پاکستان کے سیکولر اور لبرل دانش وروں کے تین ’’اوصاف‘‘ ہیں۔ ان کا پہلا ’’وصف‘‘ ظفر اقبال کے الفاظ میں یہ ہے۔
جھوٹ بولا ہے تو قائم بھی رہو اس پر ظفر
آدمی کو صاحبِ کردار ہونا چاہیے
یعنی پاکستان کے سیکولر اور لبرل دانش ور ’’صاحب ِ کردار‘‘ ہیں۔ وہ جھوٹ بولتے ہیں تو اس پر قائم بھی رہتے ہیں۔ یعنی اس جھوٹ کو مسلسل دہراتے رہتے ہیں۔ پاکستان کے سیکولر اور لبرل دانش وروں کا دوسرا وصف یہ ہے کہ جو باتیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ’’طے شدہ‘‘ ہیں وہ انہیں متنازع بناتے رہتے ہیں۔ سیکولر اور لبرل دانش وروں کی تیسری ’’خوبی‘‘ یہ ہے کہ وہ ہمیشہ بے ایمانی سے کام لیتے ہیں۔ ان تمام باتوں کا آج کے موضوع سے گہرا تعلق ہے۔
دراصل کراچی سے شائع ہونے والے انگریزی اخبار دی نیوز میں شہریار وڑائچ کا ایک مضمون شائع ہوا ہے۔ اس مضمون میں شہریار وڑائچ نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ پاکستان ایک ’’مذہبی ریاست‘‘ ہے یا ’’قومی ریاست‘‘ ہے۔ حالاں کہ یہ بات 1940ء سے طے شدہ ہے کہ پاکستان ایک مذہبی ریاست ہے۔ دیکھا جائے تو اس بحث میں جھوٹ کا عنصر بھی موجود ہے اور طے شدہ بات کو متنازع بنانے کا اہتمام بھی موجود ہے۔ شہریار وڑائچ نے مضمون میں بے ایمانی اس طرح کی ہے کہ انہوں نے مضمون تحریر کرتے ہوئے صرف ایک عالم دین کا حوالہ دیا ہے۔ البتہ تین سیکولر دانش وروں کو کوٹ کیا ہے۔ اس سے وہ یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ پاکستان کو اکا دکا لوگ ہی مذہبی ریاست سمجھتے ہیں۔ البتہ پاکستان کو قومی ریاست سمجھنے والوں کی کثیر تعداد ہمارے درمیان موجود ہے۔ اس طرح ایک مضمون میں سیکولر اور لبرل دانش وروں کے تینوں ’’اوصاف‘‘ جمع ہوگئے ہیں۔ لیکن یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا۔ سوال یہ ہے کہ مضمون میں کہا کیا گیا ہے؟۔
مضمون میں پہلا اہم حوالہ جاوید احمد غامدی کا ہے۔ شہریار وڑائچ نے غامدی صاحب کے ایک مضمون کا ذکر کرتے ہوئے غامدی صاحب کی یہ رائے پیش کی ہے۔
’’پاکستان ایک قومی ریاست ہے۔ چناں چہ اس کا کوئی مذہب نہیں ہے۔ ایک قومی، ریاست میں لوگ اپنے تنوع اور مماثلتوں کے باوجود یا تو ’’امریکی‘‘ ہوتے ہیں۔ یا ’’مصری‘‘ ہوتے ہیں۔ یا ’’افغانی‘‘ ہوتے ہیں یا ’’پاکستانی‘‘ ہوتے ہیں۔ چناں چہ قومی ریاست میں کوئی برتر یا کمتر نہیں ہوتا۔ سب برابر ہوتے ہیں۔ قائد اعظم نے 11 اگست 1947ء کی اپنی تقریر میں یہی کہا ہے۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ ہندو اپنے مندروں، مسلمان اپنی مساجد اور عیسائی اپنی عبادت گاہ میں جانے کے لیے آزاد ہیں‘‘۔ (دی نیوز 29 نومبر 2020ء)
یہاں ہمیں اقبال کے تین شعر یاد آگئے۔ اقبال نے کہا ہے۔
اپنی ملّت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی
’’اُن کی‘‘ جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار
قوتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری
دامنِ دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاں
اور جمعیت ہوئی رخصت تو ملت بھی گئی
اقبال کہہ رہے ہیں کہ مسلمان اقوام مغرب کی طرح نہیں ہیں۔ وہ ان سے بہت مختلف ہیں۔ اہل مغرب ’’قوم‘‘ بنتے ہیں جغرافیے اور نسل کی بنیاد پر مگر مسلمان جغرافیے اور نسل سے ’’قوم‘‘ نہیں بنتے۔ بلکہ وہ قوم، ملت، امت بنتے ہیں تو صرف اور صرف مذہب کی بنیاد پر۔ مذہب کی قوت ہی سے مسلمانوں کی جمعیت یا ان کا اتحاد مضبوط رہتا ہے۔ چناں چہ مسلمانوں کے ہاتھ سے اگر دین کا دامن چھوٹ جائے تو مسلمانوں کا اتحاد بھی کمزور پڑ جاتا ہے اور اتحاد کے کمزور پڑنے سے مسلمان نہ ’’قوم‘‘ رہتے ہیں، نہ ’’ملت‘‘ رہتے ہیں، نہ ’’امت‘‘ رہتے ہیں۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان کے بارے میں بنیادی بات یہ ہے کہ پاکستان فکر کی سطح پر بھی مذہبی ریاست ہے۔ تصور کی سطح پر بھی مذہبی ریاست ہے اور عملاً بھی ایک مذہبی ریاست ہے۔ برصغیر کے مسلمانوں نے جب دوقومی نظریے کی بنیاد پر الگ وطن کے قیام کا مطالبہ کیا تو انہوں نے یہ نہیں کہا کہ مسلمان جغرافیے، نسل اور زبان کی سطح پر ایک قوم ہیں بلکہ انہوں نے کہا کہ وہ اسلام کی وجہ سے ایک قوم ہیں۔ اقبال یاد آئے۔
قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
جذبِ باہم جو نہیں محفلِ انجم بھی نہیں
برصغیر کے مسلمان اگر کہتے کہ ہم جغرافیے، نسل اور زبان کی سطح پر ایک قوم ہیں تو وہ اپنا دعویٰ ثابت ہی نہیں کرسکتے تھے۔ اس لیے کہ مسلمان جغرافیے، نسل اور زبان کی سطح پر ایک قوم تھے ہی نہیں۔ نسل اور زبان کی سطح پر وہ ’’پنجابی‘‘ تھے، ’’سندھی‘‘ تھے، ’’بنگالی‘‘ تھے، ’’پشتون‘‘ تھے، ’’بلوچ‘‘ تھے۔ البتہ اسلام کی سطح پر یہ سب ایک ’’قوم‘‘ بھی تھے ایک ’’ملت‘‘ بھی تھے اور ایک ’’امت‘‘ بھی تھے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ پاکستان اگر قومیت کی جدید تعریف کی بنیاد پر وجود میں آتا تو پھر وہ ’’قومی ریاست‘‘ ہوسکتا تھا مگر پاکستان چوں کہ وجود ہی مذہب کی بنیاد پر آیا اس لیے اسے ’’قومی ریاست‘‘ کہنا پرلے درجے کا ’’تاریخی جھوٹ‘‘ ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب پاکستان معروف معنوں میں ’’قومی ریاست‘‘ کی حیثیت سے تخلیق ہی نہیں ہوا تو اس پر قومی ریاست کے ’’تقاضوں‘‘ اور ’’ذمے داریوں‘‘ کا بوجھ لادنا کیونکر درست ہوسکتا ہے؟ اس تناظر میں دیکھا جائے تو غامدی صاحب کے اس بیان کی کوئی حیثیت ہی نہیں کہ پاکستان چوں کہ ایک قومی ریاست ہے اس لیے اس کا کوئی مذہب ہی نہیں۔
غامدی صاحب نے سیکولر دانش وروں کی طرح قائد اعظم کی 11 اگست 1947ء کی تقریر کا حوالہ بھی دیا ہے۔ اس تقریر میں قائد اعظم نے کہا ہے کہ پاکستان میں ایک ہندو مندر، عیسائی گرجا اور مسلمان مسجد میں جانے کے لیے آزاد ہے۔ اس پر سب سے اچھا تبصرہ ہیکٹر بولیتھو نے اپنی تصنیف Creator of Pakistan میں کیا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ بلاشبہ یہ ’’الفاظ‘‘ تو جناح ہی کے ہیں مگر ان الفاظ کی ’’روح‘‘ رسول اکرمؐ کے آخری خطبے سے آئی ہے۔ آپؐ نے تیرہ سو سال پہلے کہا تھا کہ تمام انسان اللہ کی نظر میں برابر ہیں۔ میں آج ذات، رنگ اور قومیت کے تمام امتیازات کو اپنے پیروں تلے روندتا ہوں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ ایک مغربی انسان کو تو قائد اعظم کے الفاظ میں ’’روحانیت‘‘ نظر آرہی ہے مگر غامدی صاحب کو ان الفاظ میں ’’سیکولر ازم‘‘ اور ’’قومی ریاست‘‘ کی روح دکھائی دے رہی ہے۔ اس سلسلے میں ہمیں سلینا کریم کی تصنیف ’’secular jinnah and pakistan what the nation doesn’t know‘‘ سے رجوع کرنا چاہیے۔ اس کتاب میں سلینا کریم نے قائد اعظم کے اقلیتوں سے متعلق کئی بیانات پیش کیے ہیں۔ اور کہا ہے کہ قائد اعظم کے یہ خیالات قرآن کی اس آیت کا عکس ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ دین میں کوئی جبر نہیں۔ (صفحہ: 246)
سیکولر اور لبرل لوگ یہ تاثر دیتے ہیں کہ قومی ریاست چوں کہ ایک سیکولر ریاست ہوتی ہے اس لیے وہ مذہب کے سلسلے میں غیر جانب دار ہوتی ہے۔ تاریخی نظائر کی روشنی میں یہ بات سو فی صد جھوٹ ہے۔ سوویت یونین ایک قومی ریاست بھی تھا اور ایک سیکولر ریاست بھی تھا مگر اس نے تمام مذاہب کو فنا کرنے کی کوشش کی۔ چین ایک قومی اور سیکولر ریاست ہے اور وہ سنکیانگ کے مسلمانوں کو مشرف بہ کمیونزم کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ بھارت ایک سیکولر اور قومی ریاست ہے مگر اس نے 20 کروڑ مسلمانوں کا جینا حرام کیا ہوا ہے۔ فرانس بھی ایک قومی اور سیکولر ریاست ہے مگر وہاں مسلم خواتین کو پردہ کرنے کی آزادی نہیں ہے۔ اس سے ثابت ہے کہ قومی ریاست مذہب کے معاملے میں نہ غیر جانبدار ہے اور نہ وہ انصاف کی پابند ہے۔
شہریار وڑائچ نے اپنے مضمون میں معروف سابق کمیونسٹ دانش ور وجاہت مسعود کی یہ رائے بھی پیش کی ہے کہ ایک قومی ریاست عمرانی معاہدے کا نتیجہ ہوتی ہے اور قومی ریاست میں مذہب کی بنیاد پر اکثریت اور اقلیت کا تعین نہیں کیا جاسکتا۔ بلاشبہ قومی ریاست عمرانی معاہدے کا نتیجہ ہوتی ہے مگر پاکستان کسی عمرانی معاہدے کا نتیجہ نہیں۔ پاکستان ایک ’’نظریے‘‘ کا حاصل ہے۔ اتفاق سے یہ نظریہ انسانی ساختہ یا Man Made بھی نہیں ہے۔ یہ نظریہ آسمانی ہدایت یا وحی کا حاصل ہے۔ چناں چہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کو قومی ریاست قرار دینا بھی غلط ہے اور اس سے قومی ریاست کے تقاضے پورے کرنے کا مطالبہ بھی غلط ہے۔ وجاہت مسعود کا یہ خیال بھی بوگس ہے کہ مذہب کی بنیاد پر اکثریت اور اقلیت کا تعین نہیں ہوسکتا۔ سوال یہ ہے کہ جب سیاسی، جمہوری اور معاشی بنیادوں پر اکثریت اور اقلیت کا تعین ہوسکتا ہے تو صرف مذہب نے ایسا کیا جرم کیا ہے کہ اس کی بنیاد پر اکثریت اور اقلیت کا تعین نہیں ہوسکتا؟ مذہب انسانی تاریخ کی سب سے بڑی قوت ہے۔ چھ ہزار سال کی معلوم انسانی تاریخ اپنی اصل میں مذہب کی تاریخ ہے۔ سیکولر ازم اس تاریخ کا صرف حاشیہ ہے۔ اگر تاریخ کے حاشیے کی بنیاد پر اکثریت اور اقلیت کا تعین ہوسکتا ہے تو خود تاریخ کی بنیاد پر اکثریت اور اقلیت کا تعین کیوں نہیں ہوسکتا۔
دنیا کے ہر ملک میں سیکولر اور لبرل یہ شور مچاتے ہیں کہ کچھ بھی کرو مگر آئین کو دیکھو۔ مگر پاکستان میں سیکولر لوگ آئین کی طرف دیکھتے ہی نہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کا آئین کہتا ہے کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے۔ اس ریاست میں کوئی قانون قرآن و سنت کے بغیر نہیں بنایا جاسکتا۔ خدانخواستہ اگر پاکستان کا آئین سیکولر ہوتا تو سیکولر اور لبرل ہم سب سے کہتے جو کہو آئین کے مطابق کہو۔ جو لکھو آئین کے مطابق لکھو۔ ایسا نہیں کرو گے تو تمہاری گردن مار دی جائے گی۔ تمہیں ریاست کا باغی قرار دیا جائے گا۔