روحانی، اخلاقی، نفسیاتی اور جذباتی صحت کے ہر پیمانے کی رو سے معروف کالم نگار حسن نثار روحانی سرطان، اخلاقی طاعون، نفسیاتی ہیضے اور جذباتی پیچش میں مبتلا ہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ انہوں نے کچھ عرصہ قبل جیو کے ایک پروگرام میں کھل کر کہا کہ قرآن میں پردے کے تمام احکامات صرف امہاۃ المومنین سے متعلق تھے اور ان کا عام مسلم خواتین سے کوئی تعلق نہ تھا۔ یہ بات اسلام کے بدترین دشمن بھی نہیں کہتے۔ مذہبی معاملات میں اکثر مقامات پر تعبیر کے اختلاف کی گنجائش موجود ہوتی ہے مگر قرآن کے نصصریح کا انکار باطل پرستوں کے سوا کوئی نہیں کرتا۔ عورتوں کا پردہ نص صریح سے ثابت ہے مگر حسن نثار نے کھلے عام قرآن کی نص صریح کا انکار کیا۔ حسن نثار کی تازہ ترین واردات عمران خان کے اس بیان کے حوالے سے سامنے آئی ہے جس میں عمران خان نے عریانی و فحاشی کی مذمت کرتے ہوئے اسے خواتین کے ساتھ زیادتی کا سبب قرار دیا ہے۔ اس سلسلے میں جیو کے پروگرام میرے مطابق میں حسن نثار نے کیا کہا انہی کی زبانی سنیے۔ انہوں نے فرمایا۔
’’ابھی آپ سارے آفس میں سروے کرو۔ کتنے لوگ ہیں جو فحاشی کا مطلب جانتے ہیں۔ سوچے سمجھے بغیر ہم بولتے رہتے ہیں۔ کبھی ہم سادہ سی بات پر غور نہیں کرتے اگر فحاشی کا مطلب وہی ہے جس کا ہم مطلب جانتے ہیں تو اہل مغرب میں تو جوئے خانے بھی ہیں، شراب خانے ہیں اور نہ جانے کون کون سے خانے ہیں۔ (مگر) وہ غالب ہیں۔ وہ Dictate کررہے ہیں دنیا کو۔ یہ کیسے ہوگیا۔۔۔ قرآن پاک کو غور سے پڑھیں تو اس نتیجے پر پہنچو گے کہ فحش کا مطلب ہے اپنی حدود سے تجاوز کرنا۔ اس کا (ایک اور) مطلب کہ آپ کا کوئی کام Result oriented اور Objective Achieved کرنے والا نہیں۔ تو یہ ہے فحش۔ یہ جو West ہے اگر یہ اس کا معیار ہوتا جو ہم The Way We define it تو آپ مجھے بتائو West دنیا کو Dominate کر رہا ہوتا۔ چاند پر پہنچا ہوتا۔ مریخ پر پہنچا ہوتا۔ اس نے ریل سے لے کر جہاز تک بنادیے ہوتے۔ کمپیوٹر سے لے کر، خدا کا خوف کرو۔ (فحش کا مطلب) حدود سے تجاوز کرنا ہے‘‘۔
دنیا کے کروڑوں انسانوں کے ذہن پر مغرب کے سیاسی و تہذیبی غلبے کا غیر معمولی اثر ہے۔ کم فہم لوگ اس غلبے سے یہ معنی اخذ کرتے ہیں کہ اگر مغرب حق پر نہ ہوتا تو وہ غالب کیوں ہوتا۔ حالاں کہ انسانی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ سیاسی، عسکری یا تہذیبی غلبے کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں کہ کوئی حق پر ہے یا نہیں۔ کفر اور شرک کے مقابلے پر عریانی و فحاشی چھوٹی چیزیں ہیں مگر تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ نمرود کفر پر کھڑا تھا مگر وہ بادشاہ وقت تھا۔ وہی غالب تھا۔ فرعون بھی باطل پر کھڑا تھا مگر سلطنت اس کے ہاتھ میں تھی اور غلبہ بھی اسی کا تھا۔ چنگیز خان کسی بڑے مذہب کا ماننے والا نہیں تھا۔ وہ ظالم اور جابر تھا۔ وہ استبداد کی علامت تھا مگر وہ اور اس کی زریت سیکڑوں سال تک کئی قوموں پر غالب رہی۔ کربلا میں سیدنا حسینؓ حق پر تھے اور یزید ظلم، جبر اور ملوکیت کی علامت تھا مگر سیدنا حسینؓ بظاہر مغلوب ہوگئے۔ اور یزید کو بظاہر غلبہ حاصل ہوگیا۔ تو کیا اس کے معنی یہ ہوگئے کہ سیدنا حسینؓ غلط تھے اور یزید صحیح تھا۔ اسلام کا مطالعہ بتاتا ہے کہ مسلمان کا اصل مسئلہ ہے شہادت حق، فتح و شکست اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ جس مسلمان نے شہادت حق کا فرض ادا کردیا وہ میدانِ جنگ میں ہار کر بھی ’’کامیاب‘‘ ہے اور جو باطل پر کھڑا ہوا ہے وہ فتح یاب ہو کر بھی ناکام ہے۔ اس سلسلے میں اقبال کے ایک بے مثال شعر پر بھی نظر ڈال لینا مفید ہوگا۔ اقبال نے فرمایا ہے۔
ولایت، پادشاہی، علم اشیا کی جہانگیری
یہ سب کیا ہیں فقط اک نکتۂ ایماں کی تفسیریں
اقبال کہہ رہے ہیں اللہ جب کسی کو خود اپنا دوست بناتا ہے تو وہ اس کی ذات، نسل، رنگ، امارت، غربت، اور سائنسی ترقی کو دیکھ کر ایسا نہیں کرتا بلکہ اس کی وجہ اس کا ایمان ہوتا ہے۔ اس کے ایمان کی ترقی ہوتی ہے۔ اس طرح خدا جب خود کسی کو حکمرانی عطا کرتا ہے تو اس کا بھی ظاہری اسباب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا بلکہ اس کا سبب بھی ایمان کا فروغ ہوتا ہے۔ اس طرح جب وہ کسی کو علم اشیا کی جہانگیری عطا کرتا ہے تو اس کی بنیاد بھی صرف اور صرف ایمان ہوتا ہے۔ لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ باطل پر کھڑے ہوئے لوگوں کو سیاسی یا عسکری غلبہ حاصل نہیں ہوسکتا۔ لیکن بہرحال ان کے غلبے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ لوگ حق پر بھی ہیں۔ دنیا پر غلبے کے خارجی اسباب بھی ہوتے ہیں۔ مثلاً غیر معمولی عسکری، معاشی اور تکنیکی طاقت۔ منگولوں کے پاس نہ کوئی سائنس تھی، نہ ٹیکنالوجی، ان کے پاس نہ معاشی طاقت تھی نہ روحانی طاقت مگر ان کے پاس غیر معمولی عسکری طاقت تھی۔ اسی طاقت کی بنیاد پر وہ ایک بڑی قوت بن کر اُبھرے اور غالب ٹھیرے۔
دیکھا جائے تو حسن نثار نے عریانی و فحاشی کے معنی ہی بدل دیے۔ ان کا کہنا ہے کہ عریانی و فحاشی حدود سے تجاوز ہے۔ حالاں کہ حد سے تجاوز کرنے والے کو قرآن طاغوت کہتا ہے۔ اس اصطلاح کے تناظر میں نمرود بھی طاغوت تھا۔ فرعون بھی طاغوت تھا۔ سابق سوویت یونین بھی طاغوت تھا۔ امریکا بھی طاغوت ہے اور جدید مغرب بھی بحیثیت ایک تہذیب کے طاغوت ہے۔ بدقسمتی سے حسن نثار کی توجہ صرف عریانی و فحاشی کی اصطلاحوں پر مرکوز ہو کر رہ گئی، حالاں کہ عریانی و فحاشی اخلاقی زوال کی علامت ہیں اور اخلاقی زوال صرف اہل اسلام کی روشنی ہی میں افراد، قوموں اور تہذیبوں کے زوال کا سبب نہیں ہے بلکہ مغرب کے بڑے فلسفی اور دانش ور بھی اخلاقی زوال کو افراد قوموں اور تہذیبوں کے زوال کا سبب سمجھتے ہیں۔ افلاطون کی مغربی فکر میں یہ اہمیت ہے کہ وائٹ ہیڈ نے پورے مغربی فلسفے کو افلاطون کی فکر اور فلسفے کا حاشیہ قرار دیا ہے اور افلاطون نے صاف کہا ہے کہ ریاستیں شاہ بلوط کی لکڑی سے نہیں انسانی کردار سے بنتی ہیں اور افلاطون کی فکر سے آگاہ لوگوں کو معلوم ہے کہ اخلاقیات کے بغیر کسی انسانی کردار کا کوئی تصور نہیں کیا جاسکتا۔ یہاں افلاطون کے ایک اور قول کا ذکر ضروری ہے۔ افلاطون نے کہا ہے کہ سیاست کے مسئلے کا ایک ہی حل ہے اور وہ یہ کہ یا تو فلسفی کو حکمران بنادو یا حکمران کو فلسفی بنادو۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ افلاطون کے یہاں فلسفہ بجائے خود دانش نہیں تھا بلکہ دانش کی محبت تھا اور وہ دانش کی محبت اس لیے تھا کہ اس کے ذریعے حقیقت اولیٰ یا حق تک رسائی ہوسکتی تھی۔ ٹوائن بی عہد جدید کے ممتاز ترین مورخین میں سے ایک ہے۔ اس کا مشہور زمانہ قول ہے کہ تہذیبیں قتل سے نہیں مرتیں وہ خودکشی سے ہلاک ہوتی ہیں۔ یعنی تہذیبوں کی اخلاقی قوت کمزور پڑتی ہے تو تہذیبیں موت سے ہمکنار ہوتی ہیں۔ طاہر کامران صاحب نے اپنے ایک کالم میں زیر بحث موضوع کے حوالے سے بعض مغربی دانش وروں کے اقوال نقل کیے ہیں۔ یہ اقوال حسن نثار کی روحانی، اخلاقی، نفسیاتی اور جذباتی صحت بحال کرنے میں ان کی مدد کرسکتے ہیں۔ جج ڈیوسن نے کہا ہے کہ معاشرے کی فلاح بہبود کے لیے مستحکم اخلاقیات اچھی حکومت ہی کی طرح ناگزیر ہوتی ہے۔ معاشرے اکثر صورتوں میں خارجی دبائو کے بجائے اندر سے فنا ہوتے ہیں۔ جنرل ڈگلس آرتھر نے کہا ہے کہ تاریخ ایسی ایک مثال بھی پیش کرنے سے قاصر ہے جس میں قومیں اخلاقی زوال کے بعد سیاسی اور معاشی زوال کا شکار نہ ہوئی ہوں۔ گبن مغرب کا ممتاز مورخ ہے اس نے کہا ہے کہ سلطنت روما کا زوال اس کے اجتماعی تصور خیر اور انفرادی اخلاقیات کے زوال کا شاخسانہ تھا۔ گبن نے یہ بھی کہا ہے کہ جس طرح ریاضی اور طبیعات کے قوانین بدلے نہیں جاسکتے اس طرح اخلاقی قوانین بھی ناقابل تغیرّ ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو عریانی و فحاشی سے پیدا ہونے والی صورت حال مسلمانوں سمیت دنیا کی کسی بھی قوم کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔
حسن نثار کا روحانی سرطان، اخلاقی طاعون، نفسیاتی ہیضہ اور جذباتی پیچش انہیں مغرب کی سائنس اور تکنیکی ترقی سے مرعوب کرتی ہے مگر حسن نثار کو یہ معلوم نہیں کہ مغرب کے بڑے ذہن مغرب کی سائنس اور تکنیکی ترقی کو اس کے اخلاقی زوال کا نتیجہ سمجھتے ہیں۔ ٹوائن بی نے اس سلسلے میں صاف کہا ہے کہ مغرب کی تکنیکی ترقی اور اخلاقی زوال میں ایک ربط باہمی پایا جاتا ہے۔ ٹوائن بی نے جاپانی دانش ور اکیا کے ساتھ ایک مکالمے میں یہ کہنا بھی ضروری سمجھا کہ مغربی تہذیب کو مرنے سے بچایا جاسکتا ہے مگر اس سلسلے میں مغربی تہذیب کو دو کام کرنے ہوں گے۔ پہلا کام یہ ہے کہ وہ اپنے اندر کسی نہ کسی قسم کی روحانیت کو داخل کرے۔ دوسرا کام اسے یہ کرنا ہوگا کہ ٹیکنالوجی کے عشق سے جان چھڑائے۔ مغرب یہ دو کام کرے تو مغربی تہذیب بچ سکتی ہے ورنہ اس کی موت یقینی ہے۔ ایلون ٹوفلر مغرب کے بڑے ماہرین عمرانیات میں شامل ہیں۔ انہوں نے اپنی تحریروں میں یہ بات تسلیم کی ہے کہ جدید مغربی تہذیب ایک ایسی ٹرین بن چکی ہے جس کا حادثے کا شکار ہونا یقینی ہے۔ البتہ ٹوفلر کہتا ہے کہ ہمیں اس سلسلے میں مذہب کی مدد درکار نہیں۔ مغرب کا بحران سائنس اور ٹیکنالوجی نے پیدا کیا ہے اور سائنس اور ٹیکنالوجی ہی اس پر قابو پائیں گی۔ مگر حسن نثار مغرب سے اتنا متاثر ہیں کہ وہ مغرب کو کسی بحران میں مبتلا ہی نہیں دیکھتے۔ وہ مغرب کو نہ صرف یہ کہ حق سمجھتے ہیں بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ مسلمان بھی مغرب کی تقلید کریں۔ لیکن اگر مغرب مررہا ہے جیسا کہ ٹوائن بی نے کہا تو اس کی تقلید کرنے والے بھی آج نہیں تو کل موت سے دوچار ہوجائیں گے۔