اردو کا مشہور زمانہ محاورہ ہے
باپ پہ پوت پتا پر گھوڑا
زیادہ نہیں تو تھوڑا تھوڑا
یہی قصہ استاد اور شاگرد کا ہوتا ہے۔ شاگرد استاد سے کتنا ہی مختلف بننے کی کوشش کرے اس میں استاد کی خُو بُو باقی رہ ہی جاتی ہے۔ خیر سے خورشید ندیم تو جاوید احمد غامدی سے مختلف بننے کی کوشش بھی نہیں کرتے۔ چناں چہ وہ اپنی اکثر تحریروں میں اپنے استاد کی کاربن کاپی نظر آتے ہیں۔ وہی مغرب زدگی، وہی تضاد بیانی، وہی جدیدیت کی پوجا۔ اس حوالے سے غامدی صاحب اور ان کے شاگرد خورشید ندیم کا حال اکبر الٰہ آبادی کے الفاظ میں یہ ہے۔
کفر کی رغبت بھی ہے دل میں بتوں کی چاہ بھی
کہتے جاتے ہیں مگر منہ سے معاذ اللہ بھی
جس طرح غامدی صاحب گمراہی کے راستے پر بگٹٹ دوڑنے کے باوجود کبھی اسلام سے رشتہ نہیں توڑ پاتے اسی طرح خورشید ندیم بھی حق و باطل کو ہم پلہ باور کرانے کے باوجود کبھی یہ نہیں کہتے کہ ہمیں حق کو یکسر ترک کردینا چاہیے۔ خورشید ندیم کا ایک حالیہ کالم اس ’’غامدیانہ طرزِ عمل‘‘ کا اچھا اشتہار ہے۔ معذرت کہ آپ کو اشتہار سے آگاہ ہونے کے لیے خورشید ندیم کے طویل اقتباس کو برداشت کرنا ہوگا۔ خورشید ندیم نے ’’میرا جسم میری مرضی یا مضبوط خاندان‘‘ کے عنوان سے لکھا۔
میراجسم، میری مرضی‘ کا نعرہ عورت کے حقوق کا ضامن ہے یا ’مضبوط خاندان‘ عورت کو محفوظ بناتا ہے؟
ہر سال، 8 مارچ کو یومِ خواتین کے موقع پر ہمارے ہاں یہ بحث زندہ ہو جاتی ہے۔ حسب ِ روایت ہم دو گروہوں میں بٹ جاتے ہیں۔ ردِ عمل کی نفسیات ہمیں دو انتہائوں کی طرف لے جاتی ہے۔ مآل کار، گروہی مفاد غالب رہتا ہے اور ہم اس کے تحفظ کو مقصد بنا لیتے ہیں۔ تنظیم سازی ہوتی ہے کہ کیسے مخالفین کے مد ِمقابل اپنے وجود کو محفوظ بنایا جائے۔ خواتین کے حقوق ایک کونے میں کھڑے ہمارے منہ تکتے رہ جاتے ہیں۔
صرف حقوق ِ نسواں نہیں، ہر معاملے میں ہمارا رویہ یہی ہے۔ کہنے کو ہم مذہب کا تحفظ چاہتے ہیں لیکن اس ایک مقصد کے لیے بلامبالغہ ہزاروں تنظیمیں قائم ہیں۔ آدمی سوچتا ہے کہ اگر مقصد میں وحدت ہے تو اس کے علمبرداروں میں یہ تنظیمی تعدد اور اختلاف کیوں؟ اہل ِ سیاست جمہوریت کو مقصد قرار دیتے ہیں اور عملاً دوسرے کے وجود کومٹانا چاہتے ہیں۔ سوال یہاں بھی وہی ہے کہ وحدت میں یہ کثرت کیسی؟
حقوقِ نسواں کے باب میں ایک وجہ تو فکری ہے۔ یہ دونوں نعرے دو مختلف نظریات سے پھوٹے ہیں۔ ’میرا جسم، میری مرضی‘ نے لبرل ازم کی کوکھ سے جنم لیا ہے جو انسان کی مطلق آزادی کو ایک قدر مانتا ہے۔ اس میں کسی مذہب، قانون اور رشتے کا یہ حق تسلیم نہیں کیا جاتا کہ وہ فرد کی آزادی پر کوئی قدغن لگائے۔ دوسرا نعرہ مذہب کی دین ہے۔ اس میں انسان خدا کا بندہ اور اس کے احکام کا تابع ہے، مطلق آزاد نہیں۔
پہلا نعرہ غیرفطری ہے۔ یہ ناممکنات میں سے ہے۔ انسان کو لازماً کسی نظم کا پابند رہنا ہے۔ اگر وہ پابندی کوقبول نہ کرے تو کوئی ریاست وجود میں آسکتی ہے نہ کوئی معاشرہ۔ انسان قانون کا پابند ہوکر ایک ریاست کا شہری بن سکتا ہے اور ایک نظامِ اقدار کو قبول کرکے ہی ایک سماج کا رکن بن سکتا ہے۔ مطلق آزادی انسان کوکبھی میسر رہی ہے اور نہ ہو سکتی ہے۔ اس کے لیے فطرت کا پیغام بھی یہی ہے۔ صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے پا بہ گِل بھی ہے‘۔ جس طرح انسان اپنی جائے پیدائش کے انتخاب کے لیے قوانین ِ فطرت کا پابند ہے، اسی طرح جینے کے لیے بھی وہ سماجی و سیاسی ضوابط کا پابند ہے۔
مذہب کا مقدمہ بھی بعض اوقات انتہا پسندانہ تعبیروں کا قیدی بن جاتا ہے۔ ہم انسانی آرا اور تفہیم کو خدا کا قانون بناکر پیش کرتے ہیں اور پھر اس پر اصرار کرتے ہیں۔ اس سے ایک ردِ عمل پیدا ہوتا ہے۔ مذہبی تعبیرات میں بھی تعدد ہے۔ ہمیں ان پر غور کرنا چاہیے اور اس باب میں انسان کو آزاد چھوڑ دینا چاہیے کہ وہ کیا تعبیر اختیار کرتا ہے تاہم اس باب میں جو بنیادی بات کہی جا رہی ہے وہ عورت کے تحفظ کے لیے خاندان کی مضبوطی کا لازم ہونا ہے۔ اس سے اختلاف محال ہے۔
ایک بات البتہ پیش ِ نظر رکھنا ہوگی: کوئی فکرو فلسفہ سماجی حالات اور حرکیات سے بے نیاز ہو کر اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتا۔ ہر فلسفہ سماج کو مثالی صورت دینا چاہتا ہے لیکن سماج سے مخاطب ہوتے وقت وہ اس کی موجود کیفیت سے صرف ِ نظر نہیں کرسکتا۔ یہ لبرل ازم ہو یا مذہب، اسے دیکھنا ہوگا کہ سماج کہاں کھڑا ہے؟ اس کے پیش ِ نظر ایک صنعتی معاشرۂ یا زرعی؟ روایتی ہے یا جدید؟ اس کے ساتھ انسان کا ایک سماجی رویہ ہے جو صدیوں سے ایک روش پر چل رہا ہے۔ ان دونوں سے ایک طرف تہذیبی تسلسل جنم لیتا ہے اور دوسری طرف ارتقا کے ساتھ ہم آہنگی۔ ان کے امتزاج ہی سے معاشرہ مستحکم ہوتا ہے۔
(روزنامہ دنیا۔ 8 مارچ 2021ء)
خورشید ندیم کو اس بات کا بڑا افسوس ہے کہ جیسے ہی 8 مارچ کو یوم خواتین آتا ہے تو معاشرہ دوگروہوں میں بٹ جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں نہ ہو میرا جسم میری مرضی محض نعرہ نہیں ہے ایک تصورِ زندگی ہے۔ یہ تصورِ زندگی ہماری الٰہیات یا تصورِ خدا کے خلاف ہے۔ یہ نعرہ ہمارے تصورِ انسان کے خلاف ہے۔ یہ نعرہ ہماری اخلاقی اقدار کے خلاف ہے۔ یہ نعرہ ہماری پوری مذہبیت کے خلاف ایک سازش ہے۔ اسلام کہتا ہے مرضی تو صرف خدا کی ہے۔ حکم صرف اسی کا ہے۔ اسلام کی کائنات میں انسان یا مسلمان کوئی خود مختار ہستی یا خود مختار ریاست نہیں ہے۔ بلکہ انسان اس دنیا میں صرف خدا کا ’’عبد‘‘ ہے عبد زندگی کے ایک ایک لمحے کو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق بسر کرنے کا پابند ہے۔ وہ زندگی کے کسی بھی دائرے میں کھڑا ہو کر یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں وہی کروں گا جو میرا دل چاہے گا۔ وہ نہ
صرف یہ کہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ میرا جسم میری مرضی ہے۔ بلکہ وہ یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ میری سیاست میری مرضی۔ میرا کاروبار میری مرضی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ’’عبد‘‘ کا کچھ بھی اپنا نہیں۔ اس کے پاس جو کچھ ہے اللہ کی عطا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری تہذیبی روایت میں خودمختاری کے ہر دعوے کو ابلیسیت سے موسوم کیا گیا ہے۔ میرا جسم میری مرضی کے نعرے میں یہ بات بھی پوشیدہ ہے کہ زندگی ایک موضوعی یا Subjective چیز ہے۔ یعنی انسان زندگی کے بارے میں کچھ بھی کہنے، محسوس کرنے اور سمجھنے کا حق رکھتا ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ مذہب کے دائرے میں زندگی ایک معروضی یا Objective حقیقت ہے۔ مذہب نے زندگی کے ہر دائرے میں حلال وحرام، خیروشیر، حق و باطل اور حسن و قبح کا تعین کردیا ہے۔ چناں چہ زندگی کی ’’معنویت‘‘ کوئی ایسی چیز نہیں جس پر ہر شخص کی الگ الگ رائے ہو بلکہ مذہب نے زندگی کی ایک ’’معیاری‘‘ اور ’’اقداری‘‘ تعریف متعین کی ہوئی ہے اور ہر شخص اس تعریف کے مطابق زندگی کی معنویت کے تعین کا پابند ہے۔ چناں چہ جب کوئی شخص اسلامی معاشرے میں کھڑا ہو کر کہتا ہے کہ میرا جسم میری مرضی ہے تو وہ اسلامی معاشرے کے معیارات اور پیمانوں کو بدلنے اور معاشرے کے خلاف کھلی سازش کرنے کا اعلان کرتا ہے۔
اس پر ردعمل تو آئے گا اور معاشرہ تقسیم بھی ہوگا۔ تاہم خورشید ندیم کا اس حوالے سے یہ کہنا یوم خواتین معاشرے کو دو گروہوں میں تقسیم کردیتا ہے ٹھیک نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میرا جسم میری مرضی کا نعرہ بلند کرنے والے ایک حقیر اقلیت ہیں۔ معاشرے میں ان کی تعداد دو فی صد سے زیادہ نہیں۔ دوسری طرف اس نعرے کو ناپسند کرنے والے اور اس کے خلاف ردعمل دینے والے ہیں۔ یہ لوگ معاشرے کا 98 فی صد ہیں چناں چہ دو فی صد اور 98 فی صد کا ذکر اس طرح نہیں کیا جاسکتا کہ جیسے وہ مساوی الحیثیت چیزیں ہوں۔ جو شخص یہ تاثر دیتا ہے وہ بد دیانت ہے اور معاشرے کے خلاف سازش کرتا ہے ویسے بھی دیکھا جائے تو حق اور باطل کسی بھی طرح ہم پلہ نہیں ہوسکتے۔ اگر باطل معاشرے کا 99 فی صد ہو اور حق معاشرے کا صرف ایک فی صد ہو تو بھی اسلام کی نظر میں زیادہ اہم حق ہوگا۔
خورشید ندیم نے اپنے کالم میں یہ بھی لکھا ہے کہ مذہب کے لیے کام کرنے والے گروہوں میں کیوں بٹے ہوئے ہیں۔ ان کا مقصد ایک ہے تو وہ مختلف تنظیمیں بنا کر کام کیوں کررہے ہیں۔ ان کے نزدیک وحدت میں کثرت کیوں پائی جاتی ہے؟ دیکھا جائے تو یہ ایک طرح کا طنز ہے۔ بلاشبہ مذہب کے دائرے میں درجنوں تنظیمیں کام کررہی ہیں لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ مذہبی لوگ فرقے اور مسلک کی بنیاد پر تقسیم ہیں۔ یہ ایک افسوس ناک صورت حال ہے مگر یہ مسئلہ صرف مسلمانوں سے متعلق نہیں۔ عیسائیت میں 200 سے زیادہ فرقے اور مسالک پائے جاتے ہیں۔ عیسائیت کے بڑے فرقوں میں کیتھولکس، آرتھو ڈاکس، پروٹسٹنٹس ایوانجیکلز اور کوپٹکس کے فرقے سرفہرست ہیں۔ یہودیت کے بھی کئی بڑے فرقے ہیں۔ ہندوازم میں بھی کئی فرقے اور مسالک پائے جاتے ہیں۔ غیر مذہبی نظریوں میں بھی فرقے اور مسالک موجود رہے ہیں۔ سوویت یونین کا سوشلزم، سوشلزم کا ایک ماڈل تھا۔ چین کا سوشلزم، سوشلزم کا دوسرا ماڈل تھا۔ فرانس کا سوشلزم سوشلزم کا تیسرا ماڈل تھا۔ نہرو کا سوشلزم سوشلزم کا چوتھا ماڈل تھا۔ اس وقت دنیا میں جمہوریت کا بھی کوئی ایک نمونہ موجود نہیں۔ ایک صدارتی جمہوری نظام ہے۔ ایک پارلیمانی جمہوری نظام ہے۔ ایک متناسب نمائندگی کا نظام ہے۔ انسانی خیالات اور نظریات کا یہ تنوع انسانی فطرت ہے اور اس کا تعلق صرف مذہب سے نہیں ہے۔
خدا کا شکر ہے کہ خورشید ندیم نے میرا جسم میری مرضی کے نعرے کو غیر فطری قرار دے کر رد کیا ہے اور کہا ہے کہ دنیا میں مطلق آزادی کہیں موجود نہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ خورشید ندیم نے اس نعرے کو رد کرنے کے لیے ’’فطرت‘‘ کا سہارا کیوں لیا۔ انہوں نے اس نعرے کو ’’مذہبی بنیاد‘‘ پر کیوں رد نہیں کیا؟ فطرت کا لفظ ایک وسیع المعنی لفظ ہے۔ اسلام میں فطرت کا مفہوم کچھ اور ہے، ہندوازم میں کچھ اور، عیسائیت میں اس کے معنی کچھ اور ہیں اور چینی روایت میں اس کا مفہوم کچھ اور ہے۔ جہاں تک جدید مغرب کے فلسفے کا تعلق ہے تو جدید فلسفے میں فطرت کے معنی تمام مذہبی روایتوں سے الگ ہیں اس سلسلے میں ڈاکٹر ظفر حسن کی تصنیف سرسید اور حالی کا نظریۂ فطرت کلاسک کا درجہ رکھتی ہے۔
خورشید ندیم ایک جانب تو میرا جسم میری مرضی کے نعرے کو غیر فطری کہہ کر رد کرتے ہیں مگر اگلی ہی سانس میں وہ مذہب پر بھی یہ کہہ کر کلہاڑا چلاتے ہیں کہ اس سلسلے میں بعض اوقات مذہب بھی انتہا پسندانہ تعبیروں کا قیدی بن جاتا ہے۔ ان کے بقول ہم انفرادی آرا اور تفہیم کو خدا کا قانون بنا کر پیش کرتے ہیں۔ لاحول ولاقوۃ۔ اسلام اور انتہا پسندی؟ ان دونوں باتوں میں تو کوئی ربط ہی نہیں۔ اسلام کا مطلب ہے قرآن و حدیث یا قرآن و سنت۔ اسلام کے دائرے میں درجنوں چیزیں نصوص سے ممنوع قرار پائی ہیں۔ اس سلسلے میں کسی انفرادی رائے کا کوئی وجود ہی نہیں۔ مذہب میں جہاں انفرادی رائے یا قرآن و سنت کی تعبیر آتی ہے وہاں ’’اجماع‘‘ کا تصور ہمارے سامنے آجاتا ہے۔ قرآن و سنت کی اکثر تعبیرات پر ’’اجماع‘‘ کا سایہ ہے اور ’’اجماع‘‘ بجائے خود ایک دینی اصول ہے۔ خورشید ندیم ویسے تو ’’جمہوریت‘‘ کے بڑے قائل ہیں مگر مذہب کی تعبیر کے سلسلے میں انہیں اجماع میں جمہوریت نظر نہیں آتی۔ خورشید ندیم نے لکھا ہے کہ ہمیں مذہبی تعبیرات کے سلسلے میں انسان کو ’’آزاد‘‘ چھوڑ دینا چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ کیوں چھوڑ دینا چاہیے۔ اسلام نے جب قرآن و سنت، قرآن و حدیث اور اجماع کی حدود متعین کردی ہیں تو ہم انفرادی رائے کو کیوں اہمیت دیں؟ آخر قرآن و سنت اور اجماع پر غامدی صاحب یا خورشید ندیم کو فوقیت دینے کا کیا روحانی، علمی اور اخلاقی جواز ہے؟
خورشید ندیم نے اپنے کالم میں ایک ہولناک بات یہ لکھی ہے کہ لبرل ازم ہو یا مذہب اسے یہ دیکھنا ہوگا کہ معاشرہ کہاں کھڑا ہے؟ اسلام روئے زمین پر انسان، معاشرے اور دنیا کو بدلنے آیا ہے، انسان معاشرے اور دنیا کے نظریات سے ہم آہنگ ہونے نہیں آیا۔ معاشرہ زرعی ہو یا صنعتی، معاشرہ کفر پر کھڑا ہو یا شرک پر، مذہب کو اپنے بنیادی تصورات اور ترجیحات کے مطابق کام کرنا ہے۔ مگر خورشید ندیم ’’غامدیانہ فکر‘‘ کے تحت اسلام کو معاشرے کا تابع بنادینا چاہتے ہیں۔ رسول اکرمؐ جب تشریف لائے تو معاشرہ کفر اور شرک پر کھڑا تھا۔ رسول اکرمؐ نے اسے توحید پر کھڑا کیا۔ معاشرہ اس وقت آخرت سے بے نیاز تھا۔ رسول اکرمؐ نے اس کو آخرت کی فکر میں مبتلا کیا۔ معاشرہ اس وقت حلال و حرام کو بھولا ہوا تھا۔ رسول اکرمؐ نے اسے حلال و حرام سے ہم آہنگ کیا۔ معاشرہ اس وقت قبائلیت پر کھڑا ہوا تھا رسول اکرمؐ نے اسے اُمت کے تصور پر کھڑا کیا۔ مگر خورشید ندیم چاہتے ہیں کہ اسلام زرعی معاشرے میں زرعی معاشرے کی اقدار کے آگے ہتھیار ڈالے۔ معاشرہ صنعتی ہو تو صنعتی معاشرے کی اقدار کے آگے سر تسلیم خم کرے۔ سوال یہ ہے کہ اگر مذہب کو یہی کرنا ہے تو پھر مذہب کی ضرورت ہی کیا ہے؟ اقبال نے کہا ہے۔
خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق
بلاشبہ غامدیانہ فکر کے حامل لوگ بھی حرم کے بے توفیق افراد ہیں۔ وہ دنیا کو قرآن کے مطابق نہیں بنانا چاہتے بلکہ وہ قرآن کو دنیا کے مطابق ڈھالنا چاہتے ہیں۔