جاوید احمد غامدی کے شاگرد رشید خورشید ندیم نے اپنے ایک حالیہ کالم میں مثالی سیاست مردہ باد اور غلیظ سیاست زندہ باد کا نعرہ لگادیا ہے۔ عام خیال یہ ہے کہ دنیا کے سارے انسان خوبصورتی کو پسند کرتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ بہت سے لوگ بدصورتی کے پرستار ہوتے ہیں۔ ابن عربی کا مشہور زمانہ فقرہ ہے ’’پھول کا کیڑا پھول میں خوش غلاظت کا کیڑا غلاظت میں خوش‘‘۔ انسان کی فطرت اور طبیعت جیسی ہوتی ہے وہ ویسی ہی چیزیں پسند کرتا ہے۔ مذہبی تناظر میں کفر اور شرک سے بڑی بدصورتی کیا ہے مگر ہماری دنیا میں اربوں لوگ کفر اور شرک میں مبتلا ہیں۔ دنیا میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو شیطان کی پوجا کرتے ہیں۔ شیطان کی پوجا بدصورتی کی پوجا ہے، غلاظت کی پوجا ہے، گمراہی کی پوجا ہے۔ مگر لاکھوں لوگوں کو شیطان کی پوجا میں ایک حسن نظر آتا ہے، ایک معنویت نظر آتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ خورشید ندیم نے فرمایا کیا ہے۔ آئیے خورشید ندیم کے کالم کے مختلف حصوں کا تجزیہ شروع کرتے ہیں۔ خورشید ندیم نے لکھا ہے۔
’’خلافت راشدہ ایک استثنا ہے کہ یہ مختصر دور ایک الٰہی منصوبے کا حصہ اور اللہ کی ایک خاص سنت کا ظہور تھا ورنہ سیاست، تاریخ میں کبھی مثالی نہیں رہی۔ ان پہ حیرت ہے جو معاصر اہل سیاست کو مثالی دیکھنا چاہتے ہیں۔ حیرت در حیرت یہ ہے کہ اپنی سادہ لوحی کے باعث رومان پالتے ہیں۔ ذہن میں ایک آئیڈیل تراشتے اور پھر گوشت پوست کے کسی انسان میں اس آئیڈیل کو مجسم دیکھنے لگتے ہیں۔ یہ انسان اور اس کے حواری، اس سادہ لوحی سے فائدہ اٹھاتے اور انہیں باور کراتے ہیں کہ ہاں، یہی تمہارے خوابوں کی تعبیر ہے‘‘۔
(روزنامہ دنیا۔ 19 دسمبر 2020ء)
خورشید ندیم کو ساری زندگی اسلام اسلام کرتے ہوگئی مگر ان پر اب تک اسلام کے معنی آشکار نہیں ہوئے۔ اسلام کسی ایک زمانے تک محدود نہیں، اسلام ایک دائمی یا ابدی حقیقت ہے۔ اس کا ’’کمال‘‘ اور اس کا ’’جمال‘‘ سب سے زیادہ عہد رسالتؐ میں ظاہر ہوا۔ اس سلسلے میں خلافت راشدہ کا نمبر دوسرا ہے۔ لیکن اسلام کے ’’کمال‘‘ اور ’’جمال‘‘ کا ظہور عہد خلافت پر ختم نہیں ہوگیا۔ امت مسلمہ نے خلافت راشدہ کے بعد ایسے ہزاروں صوفیا، علما اور درویش پیدا کیے جو خلفائے راشدین کے کمال اور جمال کا مظہر تھے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام کے کمال اور جمال کے کسی خاص عہد سے کوئی تعلق نہیں۔ جہاں تک مثالی سیاست کا تعلق ہے تو عمر بن عبدالعزیز کی سیاست مثالی تھی۔ اس لیے ہماری تاریخ انہیں خلیفۂ پنجم بھی کہتی ہے۔ اورنگ زیب عالمگیر ملوک میں سے تھے مگر ایک کمتر سطح پر اورنگ زیب کی زندگی اور اس کی سیاست بھی مثالی تھی۔ التمش کو بھی تاریخ نے بہت اچھے الفاظ میں یاد کیا ہے۔ اس کی سیاست پہ بھی اسلام کے کمال اور جمال کا گہرا اثر تھا۔ ناصر الدین نے بھی بہترین سیاست کا مظاہرہ کیا حالاں کہ وہ بھی ملوک میں سے تھا۔ ہمارے عہد میں قائد اعظم کی سیاست اپنی سطح پر مثالی تھی۔ وہ ایماندار تھے۔ عہد کی پاسداری کرتے تھے۔ انہیں نہ خریدا جاسکتا تھا نہ ڈرایا جاسکتا تھا نہ جھکایا جاسکتا تھا۔ ایسا نہ ہوتا تو پاکستان بن ہی نہیں سکتا تھا۔ جماعت اسلامی اپنے قیام سے آج تک مثالی سیاست کی ایک مثال بنی ہوئی ہے۔ آپ جماعت اسلامی کی کسی پالیسی سے اختلاف کرسکتے ہیں مگر جماعت اسلامی کے کسی رہنما یا منتخب نمائندے پر بدعنوانی کا الزام نہیں لگا سکتے۔ گزشتہ پچاس سال کے دوران جماعت اسلامی کے سیکڑوں لوگ منتخب ایوانوں میں پہنچے مگر ان کا دامن صاف رہا۔ جماعت اسلامی مختصر وقت کے لیے جنرل ضیا الحق کی کابینہ کا حصہ رہی مگر اس کا سبب کوئی مذہب گریز رجحان نہیں تھا۔ جماعت اسلامی کا تجزیہ غلط تھا۔ نیت ٹھیک تھی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ 20 ویں اور 21 ویں صدی میں بھی بڑی حد تک سیاست کو مثالی بنایا جاسکتا ہے۔
حیرت ہے کہ پچاس سال سے زیادہ عمر پانے کے باوجود خورشید ندیم کو اتنی سی بات معلوم نہیں کہ مثالیت پسندی یا Idealism ہی سے زندگی، زندگی اور انسان، انسان بنتا ہے۔ زندگی کا بنیادی مسئلہ یہ نہیں ہے کہ زندگی کیسی ہے بلکہ زندگی کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ زندگی کو کیسا ہونا چاہیے۔ زندگی کو کیسا ہونا چاہیے کا سوال ہمارے مذہب، ہماری تہذیب، ہماری تاریخ اور ان کرداری نمونوں سے متعلق ہے جو ہماری تاریخ نے ہمارے حوالے کیے ہیں۔ یہ طے ہے کہ کوئی شخص بھی رسول اکرمؐ کی طرح نہیں ہوسکتا مگر رہتی دنیا تک رسول اکرمؐ کا اسوئہ حسنہ ہی ہمارے لیے ’’معیار‘‘ رہے گا۔ مثالیت پسندی دراصل ’’معیار‘‘ ہی کا دوسرا نام ہے۔ زندگی جیسی ہے اگر ہم اس کو ویسا ہی قبول کرلیں اور اس کے حسن و جمال اور اس کی معنویت میں اضافے کے لیے کوشش نہ کریں تو ہم کیا پوری انسانیت تباہ ہوجائے گی۔ تباہ کیا ہوجائے گی تباہ ہوچکی ہے۔ اس وقت انسانیت کو جو مسائل درپیش ہیں ان کا سبب یہی ہے کہ انسانوں نے زندگی کو جوں کا توں قبول کرلیا ہے اور ان کے سامنے زندگی کا کوئی بڑا Ideal نہیں ہے۔ خورشید ندیم کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ سیاست ایک گٹر ہے اور اسے گٹر ہی رہنا چاہیے اسے شفاف جھیل میں تبدیل نہیں کرنا چاہیے۔ بلکہ وہ تو زبان حال سے یہ بھی کہتے نظر آتے ہیں کہ دراصل سیاست کو بہتر بنایا ہی نہیں جاسکتا۔ بدقسمتی سے خورشید ندیم کا آئیڈیل میاں نواز شریف ہیں اور وہ میاں نواز شریف اور ان کی سیاست کو Jastify کرنے کے لیے پوری انسانی تاریخ پر تھوک رہے ہیں۔
خورشید ندیم مزید لکھتے ہیں:’’یہ مثالیت پسندی صرف عوام کا مسئلہ نہیں، اخبار اور ٹی وی کے تجزیے بھی اسی معیار پر سیاسی رہنمائوں کو پرکھتے ہیں۔ ان تجزیہ کاروں میں سے اکثر عوام کی طرح سادہ لوح نہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ جب صحافت اور مذہب کی دنیا مثالی نہیں تو سیاست کیسے مثالی ہوسکتی ہے؟ وہ عوام کی سادہ لوحی سے خوب واقف ہیں۔ انہوں نے عوامی خوابوں کی سوداگری کو بطور پیشہ اپنا لیا ہے۔ یہ تاریخ کے سچے جھوٹے قصے سناتے ہیں، جب اس دنیا پر عادل بادشاہ حکمرانی کیا کرتے تھے۔ ان کی راتیں گلیوں میں گشت کرتے یا مصلے پر آنسو بہاتے گزرتیں اور دن مزدوری کرتے اور لوگوں کے گھروں میں خوراک پہنچاتے‘‘۔
پاکستانی ذرائع ابلاغ میں خواب دیکھنے والوں کا کال پڑا ہوا ہے مگر جو دو چار لوگ عوام کو مثالیت پسندی کا درس دے رہے ہیں خورشید ندیم ان سے بھی سخت ناراض ہیں۔ انہیں انہوں نے ’’خوابوں کے سوداگر‘‘ کا خطاب دے دیا ہے۔ خورشید ندیم نے کبھی غور نہیں کیا اقبال کی پوری شاعری خواب دیکھنے اور خواب دکھانے کا عمل ہے۔ اقبال کہتے ہیں۔
زمانہ آیا ہے بے حجابی کا، عام دیدارِ یار ہوگا
سکُوت تھا پردہ دار جس کا، وہ راز اب آشکار ہوگا
کبھی جو آوارۂ جنوں تھے، وہ بستیوں میں پھر آ بسیں گے
برہنہ پائی وہی رہے گی، مگر نیا خارزار ہوگا
نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو اُلٹ دیا تھا
سُنا ہے یہ قُدسیوں سے مَیں نے، وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا
دیارِ مغرب کے رہنے والو! خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو، وہ اب زرِ کم عیار ہوگا
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کُشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائدار ہوگا
ان شعروں میں اقبال خود بھی خواب دیکھ رہے ہیں اور اپنے قارئین کو بھی خواب دکھا رہے ہیں۔ خواب اقبال کی شاعری کا مرکزی حوالہ ہے۔ اس کے بغیر اقبال کی شاعری اقبال کی شاعری نہیں ہو سکتی۔ اقبال تو خیر شاعر تھے۔ مولانا مودودیؒ نثر لکھنے والے تھے مگر مولانا نے بھی کروڑوں لوگوں کو بڑے بڑے خواب دکھائے۔ مولانا نے فرمایا قرآن و سنت کی دعوت لے کر اٹھو اور پوری دنیا پہ چھا جائو۔ مولانا کے اس فقرے پر غور کیا جائے تو مولانا کو قرآن و سنت ہی پر نہیں قرآن و سنت سے وابستگی رکھنے والوں پر بھی کامل اعتبار ہے۔ مولانا کو معلوم ہے کہ اگر آج بھی مسلمان قرآن و سنت کو اپنی زندگی کا محور بنالیں تو مسلمانوں کی عظمت رفتہ کی بازیافت ممکن ہے۔ مسلمانوں کی عظمت رفتہ کی بازیافت ایسی چیز ہے جس کی گواہی خود قرآن اور رسول اکرمؐ نے دی ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے صاف کہا ہے کہ وہ اپنے نور کا اتمام کرکے رہے گا خواہ یہ بات کافروں اور مشرکوں کو کتنی ہی ناگوار کیوں نہ محسوس ہو۔ رسول اکرمؐ کی ایک حدیث پاک کا مفہوم یہ ہے کہ میرا زمانہ رہے گا جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا۔ اس کے بعد خلافت راشدہ ہوگی اور اس کا دور رہے گا جب تک اللہ کو پسند ہوگا۔ اس کے بعد ملوکیت ہوگی اور اس کا عہد رہے گا جب تک کہ اللہ کو منظور ہوگا۔ اس کے بعد کاٹ کھانے والی آمریت ہوگی اور اس کا سلسلہ رہے گا جب تک اللہ کی مرضی ہوگی لیکن اس کے بعد دنیا ایک بار پھر خلافت علیٰ منہاج النوہ کی جانب جائے گی کہ مگر خورشید ندیم چاہتے ہیں کہ پاکستانی قوم کیا پوری امت مسلمہ میاں نواز شریف، الطاف حسین اور آصف علی زرداری کے ماڈل سے آگے نہ بڑھے۔
خورشید ندیم مزید فرماتے ہیں۔
’’کچھ معاصر مغرب کے قصے سناتے ہیں کہ کیسے فلاں یورپی ملک کا وزیراعظم سائیکل پر دفتر جاتا ہے اور اس کے پاس کپڑوں کے صرف دو جوڑے ہیں۔ ماضی اور حال کی یہ سچی جھوٹی کہانیاں جب تکرار کے ساتھ سنائی جاتی ہیں تو عوام سوچتے ہیں کہ ہمارے رہنما ایسے کیوں نہیں ہوسکتے۔ اس سوال کے جواب میں ایک مسیحا بلّا لہراتے ہوئے نمودار ہوتا ہے اور لوگ اس سے رومان باندھ لیتے ہیں‘‘۔
خورشید ندیم کو ویسے تو ہر چیز مغرب کی چاہیے، انہیں مغرب کی آزادی چاہیے، انہیں مغرب کی جمہوریت درکار ہے، انہیں مغرب کا طریقہ انتخاب پسند ہے، انہیں مغرب کی پارلیمنٹ عزیز ہے، انہیں مغرب کا آئین بہت اچھا لگتا ہے۔ مگر انہیں مغرب کے سیاسی رہنمائوں کی سادگی پسند نہیں۔
مغرب کے سیاسی رہنمائوں کی سادگی کے قصے انہیں ’’جھوٹی سچی کہانیاں‘‘ محسوس ہوتے ہیں۔ مغرب کی تو خیر بات ہی اور ہے ہمیں یاد ہے کہ بھارت کے سابق وزیراعظم مرار جی ڈیسائی نے ایک بار سیاست سے ریٹائرمنٹ کے بعد شکایت کی کہ انہیں عالمی رہنما بھارت کے سابق وزیراعظم کی حیثیت سے خط لکھتے ہیں مگر وہ ان خطوط کا جواب نہیں دے پاتے۔ چناں چہ انہوں نے حکومت سے درخواست کی کہ انہیں ایک عدد ٹائپسٹ اور ایک عدد ٹائپ رائٹر فراہم کیا جائے تاکہ وہ عالمی رہنمائوں کے خطوط کا جواب دے سکیں۔ جہاں تک ’’رومان‘‘ کا تعلق ہے تو رومان صرف عمران خان سے وابستہ نہیں کیا گیا۔ رومان تو میاں نواز شریف سے بھی وابستہ کیا گیا۔ کہا گیا کہ وہ ’’بزنس کلاس‘‘ کے نمائندے ہیں۔ چناں چہ وڈیرہ شاہی کی ترجمان بے نظیر سے بہتر ثابت ہوں گے۔ رومان تو الطاف حسین سے بھی وابستہ کیا گیا۔ کہا گیا کہ وہ مڈل کلاس کے نمائندہ ہیں۔ بدقسمتی سے ہم کبھی بھی ’’Ideas‘‘ کے ساتھ رومان وابستہ نہیں کرتے۔ کریں گے تو خورشید ندیم جیسے لوگ نعرہ لگائیں گے مثالی سیاست مردہ باد، گٹر سیاست زندہ باد۔
خورشید ندیم نے رائے سازوں پر الزام لگایا ہے کہ وہ مثالیت پسندی کے نعرے کے ذریعے عوام کے جذبات سے کھیلتے ہیں۔ کچھ لوگ ضرور ایسا کرتے ہوں گے مگر جذبات سے صرف رائے ساز تھوڑی کھیلتے ہیں جذبات سے تو عملی سیاست دان بھی خوب کھیلتے ہیں۔ بھٹو صاحب جب کہتے تھے کہ ہم بھارت کے ساتھ ایک ہزار سال تک جنگ کریں گے تو وہ عوام کے جذبات ہی سے کھیلتے تھے۔ میاں نواز شریف جب کہتے ہیں کہ وہ نظریاتی ہوگئے ہیں تو اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ایسا کہہ کر وہ عوام کے جذبات سے کھیلتے ہیں۔
خورشید ندیم نے اقبال کی شاعری اور نثر یعنی خطبات کا بھی موازنہ فرمایا ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ شاعری سنگ ہائے میل کی خبر نہیں دے سکتی۔ سنگ ہائے میل کی خبر اقبال نے اپنی نثر میں دی ہے۔ خورشید ندیم کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ اقبال نے شاعروں کی اہمیت واضح کرتے ہوئے کہا ہے کہ قومیں شاعروں کے دل میں پیدا ہوتی ہیں اور سیاست دانوں کے ہاتھوں ماری جاتی ہیں۔ رہی اقبال کی شاعری اور ان کی نثر تو اقبال کی نثر ان کی شاعری کا پاسنگ بھی نہیں۔