اسلام جب بھی کہیں چھوٹی بڑی مشکل میں ہوتا ہے ہمیں اکبر الٰہ آبادی کا کوئی نہ کوئی شعر یاد آجاتا ہے۔ مثلاً انگریزی اخبار دی نیوز میں طاہر کامران کا مضمون Unpalatable Reality پڑھ کر ہمیں اکبر کا یہ شعر یاد آگیا۔
رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جاجا کے تھانے میں
کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں
طاہر کامران کا مضمون کیا ہے اسلام کے خلاف ایک اچھی خاصی ایف آئی آر ہے۔ اس ایف آئی آر کے مندرجات دل دہلا دینے والے ہیں۔ طاہر کامران لکھتے ہیں۔
’’پنجاب کے تمام اعلیٰ تعلیمی اداروں میں درس قرآن لازمی قرار دے دیا گیا ہے۔ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور نے اس سلسلے میں پہل کی ہے۔ اس کی پیروی میں تمام سرکاری جامعات کے چانسلر نے درس قرآن کو تمام جامعات کے لیے لازمی قرار دے دیا ہے۔ ان اقدامات کو (سیکولر اور لبرل) دانشوروں نے تنقیدی نظر سے دیکھا ہے۔ ان میں سے بعض کا خیال ہے کہ یہ اقدام اس اعتبار سے ’’غیر ضروری‘‘ ہے کہ ہماری جامعات میں پہلے ہی علوم اسلامی کے بڑے بڑے شعبے کام کررہے ہیں۔ اس سلسلے میں بعض (سیکولر اور لبرل) دانشوروں نے خیال ظاہر کیا ہے کہ مذہبی تعلیم کی ضرورت ہی کیا ہے‘‘۔ (دی نیوز 8 نومبر 2020ء)
آئیے آگئے بڑھنے سے قبل اکبر کا شعر ایک بار پھر پڑھ لیں۔
رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جاجا کے تھانے میں
کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں
سوویت یونین کمیونسٹ ملک تھا اور سوویت یونین کے صرف اعلیٰ تعلیمی اداروں میں نہیں تمام تعلیمی اداروں میں مارکسزم ایک مضمون کے طور پر پڑھایا جاتا تھا۔ صرف مضمون کے طور پر نہیں بلکہ سوویت یونین میں تو تمام مضامین ہی مارکسزم میں ڈوبے ہوئے تھے۔ ان کا ادب ’’مارکسی ادب‘‘ تھا۔ ان کی معاشیات ’’سوشلسٹ معاشیات‘‘ تھی۔ ان کی سائنس ’’مارکسسٹ سائنس‘‘ یا ’’سوویت سائنس‘‘ کہلاتی تھی۔ سوویت یونین میں اس بات کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا کہ کوئی اُٹھے اور کہے کہ آخر ہماری جامعات میں مارکس کی کتاب داس کیپتال کا درس کیوں دیا جاتا ہے۔ آخر ہمارے تمام علوم مارکسزم میں کیوں ڈوبے ہوئے ہیں؟ چین مائو زے تنگ کا ملک ہے اور چین کے تمام اعلیٰ تعلیمی اداروں میں مائو کی ’’لال کتاب‘‘ کی تعلیم دی جاتی ہے اور کوئی نہیں کہتا کہ آخر چین میں یہ کیا ہورہا ہے۔ سیکولر اور لبرل ملکوں میں مغربی فلسفے کے بڑے ناموں کی کتب کی تعلیم دی جارہی ہے اور کوئی نہیں کہتا کہ ہمارے تعلیمی اداروںکو سیکولرازم اور لبرل ازم میں غرق کیوں کیا جارہا ہے۔ مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ایک صوبے کی جامعات میں درس قرآن لازمی قرار دیا گیا ہے تو پاکستان کے سیکولر اور لبرل دانشور اس کا بُرا منا رہے ہیں اور اس کا ماتم کررہے ہیں۔ دیکھا جائے تو اس ماتم کا کوئی جواز ہی نہیں۔ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا ہے۔ اس کا آئین اسلامی ہے۔ اس کے عوام کی عظیم اکثریت مسلمان ہے اور ان کے نزدیک دنیا میں قرآن سے بڑی کتاب کا تصور محال ہے۔ ان حقائق کے باوجود پاکستان کے سیکولر اور لبرل عناصر پنجاب کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں درس قرآن کے آغاز پر ماتم کناں ہیں۔ وہ اس سلسلے میں سینہ کوبی کرکے اپنے غصے اور رنج و غم کا اظہار کررہے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ملک کا ایک بڑا اخبار ان کے غصے اور رنج و غم کو اظہار کا سانچہ فراہم کرنے کے لیے اپنے صفحات پیش کررہا ہے۔
طاہر کامران نے جو بیکن ہائوس نیشنل یونیورسٹی لاہور کے پروفیسر ہیں ایک بات یہ کہی ہے کہ جب جامعات میں اسلامی علوم کے شعبے موجود ہیں تو جامعات میں درس قرآن شروع کرنے کا کیا جواز ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن ’’کچھ شعبوں‘‘ اور ’’کچھ مسلمانوں‘‘ کے لیے نہیں ہے۔ قرآن تمام مسلمانوں کا دستور حیات ہے اور وہ تمام شعبوں اور تمام مسلمانوں کے لیے ہے۔ چناں چہ اس کے درس کو عمومی بنانے کا پورا پورا جواز موجود ہے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم اب تک تمام علوم و فنون کو مشرف بہ اسلام نہیں کرسکے ہیں۔ ورنہ اصل بات یہ ہے کہ ہمارے فلسفے، ہماری نفسیات، ہماری عمرانیات، ہماری طبعیات اور ہماری کیمیا کو بھی ’’اسلامی‘‘ یا ’’قرآن مرکز‘‘ ہونا چاہیے۔ چوں کہ ہم اب تک ایسا نہیں کرسکے ہیں اس لیے ہمارے کچھ علوم ’’اسلامی‘‘ ہیں اور کچھ علوم ’’سیکولر اور لبرل‘‘ ہیں۔ جس طرح ایک کمیونسٹ اور لبرل ریاست میں اسلامی علوم کا کوئی کام نہیں ہوسکتا اسی طرح ایک اسلامی ریاست میں سیکولر اور لبرل علوم کا کیا کام؟۔
طاہر کامران کے مطابق بعض سیکولر اور لبرل دانش وروں نے تو اس قرآن کے آغاز پر تبصرہ کرتے ہوئے یہ تک کہہ دیا کہ ملک میں مذہبی تعلیم کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک ’’اسلامی ریاست‘‘ اور ایک ’’اسلامی معاشرے‘‘ میں اگر مذہبی تعلیم کی ضرورت نہیں تو کیا اسلامی تعلیم کی ضرورت کسی سیکولر اور لبرل ریاست اور معاشرے میں ہوگی؟۔ تجزیہ کیا جائے تو دراصل سیکولر اور لبرل دانشوروں کے ذہن میں یہ بات ہے کہ ہم سیکولر اور لبرل عہد میں زندہ ہیں اور سیکولر اور لبرل عہد میں مذہب ایک بہت پرانی بلکہ معاذاللہ ایک ازکار رفتہ چیز ہے۔ جیمس فریزر نے انسانی تاریخ کو چار ادوار میں تقسیم کیا ہے۔ اس نے کہا ہے کہ انسان کا عہد طفولیت دراصل جادو کا زمانہ تھا۔ انسانی ذہن نے ’’ترقی‘‘ کی تو انسان نے مذہب ’’ایجاد‘‘ کر لیا۔ انسان کا مزید ذہنی ارتقا ہوا تو اس نے ’’فلسفے‘‘ کا عہد تخلیق کرلیا۔ لیکن انسان کا ذہن کا ارتقا فلسفے پر رُک نہیں گیا بلکہ انسان نے فلسفے سے بھی زیادہ بڑی چیز پیدا کرلی اور یہ چیز سائنس ہے۔ اس وقت ہم سائنس کے عہد میں سانس لے رہے ہیں۔ اس پوری گفتگو کو ایک تناظر میں دیکھا جائے تو مذہب ’’ماضی کا قصہ‘‘ بن کر سامنے آتا ہے اور عہد حاضر میں اس کے وجود کو قبول کرنا سیکولر اور لبرل ذہن کے لیے بہت مشکل ہے۔ چناں چہ اس لیے سیکولر اور لبرل دانش وروں نے کہا ہے کہ مذہبی تعلیم کی کوئی ضرورت ہی نہیں۔ بلاشبہ دنیا پر سیکولر اور لبرل فکر کا غلبہ ہے۔ مگر مذہب بالخصوص اسلام ایک بہت بڑی حقیقت کے طور پر عالمی اسٹیج پر موجود ہے۔ یہ حقیقت راز نہیں کہ مسلمانوں کی عظیم اکثریت کے لیے قرآن آج بھی ایک ’’زندہ کتاب‘‘ ہے۔ مسلمانوں کی عظیم اکثریت کے لیے رسول اکرمؐ کا اسوئہ حسنہ آج بھی انسانیت کا بلند ترین معیار ہے۔ مسلمانوں کا پورا نظامِ عقاید زندہ اور متحرک ہے۔ مسلمانوں کا نظام عبادات پوری طرح ’’Functional‘‘ ہے۔ مسلمانوں کی اخلاقی حالت خراب ہے مگر وہ معروضی اخلاق کے منکر نہیں ہیں۔ وہ حلال کو
حلال اور حرام کو حرام ہی سمجھتے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اسلام ’’قدیم‘‘ بھی ہے اور ’’جدید‘‘ بھی۔ اسلام کی طاقت یہ ہے کہ وہ مغرب کے سیکولر اور لبرل معاشروں میں ہزاروں لوگوں کو مسلمان کر چکا ہے۔ اسلام کی طاقت نے افغانستان میں وقت کی دو سپر پاور کو بدترین شکست سے دوچار کیا ہے۔ اسلام کی قوت، شوکت اور جمال یہ ہے کہ پوری مسلم دنیا میں مسلمانوں کی عظیم اکثریت آج بھی اسلام کو اپنے تمام مسائل کا حل سمجھتی ہے۔ چناں چہ اتنے طاقت ور دین، اتنے طاقت ور نظریے کے حوالے سے یہ کہنا کہ اس کی تعلیم کی ضرورت ہی نہیں۔ ایک جاہلانہ اور احمقانہ بات ہے۔ دنیا میں ایسے بہت سے لوگ ہیں جو قرآن کو ’’الہامی کتاب‘‘ نہیں مانتے مگر یہ لوگ بھی قرآن کو ’’بڑی کتاب‘‘ سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ قرآن دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے اور یہ کوئی معمولی بات نہیں مگر پاکستان کے سیکولر اور لبرل دانشور قرآن کو صرف ’’بڑی کتاب‘‘ کا درجہ دینے کے لیے بھی تیار نہیں۔ ہوتے تو وہ قرآن کے درس پر اعتراضات نہ کرتے۔ غور کیا جائے تو طاہر کامران کے مضمون کا عنوان بھی توہین آمیز ہے۔ ان کے مضمون کا عنوان ہے ’’Unpalatable Reality‘‘ یعنی ناقابل فہم یا ناقابل قبول حقیقت۔ تو کیا ایک اسلامی ریاست اور ایک اسلامی معاشرے میں درس قرآن ناقابل قبول حقیقت ہے؟۔ آخر پاکستان کے مٹھی بھر سیکولر اور دانشوروں کو یہ حق کہاں سے ملا کہ وہ خود کو پورا معاشرہ باور کرائیں؟۔
طاہر کامران نے صرف درس قرآن پر ماتم نہیں کیا۔ انہوں نے اپنے مضمون میں اس بات پر بھی افسوس کا اظہار کیا کہ پنجاب کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں رحمت اللعالمین کانفرنس بھی منعقد ہوگی۔ انہوں نے لکھا ہے کہ درس قرآن نے تو سیکولر اور لبرل دانشوروں کو ناراض کیا تھا مگر رحمت اللعالمین کانفرنس نے سیکولر اور لبرل دانشوروں کو ’’Depress‘‘ کردیا ہے۔ جیسا کہ ظاہر ہے رسول اکرمؐ کی سیرت طیبہ کے حوالے سے ہونے والے ہر پروگرام پر تمام مسلمان خوش ہوتے ہیں مگر طاہر کامران کا کہنا ہے کہ رحمت اللعالمین کانفرنس ایک Depress کرنے والی سرگرمی ہے۔ بے شمار عیسائی، یہودی اور ہندو رسول اکرمؐ کو نبی نہیں مانتے مگر وہ آپ کو تاریخ کی بڑی ’’شخصیت‘‘ سمجھتے ہیں،
لیکن پاکستان کے سیکولر اور لبرل دانشوروں کے حوالے سے معلوم ہوا کہ وہ تو رسول اکرمؐ کو ’’بڑی شخصیت‘‘ تک نہیں سمجھتے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے اعلیٰ تعلیی اداروں میں رسول اکرمؐ کے حوالے سے کانفرنس ہوتی ہے تو وہ ’’Depress‘‘ ہوجاتے ہیں۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے سیکولر اور لبرل عناصر کتنے بڑے شیطان ہیں۔
طاہر کامران نے اپنے مضمون میں یہ بھی لکھا ہے کہ مسلمان مغرب کے فکر و عمل پر جو ردعمل ظاہر کرتے ہیں وہ ان کی غلامانہ ذہنیت کا مظہر ہے۔ یہ ایک سامنے کی حقیقت ہے کہ ہر عمل کا ایک ردِعمل ہوتا ہے۔ مغرب مسلمانوں پر ظلم کرتا ہے مسلمان اس پر ردعمل ظاہر کرت ہیں۔ اقبال نے اس سلسلے میں ایک اہم بات کہی ہے۔ انہوں نے فرمایا ہے۔
مسلماں کو مسلماں کردیا طوفانِ مغرب نے
تلاطم ہائے دریا ہی سے ہے گوہر کی سیرابی
تاریخ شاہد ہے کہ چیلنج کا جواب ہی افراد اور قوموں کو بڑا بناتا ہے۔ بیسویں صدی کے سب سے بڑی مورخ ٹوائن بی نے کہا ہے کہ چیلنج کے ساتھ انسان کے تعلق کی دو ہی صورتیں ہیں۔ کچھ لوگ چیلنج کو سر کا بوجھ بنالیتے ہیں، البتہ کچھ لوگ اس سے قوت محرکہ تخلیق کرتے ہیں۔ بلاشبہ مغرب کا چیلنج مسلمانوں کے لیے قوت محرکہ ہے۔