میاں نواز شریف کے ساتھ نظریے کو وابستہ کرنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی کہے کہ اس نے سورج کو زمین کے گرد طواف کرتے دیکھا ہے۔ یا کریلے کو انسان کی طرح خطاب کرتے ہوئے ملاحظہ کیا گیا ہے۔ اس کے باوجود میاں نواز شریف کی دختر نیک اختر مریم نواز نے فرمایا ہے کہ ڈسکہ میں میاں نواز شریف کا بیانیہ جیت گیا۔ انہوں نے فرمایا کہ جب بھی منصفانہ انتخابات ہوں گے جیت شیر ہی کی ہوگی۔ مریم نواز نے مزید کہا کہ نواز شریف کی سیاست ختم کرنے والے یاد رکھیں نواز شریف نظریے کا نام ہے۔ (روزنامہ ایکسپریس۔ 12 اپریل 2021ء)
میاں نواز شریف نے ایک بار خود فرمایا تھا کہ وہ نظریاتی ہوگئے ہیں۔ میاں صاحب کے اس بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے ہم نے عرض کیا تھا کہ میاں نواز شریف کے ’’نظرآتی شخصیت‘‘ ہونے میں کوئی کلام ہی نہیں، البتہ ان کا ’’نظریاتی شخصیت‘‘ ہونا کئی اعتبار سے محل نظر ہے۔ اب میاں صاحب کی بیٹی نے اپنے والد کے مرتبے کو خود ہی بلند کرتے ہوئے انہیں بجائے خود ’’نظریہ‘‘ بنا دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ میاں نواز شریف کا نظریہ کیا ہے؟
کیا میاں نواز شریف نے قرآن و سنت کو اپنی زندگی کا مرکز و محور بنالیا ہے یا وہ امام غزالی کی طرح مغربی فکر کے خلاف صف آرا ہوگئے ہیں؟ کیا میاں نواز شریف مجدد الف ثانی کے پیروکار ہوگئے ہیں اور انہوں نے باطل نظریات کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا ہے؟ کیا میاں نواز شریف شاہ ولی اللہ کے اجتہادی فکر کے علمبردار بن گئے ہیں اور انہوں نے دنیا کو لات مار دی ہے؟ کیا میاں نواز شریف نے اقبال کی انقلابی فکر کو اختیار کرلیا ہے اور انہوں نے عہد حاضر کے خلاف اعلان بغاوت فرمادیا ہے؟ کیا میاں نواز شریف مجدّدِ وقت مولانا مودودی کی فکر کے قائل ہوگئے ہیں اور انہوں نے مولانا کے اس اعلان کو اپنا پرچم بنالیا ہے کہ قرآن و سنت کی دعوت لے کر اٹھو اور دنیا پر چھا جائو؟ ظاہر ہے کہ ان تمام سوالات کا جواب نفی میں ہے؟ لیکن اسلام دنیا میں واحد نظریہ نہیں ہے۔
سوویت یونین کی شکست وریخت کے باوجود سوشلزم دنیا میں ایک نظریے کے طور پر موجود ہے اور دنیا کے بہت سے ترقی پسند خیال کرتے ہیں کہ عالمی اسٹیج پر سوشلزم کی واپسی اب بھی ممکن ہے۔ چناں چہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میاں صاحب کہیں سوشلسٹ تو نہیں ہوگئے ہیں؟ کہیں انہوں نے اپنی دولت اور مال و اسباب دنیا کے غریبوں میں تقسیم کرنے کا اعلان تو نہیں کردیا ہے؟ میاں صاحب کی ایسی ’’انقلابیت‘‘ ابھی تک کہیں رپورٹ تو نہیں ہوئی۔ ممکن ہے میاں صاحب نے مریم نواز کے کان میں کہہ دیا ہو کہ میں اب پکا سوشلسٹ بن چکا ہوں۔ مگر مریم نے بھی میاں صاحب کے سوشلسٹ ہونے کا اعلان نہیں کیا۔ اس سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ میاں صاحب نے سوشلزم کو ایک نظریے کے طور پر اختیار نہیں کیا۔
دنیا میں ایک نظریہ سیکولرازم اور لبرل ازم بھی ہے۔ تو کیا میاں صاحب نے خدانخواستہ خدا اور مذہب کا انکار کردیا ہے اور انہوں نے سیکولر ازم اور لبرل ازم کو ایک نظریہ حیات کے طور پر اختیار کرلیا ہے؟ میاں صاحب اور مریم نواز نے اس سلسلے میں بھی قوم کی رہنمائی نہیں کی۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ ہندوازم بھی ایک نظریہ ہے۔ بدقسمتی سے میاں صاحب ہندوستان سے بہت متاثر بھی ہیں۔ تو کیا خدانخواستہ میاں صاحب نے ہندوازم کو ایک نظریے کے طور پر سینے سے لگالیا ہے اور وہ بھی ہندوئوں کی طرح جسے شری رام اور بھارت ماتا کی جے کے نعرے لگایا کریں گے؟ میاں صاحب اور مریم نواز نے اس سلسلے میں بھی قوم کو اعتماد میں نہیں لیا۔ جیسا کہ ظاہر ہے ’’قوم پرستی‘‘ بھی ایک نظریہ ہے۔ تو کہیں ایسا تو نہیں کہ میاں صاحب پاکستانی قوم پرست ہوگئے ہوں۔ مگر بدقسمتی سے میاں صاحب کی سیاست پنجاب سے شروع ہوتی ہے، پنجاب میں آگے بڑھتی ہے اور پنجاب ہی میں ختم ہوجاتی ہے۔ اس لیے ان کے پاکستانی قوم پرست ہونے کا بھی دور دور تک کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ بدقسمتی سے مریم نواز نے بھی اس سلسلے میں قوم کو کوئی اطلاع دینا ضروری نہیں سمجھا تو پھر مریم نواز نے یہ کیوں کہا کہ نواز شریف ایک نظریے کا نام ہیں؟ آخر میاں نواز شریف کا نظریہ کیا ہے؟
حذیفہ رحمن روزنامہ جنگ کے کالم نگار تھے۔ وہ میاں شہباز شریف کے اتنا قریب تھے کہ ایک بار انہوں نے لکھا کہ مجھ سے زیادہ شہباز شریف کو شاید ہی کوئی جانتا ہو۔ اسی حذیفہ رحمن نے میاں نواز شریف اور اسٹیبلشمنٹ کی کشمکش کے دوران لکھا کہ ملک کی متحرک قوتوں یعنی جرنیلوں کو پہلی بار پنجاب کے رہنما سے مقابلہ درپیش ہے۔ چناں چہ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ وہ میاں نواز شریف کو کس طرح ہینڈل کریں۔ اس طرح شریف خاندان کے ایک اپنے آدمی نے میاں صاحب کے لسانی تشخص کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور حذیفہ کا تجزیہ غلط نہ تھا۔ ہمارے جرنیلوں کو بنگالی، سندھی، بلوچی، پشتون اور مہاجر رہنمائوں کو کنٹرول کرتے ہوئے کبھی دشواری نہیں ہوئی۔ 1971ء میں ملک ٹوٹ گیا تب بھی ہمارے جرنیلوں نے کوئی دشواری محسوس نہ کی مگر میاں صاحب کو کنٹرول کرنے میں انہیں واقعتاً دشواری کا سامنا ہے، مگر اس دشواری کا تعلق کسی اصول، کسی ضابطے، کسی قانون سے نہیں بلکہ اس بات کا تعلق اس امر سے ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا تعلق بھی پنجاب سے ہے اور جیسا کہ حذیفہ نے کہا میاں صاحب بھی ’’پنجابی رہنما‘‘ ہیں۔ یہ تو صرف ایک مثال ہوئی۔ خورشید ندیم ملک کے معروف کالم نگار ہیں۔ وہ جاوید احمد غامدی کے ساتھ ساتھ میاں صاحب کے بھی عاشق ہیں۔ میاں صاحب سے ان کا عشق اتنا بڑھا ہوا ہے کہ ایک بار انہوں نے میاں صاحب کو ’’صاحب عزیمت‘‘ قرار دے کر انہیں امام غزالی، امام ابوحنیفہ، امام مالک اور مولانا مودودی کی فہرست میں لاکھڑا کیا۔ لیکن یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ خورشید ندیم نے روزنامہ دنیا میں شائع ہونے والے اپنے کئی کالموں میں لفظ چبائے بغیر لکھا کہ میاں نواز شریف پنجابی عصبیت کا استعارہ ہیں۔ یہ بھی میاں صاحب کے ایک عاشق کی گواہی ہے۔ بدقسمتی سے مریم کبھی خود کو اسلام کی بیٹی۔ پاکستان کی بیٹی نہیں کہتیں وہ ہمیشہ خود کو ’’پنجاب کی بیٹی‘‘ کہتی ہیں۔ یہ بات بھی تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ میاں صاحب نے آئی جے آئی کی سیاست کے دوران پنجاب میں جاگ پنجابی جاگ کا نعرہ لگایا تھا۔ ان تمام مثالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام، سوشلزم اور سیکولر ازم میاں صاحب کا نظریہ ہو یا نہ ہو پنجابیت میاں صاحب کا نظریہ ضرور ہے۔ جس طرح الطاف حسین اور ان کی جماعت ایم کیو ایم کسی زمانے میں نعرۂ مہاجر جئے مہاجر کہا کرتے تھے میاں صاحب اور ان کا خاندان بھی ٹھیک اسی طرح نعرۂ پنجابی، جئے پنجابی لگاتا ہوا نظر آتا ہے۔
یہ حقیقت راز نہیں کہ میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کے تشخص کا ایک پہلو کرپشن بھی ہے۔ شریف خاندان نے ایسی اور اتنی کرپشن کی ہے کہ اسے کرپشن میں ملوث قرار دینا ٹھیک نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ شریف خاندان کرپشن سے بنا ہوا ہے۔ کرپشن شریف خاندان کے ڈی این اے میں ہے۔ کرپشن شریف خاندان کا بلڈنگ بلاک ہے۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ میاں نواز شریف نے قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہیں وہ ذرائع جن سے برطانیہ کی جائداد بنائی گئی مگر جب وقت آیا تو وہ جائداد پر صرف ہونے والے سرمائے کی منی ٹریل دینے میں بری طرح ناکام ہوگئے۔ مریم نواز کا یہ حال ہے کہ انہوں نے جیو کے ایک پروگرام میں چیخ کر کہا کہ میری برطانیہ کیا پاکستان میں بھی کوئی جائداد نہیں ہے۔ بعد میں ثابت ہوا کہ ان کی جائداد برطانیہ میں بھی ہے اور پاکستان میں بھی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ کرپشن میاں صاحب کا نظریہ ہے۔ نظریہ اپنی گہرائی اور گیرائی سے پہچانا جاتا ہے اور بلاشبہ میاں صاحب کی کرپشن میں گہرائی بھی ہے اور گیرائی بھی۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے میاں صاحب کو سیسلین مافیا اور گاڈ فادر کہہ کر پکارا۔ نظریے میں جامعیت بھی ہوتی ہے اور بلاشبہ میاں صاحب اور ان کے اہل خانہ کی کرپشن میں جامعیت بھی بہت ہے۔ میاں صاحب نے جس شعبے کو چھوا ہے کرپشن میں نہلادیا۔