افغانستان میں امریکا کی بدترین شکست

امریکا کے وزیر خارجہ انتھونی بلینکن نے افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا کے سلسلے میں سی آئی اے کے موجودہ سربراہ ولیم برنس اور سابق امریکی جنرل پیٹریاس کی تنقید کو مسترد کردیا ہے۔ انتھونی بلینکن نے کہا ہے کہ افغانستان سے امریکی فوجوں کا انخلا بالکل ٹھیک ہے کیوں کہ امریکا نے افغانستان میں اپنے تمام اہداف حاصل کرلیے ہیں۔ انہوں نے افغانستان میں امریکی اہداف پر گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ افغانستان میں القاعدہ ختم ہوگئی ہے یا کم از کم وہ امریکا پر حملوں کے قابل نہیں رہی۔ انہوں نے کہا کہ اب ہمیں وسائل کو چین اور موسمیاتی تبدیلیوں کے چیلنجوں پر صرف کرنا ہوگا۔ مثل مشہور ہے کھسیانی بلی کھمبا نوچے۔ اس مثل کے مصداق امریکا افغانستان میں اپنے ہی زخموں کو نوچ رہا ہے۔ تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو امریکی وزیر خارجہ نے افغانستان میں امریکی اہداف و مقاصد کے حصول کے حوالے سے جو کچھ کہا وہ دو سو فی صد جھوٹ ہے۔ امریکا افغانستان میں صرف القاعدہ کو ختم کرنے نہیں آیا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ وہ طالبان کو فنا کردے گا۔ اس کا ہدف تھا کہ افغانستان کو سیکولر ملک بنایا جائے۔ اس کا ایک مقصد یہ تھا کہ افغانستان کو ایک ’’پائیدار امریکی‘‘ یا ’’پائیدار جمہوری‘‘ حکومت مہیا کرے۔ امریکا افغانستان میں ان میں سے کوئی ہدف بھی حاصل نہیں کرسکا۔ امریکا کی 20 سالہ جارحیت کے باوجود طالبان زندہ و پائندہ ہیں۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان کے 70 فی صد علاقے پر طالبان کا کنٹرول ہے یا یہ علاقے طالبان کے زیر اثر ہیں۔ امریکا افغانستان کو سیکولر بھی نہیں بنا سکا۔ افغانستان اسلامی تھا اور اسلامی ہے۔ اشرف غنی کی کٹھ پتلی حکومت کی پائیداری کا یہ عالم ہے کہ امریکا اس کی پشت پر موجود نہ ہو تو طالبان اسے ایک ہفتے میں گرا دیں گے۔ امریکا نے افغانستان میں جو فوج اور جو پولیس کھڑی کی ہے اس کے حوصلے پست ہیں اور وہ امریکا کی مدد کے بغیر طالبان کی مزاحمت کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ یہی وجہ ہے کہ اس فوج اور پولیس کے اہلکار اکثر وفاداری تبدیل کرکے طالبان سے مل جاتے ہیں۔ اس فوج اور پولیس کے اہلکاروں نے گزشتہ دس برس میں امریکی فوجیوں اور خود افغان اہلکاروں پر درجنوں حملے کیے ہیں۔ بلاشبہ امریکا نے افغانستان میں القاعدہ کو کمزور کیا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ افغانستان میں القاعدہ کمزور ہوئی ہے تو اس کی جگہ داعش نے لے لی ہے۔ امریکا کا یہ اندیشہ بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ افغانستان سے امریکا کے مکمل انخلا کے بعد القاعدہ افغانستان میں پھر سر اٹھا سکتی ہے۔ افغانستان میں امریکا کی سب سے بڑی ناکامی یہ ہے کہ امریکا نائن الیون کے بعد طالبان کو دہشت گرد اور خون آشام کہا کرتا تھا۔ امریکا کا اصرار تھا کہ طالبان کو انسانی تہذیب نے چھوا بھی نہیں ہے مگر امریکا بالآخر انہی طالبان سے مذاکرات کی ’’بھیک‘‘ مانگتا ہوا پایا گیا۔ طالبان کی طاقت کا یہ عالم تھا کہ وہ دنیا کی واحد سپر پاور کے ساتھ مذاکرات کے لیے آمادہ نہ تھے۔ چناں چہ امریکا نے پاکستان پر دبائو ڈالا کہ وہ طالبان کو امریکا کے ساتھ مذاکرات پر مجبور کرے۔ ان حقائق کے تناظر میں دیکھا جائے تو امریکا کا یہ دعویٰ جھوٹ کے سوا کچھ نہیں کہ اس نے افغانستان میں اپنے اہداف اور مقاصد حاصل کرلیے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکا 20 سال کی جارحیت میں کوئی ہدف حاصل نہ کرسکا۔ البتہ ان 20 برسوں میں امریکا نے افغانستان کی جنگ پر ایک ہزار ارب ڈالر پھونک دیے۔ اس کے ڈھائی ہزار فوجی مارے گئے۔ 22 ہزار سے زیادہ بدترین زخمی ہوئے۔ بظاہر یہ ہلاکتیں بہت کم نظر آتی ہیں مگر افغانستان میں مقابلہ چیونٹیوں اور ہاتھیوں کے درمیان تھا۔ چناں چہ چیونٹیوں نے اگر ڈھائی ہزار ہاتھی مار گرائے اور 22 ہزار کو بری طرح زخمی کردیا تو یہ چیونٹیوں کی شاندار فتح ہے۔ لیکن یہ افغانستان میں طالبان کی فتح کی ’’معمولی تعبیر‘‘ ہے۔ طالبان کی فتح کی اصل تعبیر یہ ہے کہ افغانستان میں امریکا کی بدترین شکست اور طالبان کی بے مثال فتح 21 ویں صدی کا ایک معجزہ ہے۔ اس کی ’’دلیل‘‘ یہ ہے کہ امریکا اور طالبان کی سیاسی طاقت میں ایک اور ایک لاکھ کی نسبت تھی۔ طالبان کی طاقت ایک تھی اور امریکا کی طاقت ایک لاکھ تھی۔ معاشی اعتبار سے طالبان اور امریکا کے درمیان ایک اور ایک کروڑ کی نسبت تھی۔ طالبان کی معاشی طاقت ایک کے برابر تھی اور امریکا کی طاقت ایک کروڑ کے مساوی تھی۔ عسکری اعتبار سے امریکا اور طالبان میں ایک اور ایک ارب کی نسبت تھی۔ طالبان کی عسکری طاقت ایک کے ہم معنی تھی اور امریکا کی طاقت ایک ارب کے ہم معنی تھی۔ طاقت کے اس ہولناک عدم توازن کے باوجود افغانستان میں امریکا کو شکست ہوگئی۔ یہ افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف مجاہدین کی فتح سے زیادہ بڑی فتح ہے۔ اس لیے کہ سوویت یونین کے خلاف جہاد کرنے والوں کو امریکا اور یورپ کی حمایت حاصل تھی۔ مسلم دنیا کے تمام اہم ملک مجاہدین کی دامے، درمے، قدمے، سخنے مدد کررہے تھے مگر امریکا کی مزاحمت کرنے والوں کا کوئی پشت پناہ نہ تھا۔ انہیں روس کی حمایت حاصل تھی، نہ چین کی، ان کے ساتھ یورپ تھا نہ عالم اسلام تھا۔ سوال یہ ہے کہ پھر طالبان کی فتح کی بنیاد کیا ہے؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اللہ وسائل کو نہیں دیکھتا، نیت کو دیکھتا ہے، وہ دلوں کی طرف توجہ کرتا ہے۔ غزوئہ بدر میں طاقت کا ایک ہولناک عدم توازن موجود تھا۔ ایک طرف تین سو تیرہ بے سرو سامان لوگ تھے۔ دوسری طرف ایک ہزار کا لشکر جرار تھا۔ ان کے پاس وسائل کی فراوانی تھی مگر رسول اکرمؐ اور صحابہ کی جماعت صدق دل سے باطل کی مزاحمت پر آمادہ تھی۔ طالبان کے سامنے امریکا تھا مگر وہ امریکا سے خوف زدہ نہ تھے۔ وہ صدق دل سے امریکا کی مزاحمت پر آمادہ تھے۔ وہ دکھاوے کے لیے یہ مزاحمت نہیں کررہے تھے۔ کوئی دنیاوی مقصد ان کے پیش نظر نہیں تھا۔ وہ صرف اللہ کی کبریائی کا اعلان کرنا چاہتے تھے۔ یہی بات اہم تھی۔ صحیح نیت کے بعد اہم ترین چیز قربانی کا جذبہ ہے۔ خدا دیکھتا ہے کہ میرے بندے کیا میری کبریائی کے اعلان کے لیے جان لٹانے پر آمادہ ہیں۔ قربانی دینا بھی بڑی بات ہے مگر قربانیوں پر صبر اس سے بھی بڑی چیز ہے۔ افغانستان میں طالبان نے قربانیاں بھی دیں اور ان پر صبر کرکے بھی دکھایا۔ اللہ کو مومن کی استقامت بھی بہت پسند ہے۔ قربانیوں اور نقصان کے باوجود مومن اپنے مقصد پر ڈٹا رہتا ہے۔ جب یہ سب کچھ ہوجاتا ہے تو وہ چیز سامنے آتی ہے جسے اللہ کی نصرت کہا جاتا ہے۔ کسی کو 21 ویں صدی میں دیکھنا ہو کہ اللہ کی نصرت کیا ہوتی ہے تو اسے افغانستان میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کی شکست اور طالبان کی فتح میں اللہ کی نصرت کا دیدار ہوسکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نصرت الٰہی کے بغیر افغانستان میں امریکا کی شکست ممکن ہی نہیں
تھی۔ مگر نصرت الٰہی کے نزول کے تقاضے پورے کرنا مذاق نہیں۔ کون تھا جو افغانستان میں طالبان کا حریف نہ تھا مگر طالبان اپنے مشن پر ڈٹے رہے اور 20 سال کی مزاحمت افغانستان کا نقشہ بدل کر رکھ دیا۔ نائن الیون سے پہلے کا افغانستان طالبان کا افغانستان تھا۔ اب امریکا کی بدترین اور تاریخی شکست کے بعد افغانستان ایک بار پھر طالبان کا افغانستان ہے۔
افغانستان کو سلطنتوں کا قبرستان کہا جاتا ہے اور یہ بات ٹھیک ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ افغانستان میں برطانیہ کو شکست ہوئی۔ سوویت یونین کو شکست ہوئی اور اب امریکا افغانستان میں شکست سے دوچار ہوچکا ہے۔ اس تاریخ کی پشت پر اسلام ایک قوت کے طور پر موجود ہے مگر اس منظرنامے کا ایک کردار افغانستان کا ’’ملّا‘‘ بھی ہے۔ علامہ اقبال غلط یا صحیح برصغیر کے ملّا سے سخت ناراض تھے اور انہوں نے اپنی شاعری میں ملّا پر زبردست حملے کیے ہیں۔ انہوں نے فرمایا ہے۔
ملّا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد
٭٭٭
مجھ کو تو سکھادی ہے افرنگ نے زندیقی
اس دور کے ملا ہیں کیوں ننگِ مسلمان
٭٭٭
شیر مردوں سے ہوا بیشۂ تحقیق تہی
رہ گئے صوفی و ملّا کے غلام اے ساقی
٭٭٭
میں جانتا ہوں انجام اس کا
جس معرکے میں ملّا ہو غازی
اقبال کے یہ اشعار برصغیر کے ملا سے اقبال کی ناراضی کا اشتہار ہیں مگر اقبال افغانستان کے ملّا سے بہت خوش تھے۔ چناں چہ انہوں نے فرمایا۔
افغانیوں کی غیرت دیں کا ہے یہ علاج
ملّا کو اس کے کوہ و دمن سے نکال دو
اقبال کے مطابق افغانستان کا ملا اپنی قوم کی غیرت دیں کا علمبردار اور محافظ ہے۔ اس کا کمال یہ ہے کہ امن کے زمانے میں وہ مسجد اور مدرسے میں خدمات انجام دیتا ہے مگر جیسے ہی کوئی باطل قوت افغانستان کو غلام بنانے آئی ہے افغانستان کا ملّا ہتھیار اُٹھا کر جہاد پر نکل کھڑا ہوتا ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ کا یہ عجیب امتیاز ہے کہ مسلمانوں نے چودہ سو سال میں چار سپر پاورز کو شکست دیں۔ دو سپر پاورز کو انہوں نے اپنے عہد عروج میں شکست فاش دی مگر دو سپر پاورز کو انہوں نے اپنے عہد زوال میں دھول چٹائی کمال ہے۔

Leave a Reply