمائوں سے محروم ہوگئے ہیں تو کیا آپ اب بھی ہندوستان کے مسلمانوں کی رہنمائی کرنا پسند کریں گے؟ قائد اعظم نے کہا کہ اگر یہ اجلاس ایک قرار داد منظور کرلے تو وہ بھارت جا کر اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں کی قیادت کرنے پر آمادہ ہیں۔ یہ ایک غیر معمولی بات تھی اور صرف غیر معمولی لوگوں کے بارے ہی میں کہی جاسکتی تھی۔ یہ بات بھی تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ قائد اعظم نے بھارت کے اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں کو پاکستان کے حوالے سے ’’مینارئہ نور‘‘ کہا ہے۔ قائد اعظم کو بھارت کے مسلمانوں کے حال اور مستقبل کی بڑی فکر تھی۔ یہاں تک کہ انہوں نے ایک بار فرمایا کہ اگر بھارت نے اقلیتوں کے ساتھ اچھا سلوک نہ کیا تو پاکستان خاموش نہیں رہے گا، بلکہ وہ مداخلت کرے گا۔ ظاہر ہے کہ مداخلت ’’بیاناتی‘‘ نہیں ہوتی ہمیشہ عسکری ہوتی ہے۔
یعنی قائد اعظم کہہ رہے تھے کہ اگر بھارت نے مسلمانوں کے ساتھ بُرا سلوک کیا تو پاکستان بھارتی مسلمانوں کے تحفظ کے لیے ہندوستان میں فوجی مداخلت کرے گا۔ اصل میں پاکستان کا بنیادی ’’آئیڈیا‘‘ یہ تھا کہ پاکستان ایک طاقت ور ریاست ہوگا۔ چناں چہ وہ بھارت کے ان مسلمانوں کا بھی کامیابی کے ساتھ دفاع کرے گا جو پاکستان نہیں آسکیں گے۔ لیکن قائد اعظم اور لیاقت علی خان کے بعد پاکستان کے حکمران بھارتی مسلمانوں کو بھول گئے۔ انہیں یاد ہی نہ رہا کہ جس پاکستان کے وہ حکمران ہیں وہ پاکستان بھارتی مسلمانوں کی جدوجہد اور غیر معمولی ایثار کے بغیر وجود میں آ ہی نہیں سکتا تھا۔ پاکستان کا حکمران طبقہ کہتا رہتا ہے کہ اس کے لیے قائد اعظم کے اقوال بہت اہم ہیں مگر اس حکمران طبقے کو یاد ہی نہیں کہ قائد اعظم نے بھارت کے مسلمانوں کے حوالے سے کیا کچھ کہہ رکھا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان پر بھارتی مسلمانوں کا بڑا حق ہے۔ بھارت کے مسلمان پاکستان کے بنیاد گزار ہیں۔ چناں چہ ان کے تحفظ کی جنگ پاکستان کی اپنی جنگ ہے۔ مگر پاکستان کا حکمران طبقہ اتنا بے بس ہے کہ وہ بھارت کے مسلمانوں کا کیا تحفظ کرے گا وہ تو 1971ء میں پاکستان تک کا تحفظ نہ کرسکا۔ البدر اور الشمس نے مشرقی پاکستان میں پاکستان کی بقا اور سلامتی کی جنگ لڑی مگر پاکستان کے جرنیلوں نے ہتھیار ڈالتے ہوئے یہ نہ سوچا کہ البدر اور الشمس کے لوگوں پر کیا گزرے گی۔ چناں چہ بھارت کے مسلمانوں کو اپنی بقا کی جنگ خود ہی لڑنی ہوگی۔ بھارت کے مسلمان اس وقت شکست خوردہ نظر آتے ہیں مگر ان کی تاریخ کے ڈی این اے میں مزاحمت بھری پڑی ہے۔ یہ مزاحمت پیدا ہوگئی تو ہندو اکثریت 20 کروڑ مسلمانوں کا کچھ نہ بگاڑ پائے گی۔