جنرل باجوہ نے چند روز پیش تر ہی پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے کہا تھا کہ ہمیں ماضی کو دفن کرکے آگے بڑھنا چاہیے۔ اس بیان کی سیاہی ابھی ٹھیک طرح سے خشک بھی نہیں ہوئی تھی کہ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے ماضی کا ایک بہت ہی بڑا مردہ اکھاڑ کر جنرل باجوہ کی جانب اچھال دیا ہے۔ مودی نے بنگلادیش کے دورے کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے بیس بائیس سال کی عمر میں بنگلادیش کی آزادی کے لیے ستیہ گرہ میں حصہ لیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ پاک فوج نے بنگالیوں پر وہ ظلم ڈھائے کہ ان کی تصاویر دیکھ کر مجھے راتوں کو نیند نہیں آتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ بنگلادیش کے عوام اور بھارتی فوجیوں کا خون باہم آمیز ہو گیا تھا۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ جنرل باجوہ جس بھارت کے لیے ماضی کو دفن کرنا چاہتے ہیں وہ اصل بھارت نہیں ہے۔ اصل بھارت وہ ہے جو مودی کے مذکورہ بیان میں بھونکتا نظر آتا ہے۔ اس بھارت کے لیے نہ ماضی کو بھلایا جاسکتا ہے نہ حال کو نہ مستقبل کو۔ یہ بھارت لاتوں کا بھوت ہے۔ اس بھوت پر باتوں کا رتّی برابر اثر نہیں ہوتا لیکن اس بھارت کا مسئلہ کیا ہے؟
اصل بھارت کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کے حوالے سے شدید احساس کمتری میں مبتلا ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مسلمانوں نے بھارت پر ایک ہزار سال حکومت کی ہے۔ اس حکومت کی تفصیلات بھارت ماتا کے پجاریوں کے لیے سوہان ِ روح ہیں۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ محمد بن قاسم نے صرف 17 ہزار فوجیوں کی مدد سے سندھ کو فتح کیا۔ محمد بن قاسم کو راجا داہر کی ایک لاکھ فوج کا سامنا تھا مگر 17 ہزار مسلمان ایک لاکھ کی فوج پر غالب آگئے۔ یہ ایسا ہی تھا جیسے ایک چڑیا باز کو مار گرائے۔ محمد بن قاسم نے صرف 17 ہزار فوجیوں کے ذریعے سندھ ہی فتح نہیں کیا اس نے اپنے اخلاق اور اپنے کردار کے ہتھیاروں سے مفتوحہ علاقے کے لوگوں کے دل بھی جیت لیے۔ چناں چہ محمد بن قاسم جب سندھ سے لوٹا تو مقامی افراد کو زار و قطار روتے ہوئے دیکھا گیا۔ انہوں نے محمد بن قاسم کی یاد میں مجسمے بنالیے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ محمد بن قاسم نے صرف دو سال میں سندھ کو امن و انصاف سے بھر دیا تھا۔ ایسا نہ ہوتا تو سندھ کبھی بھی ہندوستان کے لیے باب الاسلام نہ بنتا۔ بابر کی فتح بھی کم حیرت انگیز نہیں تھی۔ بابر کے پاس صرف 8 ہزار فوجی تھے اور ان کی مدد سے اسے پورا ہندوستان فتح کرنا تھا۔ اس کے مقابل بھی ایک لاکھ کا لشکر تھا۔ کئی روز کی معرکہ آرائیوں کے باوجود بابر کو فتح حاصل نہیں ہوپارہی تھی۔ تب بابر نے اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑا کر شراب سے توبہ کی۔ اگلے ہی دن بابر کا لشکر فتح یاب ہوگیا۔ 8 ہزار انسانوں نے ایک لاکھ کے لشکر جرار کو شکست دے دی۔ بابر نے ہندوستان فتح کرلیا اور دہلی کو پایہ تخت قرار دیا۔ ہندوئوں کو اپنی تہذیب پر فخر ہے۔ وہ کہتے ہیں ہماری تہذیب چھ ہزار سال پرانی ہے، یہ کرشن اور رام کی سرزمین ہے۔ یہ بہادر ارجن کی سرزمین ہے، یہ بہادر ابھی منیو کی سرزمین ہے۔ لیکن اس سرزمین کو مسلمانوں نے ایک مقام پر 17 ہزار فوجیوں کے ذریعے فتح کرلیا۔ دوسرے مقام پر صرف آٹھ ہزار افراد ایک لاکھ کے لشکر پر غالب آگئے۔ محمد بن قاسم کا ہندوستان تقریباً دس کروڑ ہندوئوں کا ہندوستان تھا۔ بابر کا ہندوستان 15 کروڑ سے زیادہ افراد کا ہندوستان تھا مگر ہندو نہ محمد بن قاسم کا کچھ بگاڑ سکے نہ بابر کا کچھ بگاڑ سکے۔ تاریخ میں بعض فتوحات ’’عارضی‘‘ بھی ہوتی ہیں مگر برصغیر میں مسلمانوں کی فتوحات ’’دائمی‘‘ ثابت ہوئیں۔ ہندو ایک ہزار سال تک مسلمانوں کو شکست دینا تو درکنار ان کے خلاف کوئی شاندار مزاحمت تک نہ کرسکے۔ اورنگ زیب کے دور میں مغل سلطنت ٹوٹ کر بکھر رہی تھی اور جگہ جگہ بغاوتیں ہورہی تھیں مگر اورنگ زیب تن تنہا 50 سال تک مغل سلطنت کو تھام کر کھڑا رہا اور ہندو اکثریت کا ہندوستان اورنگ زیب کا کچھ نہ بگاڑ سکا۔ ایک اورنگ زیب کی بصیرت 20 کروڑ کے ہندوستان کی بصیرت پر غالب تھی۔ ایک اورنگ زیب کی طاقت 20 کروڑ کے ہندوستان کو مغلوب کیے ہوئے تھی۔ ہندو چاہیں بھی تو مسلمانوں کے اس غلبے کو نہیں بھول سکتے۔
مسلمانوں نے صرف ہندوستان پر سیاسی حکومت ہی کرکے نہیں دکھائی، انہوں نے ہندوستان میں روحانی حکومت کی بھی اعلیٰ مثال قائم کی۔ محمد بن قاسم جب سندھ میں آئے تھے تو برصغیر میں چند ہزار مسلمان موجود تھے۔ آج برصغیر میں 65 کروڑ مسلمان موجود ہیں۔ ان مسلمانوں کی عظیم اکثریت مقامی افراد پر مشتمل ہے۔ یعنی اسلام نے کروڑوں ہندوئوں کو مسلمان کیا۔ عام طور پر مذہب کی تبدیلی طاقت، جبر اور لالچ کا نتیجہ ہوتی ہے مگر ہندوستان میں مسلمانوں نے ہندوئوں کو مسلمان بنانے کے حوالے سے نہ طاقت استعمال کی، نہ جبر کو اختیار کیا، نہ لالچ کو اس سلسلے میں بروئے کار آنے دیا۔ اس کی وجہ ظاہر ہے، اسلام صاف کہتا ہے دین میں کوئی جبر نہیں، دین کی قبولیت فرد کا اختیار ہے، وہ چاہے تو دین قبول کرے چاہے تو دین قبول نہ کرے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو برصغیر میں اسلام کی پیش رفت بے مثال ہے۔ اقبال نے کہا ہے۔
یقیں محکم، عمل پیہم، محبت فاتحِ عالم
جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
مسلمانوں نے برصغیر میں اسلام پھیلانے کے لیے یہی فارمولا استعمال کیا۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ برصغیر کا اسلام حکمرانوں کا پھیلایا ہوا اسلام نہیں ہے۔ یہ صوفیا اور علما کا پھیلایا ہوا اسلام ہے۔ یہ الگ بات کہ صوفیا اور علما کی پشت پر ریاست کی طاقت نہ ہوتی تو ہندو کبھی صوفیا اور علما کو اپنا کام نہ کرنے دیتے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ہندو اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے احساس کمتری میں کیوں نہ مبتلا ہوں۔
ہندوئوں کی تاریخ کا المیہ یہ ہے کہ وہ ایک ہزار سال تک مسلمانوں کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ وہ 200 سال تک انگریزوں کا بال بھی بیکا نہ کرسکے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ہندوئوں کے 1200 سال کی تاریخ غلامی کی تاریخ ہے۔ اقبال نے غلامی میں مبتلا لوگوں کے بارے میں عجیب بات کہی ہے۔ انہوں نے فرمایا ہے۔
غلاموں کی بصیرت پر بھروسا کر نہیں سکتے
کہ دنیا میں فقا مردانِ حُر کی آنکھ ہے بینا
چوں کہ ہندوئوں نے غلامی کو قبول کرلیا تھا اس لیے ان کی انفرادی اور اجتماعی بصیرت قابل بھروسا نہیں رہ گئی تھی۔ اتفاق سے انگریزوں نے ہندوستان چھوڑا تو بھی اسلام اور مسلمانوں کی طاقت ہندوئوں کے سامنے سینہ تان کر کھڑی ہوگئی۔ مسلمانوں نے کہا ہندو اور مسلمان ایک قوم نہیں مسلمان کا مذہب، تہذیب، تاریخ، آرٹ، کلچر، رسوم، رواج، تہوار، اقدار، ہیروز ہندوئوں سے مختلف ہیں۔ چناں چہ انہیں اپنے دین کو بسر کرنے کے لیے پاکستان کے نام ایک الگ ریاست درکار ہے۔ ہندو انگریزوں کے ساتھ مل کر آخری وقت تک قیام پاکستان کو ناممکن بنانے کے لیے کوشاں رہے مگر وہ اسلام اور مسلمانوں کی طاقت کا مقابلہ نہ کرسکے۔ مسلمان ایک اقلیت ہونے کے باوجود اکثریت پر غالب رہے۔ انہوں نے وقت کی واحد سپر پاور کو بھی سرنگوں کردیا۔ ہندوئوں کے پاس گاندھی تھے، نہرو تھے، پٹیل تھے۔ مگر یہ تینوں رہنما مل کر بھی ایک قائد اعظم کا مقابلہ نہ کرسکے۔ کیا انسانی تاریخ میں کوئی اقلیت کبھی اس طرح کامیاب ہوئی تھی؟ کیا تاریخ میں کوئی اکثریت کبھی اس طرح ناکام ہوئی تھی؟ ہندو اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے احساس کمتری میں مبتلا ہیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے۔ 1971ء میں مغربی پاکستان کے بے حیا حکمرانوں کی وجہ سے پاکستان ٹوٹا تو بھارت کی وزیراعظم اندرا گاندھی نے کہا ہم نے آج دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں غرق کردیا ہے اور ہم نے مسلمانوں سے ایک ہزار سال کی تاریخ کا بدلہ لے لیا ہے۔ اندرا گاندھی کا یہ احساس برتری دراصل ان کے ایک ہزار سالہ ’’احساس کمتری‘‘ کا حاصل تھا۔ مسلمانوں نے ایک ہزار سال سے ہندوئوں کو کوئی فتح حاصل نہیں ہونے دی تھی لیکن سقوط ڈھاکا نے ہندوستان کی ہندو قیادت کو ایک غیر معمولی فتح تھمادی۔ آج نریندر مودی بھی اس فتح میں اپنے کردار کا ذکر کرکے اپنے ایک ہزار سالہ احساس کمتری کو دھو رہا ہے۔
ہندو کہتے ہیں کہ مسلمانوں کی ہر چیز غیر ملکی ہے۔ ان کا مذہب سعودی عرب سے آیا ہے۔ ان کے مقامات مقدسہ مکہ اور مدینہ ہیں۔ ان کی مذہبی زبان عربی بھی ہندوستان کی پیداوار نہیں۔ ان کی تہذیبی زبان فارسی بھی ایران سے آئی ہوئی تھی۔ ان خیالات کی پشت پر بھی ہندوئوں کے احساس کمتری کو کلام کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ ہندوئوں کے ان خیالات سے ظاہر ہوتا ہے کہ کس طرح غیر ملکی علامتوں اور زبانوں نے ہندوستان پر حکمرانی کی۔ لیکن ہندوئوں کے احساس کمتری نے انہیں مسلمانوں کی ’’مقامیت‘‘ کے لیے بھی نرم نہ کیا۔ اردو سر سے پیر تک ’’مقامی‘‘ ہے۔ اردو کا رسم الخط بلاشبہ عربی ہے لیکن اردو کی لغت کا 30 فی صد ہندی سے فراہم ہوا ہے۔ اردو کی کئی اصوات ہندی سے آئی ہیں مگر اس کے باوجود ہندو اردو کو صرف مسلمانوں کی زبان سمجھتے ہیں بلکہ ان کے نزدیک اور تقسیم برصغیر کا باعث بنی ہے۔ روزنامہ ڈان میں بھارت کے معروف صحافی جاوید نقوی نے اپنے حالیہ کالم میں لکھا ہے بھارت کی ترقی پسند تحریک کے سربراہ پروفیسر علی جاوید نے بنگال کے سابق وزیراعلیٰ بدھا دیب بھٹہ چاریہ کو خط لکھا کہ ہم کولکتہ میں اردو کانفرنس کرنا چاہتے ہیں۔ بھٹہ چاربہ نے کہا کہ کیا آپ ایک بار پھر بھارت کو تقسیم کے عمل سے گزارنا چاہتے ہیں۔ اردو زبان کا ایسا خوف احساس کمتری ہی کا حاصل ہوسکتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اسلام، مسلمانوں اور پاکستان کے حوالے سے ہندوستان کے ہندوئوں کی نفسیات احساسِ کمتری سے شروع ہوتی ہے۔ احساس کمتری میں آگے بڑھتی ہے اور احساس کمتری میں ختم ہوجاتی ہے۔ جو مسلمان اور جو پاکستانی یہ نہیں جانتا وہ بھارت کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتا۔