ترکی میں رجب طیب اردوان کے خلاف فوجی بغاوت ہوئی تو ہم گھر پر تھے اور مطالعے میں مصروف تھے۔ لیکن چوں کہ ہم ٹی وی نہیں دیکھ رہے تھے اس لیے ہمیں معلوم ہی نہیں تھا کہ ترکی میں کیا ہوچکا ہے۔ اچانک ہماری بڑی بیٹی نے ٹی وی کھولا تو تمام پاکستانی چینلوں پر فوجی بغاوت کی خبر کو فلیش ہوتے پایا۔ ہماری بیٹی نے ہمیں آکر بتایا کہ ترکی میں طیب اردوان کے خلاف فوجی بغاوت ہوگئی ہے۔ ہم تیزی سے اُٹھے اور ٹی وی کے سامنے جا کر بیٹھ گئے۔ ٹی وی کی اسکرین پر یک کے بعد دیگرے پاکستانی چینل نمودار ہورہے تھے۔ اس صورت حال میں ہم نے اپنی بیٹی سے کہا کہ فوراً سی این این لگائو اصل خبر وہاں ہوگی۔ ہمارا قیاس درست تھا۔ سی این این پر امریکی سی آئی اے کا ایک ریٹائرڈ اہلکار موجود تھا اور طیب اردوان کے خلاف زہر اُگل رہا تھا۔ وہ کہہ رہا تھا کہ طیب اردوان ’’پوشیدہ اسلامسٹ‘‘ ہے۔ وہ ترکی کی سیکولر قوتوں کا دشمن ہے۔ وہ کردوں کا قاتل ہے۔ اس کے خلاف فوجی بغاوت ہونی ہی چاہیے تھی۔ اسی طرح ترکی کو طیب اردوان سے نجات ملے گی۔ اس صورتِ حال کا مفہوم بالکل عیاں تھا۔ ترکی کی فوجی بغاوت کی پشت پر امریکا موجود تھا اور امریکا کو یقین تھا کہ بغاوت سو فی صد کامیاب ہوگی۔ مگر جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے۔ رجب طیب اردوان نے ترکی کے عوام سے بغاوت کی مزاحمت کی اپیل کی اور آدھی رات کو ترکی کے ہزاروں لوگ گھروں سے نکل آئے۔ وہ ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے۔ انہوں نے باغی فوجیوں کو ٹینکوں سے نکال کر مارنا شروع کردیا۔ ان پر فضا سے ہیلی کاپٹر فائرنگ کر رہے تھے۔ لوگ شہید اور زخمی ہورہے تھے مگر وہ ترکی کے بدمعاش فوجیوں سے خوف زدہ نہیں ہوئے اور انہوں نے بغاوت کو ناکام بنا کر ہی دم لیا۔ بغاوت کی ناکامی کے بعد طیب اردوان نے امریکا میں مقیم فتح اللہ گولن کو بغاوت کا ذمے دار قرار دیا۔ انہوں نے امریکا سے فتح اللہ گولن کو ترکی کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا مگر انہوں نے اسی سلسلے میں امریکا کو براہِ راست ملوث قرار نہیں دیا۔ تاہم چند روز پیش تر ترکی نے امریکا پر فوجی بغاوت کا الزام عاید کر ہی دیا۔ ترکی کے وزیر داخلہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ترکی کی ناکام فوجی بغاوت کی پشت پر امریکا موجود تھا۔ ترک وزیر داخلہ کے بقول اس سلسلے میں فتح اللہ گولن کی تنظیم کو آلہ کار کے طور پر استعمال کیا گیا۔ تاہم امریکا نے اس الزام کی تردید کی ہے کہ وہ طیب اردوان کے خلاف فوجی بغاوت میں ملوث تھا۔ (روزنامہ ایکسپریس کراچی۔ 6 فروری 2021ء)
حکومتوں کا تختہ اُلٹنا اور فوجی بغاوتوں کی راہ ہموار کرنا امریکا کے لیے ’’معمول کی بات‘‘ ہے۔ امریکا کے ممتاز دانش ور نوم چومسکی امریکا کو خوامخواہ ’’بدمعاش ریاست‘‘ قرار نہیں دیتے۔ وہ امریکا کو بدمعاش ریاست کہتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکا تاریخ میں ہمیشہ بدمعاش ریاست ثابت ہوا ہے۔ لیکن امریکا ہمیشہ بدمعاش ریاست کیوں ثابت ہوتا ہے؟ اس کی وجہ پر امریکا کی ایک اور ممتاز دانش ور سوسن سونٹیگ نے روشنی ڈالی ہے۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ امریکا کی بنیاد نسل کشی پر رکھی ہوئی ہے۔ سوسن سونٹیگ کی بات کا مفہوم یہ ہے کہ امریکا کے سفید فام باشندوں نے امریکا کی بنیاد رکھتے ہوئے دس کروڑ ریڈ انڈینز کو قتل کیا۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ دہشت گردی، سازش اور قتل عام امریکا کی سرشت میں شامل ہے۔ چناں چہ امریکا نے صرف رجب طیب اردوان کی حکومت کے خلاف ہی بغاوت نہیں کرائی۔ اس نے 1953ء میں ایران کے اندر مصدق کی حکومت کے خلاف کامیاب سازش کی۔ امریکی سی آئی اے نے مصدق کی 2 سالہ حکومت کا دھڑن تختہ کرایا۔ مصدق کا جرم یہ تھا کہ اس نے ایران کی تیل کی صنعت کو قومیا لیا تھا۔ اس اقدام سے امریکا اور اس کے اتحادی برطانیہ کے مفادات متاثر ہوئے تھے۔ چناں چہ مصدق کی حکومت کو گرادیا گیا، مصدق گرفتار ہوئے اور انہوں نے پوری زندگی حراست میں بسر کی۔ 1954ء میں امریکا نے گوئٹے مالا میں صدر جیکب آربنز کی حکومت کا تختہ اُلٹوا دیا۔ صدر جیکب آربنز کبھی امریکا کا حامی تھا لیکن پھر اس نے گوئٹے مالا میں ایسی اصلاحات متعارف کرائیں جو امریکی مفادات کے مطابق نہ تھیں۔ چناں چہ صدر جیکب آربنز کے خلاف فوجی بغاوت کی راہ ہموار کردی گئی۔ امریکا نے نہ صرف یہ کہ باغی فوجیوں کو ہتھیار فراہم کیے بلکہ گوئٹے مالا کا بحری محاصرہ بھی کرلیا۔ امریکی سی آئی اے نے 1960ء میں کونگو کے وزیراعظم پیٹرس لُوممبا کے خلاف بغاوت کرائی۔ امریکا لُوممبا کو گرا کر اس کی جگہ صدر جوزف موبوٹو کو لے آیا۔ بغاوت سے پہلے امریکی سی آئی اے نے ایک زہریلے رومال کے ذریعے لُوممبا کو ہلاک کرنے کی کوشش کی مگر یہ کوشش کامیاب نہ ہوسکی۔ 1961ء میں امریکا نے لُوممبا کو گرفتار کرادیا اور اسے حراست میں مار ڈالا۔ امریکا نے 1964ء میں برازیل کے اندر صدر گولو آرٹ کے خلاف جنرل برینکو سے بغاوت کرادی۔ سی آئی اے نے صدر کے خلاف مظاہروں کو منظم کیا۔ باغیوں کو اسلحہ فراہم کیا۔ امریکا کو خطرہ تھا کہ صدر گولو آرٹ برازیل کو کمیونسٹ بنادے گا۔ برازیل میں فوج نے 1964ء میں اقتدار سنبھالا اور وہ 1985ء تک مزے کے ساتھ حکومت کرتی رہی۔
امریکا کی خفیہ دستاویزات سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ جنرل ایوب 1954ء سے امریکیوں کے ساتھ رابطے میں تھے۔ وہ امریکیوں کو بتارہے تھے کہ پاکستان کی سول قیادت نااہل ہے اور وہ پاکستان کو تباہ کردے گی۔ جنرل ایوب امریکا سے کہہ رہے تھے کہ فوج سول قیادت کو ہرگز ملک تباہ نہیں کرنے دے گی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو جنرل ایوب نے 1958ء میں مارشل لا لگایا تو امریکا کی تائید کے ساتھ۔ جماعت اسلامی کے ممتاز رہنما محمود اعظم فاروقی ہمارے ان قارئین میں سے تھے جو ہمارے کالموں اور ہمارے لکھے ہوئے اداریوں پر براہِ راست ردِ عمل ظاہر کرتے تھے۔ ایک دن فاروقی صاحب کا فون آیا تو بھٹو صاحب کی برطرفی زیر بحث آگئی۔ فاروقی صاحب نے فرمایا کہ بھٹو کی برطرفی کی پشت پر امریکا تھا۔ ہم نے پوچھا یہ آپ کی ذاتی رائے ہے یا یہ رائے کسی اجتماعی تجزیے کا عکس ہے؟ کہنے لگے کہ نہیں یہ میری ذاتی رائے ہے مگر وہ دیر تک اس رائے پر اصرار کرتے رہے۔ فاروقی صاحب کے خیالات کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ بھٹو کو ایٹمی پروگرام شروع کرنے کی سزا دی گئی۔ یہ حقیقت راز نہیں کہ مصر میں صدر مرسی کے خلاف ہونے والی فوجی بغاوت کی پشت پر بھی امریکا ہی تھا۔ اس کا ٹھوس ثبوت یہ ہے کہ امریکا نے جنرل سیسی کی بغاوت کو ’’بغاوت‘‘ بھی قرار نہ دیا۔ امریکا ایسا کرتا تو امریکی قوانین کے تحت اسے مصر کی امداد بند کرنا پڑجاتی۔
نائن الیون کے بعد امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں نے یہ بات تواتر کے ساتھ دہرائی ہے کہ وہ اسلام یا مسلمانوں کے خلاف نہیں بلکہ ان کی جنگ اسامہ بن لادن اور ملا عمر جیسے ’’انتہا پسندوں‘‘ اور ’’دہشت گردوں‘‘ سے ہے۔ لیکن یہ بات ایک کھلا جھوٹ ہے۔ رجب طیب اردوان اور صدر مرسی کو نہ ’’انتہا پسند‘‘ قرار دیا جاسکتا ہے نہ ان سے کوئی دہشت گردی منسوب ہے۔ یہ دونوں رہنما جمہوری طریقے سے اقتدار میں آئے تھے۔ طیب اردوان کا ترکی آئینی اعتبار سے ’’سیکولر‘‘ ہے اور رجب طیب اردوان سیکولر آئین پر حلف اُٹھا کر اقتدار میں آتے رہے ہیں بلکہ وہ اپنے ایک انٹرویو میں یہ تک کہہ چکے ہیں کہ اسلام اور سیکولر ازم ایک دوسرے سے مطابقت رکھتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود امریکا نے طیب اردوان کے خلاف فوجی بغاوت کی راہ ہموار کی۔ صدر مرسی اسلام پسند تھے مگر وہ مصر کو انتہا پسندی اور دہشت گردی کی راہ پر نہیں ڈال رہے تھے بلکہ وہ مغرب کے ساتھ گفتگو اور مکالمے کے حامی تھے۔ وہ مغرب کے ساتھ پرامن بقائے باہمی پر یقین رکھتے تھے مگر اس کے باوجود امریکا نے جنرل سیسی کے ذریعے ان کا تختہ الٹوادیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں کو اسلام سے تعلق رکھنے والے کسی صورت میں قبول نہیں ہیں۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں کی تاریخ کو دیکھا جائے تو ان کے لیے مصدق اور بھٹو جیسے لوگ بھی قابل قبول نہیں تھے اس لیے کہ مصدق بھی ’’قوم پرست‘‘ تھے اور ذوالفقار علی بھٹو نے بھی ایٹمی پروگرام شروع کرکے اپنی ’’قوم پرستی‘‘ کا مظاہرہ کیا تھا۔ امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں کو مسلم دنیا میں ایماندار قیادت تک درکار نہیں۔ امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں کو مسلم دنیا میں سیکولر اور لبرل قیادت درکار ہے۔ سیکولر اور لبرل قیادتیں بھی وہ جو ’’قوم پرست‘‘ یا ’’محب وطن‘‘ نہ ہوں، اس کے برعکس امریکا کو مسلم دنیا میں ایسی قیادتیں درکار ہیں جو اسلام، اسلامی تہذیب اور اسلامی تاریخ کی غدار ہوں۔ جن کے دل اپنے ملک اور اپنی قوم کے لیے نہ دھڑکتے ہوں۔ جو ہر دائرے میں خود کو مغرب کی آلہ کار ثابت کریں۔ مثل مشہور ہے بد اچھا بدنام برا۔ امریکا چنگیز خان سے زیادہ برا ہے مگر چنگیز خان بدنام ہے، چناں چہ ساری دنیا چنگیز خان کی مذمت کرتی ہے۔ امریکا چنگیز خان سے ہزار گنا زیادہ بدمعاش اور سفاک ہے مگر چوں کہ وہ بدنام نہیں اس لیے پوری دنیا امریکا کو ’’آزاد دنیا‘‘ کا قائد کہتی ہے۔ لاحول ولاقوۃ۔