نواز لیگ کے مرکزی رہنما میاں جاوید لطیف نے ایک ٹی وی پروگرام میں صاف کہا ہے کہ اگر مریم نواز کو کچھ ہوگیا تو ہم ’’پاکستان کھپے‘‘ کا نعرہ نہیں لگائیں گے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ میاں جاوید لطیف نے جو کچھ کہا ہے خود نہیں کہا ہے بلکہ انہوں نے میاں نواز شریف کی زبان بولی ہے۔ اس قیاس آرائی میں بڑی صداقت ہے۔ نواز لیگ شریف خاندان کی باندی ہے اور نواز لیگ کے رہنما میاں نواز شریف کی مرضی کے خلاف ایک فقرہ نہیں بول سکتے۔
پاکستان کی پوری سیاسی تاریخ ہمارے سامنے ہے۔ مولانا مودودی مجددِ وقت اور پوری اُمت مسلمہ کے امام تھے۔ انہیں ایک جھوٹے مقدمے میں سزائے موت دے دی گئی۔ مولانا مودودی کی سزائے موت پر عمل ہوجاتا تو یہ جماعت اسلامی ہی کا نہیں پوری امت ِ مسلمہ کا بہت بڑا نقصان ہوتا۔ مگر اس کے باوجود جماعت اسلامی نے یہ نہیں کہا کہ اگر مولانا کو کچھ ہوا تو جماعت اسلامی پاکستان مردہ باد کا نعرہ لگادے گی اور کہے گی ’’پاکستان نہ کھپے‘‘۔ ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے مقبول رہنما تھے۔ انہوں نے ملک کو 1973ء کا آئین دیا۔ انہوں نے ملک کے ایٹمی پروگرام کا آغاز کیا۔ انہوں نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا۔ انہوں نے شراب پر پابندی لگائی۔ انہوں نے جمعے کی تعطیل شروع کی۔ ان کے خلاف ایسا مقدمہ درج تھا۔ جس کی وجہ سے ان کی پھانسی کو ’’عدالتی قتل‘‘ کہا جاتا ہے۔ ان تمام حقائق کے باوجود پیپلز پارٹی نے یہ نہیں کہا کہ اگر بھٹو کو کچھ ہوا تو پیپلز پارٹی پاکستان مردہ باد کا نعرہ لگادے گی۔ وہ کہے گی ’’پاکستان نہ کھپے‘‘۔ بے نظیر بھٹو دو مرتبہ پاکستان کی وزیراعظم رہیں، وہ بھٹو کی بیٹی اور ملک میں وفاق کی علامت تھیں۔ انہیں دن دہاڑے قتل کردیا گیا، مگر ان کے قتل پر آصف علی زرداری جیسے شخص نے ’’پاکستان کھپے‘‘ یعنی پاکستان چاہیے کا نعرہ لگایا۔ اللہ تعالیٰ مریم نواز کو طویل زندگی دے مگر ان کی حیثیت ہی کیا ہے؟ وہ جو کچھ ہیں نواز شریف کی بیٹی ہونے کی وجہ سے ہیں۔ انہوں نے اپنی دنیا آپ پیدا نہیں کی ہے۔ وہ پورے ملک کی رہنما تک نہیں ہیں۔ وہ خود ’’پاکستان کی بیٹی‘‘ کے بجائے ’’پنجاب کی بیٹی‘‘ کہلوانا پسند کرتی ہیں۔ مگر اس کے باوجود میاں نواز شریف اپنے ترجمانوں کے ذریعے فرما رہے ہیں کہ مریم نواز کو کچھ ہوگیا تو ہم پاکستان کے وفادار نہیں رہیں گے۔ ہم پاکستان سے برأت کا اظہار کردیں گے۔ ہم ہرگز بھی پاکستان زندہ باد یا پاکستان کھپے نہیں کہیں گے۔ کیا شریفوں کے نزدیک پاکستان اتنی معمولی چیز ہے؟ پیپلز پارٹی نے آج تک بھٹو کی پھانسی اور بے نظیر کے قتل کو معاف نہیں کیا۔ مگر وہ بھٹو کی پھانسی کا ذمے دار ’’پاکستان‘‘ کو نہیں جنرل ضیا الحق کو سمجھتی ہے۔ پیپلز پارٹی بینظیر کے قتل کے سلسلے میں پاکستان کی طرف اُنگلی نہیں اُٹھاتی۔ وہ جنرل پرویز کو بے نظیر کے قتل کا ذمے دار سمجھتی ہے۔ مگر میاں نواز شریف یا نواز لیگ مریم کے حوالے سے کسی ممکنہ سانحے کا سارا ملبہ بیچارے پاکستان پر گرا رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ میاں نواز شریف، ہائوس آف شریف اور نواز لیگ سے اسی طرح کے کارناموں کی توقع کی جاسکتی ہے۔
میاں نواز شریف یا شریفوں کے کارناموں کی بات مذاق نہیں ہے۔ میاں نواز شریف کی پوری زندگی ’’محسن کشوں‘‘ کی زندگی ہے۔ میاں نواز شریف جنرل ضیا الحق کے بغیر پنجاب اسمبلی کے رکن بھی منتخب نہیں ہوسکتے تھے۔ انہیں جنرل جیلانی اور جنرل ضیا الحق نے میاں نواز شریف بنایا۔ یہی وجہ تھی کہ میاں صاحب ایک طویل عرصے تک جنرل ضیا الحق کو اپنا ’’روحانی باپ‘‘ تسلیم کرتے تھے۔ ولدیت جسمانی ہو یا روحانی ولدیت ہوتی ہے اور انسان کبھی اس کا انکار نہیں کرپاتا مگر اب میاں نواز شریف جنرل ضیا الحق کی ولدیت کے منکر ہیں۔ اب وہ جنرل ضیا الحق کو صرف ایک ’’فوجی آمر‘‘ تصور کرتے ہیں۔ جنرل ضیا کے فوجی آمر ہونے میں کوئی کلام نہیں۔ قوم کے لیے وہ اول و آخر ایک فوجی آمر ہی تھے مگر میاں نواز شریف کے لیے تو وہ روحانی باپ کی طرح تھے۔ ایک وقت تھا کہ میاں نواز شریف طاہر القادری سے بے انتہا متاثر تھے۔ ان کے متاثر ہونے کی ’’سطح‘‘ کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ ایک بار انہوں نے قادری صاحب سے پوچھا کہیں آپ ’’امام مہدی‘‘ تو نہیں ہیں۔ میاں صاحب کو اپنے خود ساختہ امام مہدی سے اتنی عقیدت تھی کہ انہوں نے طاہر القادری کو اپنی پیٹھ پر لاد کر خانہ کعبہ کا طواف کرایا۔ مگر اب میاں نواز شریف اپنے ’’امام مہدی‘‘ کو ایک شعبدے باز سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ یہاں تک کہ جب میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے تو انہوں نے طاہر القادری کے مرکز پر پولیس سے حملہ کراکے درجنوں افراد کو شہید اور زخمی کرادیا۔ ایک زمانہ تھا کہ جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد بھی میاں نواز شریف کی عقیدت کا مرکز تھے۔ میاں صاحب قاضی صاحب پر اتنا اعتبار کرتے تھے کہ انہیں خاندانی معاملات میں ثالث بناتے تھے اور قاضی صاحب کے فیصلوں کو قبول کرتے تھے۔ مگر پھر میاں صاحب کی ’’شریفانہ فطرت‘‘ متحرک ہوئی اور انہوں نے قاضی صاحب پر کشمیر کے حوالے سے دس کروڑ روپے لینے کا گھنائونا الزام عاید کردیا۔ قاضی صاحب کی پوری زندگی جہادِ افغانستان اور جہادِ کشمیر کی پشتی بانی کرتے ہوئے بسر ہوئی۔ چناں چہ ان کا بدترین دشمن بھی ان پر وہ الزام عاید نہیں کرسکتا جو میاں نواز شریف نے عاید کیا۔
آج مریم نواز خود کو ’’پاکستان کی بیٹی‘‘ باور کرانے کے بجائے فخر سے کہتی ہیں کہ میں تو پنجاب کی بیٹی ہوں۔ سیاست کا یہ طرز انہوں نے میاں نواز شریف ہی سے سیکھا ہے۔ اسلامی جمہوری اتحاد کی سیاست ’’قومی سیاست‘‘ تھی۔ وفاق کی سیاست تھی، پاکستان کی سیاست تھی مگر میاں نواز شریف نے آئی جے آئی کی سیاست کے دوران ’’جاگ پنجابی جاگ تیری پگ کو لگ گیا داغ‘‘ کا نعرہ لگایا۔ یہ نعرہ اتنا شرمناک تھا ہمیں یقین ہی نہ آیا کہ میاں نواز شریف یہ نعرہ لگا سکتے ہیں۔ مگر ہم نے قاضی حسین احمد اور سید منور حسن سے پوچھا تو انہوں نے تصدیق کی کہ میاں نواز شریف نے یہ نعرہ لگایا ہے۔ میاں نواز شریف اس دور میں پنجاب کا بینک ہی نہیں پنجاب کا ٹی وی چینل بھی شروع کرنا چاہتے تھے۔ آئی جے آئی کی انتخابی مہم کے دوران میاں نواز شریف نے ایک ایسا ’’کارنامہ‘‘ بھی انجام دیا جس کو بیان کرتے ہوئے قلم لرز کر رہ جاتا ہے۔ میاں صاحب نے بے نظیر بھٹو اور پیپلز پارٹی کو پنجاب میں کمزور کرنے کے لیے بے نظیر کی خود ساختہ ننگی تصاویر ہیلی کاپٹر کے ذریعے مختلف علاقوں میں پھنکوائیں۔ ہم تک جب پہلی پہلی بار یہ اطلاع پہنچی تو ہمیں اس اطلاع پر بھی یقین نہ آیا۔ چناں چہ ہم نے قاضی صاحب اور سید منور حسن سے پوچھا کہ اس اطلاع میں کتنی صداقت ہے۔ دونوں شخصیات نے کہا کہ بدقسمتی سے یہ اطلاع درست ہے۔ سیاست میں کردار کشی بدترین چیز ہے مگر میاں نواز شریف نے بے نظیر کی کردار کشی کے لیے جو طریقہ واردات ایجاد کیا پاکستان کی پوری تاریخ میں اس کی نظیر تلاش کرنا مشکل ہے۔
میاں نواز شریف کیا پورے شریف خاندان کی شہرت یہ ہے کہ شریف خاندان بڑا مذہبی ہے۔ بڑا دین دار ہے۔ روزے، نماز کا پابند ہے۔ ایک زمانے میں پاکستان کے اندر ’’بڑی برائی‘‘ اور ’’چھوٹی برائی‘‘ کی بحث چلتی تھی۔ شریف خاندان کے زر خرید صحافی نواز لیگ کو چھوٹی برائی اور پیپلز پارٹی کو بڑی برائی کہا کرتے تھے اور ان کا اصرار تھا کہ پورے معاشرے کو چاہیے کہ وہ چھوٹی برائی کو بڑی برائی پر ترجیح دے۔ یہ لوگ کہتے تھے کہ چھوٹی برائی ’’مذہبی‘‘ بھی ہے۔ اس کے برعکس بڑی برائی یعنی پیپلز پارٹی سیکولر اور لبرل ہے۔ مگر چودھری شجاعت حسین نے اپنی خود نوشت ’’سچ تو یہ ہے‘‘ میں شریف خاندان کی مذہبیت کا پول کھول کر رکھ دیا ہے۔ چودھری صاحب نے لکھا ہے کہ ہم نے شریف خاندان کے ساتھ ایک سیاسی سمجھوتا کیا تو شہباز شریف قرآن مجید اُٹھا لائے۔ کہنے لگے چودھری صاحب یہ قرآن آپ کے اور ہمارے درمیان ضامن ہے۔ ہم آپ سے کیے گئے سمجھوتے کی ایک ایک شق پر عمل کریں گے۔ مگر چودھری شجاعت کے بقول شریفوں نے ان سے کیے گئے سمجھوتے کی کسی شق پر عمل نہیں کیا۔ مسلمان کا فکر و عمل کمزور ہوسکتا ہے مگر برا سے برا مسلمان بھی جب قرآن کو ضامن بناتا ہے تو پھر وہ اپنے وعدے کی پاسداری کرتا ہے۔ مگر شریف خاندان اپنے وعدے سے مکر گیا۔ چودھری شجاعت کی خود نوشت کو شائع ہوئے عرصہ ہوگیا ہے مگر شریف خاندان نے ابھی تک مذکورہ بالا واقعے کی تردید نہیں کی۔ اس کے معنی اس کے سوا کیا ہیں کہ چودھری شجاعت نے جھوٹ نہیں بولا ہے۔
کتاب کا ذکر آیا ہے تو شریف خاندان کا ایک اور ’’کارنامہ‘‘ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل اسد درانی نے اپنی کتاب ’’اسپائی کرونیکلز‘‘ میں بیان کیا ہے۔ جنرل اسد درانی کے بقول میاں شہباز شریف کسی زمانے میں بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ راجا امریندر سنگھ کے ساتھ بھارتی اور پاکستانی پنجاب کو ایک کرنے کے حوالے سے مذاکرات فرما رہے تھے۔ ظاہر ہے کہ وہ یہ کام خود نہیں کررہے ہوں گے بلکہ انہیں اس سلسلے میں میاں نواز شریف کی تائید حاصل ہوگی۔ جنرل درانی کی کتاب کو بھی شائع ہوئے عرصہ ہوگیا مگر شریف خاندان نے اس کتاب کے مندرجات کی بھی تردید نہیں کی ہے۔
اب میاں نواز شریف نے میاں جاوید لطیف سے کہلایا ہے کہ مریم نواز کو کچھ ہوگیا تو ہم پاکستان کھپے کا نعرہ نہیں لگائیں گے۔ رہنما راہ دکھانے والے کو کہتے ہیں مگر بدقسمتی سے شریفوں کی تاریخ قوم کی راہ کھوٹی کرنے والوں کی تاریخ ہے۔