مسلم دنیا کے اکثر سیکولر عناصر کہتے ہیں کہ تاریخ کے سفر میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان کوئی فرق نہیں۔ مسلمان جب بڑی طاقت تھے تو انہوں نے بھی دنیا کی مختلف اقوام کو فتح کیا، انہیں اپنا غلام بنایا، بڑی بڑی سلطنتیں قائم کیں۔ مسلمان کمزور ہوگئے تو دنیا کی دوسری اقوام طاقت ور بن کر ابھریں اور انہوں نے بھی مسلمانوں کی طرح فتوحات کا سلسلہ پیدا کیا، مسلمانوں کو غلام بنایا۔ مطلب یہ ہے کہ مسلمان کبھی سوویت یونین کی اور آج امریکا یا بھارت کی شکایت کرتے ہیں تو اس شکایت میں کوئی معقولیت نہیں۔ تاریخ میں اصل چیز اسلام اور غیر اسلام یا مسلم اور غیر مسلم نہیں، بلکہ طاقت ہے۔ جس کے پاس طاقت ہوتی ہے وہی دنیا پر حکومت کرتا ہے۔ وہی جبر و استبداد کا مظاہرہ کرتا ہے۔
لیکن یہ تجزیہ اسلام اور مسلمانوں سے بیزاری کا عکاس اور کند ذہنی کا مظہر ہے۔ ورنہ انسانی تاریخ میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان زمین آسمان کا فرق ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ کا سب سے بڑا امتیاز یہ ہے کہ مسلمانوں کی تاریخ اپنی نہاد میں سردار الانبیا، ان کے وارثوں یا اْن کے اثرات کی تاریخ ہے۔ عیسائیوں نے اپنی قرونِ وسطیٰ کی تاریخ کو مذہبی رنگ دیا لیکن ان کے پاس کبھی بھی حکومت و ریاست اور جنگ و امن کا کوئی ’’پیغمبری نمونہ‘‘ نہیں تھا۔ ان کے پاس جو کچھ تھا عام انسانوں کی ایجاد و اختراع تھی اور اس پر کسی تقدیس کا سایہ نہیں تھا۔ ہندو رام اور کرشن کو اوتار یا پیغمبر کہتے ہیں، مگر ہندوئوں کی گزشتہ دو ہزار سال کی تاریخ پر رام اور کرشن کا کوئی اثر موجود نہیں۔ گزشتہ دو ہزار سال میں یہودی کبھی بڑی طاقت نہیں رہے، چنانچہ ان کے یہاں پیغمبری نمونے کا کوئی حوالہ موجود نہیں۔ انہوں نے 1948ء میں اسرائیل قائم کیا تو سازشوں کے ذریعے۔ آئینی اعتبار سے دیکھا جائے تو اسرائیل مذہبی نہیں سیکولر ریاست ہے اور یہ صورتِ حال یہودیوں کی پوری تاریخ کی تکذیب ہے۔ حالیہ تاریخ میں سوویت یونین اور چین بڑی طاقتوں کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن دونوں ریاستیں ہی لادین ہیں۔
ریاست کے پیغمبرانہ نمونے کی خاص بات یہ ہے کہ خلافت ملوکیت یا بادشاہت میں تبدیل ہوجائے تو بھی پیغمبرانہ نمونے کا کچھ نہ کچھ اثر باقی رہتا ہے۔ اس کی ایک اچھی مثال ہندوستان میں اکبر اور اورنگ زیب عالمگیر ہیں۔ دْنیوی شان و شوکت، طاقت و ہیبت اور ریاست کی وسعت کو دیکھا جائے تو اکبر مغلیہ سلطنت کا سب سے بڑا بادشاہ ہے، لیکن برصغیر کے مسلمان اکبر کو ہیرو سمجھنے کے بجائے ولن سمجھتے ہیں، اس لیے کہ اکبر مسلمانوں کے تاریخی اور تہذیبی تجربے سے کٹی ہوئی شخصیت ہے۔ اس کے برعکس مسلمانوں کا ہیرو اورنگ زیب ہے۔ اس لیے کہ اورنگ زیب بادشاہ ہونے کے باوجود مسلمانوں کے شاندار ماضی کا ایک نمونہ اور مسلمانوں کی تاریخ کا ایک تسلسل محسوس ہوتا ہے، حالانکہ اورنگ زیب کے دنیا سے رخصت ہوتے ہی مغلیہ سلطنت کا انہدام شروع ہوگیا۔
مسلمانوں کی تاریخ کا ایک بڑا امتیاز مسلمانوں کا تصورِ جہاد ہے۔ بہت سے لوگ جہاد اور جنگ کو ہم معنی سمجھتے ہیں، لیکن جہاد کے محرکات جنگ کے محرکات سے یکسر مختلف ہوتے ہیں۔ جنگ نسلی، گروہی یا قبائلی عظمت کے اظہار کے لیے لڑی جاتی ہے اور اس کا مقصد دولت و اقتدار کا حصول یا ان میں اضافہ ہوتا ہے۔ لیکن جہاد اقبال کے الفاظ میں نہ مالِ غنیمت کے لیے کیا جاتا ہے نہ کشور کشائی کے لیے… بلکہ جہاد صرف اللہ کی کبریائی کے اعلان اور اللہ کے حکم کو غالب کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ بلاشبہ جنگ میں بھی انسان ہلاک ہوتے ہیں اور جہاد میں بھی لوگ مارے جاتے ہیں۔ لیکن جنگوں میں انسان پست مقاصد کے لیے ہلاک کیے جاتے ہیں اور جہاد میں مولانا روم کے مطابق اللہ کی مخلوق کو اللہ کے حکم اور اللہ ہی کی بڑائی کے اظہار کے لیے قتل کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے تاریخی تجربے اور غیر مسلموں کے تاریخی تجربے میں بہت بڑا فرق ہے۔
اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ مسلمانوں نے ہندوستان پر ایک ہزار سال حکومت کی، لیکن ایک ہزار سال میں نہ ہندوئوں کے مذہب کو چھیڑا، نہ ان کی تہذیب کو ہاتھ لگایا، نہ ان کی تاریخ کو مسخ کیا، نہ ان کی سماجیات کی بنیادیں ہلائیں، نہ ان کے مذہبی علم اور رسومات پر حملہ کیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمانوں کے ایک ہزار سالہ دور میں ہندو ازم اور اس کا تہذیبی و تاریخی تجربہ پوری طرح محفوظ رہا۔ اس کے برعکس انگریزوں نے ہندوستان پر صرف دو سو سال حکومت کی۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ بھارت کا آئین سیکولر ہے۔ ہندوئوں کے قوانین برطانوی راج کا ورثہ ہیں۔ ہندوئوں کا نظام تعلیم یکسر بدل چکا۔ ان کی سیاسی تراش خراش اور وضع قطع میں زمین آسمان کا فرق آگیا۔ ہندو ہزار سال تک مسلمانوں کے عہد میں سانس لیتے رہے اور ان کی دھوتی کرتا باقی رہا۔ وہ ہزار سال کی پوری تاریخ میں سبزی خوربنے رہے۔ لیکن آج بھارت کی آدھی سے زیادہ ہندو آبادی پینٹ شرٹ پہنتی ہے اور ہندو آبادی کا 40 فی صد گوشت خور بن چکا ہے جو کہ ہندو ازم کے مطابق ایک بڑا گناہ ہے۔
مسلمانوں نے اسپین کے بڑے حصے پر چھ سو سال حکومت کی۔ اس عرصے میں مسلم اسپین صرف مسلم اسپین نہیں تھا، عیسائی اسپین بھی تھا، یہودی اسپین بھی تھا، عیسائیوں کی عیسائیت اور ان کی تہذیبی روایت پوری طرح زندہ تھی اور یہودیوں کی یہودیت اور ان کی تہذیبی میراث بھی پوری طرح محفوظ تھی۔ لیکن مسلم اسپین جیسے ہی مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل کر عیسائیوں کے ہاتھ میں آیا، انہوں نے مسلمانوں کے سامنے تین امکانات رکھے: اسپین چھوڑ کر چلے جائو، عیسائی بن جائو، یا قتل ہونے کے لیے تیار رہو۔ اور عیسائی اسپین میں یہ تینوں کام بڑے پیمانے پر ہوئے۔
سوویت یونین میں کمیونزم کا دور صرف 70 سال پر محیط تھا، لیکن اس عرصے میں کمیونسٹ حکمرانوں نے مسلمانوں کے عقائد کو فنا کرنے کی پوری کوشش کرڈالی۔ انہوں نے قرآن کی تعلیم پر پابندی لگادی، روزے، نماز ممنوع قرار پائے، مساجد بند کردی گئیں، مدارس پر تالے ڈال دیئے گئے، اور مسلمانوں کے مذہبی شعور کو کھرچ کھرچ کر تحلیل کیا گیا۔ اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ سوویت یونین اور کمیونزم کو ختم ہوئے اب 8 2سال ہوچکے ہیں لیکن سوویت یونین سے آزادی حاصل کرنے والی نومسلم ریاستوں مثلاً قازقستان اور تاجکستان وغیرہ میں مسلمانوں کی بڑی تعداد کی ’’اسلامی معلومات‘‘ کا یہ عالم ہے کہ کینیڈا میں مقیم ایک مسلم دانش ور قازقستان گئے تو انہیں ہوٹل میں ’’حلال کھانے‘‘ کی فکر لاحق ہوئی۔ انہوں نے ہوٹل کی انتظامیہ سے پوچھا کہ آپ کے یہاں حلال کھانا دستیاب ہے؟ تو انہوں نے پوری خوش دلی کے ساتھ اعلان کیا کہ ہمارے یہاں حلال گوشت دستیاب ہے۔ لیکن جب وہ صاحب کھانا کھانے پہنچے تو معلوم ہوا کہ انہیں کھانے میں سور کا گوشت فراہم کیا جارہا ہے۔ انہوں نے اس پر احتجاج کیا تو انہیں بتایا گیا کہ سور کو مکمل اسلامی طریقے سے ذبح کیا گیا ہے۔ مطلب یہ کہ جن مسلمانوں نے یہ ’’کارنامہ‘‘ انجام دیا انہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ اسلام میں سور کا گوشت حرام ہے۔
بوسنیا ہرزیگووینا میں بھی کمیونزم کو صرف 70 سال فراہم ہوئے، لیکن صرف 70 برسوں میں بوسنیا کے مسلمانوں کا یہ حال ہوگیا کہ ان کی اکثریت نے اپنے مسلم نام تک ترک کردیئے۔ جدید یورپ کا معاملہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ یورپ میں مسلمانوں کو آباد ہوئے پچاس سال ہوئے ہیں، لیکن وہاں مساجد کی تعمیر پر پابندی لگائی جارہی ہے، پردے کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا ہے، حلال گوشت کی فراہمی ناممکن بنائی جارہی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ مذہبی یورپ میں نہیں سیکولر یورپ میں ہورہا ہے۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ مسلمانوں نے اپنی تاریخ میں دوسرے مذاہب اور ان کے پیروکاروں کے لیے وسیع القلبی کا مظاہرہ کیا ہے تو اس کا کیا سبب ہے؟اس کا ایک سبب یہ ہے کہ اسلام مسلمانوں کو حکم دیتا ہے کہ دین میں کوئی جبر نہیں ہے، ایمان لانا یا نہ لانا انسان کا شعوری عمل ہے۔ اس پر ایمان تھوپا نہیں جاسکتا۔ اس کا مطلب ہے کہ دوسرے مذاہب اور ان کے پیروکاروں کے سلسلے میں مسلمانوں کی وسیع القلبی ان کی ذاتی خوبی نہیں بلکہ یہ اسلام کی پیدا کی ہوئی خوبی ہے۔
مسلمانوں کی وسیع القلبی کا ایک سبب یہ ہے کہ مسلمان حقیقی معنوں میں ایک کثیرالتہذیبی اور کثیرالثقافتی امت ہیں۔ مسلمانوں میں پیدائشی مسلمان بھی ہیںاور وہ بھی جن کے آبا و اجداد کبھی عیسائی، یہودی، ہندو یا چینی اور روسی تھے۔ یہ تجربہ مسلمانوں کے صبر و تحمل اور برداشت کی صلاحیت کو بہت بڑھا دیتا ہے۔