دنیا کے ہر معاشرے کا ایک اجتماعی تناظر ہوتا ہے۔ دنیا میں جب تک سوشلزم موجود تھا سوشلسٹ معاشروں کا اجتماعی تناظر سوشلزم تھا۔ بات سیاست کی ہو یا ادب کی، بات معیشت کی ہو یا تاریخ کی سوشلسٹ تناظر ہر جگہ بروئے کار آتا تھا۔ مغربی دنیا سیکولر اور لبرل دنیا ہے اس کا تناظر کہیں آزادی سے متعین ہوتا ہے کہیں جمہوریت سے اور کہیں سرمایہ داری سے۔ ہندوستان پر بی جے پی کی حکومت ہے اور اس نے معاشرے میں ہندو ازم اور ہندو تہذیب و تاریخ کے تناظر کو بنیاد بنادیا ہے۔ چناں چہ مسئلہ کوئی بھی ہو ہندوئوں کا بنیادی تناظر ہر جگہ اپنا جلوہ دکھاتا ہے۔ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا۔ اسلام نہ ہوتا تو پاکستان نہ ہوتا۔ مگر پاکستان کے ذرائع ابلاغ میں موجود رائے ساز حضرات کی عظیم اکثریت کا تناظر اسلام ہے ہی نہیں۔ ٹی وی اینکرز اور کالم نگاروں کی عظیم اکثریت مسائل کو زیر بحث لاتی ہے تو وہ کہیں قرآن و حدیث کا حوالہ نہیں دیتی۔ کہیں اسلامی مفکرین اور دانش وروں کے خیالات کا ذکر نہیں کرتی۔ پاکستان کے اینکرز اور کالم نگار اسلامی تہذیب کی کوئی مثال دیتے ہیں نہ اسلامی تاریخ سے کوئی استفادہ کرتے ہیں۔ اس کی ایک تازہ ترین مثال جیو کے اینکر شاہزیب خانزادہ کی وہ گفتگو ہے جو دی نیوز کراچی نے تفصیل سے رپورٹ کی ہے۔ گفتگو کا موضوع خواتین کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتی کے واقعات اور اس سلسلے میں وزیر اعظم عمران خان کا ایک بیان ہے۔ بیان میں عمران خان نے خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات کو ان کے غیر مناسب لباس سے متعلق کیا تھا۔ شاہزیب خانزادہ نے اپنے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کو چاہیے کہ وہ Rape کے واقعات کو خواتین کے لباس اور وضع قطع سے منسلک نہ کریں کیوں کہ ایسا کرنے کا مطلب خود ریپ کا نشانہ بنے والی خواتین کو موردِ الزام ٹھیرانا ہے۔ شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ Rape کا حجاب یا خواتین کے لباس سے کوئی تعلق نہیں۔ شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ ریپ کا جنسی شہوت یا جنسی جبلت سے بھی کوئی ربط ضبط نہیں بلکہ یہ مسئلہ دوسرے فرد پر طاقت کے ذریعے قابو پانے کی نفسیات سے متعلق ہے۔ اس کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب افواج کسی علاقے کو فتح کرتی ہیں تو وہ اپنی طاقت کے اظہار کے طور پر خواتین کی عصمتوں کو بڑے پیمانے پر پامال کرتی ہیں۔
پردے کا تصور کسی ملا، مولوی یا کسی انسانی گروہ کی ایجاد نہیں یہ اللہ اور اس کے رسول کا حکم ہے اور اس کا خواتین کے تحفظ سے گہرا تعلق ہے۔ دنیا کی ہر تہذیب مرد اور عورت کے درمیان موجود جنسی کشش کو مانتی ہے اور جنسی جبلت کی تہذیب خود تہذیب اور انسانیت کی بقا کے لیے ضروری ہے۔ اسلام چاہتا ہے کہ انسان کے ماحول میں جنسی اشتعال موجود نہ ہو۔ جنسی اشتعال نہ صرف معاشرے کی اخلاقی بنیادوں کے لیے ضرر رساں ہے بلکہ اس سے مرد اور عورت کے تعلقات میں بھی خرابیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔ پردہ اور ساتر لباس معاشرے میں جنسی انحرافات کو ختم تو نہیں کرتا مگر وہ جنسی انارکی بھی پیدا نہیں ہونے دیتا۔ چناں چہ کسی اسلامی معاشرے میں مردوں یا خواتین کے لباس کو ان کی انفرادی پسند یا ناپسند پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ اسی طرح مردوں اور خواتین کی وضع قطع اور تراش خراش بھی اہمیت کی حامل ہے۔ چناں چہ اسے بھی انفرادی پسند اور ناپسند کی نذر نہیں کیا جاسکتا۔ شاہزیب خانزادہ نے مرد اور عورت کے تعلق میں طاقت کی جبلت کو جنسی جبلت سے زیادہ اہم قرار دیا ہے۔ حالاں کہ جدید نفسیات کے بانی سگمنڈ فرائیڈ کا مرکزی خیال یہ ہے کہ جنسی جبلت زندگی کی مرکزی قوت ہے اور مرد اور عورت کا تعلق اسی جبلت پر کھڑا ہوا ہے۔ جنس کے سلسلے میں اسلام کا رویہ متوازن ہے۔ وہ نہ جنس کو سر پر بٹھاتا ہے اور اسے واحد قوت قرار دیتا ہے اور نہ اسے نظر انداز کرتا ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ مرد اور عورت ایک دوسرے کا لباس ہیں اور وہ ایک دوسرے کے لیے سکون کا باعث ہیں۔ قرآن کا یہ بیان انسانی وجود کی پوری کلیت کو بیان کرتا ہے۔ مرد اور عورت کا تعلق نہ صرف یہ کہ روحانی تسکین کا سبب ہے بلکہ اس سے نفسیاتی، جذباتی، احساساتی، سماجی اور جنسی تسکین کی راہ بھی ہموار ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام مرد اور عورت کے تعلق کو طاقت کے اصول کے تناظر میں دیکھتا ہی نہیں۔ اسلام میں مرد اور عورت کا تعلق تکمیلی یا complimentary ہے۔ یعنی مرد سے عورت کی اور عورت سے مرد کی تکمیل ہوتی ہے۔ اس تکمیل کی بنیاد دشمنی پر نہیں محبت پر رکھی ہوئی ہے۔ یہ حقیقت راز نہیں کہ جنسی زیادتی کے اکثر واقعات جنسی شہوت ہی کا حاصل ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے خواتین کو ظلم کا نشانہ بنانے والے اکثر مردوں کا تصورِ عورت پست ہوتا ہے۔ تصورِ عورت کے بارے میں رشید احمد صدیقی نے ایک عجیب فقرہ لکھا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ جس مرد کا تصورِ عورت پست ہوتا ہے اس کا تصورِ خدا بھی پست ہوتا ہے۔ اور یہ بات ٹھیک ہے۔ اس لیے کہ اسلام میں عورت خدا کی صفت ِ رحمت کا ایک مظہر ہے۔ چناں چہ عورت پر حملہ کرنے والا دراصل خدا کی صفت ِ رحمت پر حملہ کرتا ہے۔ ایسے انسان کا نہ کوئی مذہب ہوتا ہے نہ کوئی اخلاق ہوتا ہے۔ ہوتا تو وہ عورت کو زیادتی کا نشانہ بنانے کا تصور بھی نہ کرتا۔ مگر شاہزیب خانزادہ نے اس مسئلے کو مذہبی تناظر میں دیکھا ہی نہیں ہے۔ دیکھا ہوتا تو وہ کہتے کہ مردوں کے تصورِ عورت کو اسلام کے تصورِ عورت سے ہم آہنگ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
یہ حقیقت راز نہیں کہ فلموں اور ڈراموں میں تشدد دیکھنے والے تشدد سیکھتے ہیں اور ان کے اندر تشدد کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ عملی زندگی میں بھی تشدد دیکھنے والے تشدد سیکھتے ہیں۔ جن بچوں کے گھروں میں والدین تشدد کے مظاہر پیش کرتے رہتے ہیں ان گھروں کے بچے تشدد پسند ہوجاتے ہیں۔ یہی معاملہ جنسی جبلت کے مظاہر کا ہے۔ جس معاشرے کے ذرائع ابلاغ عورت کو Sex Symbol بنارہے ہوں گے اس معاشرے کے اندر جنسی ہیجان ضرور پیدا ہوگا۔ جس معاشرے میں خواتین عریانی کا دریا بہائیں گی اس معاشرے کا تصور عورت ضرور پست ہوگا اور ایسے معاشرے میں خواتین کے خلاف جنسی جرائم میں ضرور اضافہ ہوگا۔ شاہزیب خانزادہ نے کہا ہے کہ جب دشمن کی فوجیں کسی علاقے کو فتح کرتی ہیں تو وہ طاقت کے مظاہرے کے طور پر خواتین کو بڑے پیمانے پر زیادتی کا نشانہ بناتی ہیں۔ اس کے معنی یہ ہوگئے کہ شاہزیب خانزادہ کے نزدیک عورت کو زیادتی کا نشانہ بنانے والا ہر مرد دشمن کی فوج کی نفسیات کا حامل ہوتا ہے۔ حالاں کہ دشمن کی فوج اور ایک عام آدمی کی نفسیات میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ عام آدمی کی نفسیات عورت کے حوالے سے جنسی جبلت اور جنسی جذبے کے زیر اثر ہوتی ہے۔ طاقت کے زیر اثر نہیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ مرد اور عورت کا تعلق ’’سیاسی‘‘ نہیں ہے۔ چناں چہ اس تعلق کا طاقت کے اصول کے زیر اثر جانا آسان نہیں۔ بالخصوص مسلم معاشروں میں۔ مغربی معاشروں میں خواتین کی آزادی کی مختلف تحریکوں نے مرد اور عورت کے تعلق کو ’’سیاسی‘‘ بنادیا ہے۔ چناں چہ ان معاشروں میں مرد اور عورت کے تعلق میں طاقت اور غلبے کی نفسیات اہم ہوگئی ہے۔ مسلم معاشروں میں خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کا تعلق مردوں کی پست روحانی، اخلاقی اور نفسیاتی حالت، مردوں کے پست تصورِ عورت اور ماحول میں موجود جنسی اشتعال سے ہوتا ہے۔
شاہزیب خانزادہ نے کہا ہے کہ یہ خیال بھی درست نہیں کہ محتاط خواتین جنسی درندگی کا کم نشانہ بنتی ہیں۔ انہوں نے اس سلسلے میں ایک تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ زیادتی کے 35 فی صد واقعات ظلم کا نشانہ بننے والی خواتین کے گھروں دفاتر یا گھروں کے نزدیک موجود مقامات پر ہوئے۔ دیکھا جائے تو خود اس تحقیق میں ایک گہرا تضاد موجود ہے۔ تحقیق ان 35 فی صد واقعات کا تو ذکر کررہی ہے جو گھروں یا دفاتر میں ہوئے مگر ان زیادتی کے ان 65 فی صد واقعات کا ذکر نہیں کررہی جو اجنبی ماحول میں خواتین کی غیر محتاط روش کے باعث ہوئے۔
شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ جنسی جذبات کو اُبھارنے والے لباس اور رویوں کا بھی جنسی زیادتی کے واقعات سے کوئی تعلق نہیں۔ شاہزیب خانزادہ نے اس سلسلے میں مثال دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہر Sexy عورت ریپ کی مستحق ہے پر یقین رکھنے والے دراصل یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہر امیر شخص چوری کا مستحق ہے۔ اصولی بات یہ ہے کہ دنیا کی کوئی بھی عورت جنسی زیادتی اور دنیا کا کوئی بھی امیر شخص چوری کا مستحق نہیں مگر عملی حقیقت یہ ہے کہ چوری ہمیشہ امیر ہی کے گھر میں ہوتی ہے۔ چور غریب کے یہاں چوری نہیں کرتے اس لیے کہ غریب کے یہاں چوری کے لیے کچھ ہوتا ہی نہیں۔