غالب نے کہا تھا ؎
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھُلا
غالب کو آسمان کے ستارے بازی گر نظر آتے تھے اور وہ ان کے دھوکے کا ماتم کرتے تھے۔ غالب کو پاکستان کی سیاست کے ’’ستاروں‘‘ کی ’’بازی گری‘‘ اور دھوکا دینے کی اہلیت کا تجربہ ہوتا تو وہ نجانے ان کے بارے میں کیا کہتے۔ کہنے کو پاکستان کی سیاست ایک مقدس سرگرمی ہے مگر سیاست کے تقدس کی آڑ میں جو کچھ ہورہا ہے اس کی کچھ جھلکیاں جمعیت علمائے اسلام کے سابق مرکزی رہنما حافظ حسین احمد نے اپنے انٹرویو میں دکھائی ہیں۔ حافظ حسین احمد کا انٹرویو کیا ہے پاکستانی سیاست کا ایک بڑا اسکینڈل ہے۔ حافظ حسین احمد کے انٹرویو کی اہمیت یہ ہے کہ وہ اندر کی گواہی ہے۔ وہ کئی اعتبار سے اقبال کے الفاظ میں ’’محرم ِ راز ِ دُرون ِ میخانہ‘‘ ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں حافظ حسین احمد نے اپنے انٹرویو میں کیا انکشافات کیے ہیں۔
س: آپ نے یہ بیان دیا تھا کہ پی ڈی ایم کے لانگ مارچ یا مہنگائی مارچ کو کامیاب بنانے کے لیے نواز شریف نے مولانا فضل الرحمن کو 5 ارب روپے دینے کا وعدہ کیا ہے۔ کیا دو ہزار انیس میں آزادی مارچ کے لیے بھی جے یو آئی (ف) نے پیسے پکڑے تھے۔ اس وقت آپ جے یو آئی کا حصہ تھے اور اس حوالے سے بہت سے معاملات آپ کے علم میں ہوں گے۔ اگر جواب ہاں میں ہے تو یہ رقم کتنی تھی اور کس کس نے دی تھی؟
ج: دراصل مولانا فضل الرحمن سے میرے اختلافات کا سلسلہ دو ہزار انیس کے جے یو آئی کے آزادی مارچ کے وقت ہی شروع ہوگیا تھا۔ صاف نظر آرہا تھا کہ اپوزیشن کی دونوں بڑی پارٹیاں نون لیگ اور پیپلز پارٹی اس حوالے سے جے یو آئی کو استعمال کرکے اپنے مفادات حاصل کرنا چاہتی ہیں اور دل سے آزادی مارچ میں شریک ہونے کے لیے تیار بھی نہیں۔ آزادی مارچ سے پہلے ہونے والے اجلاس میں میرا موقف یہی تھا کہ اپوزیشن کی دونوں بڑی پارٹیاں ہمارا ساتھ نہیں دیں گی۔ ان کے پاس ووٹرز ہیں، لیکن سڑکوں پر نکلنے والے سپورٹرز نہیں۔ اس موقع پر مولانا عبدالغفور حیدری نے یہ ’’تاریخی‘‘ جملہ کہا تھا کہ ’’جے یو آئی والے جان لگائیں گے اور نون لیگ والے مال لگائیں گے‘‘۔ پھر ایسا ہی ہوا۔ آزادی مارچ پر نون لیگ نے 78 کروڑ روپے لگائے تھے۔ پیپلز پارٹی نے بھی 30 سے 35 کروڑ روپے دیے۔ جب کہ ملک بھر میں جے یو آئی (ف) کی رکنیت سازی کے 35 لاکھ فارم بھرنے والوں سے بھی فی کس کم از کم ایک سو روپے چندہ مانگا گیا تھا۔ کسی نے ایک ہزار روپے دیے، کسی نے پانچ سو اور کسی نے دو سو روپے بھی دیے۔ لیکن اگر اوسط فی کس ایک سو روپے بھی لگائے جائیں تو مجموعی رقم 35 کروڑ روپے بن جاتی ہے۔ اسی طرح سعودی سفارت خانے کی طرف سے بھی پیسے آئے تھے۔ پھر یہ کہ دبئی اور قطر میں موجود پارٹی سے وابستہ لوگوں نے بھی آزادی مارچ کے لیے رقم بھیجی تھی۔ یوں مجموعی طور پر آزادی مارچ کے نام پر مولانا نے ڈیڑھ ارب روپے سے زائد کی رقم جمع کرلی تھی۔ لیکن اس میں سے آزادی مارچ کے انتظامات اور شرکا پر محض 3 سے 4 کروڑ روپے خرچ کیے گئے۔ دھرنے میں بیٹھنے والے کارکنوں اور سپوٹرز کی حالت بڑی بری تھی۔ نہ ان کے کھانے پینے کا انتظام تھا اور نہ رہائش کا بندوبست تھا۔ بالخصوص چاغی، مستونگ اور ژوب سمیت بلوچستان کے دیگر علاقوں اور صوبہ خیبر پختون خوا کے مختلف شہروں سے آنے والے غریب کارکنان میرے پاس آکر شکوہ کیا کرتے تھے۔ دھرنے میں شریک کچھ صاحب حیثیت افراد سے ان کے کھانے پینے کا انتظام کرایا جاتا۔ بلوچستان میں میرے انتخابی حلقے سے تعلق رکھنے والا ایک ایسا ہی بلوچ قبائلی سردار اپنے ساتھ ایک لاکھ ستر ہزار روپے لایا تھا، جو چند روز میں ختم ہوگئے کہ بہت سے غریب کارکنوں کے کھانے کا انتظام بھی وہ کرتا تھا۔ قصہ مختصر دھرنے کے شرکا کا حال بہت بُرا تھا۔ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ آزادی مارچ کے نام پر لیے جانے والے ڈیڑھ ارب روپے سے زائد کی رقم کہاں چلی گئی۔ پھر یہ کہ موسم خراب ہوگیا۔ بارش نے سردی بڑھادی تھی۔ بے شمار کارکنان بیمار ہوگئے۔ ان میں سے بعض کی بلوچستان پہنچ کر اموات بھی ہوئیں۔
ایک اور سوال کے جواب میں حافظ حسین احمد نے فرمایا۔ ایک روز اچانک مولانا نے احتجاج ختم کرنے کا اعلان کردیا۔ اس حوالے سے مجھ سمیت پارٹی کے بعض دیگر اہم رہنمائوں کو بھی اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا۔ اس دوران مولانا پس پردہ ملاقاتیں بھی پارٹی کے بیش تر رہنمائوں کے علم میں لائے بغیر کررہے تھے۔ یہ تو بعد میں معلوم ہوا کہ چودھری برادران نے انہیں کسی کا بالواسطہ پیغام پہنچایا تھا کہ مارچ کے مہینے میں عمران خان کی حکومت ختم کرکے مولانا کو لایا جائے گا۔ دراصل کمٹمنٹ کرنے والے مولانا سے جان چھڑانا چاہتے تھے اور انہیں اپنے مقصد میں کامیابی حاصل ہوئی۔ مولانا نے جب کسی کو اعتماد میں لیے بغیر دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا تو میرا کہنا تھا کہ اگر کسی کے کہنے پر ہی دھرنا ختم کرنا تھا تو پھر سیاسی معاملات میں غیر سیاسی لوگوں کی مداخلت ختم کرنے کے نام پر دھرنا شروع کیوں کیا گیا تھا۔ یہ کارکنان کو دھوکا دینے والی بات ہے کہ بظاہر جن لوگوں کے خلاف آپ آزادی مارچ اور دھرنا دے رہے ہیں، ان ہی سے معاملات طے کرکے احتجاج بھی ختم کیا جارہا ہے۔ تاہم مولانا اس وقت کسی کی بات سننے کے لیے تیار نہیں تھے۔ یوں آزادی مارچ بغیر نتیجہ اپنے انجام کو پہنچا اور جس مارچ کے مہینے میں عمران کو فارغ کرانے کا لالی پاپ دیا گیا تھا۔ وہ گزر چکا اور ایک اور مارچ شروع ہوچکا ہے۔
س: اس کا مقصد ہے کہ مولانا کے ساتھ پارٹی کے اندر چلنے والے آپ کے اختلافات پی ڈی ایم تحریک کے موقع پر کھل کر سامنے آگئے؟
ج: ایسا ہی ہے۔ پہلے تو لڑائی پارٹی کے اندر جاری تھی۔ لیکن جب کوئٹہ میں پی ڈی ایم جلسے کے موقع پر جس کی میزبان جے یو آئی تھی، نواز شریف نے ایک بار پھر فوجی قیادت کا نام لے کر تنقید کی تو معاملہ بگڑ گیا۔ میں جے یو آئی کا ترجمان تھا۔ لہٰذا میڈیا کے کچھ لوگوں نے اس حوالے سے میرا موقف لینے کے لیے رابطہ کیا۔ ظاہر ہے میں نے کوئی جواب تو دینا تھا۔ میں نے صرف اتنا جملہ کہا کہ ’’یہ نواز شریف کی ذاتی رائے ہے‘‘۔ اس پر مولانا برہم ہوگئے۔ کیوں کہ نواز شریف کی طرف سے انہیں خطیر رقم مل رہی تھی اور میں غریب آدمی ہوں۔ ناراضی کے سبب مولانا نے میری فون کال ریسیو کرنا چھوڑ دی تھی۔ میں چوں کہ اس وقت تک جے یو آئی کا ترجمان چل رہا تھا لہٰذا میڈیا کے لوگ مجھے فون کرتے تھے۔ لیکن میرے پاس بتانے کے لیے کچھ نہیں ہوتا تھا۔ میں ان کے بیٹے اور کبھی ان کے قریبی لوگوں سے معلومات لے کر میڈیا کے لوگوں کو موقف دے دیا کرتا تھا۔ مولانا کی ناراضی بڑھتی رہی اور میں اپنی بات پر قائم رہا کہ اپوزیشن کی دونوں پارٹیوں بالخصوص نون لیگ کے مفادات کو تحفظ پہنچانے کے لیے مولانا اپنی پارٹی کو بند گلی میں کیوں لے جارہے ہیں؟ ان کے پاس اس کا جواب نہیں ہوتا تھا۔ لیکن صاف ظاہر تھا کہ دوسری جانب سے پیسے آرہے تھے اور اس کے عوض مولانا حکومت اور ریاست پر دبائو بڑھا رہے تھے۔ اس کے نتیجے میں نواز شریف کا بیرون ملک جانا ممکن ہوا۔ مریم نواز بھی چلی جاتیں۔ لیکن وزیراعظم اس راہ میں رکاوٹ بن گئے۔ جب کہ آصف زرداری کی ضمانت ہوگئی۔ اس دوران اسلام آباد میں موجود دوستوں کے ذریعے مجھ تک یہ بات پہنچی کہ پی ڈی ایم کے لانگ مارچ کے لیے مولانا فضل الرحمن کو نواز شریف نے پانچ ارب روپے دینے کا وعدہ کیا ہے۔ یہ بات مجھے اسلام آباد میں موجود چند دوستوں نے بتائی تھی۔ دراصل اس معاملے کی کال ریکارڈنگ پکڑی گئی تھی۔ جس میں مریم کی موجودگی میں لندن نواز شریف سے بات کرتے ہوئے مولانا دریافت کررہے تھے کہ کارکنوں کو اسلام آباد کے لیے تیار کرنا اور پھر وہاں ان کے طعام و قیام کا بندوبست بھی کرنا ہے۔ ان انتظامات کے لیے خطیر رقم کی ضرورت ہے۔ جس پر نواز شریف نے انہیں پانچ ارب روپے دینے کا وعدہ کیا تھا۔ اب اطلاع ہے کہ یہ رقم سوا ارب روپے کی چار اقساط میں ادا کی جائے گی۔ اور پہلی قسط پہنچائی جاچکی ہے۔
س: آپ کے خیال میں لانگ مارچ اور دھرنے کا کتنا امکان باقی ہے؟
ج: لانگ مارچ تو جیسے تیسے ہوگا کہ اس کا ایڈوانس لیا جاچکا ہے، لیکن ویسا لانگ مارچ ممکن نہیں جیسا کہ اب تک دعویٰ کیا جارہا تھا۔ 4 اپریل کو پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس ہے۔ اس کے تین چار روز بعد پی ڈی ایم کا اجلاس متوقع ہے۔ پھر ماہ رمضان آجائے گا، اس کے بعد بقرعید اور حج ہے، پھر گرمیاں اور محرم آجائے گا۔ لہٰذا لانگ مارچ کا معاملہ طول پکڑتا دکھائی دے رہا ہے۔
(روزنامہ امت کراچی 22 مارچ 2021ء)
مولانا فضل الرحمن اور میاں نواز شریف ’’تاثر‘‘ دے رہے ہیں کہ وہ کسی نظریے کے لیے لڑ رہے ہیں۔ مگر حافظ حسین احمد کے انٹرویو کے مندرجات سے صاف ظاہر ہے کہ پی ڈی ایم کی تحریک کو نظریہ چھو کر بھی نہیں گزرا۔ بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ نظریے سے محرومی پی ڈی ایم کا سب سے بڑا عیب ہے۔ مولانا فضل الرحمن خود کو ’’اسلامی سیاست‘‘ کا علمبردار باور کراتے ہیں مگر پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے جتنی ’’اسلامی سیاست‘‘ ہورہی ہے وہ حافظ صاحب کے انٹرویو سے صاف ظاہر ہے۔ خیر سے میاں نواز شریف کئی بار فرما چکے ہیں کہ وہ ’’نظریاتی‘‘ ہوگئے ہیں مگر ’’پیسے کی سیاست‘‘ میں جتنا ’’نظریاتی پن‘‘ ہے وہ ظاہر ہے۔ میاں نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن باور کراتے ہیں کہ ان کی جدوجہد قومی جدوجہد ہے۔
مگر حافظ صاحب کا انٹرویو چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ میاں صاحب اور مولانا فضل الرحمن، شخصی اور خاندانی سیاست کررہے ہیں۔ یہ جدوجہد کامیاب ہوگی تو ملک و قوم کو اس کا کوئی فائدہ نہ ہوگا اور یہ جدوجہد ناکام ہوگئی تو ملک و قوم کو اس کا کوئی نقصان نہ ہوگا۔ فائدہ اور نقصان ہوگا تو صرف میاں نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن کو۔ میاں نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن اس خیال کو بھی عام کرنے میں لگے ہوئے ہیں کہ وہ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے علمبردار ہیں مگر اصل کہانی یہ ہے کہ میاں نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن دونوں ’’نوٹ کو عزت دو‘‘ کی تحریک چلا رہے ہیں۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ صرف گھر اور کار کرائے پر ملتی ہے۔ حافظ حسین احمد کے انٹرویو سے ثابت ہورہا ہے کہ پارٹیاں بھی کرائے پر دستیاب ہیں۔ ملک میں نہ صرف یہ کہ پارٹیوں کو فروخت کرنے والے موجود ہیں بلکہ خریدنے والے بھی دستیاب ہیں۔ اس تناظر میں اب پاکستان میں Rent a Car کے ساتھ ساتھ Rent a Movement کا نعرہ بھی لگا کرے گا۔ مغرب کی جمہوریت کو سرمائے کی جمہوریت کہا جاتا ہے اس لیے کہ مغرب میں سرمائے کے بغیر سیاسی نظام میں کامیاب نہیں ہوا جاسکتا۔ لیکن میاں نواز شریف اور مولانا نے پاکستان میں بھی جمہوریت کو سرمائے کی جمہوریت بنادیا ہے۔ اس وقت صورت ِ حال یہ ہے کہ ملک کے چھ سات کروڑ افراد خط غربت سے نیچے کھڑے ہوئے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی یومیہ آمدنی ایک اور دو ڈالر کے درمیان ہے۔ دوسری طرف صورت حال یہ ہے کہ میاں نواز شریف پانچ ارب روپے میں ’’لانگ مارچ‘‘ اور ’’دھرنا‘‘ خرید رہے ہیں۔ حافظ حسین احمد کا دعویٰ یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن پانچ ارب روپے میں ایک ارب 25 کروڑ روپے کی پہلی قسط وصول کرچکے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو میاں نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن کا لانگ مارچ اور دھرنا فائیو اسٹار لانگ مارچ اور فائیو اسٹار دھرنا ہوگا۔ حافظ حسین احمد کے انٹرویو سے یہ بھی ظاہر ہے کہ پاکستان کی سیاست میں غیر ملکی سرمایہ بھی اپنے جلوے دکھا رہا ہے۔ اس سے ثابت ہے کہ ہمارے سیاست دانوں نے قومی سیاست بھی فروخت کر ڈالی ہے۔ یہ ایک سامنے کی بات ہے کہ سیاسی جماعتوں کے کارکن اپنے رہنمائوں کے ایک اشارے پر کچھ بھی کرنے کو تیار ہوجاتے ہیں۔ لیکن بہت سی جماعتیں اپنے کارکنوں کی وفاداری کی قدر نہیں کرتیں۔ وہ ان کے جوش و جذبے، ان کے ترک بیاں تک کے ان کی جانوں کا سودا کرلیتی ہیں اور کارکنوں کو اس کی خبر ہی نہیں ہوپاتی۔ دیکھتے ہیں میاں نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن حافظ حسین احمد کے انٹرویو کے مندرجات کی تردید کرتے ہیں یا نہیں۔ انہوں نے حافظ صاحب کے انٹرویو کے مندرجات کی تردید نہ کی اور حافظ صاحب کے خلاف قانونی چارہ جوئی نہ کی تو قوم یہ سمجھنے میں حق بجانب ہوگی کہ حافظ صاحب نے جو کچھ کہا وہی سچ ہے۔ آئیے غالب کا شعر پھر پڑھ لیتے ہیں۔
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا