جاوید چودھری کے اکثر کالم پڑھ کر بے ساختہ غالب کا شعر زبان پر آجاتا ہے۔ غالب نے کہا ہے۔
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
یہ جاوید چودھری کی بدقسمتی ہے ان کی باتوں کو سمجھنے والے معاشرے میں موجود ہیں۔ وہ نہ صرف یہ کہ جاوید چودھری کی باتوں کو سمجھتے ہیں بلکہ ان کی بکواس کا جواب بھی لکھتے ہیں۔ اتفاق سے زیر بحث کالم بھی جاوید چودھری کے انہی کالموں میں سے ایک ہے جنہیں پڑھ کر غالب کا شعر یاد آجاتا ہے۔ ذرا دیکھیے تو اس کالم میں جاوید چودھری نے کیا کہا ہے۔ وہ لکھتے ہیں۔
’’ہم اگر آج پیچھے مڑ کر دیکھیں تو ہمیں محسوس ہوگا ہم اس ملک میں دو بڑی غلطیاں کرتے رہے ہیں، پہلی غلطی اس ملک کی بنیاد تھی، ہماری بنیاد میں کنفیوژن ہے، ہم نے ملک کی بنیاد اور بقا دونوں کو بھارت دشمنی سے وابستہ کردیا اور ہم دو باتیں بھول گئے، انسان مذہب بدل سکتا ہے لیکن یہ ہمسایہ نہیں بدل سکتا اور دوسرا نفرت وہ آگ ہوتی ہے جو دوسروں کو بعد میں اور اپنے آپ کو پہلے جلاتی ہے اور ہم اپنے آپ کو جلاتے چلے گئے، آج حالت یہ ہے کہ اگر عمران خان دہلی جا کر نریندر مودی سے ہاتھ ملالیں یا نریندر مودی اسلام آباد آکر عمران خان سے گلے مل لیں پورے ملک میں عمران خان کے خلاف پوسٹر لگ جائیں گے، یہ عرش سے فرش پر آجائیں گے جب کہ دنیا میں عرب اسرائیل سے معاہدے کررہے ہیں اور روس اور امریکا بھائی بھائی بن رہے ہیں اور کسی کو کوئی اعتراض نہیں۔ تیسری درخواست، مذہب انسانوں کا ہوتا ہے، ملکوں کا نہیں، حشر کے دن ہم انسانوں نے حساب دینا ہے ملک نے نہیں۔ چناں چہ ہم مذہب کو پرائیویٹ افیئر (ذاتی معاملہ) مان لیں، ملک میں کوئی شخص کسی شخص پر اپنا مسلک تھوپنے کی کوشش نہ کرے، ملک کی ساری مسجدیں، مدارس اور درگاہیں ریاست کی ملکیت ہونی چاہئیں، سعودی عرب، ایران اور امارات کی طرح خطبات بھی ریاست کے پابند ہونے چاہئیں، ہم بچ جائیں گے ورنہ ہم ایک دوسرے کو مسلمان بناتے بناتے ختم ہوجائیں گے۔
(روزنامہ ایکسپریس۔ 18 اپریل 2021ء)
مسلمانوں کی زندگی کا اصول ہے کہ مذہب پہلے آتا ہے باقی چیزیں بعد میں آتی ہیں۔ اس لیے ہم پہلے جاوید چودھری کے کالم کے اس حصے پر گفتگو کریں گے جو مذہب سے متعلق ہے۔ جاوید چودھری کا دعویٰ ہے کہ مذہب انسانوں کا ہوتا ہے ملکوں کا نہیں۔ کوئی راسخ العقیدہ اور صاحب علم انسان یہ بات کہہ ہی نہیں سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کائنات کی ہر چیز کا ایک مذہب ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ کائنات کی ہر شے اپنے خالق کو پہچانتی ہے اور اس کے بتائے ہوئے راستے پر چلتی ہے۔ چاند، سورج، ستارے اور شجر خدا کو سجدہ کرتے ہیں۔ قرآن کہتا ہے کہ بعض پتھر خوف خدا سے گر پڑتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ پتھروں کا بھی ایک مذہب ہوتا ہے۔ ان میں بھی اتنا شعور ہوتا ہے کہ وہ اپنے خالق کو پہچانتے ہیں اور اس کا خوف محسوس کرتے ہیں۔ ان کا خوف محسوس کرنا ہی ان کا مذہب ہے۔ تو جب چاند، سورج، ستاروں اور شجر ہجر کا بھی مذہب ہے تو پھر ملک کا مذہب کیوں نہیں ہوگا؟ اس سلسلے کی دوسری بات یہ ہے کہ ملک خود نہیں چلتے انہیں انسان چلاتے ہیں۔ چناں چہ اگر ملکوں کا مذہب نہیں ہوگا تو انسان ملک کو اپنے مذہب پر چلانے لگیں گے۔ ہمیں یہ حقیقت بھی یاد رکھنی چاہیے کہ ہر مذہب ایک سطح پر نظریہ ہوتا ہے اور دنیا میں کوئی ملک ایسا نہیں جس کا کوئی نظریہ نہ ہو۔ چین کا نظریہ سوشلزم ہے۔ امریکا کا نظریہ سیکولر ازم ہے۔ اسرائیل کا نظریہ یہودیت ہے۔ تو پھر پاکستان نے ایسا کون سا جرم کیا ہے کہ صرف پاکستان کا کوئی نظریہ یا اس کا کوئی مذہب نہیں ہونا چاہیے۔ جاوید چودھری ملک اور مذہب کو الگ کرتے ہوئے یہ حقیقت بھی فراموش کرگئے کہ کسی ملک کا مذہب ہو یا نہ ہو پاکستان کا بہرحال ایک مذہب ہے۔ اور یہ مذہب پاکستان کے حوالے سے اتنا اہم ہے کہ اگر مذہب نہ ہوتا تو پاکستان بھی نہ ہوتا۔ پاکستان دو قومی نظریہ کا حاصل ہے اور دو قومی نظر نسل، زبان اور جغرافیے سے وجود میں نہیں آیا۔ دو قومی نظریے کی اساس اسلام ہے۔ چناں چہ پاکستان کی اساس بھی اسلام ہے۔ پاکستان ہر چیز کو بھول سکتا ہے مگر اپنے قیام کے جواز کو ایک لمحے کے لیے بھی فراموش نہیں کرسکتا۔ پاکستان اپنے قیام کے جواز کو فراموش کرے گا تو پاکستان کی موجودگی کی منطق ہی ختم ہوجائے گی۔ اسلام نہیں تو پاکستان بھی نہیں۔
مذہب اور ریاست کے باہمی تعلق کے حوالے سے ہمیں مصور پاکستان علامہ اقبال کے موقف پر بھی ایک سرسری نظر ڈال لینی چاہیے۔ اقبال نے فرمایا ہے۔
جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
اقبال کہہ رہے ہیں کہ بادشاہت کا تجربہ ہو یا جمہوریت کا تجربہ دین کو سیاست اور سیاست کو دین سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے کہ اگر ہم ریاست و سیاست کو دین سے الگ کریں گے تو زندگی پھر چنگیزی یا طاقت پرستی کی نذر ہوجائے گی۔ تو کیا جاوید چودھری کا Ideal ’’چنگیزی‘‘ ہے۔ اقبال کی ایک نظم ’’دین و سیاست ہے ذرا دیکھیے کہ اقبال اس نظم میں کیا کہہ رہے ہیں۔
کلیسا کی بنیاد رہبانیت تھی
سماتی کہاں اس فقیری میں میری
خصومت تھی سلطانی وراہبی میں
کہ وہ سر بلندی ہے یہ سر بریزی
سیاست نے مذہب سے پیچھا چھڑایا
چلی کچھ نہ پیرِ کلیسا کی پیری
ہوئی دین و دولت میں جس دم جدائی
ہوس کی امیری، ہوس کی وزیری
دوئی ملک و دیں کے لیے نامرادی
دوئی چشمِ تہذیب کی نابصیری
یہ اعجاز ہے ایک صحرا نشیں کا
بشیری ہے آئینہ دارِ نذیری
اسی میں حفاظت ہے انسانیت کی
کہ ہوں ایک جنیدّی و ارد شیری
اقبال اسی نظم میں کہہ رہے ہیں کہ کلیسا مذہب اور سیاست کی یکجائی کا مظہر ہو ہی نہیں سکتا تھا اس لیے کہ اس کی بنیاد ترک دنیا میں تھی۔ اقبال کے بقول دین اور سیاست جیسے ہی جدا ہوئے زندگی ہوس کی نذر ہوگئی۔ اقبال کہہ رہے ہیں کہ یہ صرف رسول اکرمؐ کا اعجاز ہے کہ آپؐ نے سیاست و ریاست اور مذہب کو یکجا کرکے دکھایا اور بشری کو نذیری کا آئینہ بنا کر رکھ دیا۔ اقبال کے نزدیک انسانیت کی بقا و سلامتی اسی میں ہے کہ جنید بغدادی کا فقر اور اردشیر کی حکومت یکجا ہوتے ہیں یا نہیں۔ اس سلسلے میں اقبال کے کئی اور اشعار بھی اہم ہیں۔ اقبال نے فرمایا۔
پھر سیاست چھوڑ کر داخل حصارِ دیں میں ہو
ملک و دولت ہیں فقط حفظِ حرم کا اک ثمر
اقبال مسلمانوں کو ان کا اصول حیات سمجھتا رہے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ سیاست فی نفسہ اہم نہیں۔ مسلمانوں کے لیے ملک و دولت حرم اور اس کی تعلیم سے وفا داری کا ثمر ہیں۔ اقبال کے دو شعر اور یاد آئے۔
جان جائے ہاتھ سے جائے نہ ست
ہے یہی اک بات ہر مذہب کاتت
چٹّے بٹّے ایک ہی تھیلی کے ہیں
ساہوکاری، بسوہ داری، سلطنت
اقبال کہہ رہے ہیں کہ خواہ انسان کی جان چلی جائے مگر صداقت ہاتھ سے نہیں جانی چاہیے۔ یہ بات ہر مذہب کا جوہر ہے۔ اقبال کے نزدیک ساہوکاری، بسوہ داری اور سلطنت ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔ یہاں بھی اقبال دین کو اصل بتا رہے ہیں سلطنت کو نہیں۔ ہماری تہذیب میں سلطنت بھی دین سے ہے۔ چناں چہ وہ لازماً دین کے تابع بھی ہوگی۔ اقبال کی ایک نظم ’’مذہب‘‘ یاد آئی۔ اقبال کہہ رہے ہیں۔
اپنی ملّت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی
ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار
قوتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری
دامنِ دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاں
اور جمعیت ہوئی رخصت تو ملّت بھی گئی
اقبال کی یہ نظم جاوید چودھری اور ان کے موقف کے منہ پر ایک زناٹے دار تھپڑ کی حیثیت رکھتی ہے مگر جاوید چودھری کو اس سے کیا۔ ان کا نعرہ تو یہ ہے
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
جاوید چودھری نے دعویٰ کیا ہے کہ ہم نے اپنی بنیاد اور بقا دونوں کو بھارت کی دشمنی سے منسلک کردیا ہے۔ ہم نے اپنی پوری صحافتی اور علمی زندگی میں اس سے بڑا ’’تاریخی جھوٹ‘‘ آج تک نہیں سنا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان جو دشمنی ہے اس کا سبب نہ پاکستان ہے نہ پاکستان کی قیادت ہے نہ بانیان پاکستان ہیں۔ نہ پاکستان کا نظریہ ہے، اس کا سبب صرف اور صرف ہندوستان ہے۔ ہندوستان کی ہندو قیادت ہے۔ برصغیر نے مخصوص معنوں میں تین بڑی شخصیات پیدا کیں، سرسید، اقبال اور جناح۔ سرسید کسی زمانے میں ایک قومی نظریے کے علمبردار تھے۔ وہ کہتے تھے کہ ہندو اور مسلمان ایک خوبصورت دلہن کی دو آنکھیں ہیں مگر جب انہوں نے دیکھا کہ کانگریس کی قیادت فارسی اور اردو کو کچل رہی ہے اور ہندی کو آگے بڑھا رہی ہے تو انہوں نے مسلمانوں سے کہا کہ وہ کانگریس سے لاتعلق ہوجائیں اور اپنے الگ پلیٹ فارم سے جدوجہد کریں۔ اقبال سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا کے علمبردار تھے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں ہندو دیوتا رام کو ’’امام ہند‘‘ کہا ہے اور ایک نظم میں انہوں نے خاکِ وطن کے ہر ذرے کو اپنے لیے دیوتا قرار دیا ہے۔ مگر اقبال کی بھی جلد ہی قلب ماہیت ہوگئی اور وہ صرف اسلام اور مسلمانوں کے شاعر بن کر اُبھرے۔ بعدازاں انہوں نے 1930ء میں مسلمانوں کے لیے ایک الگ ریاست کا تصور پیش کیا۔ محمد علی جناح تو تھے ہی کانگریس کے لیڈر مگر انہوں نے کہا کہ 1930ء میں پہلی گول میز کانفرنس میں گاندھی اور نہرو کے رویے سے ثابت ہوگیا کہ اب مسلمان ہندوئوں کے ساتھ نہیں رہ سکتے۔ چناں چہ جناح دیکھتے ہی دیکھتے ایک قومی نظریے سے دو قومی نظریے کی طرف آگئے اور وہ بالآخر جناح سے قائد اعظم بن گئے۔ سرسید، اقبال اور جناح کی یہ قلب ماہیت ثابت کرتی ہے کہ نفرت مسلمانوں میں نہیں تھی ہندوئوں میں تھی۔ مسلمان خود الگ وطن کے تصور کی طرف نہیں گئے انہیں ہندوئوں نے اس طرف دھکیلا۔ بھارت کے سابق وزیر خارجہ جسونت سنگھ نے قائد اعظم کے حوالے سے جو کتاب لکھی ہے اس میں انہوں نے کہا ہے کہ جناح تقسیم برصغیر کے واحد ذمے دار نہیں ہیں۔ بلکہ گاندھی، نہرو اور سردار پٹیل بھی اس کے ذمے دار ہیں۔ اس کے باوجود قائد اعظم سے قیام پاکستان کے بعد پوچھا گیا کہ آپ پاکستان اور بھارت کے درمیان کس قسم کے تعلقات استوار کرنا چاہیں گے؟ اس کے جواب میں قائد اعظم نے کہا میں چاہوں گا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ویسے ہی تعلقات ہوں جیسے کہ امریکا اور کینیڈا کے درمیان ہیں۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ تقسیم کے وقت فسادات مسلمانوں نے نہیں ہندوئوں نے کرائے۔ پاکستان نے بھارت کو نہیں توڑا بھارت نے پاکستان کو توڑا۔ جاوید چودھری بتائیں پاکستان کا کون سا رہنما ہے جس نے بھارت کے ساتھ مذاکرات سے انکار کیا؟۔ لیاقت علی خان نے بھارت کے ساتھ مذاکرات کیے۔ جنرل ایوب نے بھارت کے ساتھ مذاکرات کیے۔ بھٹو نے بھارت کے ساتھ مذاکرات کیے۔ جنرل پرویز نے بھارت کے ساتھ مذاکرات کیے۔ مذاکرات سے جب بھی انکار کیا بھارت نے کیا۔ جاوید چودھری بتائیں کہ اگر مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل نہیں ہوا تو اس کا ذمے دار بھارت ہے یا پاکستان؟ اس کے باوجود بھی جاوید چودھری فرماتے ہیں کہ ہم نے اپنی بنیاد اور بقا کو بھارت دشمنی سے منسلک کیا ہوا ہے۔ اس کو کہتے ہیں
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی