اسلامی جمہوریہ پاکستان میں لسانی، صوبائی، فرقہ ورانہ یا مسلکی تعصب کا کھیل کھیلنا ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص مسجد میں شراب کی دکان کھول لے۔ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا ہے اور اسلام میں کسی تعصب کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ مگر بدقسمتی سے پاکستان میں عرصہ دراز سے تعصبات کا کھیل جاری ہے۔ کسی کو اپنی ’’پنجابیت‘‘ عزیز ہے۔ کوئی اپنی ’’مہاجریت‘‘ پر فدا ہے۔ کوئی اپنی ’’سندھیت‘‘ کے عشق میں مبتلا ہے۔ کوئی اپنی ’’پشتونیت‘‘ پر نازاں ہے۔ کوئی اپنی ’’بلوچیت‘‘ پر اِتراتا ہے۔ زبانوں، فرقوں، مسلکوں، ذاتوں اور برادریوں کے تعصبات اس کے علاوہ ہیں۔ اقبال نے کہا تھا۔
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
یہ بھی اقبال ہی کی آواز ہے۔
بتانِ رنگ وخوں کو توڑ کر ملت میں گم ہوجا
نہ تورانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی
مگر بدقسمتی سے اقبال کے پاکستان میں اقبال کی بات سننے والا کوئی نہیں۔
وطن عزیز میں تعصب کا کھیل مشرقی پاکستان سے شروع ہوا۔ قائد اعظم کی مادری زبان گجراتی تھی۔ تعلیمی زندگی میں ان کی زبان ہمیشہ انگریزی رہی تھی۔ قائد اعظم اردو پڑھ نہیں سکتے تھے۔ مگر قائد اعظم کو معلوم تھا کہ اسلام کے بعد اردو پاکستان کے اتحاد اور یکجہتی کی سب سے بڑی علامت ہے۔ وہ آگاہ تھے کہ اردو عربی اور فارسی کے بعد مسلمانوں کی سب سے بڑی مذہبی زبان ہے۔ وہ واقف تھے کہ اردو برصغیر کی ملت اسلامیہ کے مشترک تہذیبی اور تاریخی تجربے کو بیان کرنے والی واحد زبان ہے۔ چناں چہ انہوں نے مشرقی پاکستان میں کھڑے ہو کر کہا کہ پاکستان کی قومی زبان صرف اور صرف اردو ہوگی۔ قائد اعظم نے شعوری طور پر یہ بات مشرقی پاکستان میں کھڑے ہو کر اس لیے کہی کہ انہیں اندیشہ تھا کہ اردو کی مخالفت کہیں ہوگی تو بنگال میں۔ قائد اعظم کا یہ اندیشہ درست تھا۔ قائد اعظم نے اردو کو قومی زبان بنانے کی بات کی تو اس پر مشرقی پاکستان میں احتجاج ہوا۔ بلاشبہ بنگالی بڑی زبان تھی مگر وہ مسلمانوں کی مذہبی زبان نہیں تھی۔ وہ مسلمانوں کی تہذیبی زبان بھی نہیں تھی۔ وہ مسلمانوں کے مشترکہ تاریخی تجربے کو بیان کرنے والی زبان بھی نہیں تھی۔ مگر تعصب حقائق پر پردہ ڈال دیتا ہے۔
بدقسمتی سے بنگالی خود مغربی پاکستان کے لوگوں کے بدترین تعصب کا شکار ہوئے۔ بنگالی پاکستان کی آبادی کا 56 فی صد تھے مگر 1960ء تک انہیں فوج میں نہیں لیا جاتا تھا۔ اس سلسلے میں فوج کے اندر مارشل ریس کا نظریہ بنگالیوں کی راہ کی رکاوٹ بنا ہوا تھا۔ اس نظریے کا لب لباب یہ تھا کہ فوج میں شامل ہونے کے لیے دراز قد کی ضرورت ہوتی ہے اور بنگالیوں کی اکثریت پستہ قد تھی۔ چناں چہ فوج پر پنجابی، پٹھان اور مہاجر چھائے ہوئے تھے۔ 1960ء کے بعد فوج میں بنگالیوں کو لینے کا سلسلہ شروع ہوا مگر 1971ء تک یہ صورت حال تھی کہ بنگالی فوج کے آٹے میں نمک کے برابر تھے۔ میجر صدیق سالک نے اپنی معرکہ آرا تصنیف ’’میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا‘‘ میں لکھا ہے کہ وہ مشرقی پاکستان کے بحران کے زمانے میں ایک چھائونی کے دورے پر گئے۔ یہ سقوط ڈھاکا سے ذرا پہلے کا زمانہ تھا۔ صدیق سالک کے بقول ان سے ایک بنگالی فوجی افسر نے کہا کہ تمہارا صدر جنرل یحییٰ کہہ رہا ہے کہ فوج میں بنگالیوں کی تعداد میں سو فی صد اضافہ کیا جائے گا۔ اس افسر نے کہا کہ اگر جنرل یحییٰ کے بیان پر سو فی صد بھی عمل ہوا تو بھی اضافے کے بعد فوج میں بنگالیوں کی موجودگی 20 سے 25 فی صد ہوگی، حالاں کہ ہم پاکستان کی مجموعی آبادی کا 56 فی صد ہیں۔ جس وقت یحییٰ خان نے فوج میں بنگالیوں کی تعداد میں اضافے کی بات کہی اس وقت فوج میں بنگالیوں کی تعداد دس بارہ فی صد تھی۔ حالاں کہ پاکستان کو بنے ہوئے 24 سال ہوچکے تھے اور بنگالی ملک کی کُل آبادی کا 56 فی صد تھے۔ بدقسمتی سے مغربی پاکستان کے پنجابیوں، پشتونوں اور مہاجروں کا ’’تصور بنگالی‘‘ بھی پست اور توہین آمیز تھا۔ صدیق سالک نے ’’میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا‘‘ میں لکھا ہے کہ وہ 1969ء میں مشرقی پاکستان پہنچے تو ایک فوجی ان کے استقبال کے لیے ہوائی اڈے پر آیا۔ صدیق سالک کے بقول ایک بنگالی شخص نے ان کا سامان اُٹھا کر گاڑی میں رکھا تو صدیق سالک نے اس بنگالی شخص کو کچھ پیسے دینے کے لیے جیب میں ہاتھ ڈالا تو صدیق سالک کے استقبال کے لیے آنے والے فوجی نے صدیق سالک سے کہا سر رہنے دیں ان ’’حرامزادوں‘‘ کی عادت خراب نہ کریں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس فوجی کے نزدیک بنگالی ’’حرامزادے‘‘ تھے اور یہ بات بنگالیوں کے منہ پر کہی جاسکتی تھی۔ بنگالی ملک کی آبادی کا 56 فی صد ہونے کے باوجود 1971ء تک کتنے غریب تھے اس کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ صدیق سالک کے بقول وہ ڈھاکا میں تعینات ہونے کے بعد ایک دن دفتر سے گھر پہنچے تو ان کی بیگم نے انہیں بتایا کہ انہوں نے دو بنگالی خواتین کو گھر کے کام کاج کے لیے ملازم رکھ لیا ہے۔ صدیق سالک نے کہا کہ ہمارے وسائل ہمیں ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ صدیق سالک کی بیگم نے فرمایا آپ پریشان نہ ہوں۔ راولپنڈی میں ہم ایک ملازمہ پر جتنی رقم صرف کرتے تھے اتنی رقم میں یہاں دو خواتین دستیاب ہیں۔ تعصبات اور استحصال کے اسی کھیل نے بالآخر پاکستان کو دولخت کردیا۔
پاکستان نظریے، تہذیب اور تاریخ کے ’’میرٹ‘‘ پر بنا تھا اور اس کو میرٹ کے سہارے ہی چلایا جاسکتا تھا۔ مگر ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دور میں سندھ کو ’’کوٹا سسٹم‘‘ میں مبتلا کردیا۔ یہ مہاجروں کو ملازمتوں سے محروم کرنے کی ایک کوشش تھی۔ بھٹو صاحب نے جس وقت کوٹا سسٹم متعارف کرایا اس وقت اس کا ایک جواز موجود تھا۔ مہاجروں میں تعلیم عام تھی۔ وہ اہلیت اور محنت کے اسلحے سے لیس تھے۔ اس کے برعکس دیہی سندھ کے عوام میں تعلیم کم تھی اور وہ اہلیت اور محنت میں مہاجروں کے ہم پلہ نہیں تھے۔ چناں چہ انہیں مہاجروں کے ہم پلہ بنانے کے لیے کوٹا سسٹم کا جواز تھا۔ لیکن اس سسٹم کی ایک مدت ہونی چاہیے تھی۔ لیکن سندھ میں کوٹا سسٹم لازمانی بنادیا گیا۔ یہ سسٹم بھٹو صاحب کے زمانے سے آج تک سندھ پر مسلط ہے۔ اس سسٹم کی تباہ کاری کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ سندھ ایک وحدت ہونے کے باوجود دیہی اور شہری سندھ میں بٹا ہوا ہے۔ یہ کوٹا سسٹم ہی ہے جس نے الطاف حسین جیسے سفاک اور فسطائی ذہنیت کے حامل شخص کو شہری سندھ کا رہنما بنایا۔ کوٹا سسٹم کی نفسیات نے ایم کیو ایم کو ایم کیو ایم بنایا۔ یہاں تک کہ ایم کیو ایم خود ایک بدترین تعصب کا مظہر بن کر رہ گئی۔ اس نے مہاجروں کو پشتونوں سے لڑایا، اس نے مہاجروں کو سندھیوں سے لڑایا، اس نے مہاجروں میں پنجابیوں کے خلاف زہر پھیلایا۔ یہاں تک کہ ایم کیو ایم کے تعصب نے ایم کیو ایم کے مہاجروں سے دوسری جماعتوں کے مہاجر قتل کروائے۔ یہ پاکستان کی تاریخ کی ایک بہت بڑی خبر ہے کہ کراچی میں گزشتہ 35 سال کے دوران 92 ہزار افراد قتل ہوئے ہیں۔ یہ اتنی بڑی تعداد ہے کہ بڑی بڑی جنگوں میں اتنے افراد نہیں مارے جاتے۔ بدقسمتی سے سندھ میں کوٹا سسٹم اب تک تباہی پھیلارہا ہے۔ روزنامہ جنگ کراچی کی 17 جنوری 2021ء کی ایک خبر کے مطابق کہنے کو سندھ ایک صوبہ ہے مگر پیپلز میڈیکل یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنس برائے خواتین نوابشاہ کی داخلہ پالیسی کے تحت 3 کروڑ کی آبادی کے شہر کراچی کی طالبات کے لیے ایک نشست بھی مختص نہیں۔
بدقسمتی سے میاں نواز شریف کی سیاست بھی صوبائی اور لسانی تعصب کا ایک مظہر ہے۔ انہوں نے آئی جے آئی کے دور میں پنجاب کے اندر جاگ پنجابی جاگ کا نعرہ لگایا۔ یہ نعرہ اتنا ہولناک تھا کہ ہمیں پہلے پہل اس پر اعتبار ہی نہ آیا۔ ہم نے اس سلسلے میں جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد اور سید منور حسن سے رجوع کیا تو دونوں نے تصدیق کی کہ میاں صاحب نے واقعتاً یہ نعرہ بلند کیا ہے۔ میاں نواز شریف تین بار ملک کے وزیراعظم رہ چکے ہیں مگر ان کی سیاست آج بھی پنجاب سے شروع ہوتی ہے، پنجاب میں آگے بڑھتی ہے اور پنجاب میں ختم ہوجاتی ہے۔ میاں صاحب چاہتے تو نواز لیگ ملک گیر جماعت بن سکتی تھی مگر میاں صاحب نے نواز لیگ کو کبھی ملک گیر جماعت بنانے پر سنجیدگی سے توجہ ہی نہیں دی۔ ان کی سیاست اور نفسیات کے مطالعے سے لگتا ہے کہ وہ اپنے لیے پنجاب کو ’’کافی‘‘ سمجھتے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ پیپلز پارٹی پورے ملک کی جماعت تھی اور اسے وفاق کی علامت سمجھا جاتا تھا مگر اب پیپلز پارٹی نے اپنے ’’سندھی پارٹی‘‘ ہونے پر قناعت کرلی ہے۔ وہ گاہے گاہے ’’سندھ کارڈ‘‘ کھیل کر اپنے مفادات کا تحفظ کرتی رہتی ہے۔ دیکھا جائے تو ملک میں تعصبات سے بلند ایک ہی پارٹی ہے جماعت اسلامی۔ جماعت اسلامی کا نہ کوئی صوبائی تعصب ہے، نہ لسانی تعصب، وہ نہ فرقے کی علامت ہے، نہ مسلک کی، جماعت کے پہلے امیر مولانا مودودی اصطلاح میں ’’مہاجر‘‘ تھے۔ دوسرے امیر میاں طفیل محمد اصطلاح میں پنجابی تھے، تیسرے قاضی حسین احمد اصطلاح میں پشتون تھے، چوتھے امیر سید منور حسن اصطلاح میں مہاجر تھے، پانچویں امیر سراج الحق اصطلاح میں پشتون ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو جماعت اسلامی کا امیر سندھی بھی ہوسکتا ہے اور بلوچ بھی۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو پاکستان کے نظریے، تہذیب اور تاریخ کے میرٹ سے صرف جماعت اسلامی ہم آہنگ ہے۔