اقبال نے اپنی ایک نظم میں کہا ہے۔
اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے
کچھ اس میں تمسخر نہیں واللہ نہیں ہے
اقبال ہمارے عہد کی عظیم ترین شخصیات میں سے ایک تھے۔ ان کا علم بے پناہ تھا۔ ان کے بقول ان کے خیالات کا پانی گہرا تھا چنانچہ اقبال اگر اقبال سے آگاہ نہیں تھے تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اقبال تو اقبال تھے عام آدمی کی تفہیم بھی آسان نہیں۔ انسانوں کی عظیم اکثریت خواہشات کا سمندر ہوتی ہے۔ سیکڑوں خواہشات انسان کے ذہن اور نفس میں ایک دوسرے کو کاٹتی ہوئی گزرتی ہیں۔ کچھ لوگ جبلتوں کے زیر اثر ہوتے ہیں۔ کچھ لوگوں پر تعقل کا غلبہ ہوتا ہے۔ بعض لوگ جذبات کے اسیر ہوتے ہیں۔ کچھ انسان ایسے ہوتے ہیں جو ماحول کے ماتحت ہوتے ہیں۔ بعض لوگوں پر ان کی اقتصادیات کا اثر ہوتا ہے۔ کچھ لوگوں کی شخصیت مذہب سے تشکیل پاتی ہے۔ انسانوں کی اکثریت مختلف اثرات کا ملغوبہ ہوتی ہے اور ان کی شخصیت میں اکائی موجود نہیں ہوتی۔ ایسے لوگ ساری زندگی خود کو نہیں سمجھ پاتے اور نہ ہی ان کی شخصیت کا اصل جوہر آشکار ہوپاتا۔ انسان کیا ہے اس کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب وہ کسی آزمائش سے گزرتا ہے یا جب اسے کوئی قربانی دینی پڑتی ہے۔ کسی شاعر نے کہا ہے۔
قربت ایک اک فرق عیاں کردیتی ہے
دور کے منظر ایک طرح کے ہوتے ہیں
انسان جب تک آزمائش سے نہیں گزرتا اس پر اپنی کمزوری، کوتاہی اور خامی عیاں نہیں ہوتی۔ لیکن جب انسان آزمائش سے دوچار ہوتا ہے تو اس کی اصل شخصیت سامنے آجاتی ہے۔ سلیم احمد کا ایک شعر ہے۔
میں کوئی اور ہوں تْو اور ہے ایسا کیوں ہے
یہ سوال آج محبت نے اْٹھایا کیوں ہے
انسان جب محبت کرتا ہے اور محبت میں شدت ہوتی ہے تو اسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ اور اس کا محبوب ایک ہیں: ان میں پوری طرح ہم آہنگی ہے۔ ان کے درمیان کوئی فرق اور کوئی امتیاز نہیں۔ مگر جب محبت کم ہوجاتی ہے اور اس کی شدت باقی نہیں رہتی تو انسان خود کو اور محبوب کو تنقیدی نظر سے دیکھنے لگتا ہے۔ یہاں تک کہ اسے اپنی اور محبوب کی شخصیتوں میں اجنبیت کے پہلو نظر آنے لگتے ہیں۔ محبت کا تجربہ ایسا ہے کہ بظاہر انسان محبت میں مسلسل اضافے کی تمنا کرتا ہے۔ بالخصوص چاہے جانے کی طلب بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔ لیکن عبیداللہ علیم کا شعر ہے۔
عزیز اتنا ہی رکھ کہ جی سنبھل جائے
اب اس قدر بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے
اس شعر میں محبت ایک طرح کا کھیل ہے اور شاعر کی ’’ضرورت‘‘ صرف اتنی محبت ہے جس سے جی سنبھل جائے۔ محبت بڑھتی ہے تو وہ شاعر کے لیے ایک بوجھ بن جاتی ہے۔ ایسا بوجھ جس سے اس کے دم نکلنے کا اندیشہ پیدا ہوجاتا ہے۔ اس سلسلے میں فیض احمد فیض نے تو حد ہی کردی ہے۔ فرماتے ہیں۔
اپنی تکمیل کر رہا ہوں میں
ورنہ تجھ سے تو مجھ کو پیار نہیں
یعنی محبت تو محض ایک دھوکا ہے اصل چکر تو جسم کی بھوک اور پیاس مٹانا ہے جسے شاعر نے اپنی تکمیل کا نام دیا ہے۔ مگر محبت کے بوجھ یا دھوکا ہونے کی بات محبت کے تجربے سے گزرنے کے بعد ہی سامنے آئی۔ اس سے پہلے محبت ایک مقدس شے تھی۔ ایک عظیم الشان جذبہ تھا۔ اس سلسلے میں ژاں پال سارتر کی بات بھی سنے جانے کے لائق ہے۔ سارتر نے کہا ہے کہ انسانی جان کی قدر وقیمت کا اعتراف تو سبھی کرتے ہیں۔ لیکن دوسرے انسان کی جان کسی کے لیے کتنی اہم ہے اس کا اندازہ ایک شدید آزمائش سے گزرے بغیر نہیں ہوسکتا۔ سارتر نے کہا ہے کہ فرض کیجیے آپ ایک ایسی سڑک پر کار چلارہے ہیں جس کے ایک طرف پہاڑ ہے اور دوسری طرف کھائی ہے۔ ایسے میں اچانک ایک شخص آپ کی کار کے سامنے آگیا ہے۔ اب آپ کے پاس دو ہی امکانات ہیں۔ یا تو آپ اْس شخص کو کچلتے ہوئے گزر جائیں اور اپنی جان بچالیں یا پھر اس شخص کو بچالیں اور اپنی کار کھائی میں گرالیں۔ سارتر کے بقول اس شدید لمحے میں آپ کی شخصیت کا اصل جوہر سامنے آئے گا۔ اگر آپ کو دوسرے انسان کی جان عزیز ہوگی تو آپ اپنی جان پر کھیل کر دوسرے کی جان بچائیں گے ورنہ آپ اس شخص کو کچل کر اپنی جان بچالیں گے۔ سارتر مذہبی انسان نہیں تھا مگر اس کے باوجود اسے معلوم تھا کہ انسان کی شخصیت کی اصل جوہر آزمائش اور قربانی کے وسیلے سے سامنے آتا ہے۔ بہت سے انسان خود کو ایمان دار کہتے ہیں مگر جب موقع آتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ اصل میں بے ایمان تھے۔ بہت سے لوگ خود کو بہادر سمجھتے ہیں مگر
جب کوئی شدید لمحہ آتا ہے تو پتا چلتا ہے کہ ان میں بزدلی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ ایک فلم میں دکھایا گیا ہے کہ فلم کا ہیرو بحری جہاز کا کپتان ہے۔ ایک دن بحری جہاز طوفان میں گھر جاتا ہے۔ بحری جہاز کے کپتان کا فرض ہوتا ہے کہ وہ جہاز کو ڈوبنے سے قبل جہاز پر سوار مسافروں کو لائف بوٹس پہ سوار کر کے ان کی جان بچانے کی کوشش کرے۔ مگر وہ ایسا کرنے کے بجائے اپنی جان بچا کر طوفان سے نکل جاتا ہے۔ اس آزمائش سے ہیرو کا اصل کردار سامنے آتا ہے۔
غور کیا جائے تو مذہب کی پوری تاریخ اس حقیقت کو سامنے لاتی ہے کہ انسان کا حقیقی جوہر آزمائش اور قربانی کے ذریعے ہی سامنے آتا ہے۔ روئے زمین پر انسان کی کہانی کا آغاز ہی آزمائش اور قربانی سے ہوتا ہے۔ ہابیل اور قابیل کے قصے میں ہابیل حق کی علامت ہے اور قابیل باطل کی۔ ان کے درمیان ایک لڑکی پر تنازع برپا ہوتا ہے اور قابیل ظلم کی راہ اختیار کرتا ہے۔ ہابیل حق پر ہے اور وہ قابیل کے ظلم کا جواب دے سکتا ہے مگر وہ حق پر ہونے کے باوجود قابیل کو نقصان پہنچانے سے انکار کردیتا ہے اور اس کی وجہ خدا کا خوف ہے۔ اس آزمائش سے ثابت ہوا کہ ہابیل واقعتا حق کا ترجمان تھا۔ یہی اس کی شخصیت کا اصل جوہر تھا۔ اس کے برعکس قابیل باطل پرست تھا اور یہی اس کا اصل تشخص تھا۔
سیدنا ابراہیمؑ کا واقعہ آزمائش اور قربانی کی ایک بڑی مثال ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ سیدنا ابراہیمؑ سے ان کی جان طلب کرتا تو یہ بھی آزمائش ہوتی مگر چھوٹی آزمائش۔ اس لیے کہ اللہ کی راہ میں اپنی جان قربانی دینا آسان ہے مگر انسان کو اپنے آپ سے زیادہ اپنی اولاد سے محبت ہوتی ہے چنانچہ سیدنا اسمٰعیلؑ کی قربانی ایک بہت بڑی قربانی تھی لیکن سیدنا ابراہیم کسی تردد کے بغیر اس قربانی پر بھی آمادہ ہوگئے۔ رسول اکرمؐ کی پوری زندگی آزمائش میں گزاری۔ ایک مرحلہ ایسا بھی آیا کہ سیدنا جبرئیل ؑ نے کہا کہ اگر اپ کہیں تو اہل مکہ کو پہاڑوں کے درمیان لاکر پیس دیں۔ مگر اپ تمام عالموں کے لیے رحمت تھے چنانچہ آپؐ نے اہل مکہ کو اس انجام سے دوچار کرنے سے انکار کردیا۔ بدر کا موقع رسول اکرمؐ اور آپ سے زیادہ صحابہ کرام کے لیے آزمائش تھا۔ ایک جانب ایک ہزار کا لشکر جرار تھا اور دوسری جانب 313 کی بے سروسامان فوج۔ یہ طاقت کا ایک ہولناک عدم توازن تھا اور بظاہر 313 کی فتح کا کوئی امکان نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ دیکھنا چاہتا تھا کہ اس آزمائش میں کون کیسا ثابت ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ دیکھنا چاہتا تھا کہ اللہ اور اس کے رسول کا حکم کسے عزیز ہے اور کس کو اپنی جان؟ آزمائش ایسی تھی کہ رسول اکرمؐ نے ساری رات عبادت میں بسر کردی۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ اور آپ کے ساتھیوں کو فتح کی نوید سنادی۔ لیکن یہ اس وقت ممکن ہوا جب اہل حق کا اصل جوہر آشکا ہوگیا۔
آزمائش انسان کے جوہر کو کس طرح آشکار کرتی ہے اس کی ایک اچھی مثال برصغیر پر انگریزوں کا تسلط ہے۔ اس تسلط نے ایک جانب ایسے لوگ پیدا کیے جو انگریزوں اور ان کی لائی ہوئی تہذیب کی مزاحمت کرنے والے تھے اور دوسری جانب اس تسلط نے ایسے لوگ پیدا کیے جو انگریزوں کے تسلط کو اللہ تعالیٰ کی عنایت سمجھتے تھے اور ان کا کہنا تھا کہ برصغیر کے لوگوں کے پاس کرنے کا واحد کام یہ ہے کہ وہ دل سے انگریزوں کو اپنا آقا تسلیم کریں۔ برصغیر پر انگریزوں کا تسلط نہ ہوتا اور برصغیر کے لوگوں سے کہا جاتا کہ تم پر ایک غیر ملکی طاقت مسلط ہونے والی ہے تو وہ تمام لوگ کہتے کہ ہم اس قوت کی بالادستی قبول نہیں کریں گے اور ہم اس قوت کی مزاحمت کریں گے۔ مگر انگریز برصغیر پر مسلط ہوئے تو برصغیر میں ان کی غلامی کو دل سے قبول کرنے والوں کی کمی نہ تھی۔ غلامی پر آمادگی ہی ان لوگوں کا اصل جوہر تھا۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ1857ء کی جنگ آزادی ناکام ہوگئی اور یہ بات غلط نہیں ہے مگر اس ناکام جنگ آزادی نے ایک جانب برصغیر کے لوگوں کے بالخصوص مسلمانوں کے جذبہ مزاحمت کو نمایاں کیا۔ دوسری جانب اس جنگ آزادی نے مسلمانوں میں مزاحمت اور جہاد کے جذبے کو زندہ رکھا۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ آزمائش اور قربانی انسان کے اصل جوہر کو کیوں آشکار کرتی ہے؟
انسان کی ساری زندگی کی تگ و دو یہ ہے کہ زندگی کا تحفظ کیا جائے۔ لیکن جب انسان کسی چیز کے لیے جان کی بازی لگا دیتا ہے تو یہ ظاہر کرتا ہے کہ کچھ چیزیں زندگی سے بھی زیادہ اہم ہیں۔ خدا کو اپنے حکم پر زندگی قربان کرنا اتنا پسند ہے کہ وہ شہیدوں کو مردہ نہیں زندہ کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ تمہیں ان کی زندگی کا شعور نہیں۔ آزمائش کا ایک پہلو یہ ہے کہ وہ انسان کی زندگی کے مصنوعی اجزاء کو تحلیل کردیتی اور صرف حقیقی اجزاء باقی رہ جاتے ہیں۔ چنانچہ آزمائش سے دوچار ہو کر انسان کو معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ اصل میں کیا ہے؟ اپنے آپ سے آگاہ ہونا اتنا اہم ہے کہ اس کے بغیر انسان، انسان کہلانے کا مستحق نہیں بنتا۔