فی زمانہ اس روئے زمین پر مسلمانوں کے لیے کوئی جائے پناہ نہیں ہے۔ ہندو ہمیں ہندوستان میں مار رہے ہیں، یہودی ہمیں اسرائیل میں فنا کررہے ہیں، بدھسٹ ہمیں میانمر میں مٹانے پر تُلے ہوئے ہیں، عیسائی اور سیکولر عناصر ہمیں امریکا اور یورپ میں دیوار سے لگارہے ہیں، چینی ہمیں چین میں اسلام ترک کرنے پر مجبور کررہے ہیں۔ مسلمان جائیں تو جائیں کہاں؟ اس حوالے سے چار خبروں پر ایک سرسری نظر ڈال لینا مفید ہوگا۔
پہلی خبر یہ ہے کہ سوئٹزرلینڈ میں ہونے والے ایک ریفرنڈم میں سوئٹزرلینڈ کے باشندوں کی اکثریت نے برقعے پر پابندی کے حق میں ووٹ دیا ہے۔ اس سے قبل فرانس، ہالینڈ اور کئی دوسرے یورپی ممالک میں بھی حجاب کو خلاف قانون قرار دیا جاچکا ہے۔
دوسری خبر یہ ہے کہ ہندوستان کے مدارس میں ہندوئوں کی مقدس کتب گیتا اور رامائن پڑھانے کا اہتمام کیا جارہا ہے۔ اس سلسلے میں مسلمانوں کا ردعمل سامنے آیا تو حکومت کی طرف سے کہا گیا کہ مدارس کے نصاب میں گیتا اور رامائن کو اختیاری مضامین کی حیثیت سے شامل کیا جائے گا۔
تیسری اطلاع یہ ہے کہ سری لنکا میں برقعے اور ایک ہزار سے زیادہ مدارس پر پابندی کا اعلان کیا گیا ہے۔ سری لنکا کی حکومت کے مطابق برقع سری لنکا کی قومی سلامتی کے لیے خطرہ اور انتہا پسندی کی علامت ہے۔ سری لنکا کے ایک وزیر نے کہا کہ سری لنکا کی خواتین ماضی میں برقع نہیں پہنتی تھیں۔ اس سلسلے میں شور مچا تو سری لنکا سے یہ خبر آئی کہ برقع پر پابندی ابھی صرف ایک ’’تجویز‘‘ ہے۔ (روزنامہ دنیا، 14 مارچ 2021)
چوتھی خبر کے مطابق بھارت کے ایک شہری ملعون وسیم رضوی نے جو بھارتی ریاست اتر پردیش میں شیعہ سٹیزن وقف بورڈ کا چیئرمین رہا ہے عدالت عظمیٰ میں ایک درخواست دائر کی ہے۔ درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ معاذ اللہ، قرآن مجید سے اس کی ان 26 آیات کو خارج کردیا جائے جو ملعون وسیم رضوی کے مطابق تشدد پر اُبھارنے والی ہیں۔ (روزنامہ ایکسپریس، 14 مارچ 2021ء)
مذکورہ بالا حقائق بتارہے ہیں کہ اسلام اور مسلمانوں کا ہر جگہ محاصرہ کیا جارہا ہے۔ اس وقت روئے زمین پر مسلمانوں کی کمزوری کا یہ عالم ہے کہ ان کے لیے امریکا، یورپ اور چین ہی نہیں میانمر اور سری لنکا تک سپر پاورز بنے ہوئے ہیں۔ میانمر کے حکمران کئی دہائیوں سے میانمر کے مسلمانوں کی نسل کشی کررہے تھے۔ میانمر کے مسلمانوں پر پابندی کا یہ عالم تھا کہ میانمر کے مسلمان ایک تھانے کی حدود سے نکل کر دوسرے تھانے کی حدود میں جاتے تھے تو انہیں اپنی نقل و حرکت کی اطلاع متعلقہ تھانے کو دینی پڑتی تھی۔ میانمر کے مسلمان اپنی مرضی سے شادی بھی نہیں کرسکتے تھے۔ انہیں شادی کرنے کے لیے درخواست دینی پڑتی تھی۔ میانمر کی حکومت برسوں تک یہ درخواستیں دبا کر بیٹھی رہتی تھی۔ لیکن میانمر کے بدھ حکمران عوام اس پر مطمئن نہ ہوئے۔ انہوں نے مسلمان کا بڑے پیمان پر قتل عام کیا۔ ہزاروں مسلم خواتین کی عصمتیں تار تار کیں۔ سیکڑوں مسلمانوں کو زندہ جلادیا گیا اور پھر چھ لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو میانمر سے بے دخل کرکے انہیں بنگلادیش میں دھکیل دیا گیا۔ بدقسمتی سے 56 آزاد مسلم ریاستوں کے حکمران تماشا دیکھتے رہے اور انہوں نے میانمر کے مسلمانوں کے تحفظ کے لیے کچھ نہیں کیا۔ سری لنکا میں کورونا کی وبا پھیلی تو حکومت نے کورونا کا شکار ہونے والے مسلمانوں کی لاشوں کو نذر آتش کرنا شروع کردیا اور 300 سے زیادہ مسلمانوں کو قبریں ہی نصیب نہ ہوسکیں۔ بدقسمتی سے ایک بار پھر پوری مسلم دنیا کے حکمرانوں نے بے حسی کا مظاہرہ کیا اور سری لنکا کے مسلمانوں کو تنہا چھوڑ دیا گیا۔ بالآخر عمران خان سری لنکا کے دورے پر گئے اور انہیں یہ توفیق ہوئی کہ وہ سری لنکا کے مسلمانوں کو تدفین کا حق دلائیں۔ امریکا، یورپ اور چین مسلمانوں پر ظلم کرتے ہیں تو مسلم حکمران کہتے ہیں ہم ان طاقتوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے مگر بدقسمتی سے مسلم حکمران تو میانمر اور سری لنکا کا بھی کچھ نہیں بگاڑ پائے۔ ہمارے حکمرانوں کے لیے تو میانمر اور سری لنکا جیسے ملک بھی سپر پاورز ثابت ہوئے۔ سوال یہ ہے کہ روئے زمین پر مسلمانوں کی اس حالت زار کا سبب کیا ہے؟۔
رسول اکرمؐ کی ایک حدیث پاک کا مفہوم یہ ہے کہ ایک وقت آئے گا جب اسلام دشمنی کی طاقتیں مسلمانوں پر اسی طرح ٹوٹ پڑیں گی جس طرح بھوکے دستر خوان پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ صحابہ نے پوچھا کہ کیا اس وقت مسلمان تعداد میں کم ہوں گے۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا نہیں۔ تم تعداد میں زیادہ ہو گے مگر تمہارے اندر دو بیماریاں پیدا ہوجائیں گی۔ ایک دنیا کی محبت اور دوسری موت سے کراہیت۔
بدقسمتی سے ہم رسول اکرمؐ کے اس ارشاد مبارک کو اپنی آنکھوں کے سامنے سچا ثابت ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ مسلم معاشروں میں خواص ہوں یا عوام سب دنیا کی محبت میں مبتلا ہیں۔ مسلم حکمرانوں کی دنیا پرستی کی کوئی ایک نہیں کئی صورتیں ہیں۔ ایک صورت یہ ہے کہ مسلم حکمران اس لیے مظلوم مسلمانوں کی مدد نہیں کرتے کہ امریکا، یورپ اور چین ناراض ہوجائے گا۔ ان کی دنیا پرستی کی ایک صورت یہ ہے کہ وہ ہر وقت اپنے اقتدار کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں۔ انہیں خیال آتا ہے کہ مظلوم مسلمانوں کے سلسلے میں ہمارے تحرک سے کہیں ہمارا اقتدار خطرے میں نہ پڑ جائے۔ انہیں اس سلسلے میں یہ خیال بھی دامن گیر رہتا ہے کہ دنیا ہمارا سیاسی اور معاشی بائیکاٹ نہ کردے۔ مسلم حکمران اس خوف میں بھی مبتلا رہتے ہیں کہ دنیا انہیں بھی ’’انتہا پسند‘‘ اور بنیاد پرست نہ سمجھنے لگے۔ مسلم حکمرانوں کی دنیا پرستی کی ایک صورت یہ ہے کہ وہ اپنے عوام ہی کو ’’دوسرا‘‘ خیال کرتے ہیں۔ چناں چہ دوسرے ممالک کے مسلمان تو انہیں ’’دوسرے‘‘ سے بھی آگے کی چیز نظر آتے ہیں۔
مسلم معاشروں میں زندگی کی ’’حرص‘‘ اور موت سے کراہیت عام ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی بڑی تعداد موت کو زندگی کا اختتام سمجھتی ہے حالاں کہ موت صرف ’’عارضی زندگی‘‘ کا اختتام ہے۔ موت سے ’’دائمی‘‘ زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ اردو شاعری موت کے اس تصور سے بھری پڑی ہے۔ میر نے کہا ہے۔
مرگ اک ماندگی کا وقفہ ہے
یعنی آگے چلیں گے دم لے کر
اقبال نے اس سلسلے میں فرمایا ہے
موت کو سمجھے ہیں غافل اختتامِ زندگی
ہے یہ شامِ زندگی صبح دوامِ زندگی
اسلامی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ مسلمانوں نے جب جب دین کے مطابق زندگی بسر کی ہے انہوں نے موت کے خوف پر قابو پایا ہے اور انہوں نے موت کو خدا سے ملاقات کی ایک صورت سمجھا ہے۔ اس کے برعکس مسلمانوں کی بداعمالی انہیں موت کے خوف میں مبتلا کرتی ہے۔ مسلمانوں کی بداعمالی مسلمانوں میں موت سے کراہیت پیدا کرتی ہے۔ اقبال نے اپنی شاعری میں عشق اور موت کے تعلق کے حوالے سے ایک بنیادی بات کہہ رکھی ہے۔ اقبال نے کہا ہے۔
کھول کے کیا بیاں کروں سرِّ مقامِ مرگ و عشق
عشق ہے مرگِ باشرف، مرگ، حیاتِ بے شرف
اقبال کہہ رہے ہیں کہ میں تم سے موت اور عشق کے اسرار کیا بیان کروں بس تم یہ سمجھ لو کہ جو موت عشق کی حالت میں آئے وہ شرف سے ہمکنار موت ہے اور جو موت عشق کے بغیر آئے وہ شرف سے محروم زندگی کے سوا کچھ نہیں۔ اقبال کے نزدیک موت جس عشق پر حاوی ہوجائے وہ عشق، عشق نہیں اور ایسے انسان کی زندگی زندگی کہلانے کی مستحق نہیں۔ اقبال نے اس سلسلے میں فرمایا ہے۔
وہ عشق جس کی شمع بجھادے اجل کی پھونک
اس میں مزا نہیں تپش و انتظار کا
عشق کا ذکر آیا ہے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اقبال کے الفاظ میں مسلمانوں کی موجودہ حالت ِ زار کا ایک سبب یہ ہے کہ مسلمان عشق کی حرارت سے محروم ہوگئے ہیں۔ اقبال نے کہا ہے۔
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے
اقبال کے الفاظ میں مسلمان اس وقت تک مسلمان تھے جب تک ان کے دل عشق کی آگ سے روشن تھے۔ آج کے مسلمان، مسلمان نہیں صرف راکھ کا ڈھیر ہیں۔ ہماری تہذیب میں عشق انسانی وجود کی کلیّت کا استعارہ ہے۔ عشق وہ قوت ہے جو انسان کو حیوان سے انسان بناتی ہے۔ جو انسانی تہذیب کی صورت گری کرتی ہے۔ اقبال کی شاعری میں عشق کے درجنوں پہلو بیان ہوئے ہیں۔
عشق کی اِک جست نے طے کردیا قصہ تمام
اس زمین و آسماں کو بیکراں سمجھا تھا میں
٭٭
عقل و دل و نگاہ کا مرشد اولیں ہے عشق
عشق نہ ہو تو شرع و دیں بت کدۂ تصورات
٭٭
عشق کے خورشید سے شامِ اجل شرمندہ ہے
عشق سوزِ زندگی ہے تا ابد پائندہ ہے
٭٭
ہے مگر اس نقش میں رنگِ ثباتِ و دوام
جس کو کیا ہو کسی مردِ خدا نے تمام
مردِ خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ
عشق ہے اصلِ حیات، موت ہے اس پر حرام
تند وسبک سیر ہے گرچہ زمانے کی رَو
عشق خود اک سَیل ہے سَیل کو لیتا ہے تھام
عشق کی تقویم میں عصرِ رواں کے سوا
اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام
عشق دمِ جبرئیل عشق دلِ مصطفیؐ
عشق خدا کا رسول، عشق خدا کا کلام
عشق کے یہ سارے رنگ جب تک مسلمانوں کی زندگی کا حصہ تھے وہ وقت کی سپر پاور تھے۔ وہ دنیا کے امام تھے۔ وہ انسانیت کی معراج تھے۔ وہ تہذیب کے صورت گر تھے۔ عشق کے یہ رنگ مسلمانوں کی زندگی سے نکلے تو وہ اقبال کے الفاظ میں راکھ کا ڈھیر بن کر رہ گئے۔
مسلمانوں کے زوال کا ایک سبب یہ ہے کہ مسلمان حاضر و موجود کے پرستار بن گئے ہیں اور وہ اپنی دنیا آپ پیدا کرنا نہیں چاہتے۔ اس حوالے سے اقبال نے صاف کہا ہے۔
ہے وہی تیرے زمانے کا امامِ برحق
جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے
اس کے ساتھ ہی اقبال نے کہا ہے۔
اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
سرِ آدم ہے، ضمیر کُن فکاں ہے زندگی
اقبال کہہ رہے ہیں کہ زندہ انسان وہی ہے جو اپنی دنیا آپ پیدا کرتا ہے جو تخلیق آدم اور کُن کے راز کا محرم ہے۔ بدقسمتی سے مسلمانوں کی عظیم اکثریت اس وقت مغرب کی پیدا کردہ دنیا کو اپنی دنیا سمجھ رہی ہے۔ مسلمان اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کے بجائے مغرب کی پیدا کردہ دنیا میں کسی نہ کسی طرح ’’Adjust‘‘ ہونے کے تمنائی ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ انہیں بھی مغرب کی دنیا میں ’’ایک مکان‘‘ اور مغرب کے بازار میں ’’ایک دکان‘‘ مل جائے تو وہ بھی ’’ترقی یافتہ‘‘ ہوجائیں۔ مسلمانوں کے شعور میں یہ بات اب تک راسخ نہیں ہوسکی کہ مسلمانوں کے عشق کی چند چنگاریوں نے افغانستان میں تواتر کے ساتھ وقت کی دو سپر پاورز کو شکست سے دوچار کیا ہے اور مسلمانوں نے بتایا ہے کہ مسلمانوں کا دین انہیں آج بھی اپنی دنیا تخلیق کرنے کے قابل بنا سکتا ہے اور مسلمان راکھ کے ڈھیر سے سپر پاور بن سکتے ہیں۔