چند روز پیشتر ہم ملک کے معروف اخبار روزنامہ خبریں میں یہ خبر شہہ سرخی کے ساتھ پڑھ کر ششدر رہ گئے۔
’’سعودی عرب نے بھارتیوں کو بڑا سرپرائز دیتے ہوئے ہندوئوں کی مذہبی کتابوں رامائن، مہا بھارت اور گیتا کو سعودی نصاب میں شامل کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ وژن 2030ء کے تحت رامائن اور مہا بھارت کو اسکولوں میں پڑھایا جائے گا۔ سعودی ولی عہد نے عرب میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب میں 4 لاکھ 44 ہزار ہندو رہتے ہیں، متحدہ عرب امارات کے بعد ہندو آبادی کا یہ دوسرا بڑا ملک ہے۔ (روزنامہ خبریں۔ 29 اپریل 2021ء)
اس خبر کی اشاعت کے تیسرے دن روزنامہ جنگ کراچی نے اس حوالے سے ایک دو کالمی خبر شائع کی۔ خبر کی پانچ سرخیاں اس طرح تھیں۔
o…سعودی نصاب میں ہندوئوں کی مقدس کتابیں شامل‘ بھارتی میڈیا
o…وژن 2030ء کے تحت رامائن اور مہا بھارت کے علاوہ یوگا اور آیوروید کو بھی نصاب میں شامل کیا جائے گا۔
o…بھارتی میڈیا نے سعودی وزارت تعلیم یا سعودی میڈیا کے کسی بھی سرکاری ذریعے کا حوالہ نہیں دیا۔
o…سعودی صحافیوں اور دانش وروں نے بھارتی میڈیا کی رپورٹس کی تردید کی۔
o…سرکاری سطح پر تردید یا وضاحت نہیں آئی۔
روزنامہ جنگ کی خبر کے مطابق مذکورہ خبر کو بھارت کے جن ممتاز اخبارات اور ویب سائٹس نے شائع اور پیش کیا ان میں ہندوستان ٹائمز، انڈیا ٹوڈے، نیوز 18، یاہو نیوز، ری پبلک ٹی وی اور دیگر شامل ہیں۔
تجزیہ کیا جائے تو اس خبر کے تین اہم پہلو ہیں۔ خبر کا ایک پہلو یہ ہے کہ سعودی عرب اپنے نصاب میں رامائن، مہا بھارت اور گیتا کو شامل کرنے والا ہے۔ خبر کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ مذکورہ خبر محض ’’گپ‘‘ محسوس نہیں ہوتی بلکہ اسے بھارت کے ممتاز اخبارات نے شائع کیا ہے۔ خبر کا تیسرا اہم پہلو یہ ہے کہ بھارت میں سعودی عرب کے سفارت خانے یا خود سعودی حکومت نے خبر کی تردید نہیں کی۔ اس حوالے سے سعودی عرب کا حالیہ رویہ کئی اعتبار سے اہم ہے۔ متحدہ عرب امارات اور کئی دوسرے عرب ملکوں نے اسرائیل کو تسلیم کیا۔ ذرائع ابلاغ میں یہ قیاس آرائی ہوئی کہ اس عمل کی پشت پر سعودی عرب ہے اور بعد کی خبروں سے اندازہ ہوا کہ یہ قیاس آرائی غلط نہ تھی۔ حال ہی میں یہ خبر آئی کہ سعودی عرب اور ایران کے اہلکاروں کے درمیان خفیہ مذاکرات ہورہے ہیں۔ سعودی عرب نے اس خبر کی تردید کی مگر چند دنوں بعد ہی سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے فرما دیا کہ سعودی عرب ایران کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنا چاہتا ہے۔ اس تناظر میں اندیشہ یہ ہے کہ ممکن ہے کچھ دنوں یا ہفتوں یا مہینوں بعد سعودی عرب سرکاری طور پر تسلیم کرلے کہ وہ واقعتاً اپنے نصاب میں رامائن، مہا بھارت اور گیتا کو شامل کررہا ہے۔ اصل میں ہوگا کیا اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرے گا تاہم حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب کیا کسی بھی اسلامی ملک کے نصاب میں ہندوئوں کی مقدس کتابوں کے مواد کو شامل کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔
ہندوستان میں 25 کروڑ مسلمان موجود ہیں مگر بھارت کے اسکولوں کے نصاب میں کہیں قرآن و حدیث، سیرت طیبہ یا اسلامی تاریخ موجود نہیں۔ برسوں پہلے ہماری نظر سے ہندوستان کے ایک اسکول کی نصابی کتاب گزری۔ کتاب میں رسول اکرمؐ پر ایک دو صفحے کا مضمون شامل تھا مگر مضمون کا عنوان تھا ’’محمد صاحب‘‘۔ مضمون میں رسول اکرم کو ایک رسول یا پیغمبر کی حیثیت سے پیش نہیں کیا گیا تھا بلکہ آپؐ کو ایک ’’تاریخی کردار‘‘ کی حیثیت سے سامنے لایا گیا تھا۔ مضمون میں آپؐ کی عظمتوں میں سے کسی عظمت کا ذکر نہ تھا۔ البتہ کتاب ہندوئوں کی تاریخی شخصیات کے بیان سے بھری ہوئی تھی۔ ان شخصیتوں کی تقدیس اور عظمت تفصیل سے بیان کی گئی تھی اور کیوں نہ کی جاتی مذکورہ بالا کتاب ہندوستان کی نصابی کتاب تھی وہ اسلامی جمہوریہ ہندوستان کی کتاب نہ تھی۔ اسرائیل میں مسلمان مجموعی آبادی کا 8 سے 10 فی صد ہیں مگر اسرائیل کے نصاب میں کہیں قرآن و حدیث، سیرت طیبہ یا صحابہ کرام کا ذکر موجود نہیں۔ البتہ اسرائیل کا نصاب حضرت موسیٰؑ، حضرت سلیمانؑ اور یہودی تاریخ کے اہم کرداروں کے تذکرے سے بھرا ہوا ہے۔ چین میں مسلمانوں کی آبادی کروڑوں میں ہے اور سنکیانگ کا صوبہ مسلم اکثریتی صوبہ ہے اور یہ صوبہ اتنا بڑا ہے کہ اس کا مجموعی رقبہ پاکستان کے رقبے سے دوگنا ہے۔ پاکستان کا رقبہ 8 لاکھ مربع کلو میٹر ہے۔ سنکیانگ کا رقبہ 16 لاکھ مربع کلو میٹر ہے مگر اس کے باوجود چین کیا سنکیانگ کے نصاب میں کہیں قرآن و حدیث، سیرت طیبہ، اسلامی تہذیب یا اسلامی تاریخ کے اہم کرداروں کا ذکر نہیں۔ چین کا نصاب سوشلزم اور اس کی تاریخ کے بڑے کرداروں کے تذکرے سے اٹا ہوا ہے۔ یورپ میں اب مسلمانوں کی آبادی چار کروڑ کے لگ بھگ ہے مگر یورپ کے کسی ملک کے نصاب میں اسلام کا ذکر موجود نہیں۔ ان کے نصاب میں کہیں رسول اکرمؐ پر توجہ مرکوز نہیں۔ کہیں اسلامی تاریخ کا حوالہ موجود نہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو سعودی عرب کیا کسی بھی مسلم ملک کے نصاب میں ہندو ازم کی مقدس کتابوں کے متن یا ہندوئوں کی تاریخ کے کرداروں کو شامل نہیں ہونا چاہیے۔
غور کیا جائے تو نئی نسلوں کی تعمیر و تشکیل میں والدین کے بعد تعلیمی اداروں کا کردار سب سے اہم ہوتا ہے اور تعلیمی اداروں کی صرف دو چیزیں اہم ہوتی ہیں۔ نصاب اور استاد، ہر قوم کا نصاب اس کے مذہبی یا غیر مذہبی معتقدات، اس کی تہذیبی روح اور تاریخی معنویت کا اظہار ہوتا ہے۔ ہر قوم اپنی نئی نسل کو اپنے معتقدات، اپنی تہذیبی روح اور تاریخی معنویت کے مطابق ڈھالنا چاہتی ہے۔ بعض قوموں کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ ان کے معتقدات بے مثال نہیں ہوتے۔ ان کی تہذیب شاندار نہیں ہوتی، ان کی تاریخ لاجواب نہیں ہوتی۔ چناں چہ انہیں دوسری قوموں کے معتقدات تہذیبی سانچے اور تاریخی تحرک سے سیکھنا پڑتا ہے مگر مسلمانوں کا معاملہ یہ ہے کہ ان کا مذہب بے مثال ہے۔ ان کی تہذیب لاجواب ہے اور ان کی تاریخ کا کوئی ثانی ہی نہیں ہے۔ جس امت کے پاس قرآن ہو اسے گیتا، توریت یا انجیل کیا سکھائے گی؟۔ جس امت کے پاس رسول اکرمؐ ہوں اسے رام، شری کرشن یا مہاتما بدھ سے کیا ملے گا؟ جس امت کے پاس ابوبکرؓ، عمرؓ، عثمانؓ اور علیؓ ہوں وہ ارجن، ابھی منیو اور لکشمن سے کیا سیکھے گی؟ جس امت کے پاس امام غزالی، مولانا روم، عطار اور ابن عربی ہوں اسے کسی بھی قوم کے عالم کیا پڑھائیں گے؟۔
بلاشبہ ہمارے زمانے تک آتے آتے زندگی اور دنیا ’’عالمگیر‘‘ ہوگئی ہے مگر ہمارے عہد کی عالمگیریت کسی روحانی اور اخلاقی اصول پر نہیں کھڑی۔ اس کی بنیاد انصاف اور توازن پر نہیں ہے۔ یہ عالمگیریت طاقت کی بنیاد پر کھڑی ہوئی ہے۔ چناں چہ دنیا میں صرف طاقت ور قوموں کی تہذیب پھیل رہی ہے۔ صرف طاقت ور قوموں کا کلچر عام ہورہا ہے، صرف طاقت ور قوموں کی زبانیں عالمگیر بن رہی ہیں۔ صرف طاقت ور قوموں کی تفریح اور کھیل عالمگیر ہورہے ہیں۔ مسلمانوں کے پاس قرآن ہے، حدیث ہے، فقہ کی شاندار روایت ہے، بے مثال شاعری ہے، عربی، فارسی اور اردو جیسی زبانیں ہیں مگر ان کی کوئی بھی چیز عالمگیر نہیں بن رہی۔ اس لیے کہ مسلمانوں کے پاس نہ سیاسی طاقت ہے، نہ معاشی طاقت ہے، نہ عسکری طاقت ہے۔ چناں چہ مسلمانوں کو عالمگیریت کے رد و قبول کے سلسلے میں بہت باخبر اور بہت حساس ہونا چاہیے۔
مسلم حکمرانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ جمہوریت کے عالمگیر ہونے کے باوجود جمہوریت کو قبول نہیں کرتے۔ سیاسی زندگی میں انہیں بادشاہت، فوجی آمریت، فوج کی بالادستی اور شخصی و خاندانی حکومت سے محبت ہے۔ ہمارے عہد میں آئین پرستی بھی عالمگیر ہوگئی ہے مگر مسلم حکمرانوں کو آئین سے بھی کچھ لینا دینا نہیں۔ آزاد عدلیہ کا ادارہ بھی عالمگیر بن چکا ہے مگر مسلم دنیا کے حکمرانوں کو آزاد عدلیہ بھی زہر لگتی ہے۔ ان دونوں دائروں میں انہیں صرف اپنی خواہش یا اپنی پسند کا انصاف درکار ہے۔ البتہ ہالی وڈ اور بالی وڈ کے عالمگیر کلچر پر ہمارے حکمرانوں کی رال ٹپکتی ہے۔ سندھ میں کوئی ہندو لڑکی مسلمان ہوجاتی ہے تو ہمارے حکمران اقلیتوں کے حقوق کی دہائی دینے لگتے ہیں، لیکن مغرب کی فکری اور تہذیبی یلغار سے ہمارے لاکھوں نوجوان ملحد بن رہے ہیں، یہ بات ہمارے حکمرانوں کو نظر نہیں آتی۔ یہ ایک سامنے کی بات ہے کہ سعودی عرب کے ولی عہد سعودی معاشرے کو مغرب کے رنگ میں رنگنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے دس سال میں 62 ارب ڈالر تفریحی شعبے پر صرف کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ ان کا یہ بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ 1979ء سے پہلے سعودی معاشرہ ’’نارمل معاشرہ‘‘ تھا مگر ایرانی انقلاب اور افغانستان کے جہاد نے اسے ’’ابنارمل‘‘ بنادیا۔ چناں چہ وہ معاشرے کو ایک بار پھر ’’نارمل‘‘ بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ ادھر پاکستان میں بھی جنرل باجوہ اینڈ کمپنی پاکستانی معاشرے کو ’’نارمل‘‘ بنانے کے مشن پر نکل کھڑی ہوئی ہے۔ چناں چہ مسلم معاشروں میں ’’روشن خیالی‘‘ اور ’’عالمگیریت‘‘ کے نام پر حکمران کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ سعودی عرب کے نصاب میں کیا کسی دن پاکستانی نصاب میں بھی گیتا اور مہا بھارت شامل ہوسکتی ہیں۔