ہندوستان سے آنے والی ایک ہولناک اطلاع کے مطابق مودی سرکار نے مسلمانوں کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے لیے مدارس میں ہندوئوں کی مذہبی کتابیں پڑھانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ ہندوستان کے مسلمانوں نے اس صورت حال پر ردِعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ مدارس کے قیام کا مقصد مسلمانوں میں اسلامی تعلیمات کو عام کرنا ہے۔ مدارس نجی ادارے ہیں اور حکومت کو ان کے نصاب میں مداخلت کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ ہندوستان کے وزیر تعلیم رمیش پوکھریال نے چند روز پیش تر اس سلسلے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ مدارس میں رامائن اور گیتا کی تعلیم کا اہتمام کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ مدارس میں ہندو طریقہ علاج ہوگا اور سورج کو سلام یا سوریہ نمسکار سکھانے کا بھی اہتمام کیا جائے گا۔ مسلمانوں نے اس سلسلے میں جس ردِعمل کا مظاہرہ کیا ہے اسے دیکھتے ہوئے ہندوستان کی وزارتِ تعلیم نے وضاحت کی ہے کہ مدارس میں ہندو ازم کی مقدس کتب اختیاری مضامین کی حیثیت سے متعارف کرائی جائیں گی۔ یعنی طالب علم چاہیں تو رامائن اور گیتا پڑھیں نہ چاہیں تو نہ پڑھیں۔
مسلمانوں نے ہندوستان پر ایک ہزار سال حکومت کی مگر انہوں نے کبھی ہندوئوں پر قرآن و حدیث اور فقہ کو مسلط نہ کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ مسلمان ہندوئوں پر قرآن و حدیث کی تعلیم تھوپ دیتے تو ہندو مسلمانوں کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے تھے مگر مسلمانوں نے ایسا نہیں کیا۔ اس لیے کہ مسلمانوں کا مذہب کہتا ہے کہ دین میں کوئی جبر نہیں۔ کوئی زور اور زبردستی نہیں۔ لیکن ہندوئوں کو ہندوستان میں اقتدار حاصل کیے ہوئے ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں اور وہ مسلمانوں پر رامائن اور گیتا مسلط کررہے ہیں۔ اپنی طب، یوگا، سوریہ نمسکار ٹھونس رہے ہیں۔ یہ کھلا جبر اور ظلم ہے۔ مسلمان ہندوئوں کی مقدس کتب پڑھنے کے پابند نہیں۔ سوال تو یہ بھی ہے کہ مسلمان ایسا کیوں کریں؟ جن لوگوں کے پاس قرآن ہو ان کے لیے گیتا میں کیا معنویت ہوسکتی ہے، جن کے پاس سیرت طیبہ ہو وہ رام اور کرشن کی زندگی میں کیوں دلچسپی لیں گے۔ جن کے پاس ابوبکرؓ، عمرؓ، عثمانؓ اور علیؓ ہوں وہ ہندوئوں کی تاریخی شخصیات سے کیوں متاثر ہوں گے؟ ہندو ایک ہزار سال کی تاریخ سے ایک ایسی مثال نکال کر دکھائیں کہ کوئی مسلمان قرآن سے آگاہ ہونے کے باوجود گیتا سے متاثر ہوکر مسلمان سے ہندو ہوگیا ہو۔ یا کوئی مسلمان رسول اکرمؐ کی سیرت مبارکہ پڑھنے کے باوجود رام اور کرشن کی سیرت سے متاثر ہو کر اسلام چھوڑ کر ہندو ازم اختیار کرنے پر مائل ہوگیا ہو۔ مغل بادشاہوں میں اکبر نے دین الٰہی ضرور ایجاد کیا تھا مگر دین الٰہی تمام ادیان کی بہترین باتوں کا ملغوبہ تھا۔ اس سے ہندوازم کی اسلام پر فوقیت اور برتری ظاہر نہیں ہوتی تھی۔ داراشکوہ گیتا سے بہت متاثر تھا مگر اس کی وجہ یہ تھی کہ داراشکوہ کا اسلامی علم واجبی تھا۔ اس نے قرآن کو سرسری طور پر اور گیتا کو گہرائی سے پڑھا تھا۔ برصغیر میں اسلام کی تاریخ یہ ہے کہ اس نے کروڑوں ہندوئوں کو مسلمان کیا۔ وہ بھی ریاست اور دولت کی طاقت کے بغیر۔ مسلمانوں نے ریاست اور دولت کی طاقت کو استعمال کیا ہوتا تو آج پورا ہندوستان مسلمان ہوتا۔ ہندو ازم میں اگر مسلمانوں کے لیے کشش ہوتی تو ایک ہزار سال میں دس بیس لاکھ مسلمان ضرور ہندو ہوگئے ہوتے۔ مگر ایک ہزار سال میں ایک ہزار مسلمان بھی جبر و ظلم اور لالچ کے بغیر ہندو نہیں ہوئے۔ مسلمان کو ہندو بنانے کے لیے ہندوئوں کو ہمیشہ جبر اور ظلم اور لالچ کا سہارا لینا پڑا ہے۔ 1930ء کی دہائی میں ہندوستان کے اندر شدھی کی تحریک چلی۔ اس تحریک کا مقصد ’’ناپاک مسلمانوں‘‘ کو ’’پاک‘‘ کرکے ’’ہندو‘‘ بنانا تھا۔ مگر یہ تحریک جبر، ظلم، دھونس اور دھاندلی کی بنیاد پر چلی۔ اس لیے مولانا محمد علی جوہر نے 1930ء میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے گاندھی سے سوال کیا کہ مسلمانوں کو جبراً ہندو بنایا جارہا ہے اور آپ اس سلسلے میں زبان کھولنے کے لیے تیار نہیں۔
چلیے بی جے پی ہندوستان کے مسلمانوں کو رامائن اور گیتا پڑھانا چاہتی ہے تو ضرور پڑھائے مگر وہ انصاف سے کام لیتے ہوئے اتنا تو کرے کہ تمام ہندو اسکولوں، کالجوں اور جامعات میں قرآن و حدیث اور رسول اکرمؐ کی سیرت طیبہ کو بھی ’’مضامین‘‘ کے طور پر متعارف کرادے۔ اس صورت حال میں یہ ہوگا کہ مسلمان گیتا اور رامائن پڑھیں گے اور ہندو قرآن و حدیث اور سیرت طیبہ۔ اس منظرنامے میں محشر بدایونی کے بقول یہ ہوگا۔
اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ
جس دیے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا
مسلمان جہاں گئے ہیں شان سے جیے ہیں۔ وہ یہودیوں کی توریت سے ڈرے نہ عیسائیوں کی انجیل سے خوف زدہ ہوئے۔ ہندوستان میں بھی مسلمانوں نے کبھی رامائن اور گیتا کو اپنے لیے فکری چیلنج محسوس نہیں کیا۔ وہ کبھی رام اور کرشن کی سیرت کی طرف گہرائی سے متوجہ نہیں ہوئے۔ مطلب یہ کہ جو مسلمان ایک ہزار سال سے ہندوازم سے نہیں ڈرے وہ اب کیا ہندو ازم سے ڈریں گے مگر ہندو تعلیم کے دائرے میں قرآن اور گیتا، سیرت طیبہ اور رامائن کو یکساں مواقع فراہم کریں۔ یہ کیا بات ہوئی کہ مسلمان تو رامائن اور گیتا پڑھیں اور ہندو قرآن و حدیث اور سیرت طیبہ نہ پڑھیں۔
ہندوئوں کو تقابل ادیان یا Comparative Religion کے مضمون سے کتنی دلچسپی ہے اس کا اندازہ ڈاکٹر ذاکر نائک کے ساتھ ہندوستان کے سلوک سے بخوبی کیا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر ذاکر نائک برسوں سے ہندوستان میں اسلام اور دیگر مذاہب بالخصوص ہند وازم کی تعلیمات کو ایک دوسرے کے تقابل میں پیش کررہے تھے۔ وہ ہندو ازم کے بڑے بڑے ماہروں کو اپنے پروگرام میں مدعو کرتے تھے۔ وہ ایک گھنٹے خود کلام کرتے تھے تو ہندوازم کے ماہر کو بھی ایک گھنٹے تقریر کا موقع فراہم کرتے تھے۔ مگر برسوں میں ایک بار بھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی مسلمان ہندو دانش ور سے متاثر ہو کر مسلمان سے ہندو ہوگیا ہو، البتہ ڈاکٹر ذاکر نائک کے ہاتھ پر ہزاروں ہندوئوں نے اسلام قبول کیا اور وہ بھی اپنی مرضی سے۔ اس سلسلے میں ان پر کوئی دبائو نہ تھا، ڈاکٹر ذاکر نائک نے انہیں کوئی لالچ نہیں دیا تھا۔ افسوس ایک ارب کا ہندوستان 20 کروڑ مسلمانوں کے ترجمان ڈاکٹر ذاکر نائک کو ہضم نہ کرسکا۔ ان کے خلاف سازش کی گئی اور انہیں ہندوستان چھوڑنے پر مجبور کردیا گیا۔ اس تجربے میں صورت حال یہ تھی کہ ایک طرف مسلمانوں کا صرف ایک ترجمان تھا اور دوسری طرف ہندوازم کے لاکھوں ترجمان مگر ہندوازم لاکھوں ترجمانوں کے ذریعے بھی ایک ڈاکٹر نائک کو شکست نہیں دے سکا۔ ظاہر ہے کہ ڈاکٹر ذاکر نائک کی طاقت ذاکر نائک کی طاقت نہیں تھی یہ اسلام کی طاقت تھی۔ ظاہر ہے ہندوازم کے لاکھوں ترجمانوں کی کمزوری ان کی کمزوری نہ تھی یہ ہندوازم کی کمزوری تھی۔
ہندوستان میں عرصے سے ایک اور کھیل چل رہا ہے۔ اسے عرف عام میں Love Jihad کہا جاتا ہے۔ انتہا پسند ہندوئوں کا دعویٰ ہے کہ مدارس میں مسلمان نوجوانوں کو باضابطہ طور پر اس بات کی تربیت دی جاتی ہے کہ وہ ہندو لڑکیوں کو اپنی طرف مائل کرکے انہیں شادی کا جھانسا دیں اور مشرف بہ اسلام کریں۔ ہندو انتہا پسند اس سلسلے میں کبھی ایک شہادت بھی پیش نہیں کرسکے۔ اس لیے کہ اس سلسلے میں کوئی شہادت موجود ہی نہیں۔ اصل قصہ یہ ہے کہ ہندو لڑکیاں خود مسلمان لڑکوں کو ہندو لڑکوں پر ترجیح دے کر ان سے شادی کی خواہش مند ہوتی ہیں۔ فی زمانہ شادیوں کے سلسلے میں پیسے اور تعلیم کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے اور بھارت کے مسلم نوجوانوں کے پاس نہ ہندو نوجوانوں سے بہتر تعلیم ہے نہ ان سے زیادہ دولت ہے۔ اس کے باوجود ہندو لڑکیاں تعلیم یافتہ اور مال دار ہندو لڑکوں پر مسلمان نوجوانوں کو فوقیت دیتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام میں خواتین کا مرتبہ بہت بلند ہے۔ ہندو ازم میں خواتین کی کوئی حیثیت ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان لڑکے اپنی بیویوں کی زیادہ عزت کرتے ہیں۔ بلاشبہ مسلمانوں کی اخلاقی اور تہذیبی حالت بھی اچھی نہیں مگر ان کی حالت ہندوئوں سے بہتر ہے۔ چناں چہ ہندو لڑکیوں کو مسلمان لڑکے شادی کے لیے ہندو لڑکوں سے زیادہ موزوں محسوس ہوتے ہیں۔ تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ہر معاشرے میں اقلیت کو یہ خوف ہوتا ہے کہ وہ کہیں اکثریت میں جذبہ نہ ہو جائے۔ مگر ہندوستان میں ہندو اکثریت اس خوف میں مبتلا ہے کہ کہیں مسلمان اقلیت اسے نہ کھا جائے۔ ایسا نہ ہوتا تو ہندوستان میں Love Jihad کے عنوان سے کسی تحریک کا کوئی وجود نہ ہوتا۔
ہندوستان کی بارہ سو سالہ تاریخ یہ ہے کہ ہندوستان پر ایک ہزار سال تک مسلمانوں نے حکومت کی۔ دو سو سال تک انگریزوں نے حکومت کی ہندو نہ ایک ہزار سال تک مسلمانوں کا کچھ بگاڑ سکے نہ انگریزوں سے اقتدار چھین سکے۔ مگر اب اقتدار ان کے ہاتھ میں آیا ہے تو وہ ’’اوچھے کے تیتر باہر باندھوں کے بھیتر‘‘ کا مصداق بنے ہوئے ہیں۔ وہ اپنی طاقت سے کبھی مسلمانوں کو قتل کرتے ہیں، کبھی فسادات کے ذریعے ان کی معیشت تباہ کرتے ہیں۔ اب وہ طاقت کے ذریعے رامائن اور گیتا کو مسلمانوں پر مسلط کررہے ہیں۔