اقبال کی ایک نظم صرف تین شعروں پر مشتمل ہے۔ نظم کا عنوان ہے ’’پنجابی مسلمان‘‘ نظم یہ ہے۔
مذہب میں بہت تازہ پسند اس کی طبیعت
کرلے کہیں منزل تو گزرتا ہے بہت جلد
تحقیق کی بازی ہو تو شرکت نہیں کرتا
ہو کھیل مریدوی کا تو ہرتا ہے بہت جلد
تاویل کا پھندا کوئی صیاّد لگا دے
یہ شاخِ نشیمن سے اُترتا ہے بہت جلد
ہم مدتوں سے پنجابی مسلمان پر اقبال کی اس نظم کو حرف آخر سمجھتے رہے مگر روزنامہ جنگ میں یاسر پیرزادہ کا حالیہ کالم پڑھ کر خیال آیا کہ اقبال کا پنجابی مسلمان تو اقبال کی نظم سے بہت آگے نکل آیا ہے۔ اب وہ کھل کر پوری بے خوفی کے ساتھ حدود اللہ کا مذاق اڑا رہا ہے اور ان پر حملہ کررہا ہے۔ اس سے قبل کہ اس اجمال کی تفصیل بیان ہو یاسر پیرزادہ کے کالم کا ایک بڑا حصہ آپ کی خدمت میں پیش ہے۔
یہاں یاسر پیرزادہ کے کالم کا بڑا حصہ اس لیے پیش کیا جارہا ہے کہ ان کے حملے کی تمام جہتوں کا احاطہ ہوسکے اور کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ ہم نے یاسر پیرزادہ کا پورا موقف پیش نہیں کیا۔ یاسر پیرزادہ اپنے کالم میں لکھتے ہیں۔
’’بھلا ہو پروفیسر ہود بھائی کا جن کا انگریزی کالم پڑھ کر مجھے پتا چلا کہ گزشتہ ہفتے سے متحدہ عرب امارات میں نئے قوانین کا اطلاق ہوا ہے جن کے بعد اب وہاں شراب پینے پر رہی سہی پابندی بھی ختم کر دی گئی ہے، یہی نہیں بلکہ اب غیر مرد اور عورت بغیر شادی کے اکٹھے رہ سکتے ہیں۔ اِس کے علاوہ بھی کچھ قوانین میں ترمیم کی گئی ہے جیسے کہ غیرت کے نام پر قتل کو اب عام قتل کی طرح ہی جرم سمجھ کر مقدمہ چلایا جائے گا اور شادی، طلاق، وراثت وغیرہ کے قوانین بھی تبدیل کیے گئے ہیں۔ ہوسکتا ہے کبھی کوئی لبرل قسم کا عالم دین کھینچ تان کر کہیں سے شراب کی گنجائش پیدا کر لے مگر نا محرم مرد اور عورت کا بغیر نکاح کے اکٹھے رہنا کہیں سے بھی اسلامی قوانین یا شریعت کے مطابق نہیں۔ تو کیا یہ سمجھا جائے کہ امارات میں مذہب کی نئی تشریح کی گئی ہے یا پھر وہاں کے حکمران بدل گئے ہیں؟ جی نہیں، ایسا کچھ نہیں ہوا، مذہب بھی وہی ہے اور حکمران بھی پرانے ہیں، فقط زمانہ بدل گیا ہے۔ کچھ دہائیوں کی بات ہے، کیا خبر کہ مسلمان ممالک ہم جنس پرستی کی اجازت بھی دے دیں!
جب بھی کوئی شخص اِس قسم کے موضوعات پر قلم اٹھاتا ہے تو ہم یہ کہہ کر اْس کی بات کو رد کر دیتے ہیں کہ وہ معاشرے میں فحاشی پھیلانا چاہتا ہے یا پھر مغربی اقدار سے متاثر ہے۔ حالانکہ ایسا شخص صرف ہمیں آئینہ دکھا رہا ہوتا ہے، اْس کا مقصد صرف یہ بتانا ہوتا ہے کہ وقت کا پہیہ تصویر اور آلہ مکبر الصوت (لائوڈ اسپیکر) کے فتاوٰی کو پیچھے چھوڑ کر آگے نکل چکا ہے۔ عالمی تصورات بدل چکے ہیں اور جدید دنیا کا انسان اب شراب نوشی اور نکاح و طلاق کے مسائل سے ماورا ہو چکا ہے کیونکہ اب اسے کہیں زیادہ پیچیدہ اور گنجلک مسائل کا سامنا ہے۔ جی ہاں، آپ اِس کے مقابلے میں یہ دلیل دے سکتے ہیں کہ دنیا چاہے مریخ پر پہنچ جائے یا انسان خود کو ہنوط کروا کے دوبارہ زندہ ہوجائے، جن معاملات پر مذہب نے حدود کا تعین کر دیا ہے اْن میں کوئی حکومت، اسلامی یا غیر اسلامی، یا قیامت تبدیلی نہیں کر سکتی۔ یہ بات درست ہے مگر اِس کے ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ اِس وقت مسلم دنیا کا کوئی بھی ملک ایسا نہیں جہاں مذہب اْس شکل میں رائج ہو جس شکل میں ہمارے کچھ مذہبی دوست پاکستان میں رائج دیکھنا چاہتے ہیں۔ مثلاً اِس وقت مسلم دنیا کے ’رول ماڈل‘ ممالک میں ترکی، ملایشیا، قطر، کسی حد تک انڈونیشیا اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں۔ اِن میں کہیں بھی ہمیں شدت پسندی یا جنونیت (انڈونیشیا کا قصہ الگ ہے) نظر نہیں آتی یا مذہب کی وہ تشریح دکھائی نہیں دیتی جو ہمارے ہاں کی جاتی ہے۔ اپنے عالم تقریر کا مدعا فقط یہ ہے کہ جدید دنیا میں قدامت پسند رویوں کے ساتھ رہنا اب ممکن نہیں۔ امارات نے اسی وجہ سے اپنے قوانین تبدیل کیے۔ سعودی عرب میں اسی لیے سنیما گھر کھولے جا رہے ہیں۔ ایران میں بھی شراب نوشی پر اب فقط ’خاموش‘ پابندی ہے‘‘۔
یاسر پیرزادہ نے مزید لکھا ہے کہ جس طرح تصویر، ٹیلی وژن اور لائوڈ اسپیکر کے خلاف دلائل بھی ’’وقت‘‘ کے سامنے نہیں ٹھیر سکے گا، شراب اور زنا بالرضا کے خلاف بھی ہمارے ’’دلائل‘‘ کچھ عرصے بعد ختم ہوجائیں گے مگر تب تک وقت کا پہیہ ہمیں روند کر آگے نکل چکا ہوگا۔ (روزنامہ جنگ: 22 نومبر 2020ء)
ہر معاشرے میں کچھ چیزیں ’’ممکن‘‘ اور کچھ ’’ناممکن‘‘ ہوتی ہیں۔ مثلاً کمیونسٹ معاشروں میں کمیونزم یا کمیونسٹ رہنمائوں پر تنقید ’’ناممکن‘‘ تھی۔ آپ امریکا اور یورپ میں آزادی، جمہوریت اور ان کے خفیہ اداروں پر حملہ نہیں کرسکتے۔ پاکستان میں فوج، جرنیلوں اور خفیہ اداروں پر حملہ ممکن نہیں اور اگر کوئی اس سلسلے میں اس کی تھوڑی بہت جرأت کرتا ہے تو اس کے ’’مضمرات‘‘ بھگتا ہے۔ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا، چناں چہ اسلام پاکستان سے بھی زیادہ اہم ہے۔ اس لیے کہ پاکستان جسم ہے اور اسلام اس کی روح ہے۔ مگر بدقسمتی سے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلام اتنا لاوارث ہوگیا ہے کہ جس کا جی چاہتا ہے اسلام پر چڑھ دوڑتا ہے۔ اب آپ دیکھیے یاسر پیرزادہ نے کس جرأت کے ساتھ شراب اور زنا بالرضا کی اجازت پر بھنگڑا ڈالا ہے اور حدود اللہ پر حملہ کیا ہے۔ اس بیباکانہ حملے کا سبب یاسر پیرزادہ کا یہ یقین ہے کہ اس پر نہ فوج حرکت میں آئے گی نہ کسی ایجنسی کو غصہ آئے گا، نہ کوئی عالم دین مشتعل ہوگا، نہ کوئی مذہبی جماعت احتجاج کرے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کوئی اسلام کا والی وارث نہیں ہے۔ یاسر پیرزادہ نے کسی مسلک، فرقے، جماعت یا عالم دین پر حملہ کیا ہوتا تو اب تک ملک میں ہنگامہ برپا ہوگیا ہوتا۔
مشاہدہ اور تجربہ بتاتا ہے کہ بدترین سے بدترین مسلمان بھی اسلامی قوانین کی پامالی پر دکھ محسوس کرتا ہے مگر یاسر پیرزادہ بدترین مسلمانوں سے بھی زیادہ بدترین ہیں، اس لیے کہ انہوں نے حدود اللہ کی پامالی پر اپنے کالم میں بھنگڑا ڈالا ہوا ہے۔ وہ اس بات پر خوش ہیں کہ ایک اور مسلم ملک میں شراب اور زنا بالرضا کے لیے راہ ہموار ہوئی۔ یاسر پیرزادہ کا بھنگڑا ان کے کالم کے عنوان تک میں موجود ہے۔ ان کے کالم کا عنوان ہے۔ ’’بغیر نکاح کے؟ توبہ توبہ…‘‘
مسلمانوں کے لیے سب کچھ ان کا دین ہے۔ ان کے لیے دین ہی ’’اصول‘‘ ہے۔ دین ہی ’’ضابطہ‘‘ ہے۔ دین ہی ’’معیار‘‘ ہے۔ دین ہی ’’پیمانہ‘‘ ہے۔ دین ہی ’’کسوٹی‘‘ ہے۔ مگر یاسر پیرزادہ کا فہم دین یہ ہے کہ انہوں نے دین کے بجائے زمانے کو ’’معیار‘‘ بنالیا ہے۔ انہوں نے زمانے کو ’’پیمانے‘‘ میں ڈھال لیا ہے۔ مسلمان دیکھتا ہے کہ کیا چیز اس کے دین کے مطابق ہے۔ یاسر پیرزادہ دیکھ رہے ہیں کہ کیا چیز ’’زمانے‘‘ اور ’’وقت‘‘ کے مطابق ہے؟ یاسر پیرزادہ کو اتنی سی بات بھی معلوم نہیں کہ زمانہ اور وقت بدلتا رہتا ہے اور جو چیز مسلسل بدلنے کے عمل کا شکار ہو وہ سب کچھ ہوسکتی ہے۔ ’’معیار‘‘ اور ’’پیمانہ‘‘ ہرگز نہیں ہوسکتی۔ مسلمانوں کے لیے دین ’’معیار‘‘ اور ’’پیمانہ‘‘ اس لیے ہے کہ اس کے بنیادی اصول ناقابل تغیّر ہیں۔ وہ دائمی ہیں، مسلمانوں کا ایمان ہے کہ دین وقت اور زمانے کو بدلنے کے لیے آیا ہے وقت اور زمانے کے آگے ہتھیار ڈالنے نہیں آیا۔ اقبال نے کہا ہے:
خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقہیانِ حرم بے توفیق
یاسر پیرزادہ کی دلی تمنا یہی ہے کہ اسلام زمانے اور وقت کے سامنے ہتھیار ڈالے تا کہ یاسر پیرادہ جیسے لوگ دین کا مذاق اُڑائیں اور کہیں کہ ہم تو پہلے ہی کہتے تھے دین ایک عارضی اور کمزور چیز ہے۔ اسے ایک نہ ایک دن زمانے اور وقت کے آگے سرنگوں ہونا ہی تھا۔ اقبال کا ایک اور شعر یاد آیا۔ اقبال نے کہا ہے:
تقدیر کے پابند جمادات و نباتات
مومن فقط احکامِ الٰہی کا ہے پابند
اقبال کے نزدیک مومن کے لیے تقدیر بھی اہم نہیں ہے۔ اس کے لیے اہم ہے تو اللہ تعالیٰ کے احکامات مگر یاسر پیرزادہ فرما رہے ہیں کہ مومن کو احکام الٰہی کا پابند ہونے کے بجائے وقت اور زمانے کا پابند ہونا چاہیے۔ وقت اور زمانہ مطالبہ کرے تو مومن کو شراب پی لینی چاہی، زنا کرلینا چاہیے۔ مگر مغرب میں تو زمانہ تحریم کے رشتوں میں جنسی تعلق قائم کروا رہا ہے۔ تو کیا یاسر پیرزادہ کل اہل پاکستان سے کہیں گے کہ معاذ اللہ باپ اور بیٹی اور بھائی اور بہن کے درمیان بھی جنسی تعلق قائم ہو سکتا ہے۔ یہ بات ہم الزام کے طور پر نہیں کہہ رہے۔ یاسر پیرزادہ نے اپنے کالم میں لکھا ہے کہ کیا خبر ایک وقت آئے کہ مسلمان ممالک ہم جنس پرستی کی بھی اجازت دے دیں۔
یاسر پیرزادہ نے اپنے کالم میں تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ مسئلہ دین نہیں دین کی تعبیر ہے۔ لیکن حدود سے متعلق احکامات اتنے واضح ہیں کہ ان کی تعبیر اور تاویل کی ضرورت ہی نہیں۔ اسلام نے شراب کو حرام قرار دیا ہے اور زنا کو گناہ کبیرہ قرار دیا ہے۔ قرآن کے واضح حکم کو کوئی اور کیا وقت کا نبی بھی نہیں بدل سکتا۔ مگر یاسر پیرزادہ قرآن کے احکامات کو مذاق بناتے ہوئے یہ تاثر دے رہے ہیں کہ علما چاہیں تو قرآن کے واضح احکامات کی تعبیر کو بدلا جاسکتا ہے۔ یاسر پیرزادہ کے علم کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے تصویر اور لائوڈ اسپیکر سے متعلق تعبیرات اور شراب اور زنا سے متعلق احکامات کو ہم سطح اور ہم معنی قرار دے دیا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ایک وقت تھا کہ علما تصویر کو بھی حرام کہتے تھے مگر اب تصویر کو قبول کرلیا گیا ہے۔ ایک وقت تھا کہ علما لائوڈ اسپیکر کے خلاف فتوے دیتے تھے مگر اب لائوڈ اسپیکر کو بھی اپنالیا گیا ہے۔ اس سے یاسر پیرزادہ نے یہ مفہوم برآمد کیا ہے کہ ایک وقت آئے گا کہ مسلم معاشروں میں شراب اور زنا بالرضا کو بھی قبول کرلیا جائے گا۔ مسئلہ ’’کرلیا جائے گا‘‘ کا نہیں ہے۔ یاسر پیرزادہ کی دلی خواہش یہ نظر آتی ہے کہ شراب اور زنا بالرضا کو قبول کرلیا جانا چاہیے۔ اس لیے کہ ’’وقت‘‘ اور ’’زمانہ‘‘ کا تقاضا یہ ہے۔ لیکن اگر ہر چیز زمانے اور وقت کے تقاضوں کے مطابق کرنی ہے تو مغرب میں ’’زمانہ‘‘ اور ’’وقت‘‘ پورے مذہب کو رد کرچکا ہے تو کیا یاسر پیرزادہ پاکستان میں بھی وقت اور زمانے کے تقاضوں کے مطابق پورے دین کو رد کرنے کا مطالبہ کریں گے۔ اقبال کی ایک نظم، ’’ایک فلسفہ زدہ سید زادے کے نام‘‘ یاد آئی۔ اقبال کہہ رہے ہیں۔
تو اپنی خودی اگر نہ کھوتا
زُناریِٔ برگساں نہ ہوتا
ہیگل کا صدف گہرے خالی
ہے اس کا طلسم سب خیالی
محکم کیسے ہو زندگانی
کس طرح خودی ہو لازمانی
آدم کو ثبات کی طلب ہے
دستورِ حیات کی طلب ہے
اقبال اپنی اس نظم میں مسلمان کی خودی کو ’’لازمانی‘‘ بنانے کی بات کررہے ہیں اور یاسر پیرزادہ چاہتے ہیں کہ مسلمان زمانے کے پجاری بن جائیں۔ اقبال بتارہے ہیں کہ انسان کو ’’ثبات‘‘ کی طلب ہے اور اسے زندگی گزارنے کے لیے ہمیشہ قائم و دائم رہنے والا دستور حیات چاہیے مگر یاسر پیرزادہ مسلمانوں کو پٹی پڑھا رہے ہیں کہ اصل چیز ’’ثبات‘‘ نہیں ’’تغیّر‘‘ ہے۔ اصل چیز ’’دستور حیات‘‘ نہیں بلکہ ’’دستورِ زمانہ‘‘ ہے۔
یاسر پیرزادہ نے لکھا ہے کہ اس وقت کسی بھی مسلم ملک میں ویسا اسلام نافذ نہیں جیسا اسلام پاکستانیوں کو درکار ہے۔ یاسر پیرزادہ کے بقول پاکستانیوں کا اسلام انسان کو ’’جنونیت‘‘ پر اُکساتا ہے۔ ساری دُنیا جانتی ہے اسلام ایک ہے، اس لیے کہ قرآن ایک ہے۔ مگر یاسرپیرزادہ تاثر دے رہے ہیں کہ بعض ملکوں کا اسلام کچھ ہے اور ہمارا کچھ اور۔ تجزیہ کیا جائے تو قصہ صرف اتنا ہے کہ اہل پاکستان اسلام پر اس کی روح کے مطابق عمل چاہتے ہیں جب کہ بعض مسلم ملک اسلام کی ’’اصل روح‘‘ کو دیکھنے کے بجائے یہ دیکھ رہے ہیں کہ امریکا اور یورپ کو کیسا اسلام درکار ہے؟ سوال یہ ہے کہ جو اسلام امریکا اور یورپ کی خواہش کے مطابق ہو کیا اسے اسلام کہا جاسکتا ہے؟
یاسر پیرزادہ نے شراب اور زنا بالرضا کی حمایت تو کردی مگر اس سلسلے میں انہوں نے اس بات پر غور کرنے کی زحمت نہیں کی کہ کیا متحدہ عرب امارات کے حکمرانوں کی خواہش کو معیار اور پیمانہ بنایا جاسکتا ہے۔ اگر متحدہ عرب امارات کے حکمرانوں کی خواہش ہی سب کچھ ہے تو پھر ہمیں متحدہ عرب امارات کی بادشاہت اور اس بادشاہت کے جبر کی بھی حمایت کرنی چاہیے۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ اسلام کبھی حکمرانوں کے تابع نہیں رہا۔ اصل اسلام وہی ہے جو اللہ اور اس کے رسول کا اسلام ہے۔ صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور ’’اجماع‘‘ کا اسلام ہے۔ امام ابو حنیفہ، امام شافعی، امام مالک اور امام حنبل کا اسلام ہے۔ مسلمان حکمرانوں کے اسلام کو تسلیم کرتے تو وہ خلافت اور ملوکیت میں فرق نہ کرتے اور ملوکیت ہی کو خلافت قرار دے دیتے۔