کیا آپ نے کبھی سوچا تھا کہ دنیا میں کبھی کوئی کمیونزم سے بدتر نظریہ بھی آئے گا؟ ذرا دیکھیے تو پولینڈ کے صدر آن زلے دُودا کیا کہہ رہے ہیں۔ پولینڈ کے صدر آن زلے دودا نے پولینڈ میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ LGBT افراد کا نہیں ایک نظریے کا نام ہے۔ کمیونزم سے بھی زیادہ بدتر نظریے کا۔ بعض لوگ پوچھ سکتے ہیں کہ یہ LGBT کیا بلا ہے؟ اس فقرے میں سب سے اہم لفظ ’’بلا‘‘ ہے۔ LGBT واقعتاً ایک بلا ہے۔ اس اصطلاح میں ’’L‘‘ ہم جنس پرست عورت یا ’’Lesbian‘‘ کی علامت ہے۔ ’’G‘‘ ہم جنس پرستی مرد یا ’’Gay‘‘ کا استعارہ ہے۔ ’’B‘‘ ’’Bisexual‘‘ کا نشان ہے۔ اور ’’T‘‘ زنخے یا ’’Trans gender‘‘ کے لیے بروئے کار آنے والا حرف ہے۔ اب آپ کو معلوم ہوا کہ LGBT جیسی معصوم سی اصطلاح کو ہم نے بلا کیوں کہا ہے۔ لیکن اصل بات تو یہ تھی کہ LGBT افراد کا نہیں ایک نظریے کا نام ہے۔ پولینڈ کے صدر آن زلے دُودا LGBT کو صرف ایک نظریہ قرار دے کر نہیں رہ گئے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہمارے والدین کی نسل نے کمیونزم سے اس لیے نجات حاصل نہیں کی تھی کہ وہ کمیونزم کی گرفت سے نکل کر LGBT کی گرفت میں چلے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ کمیونسٹ عہد میں حکومت نئی نسل کو کمیونزم کی پٹی پڑھا کر اپنا دفاع کرتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ LGBT والے لوگ بھی یہی کررہے ہیں۔ حکومتی جماعت کے ایک اہم رہنما نے کہا کہ پولینڈ LGBT کے بغیر خوبصورت لگتا ہے۔ (روزنامہ ڈان کراچی، 14 جون 2020ء)
عیسائی دنیا جدیدیت کے تصورات، رویوں، رجحانات، عقائد اور نظریات کے آگے ہتھیار ڈالنے والوں کی دنیا ہے۔ اس دنیا نے ’’عقل پرستی‘‘ کے آگے ہتھیار ڈالے اور ’’وحی‘‘ کی روایت کو بے توقیر کیا۔ اس دنیا نے سیکولر ازم کے آگے ہتھیار ڈالے، لبرل ازم کے آگے ہتھیار ڈالے۔ کمیونزم کے آگے ہتھیار ڈالے۔ اس دنیا نے طاقت کی پوجا کی۔ جذبات کی پوجا کی اب یہ دنیا ’’جنسی جبلت‘‘ کی پوجا کررہی ہے۔ فرائیڈ صاف کہتا ہے کہ مذہب اور معاشرہ انسان کی جنسی جبلت پر پابندی لگا کر انسان کو بیمار بنادیتا ہے۔ مگر یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ ہم نے گزشتہ چالیس برسوں میں مغرب کے کسی اہم آدمی کو جنسی انحراف پر سرعام اعتراض کرتے نہیں دیکھا۔ یہ پہلا موقع ہے کہ یورپ کے ایک ملک کا صدر کہہ رہا ہے کہ LGBT افراد کا نہیں ایک نظریے کا نام ہے۔ سوال یہ ہے کہ پولینڈ کے صدر نے LGBT کو نظریہ کیوں کہا ہے؟۔
ہر نظریے کی ایک الٰہیات ہوتی ہے۔ فرق یہ ہے کہ خدا کا اقرار بھی نظریہ ہے اور اس کا انکار بھی نظریہ ہے۔ ہر نظریے کا ایک تصورِ علم یا Epistemology ہوتی ہے۔ ہر نظریے کا ایک تصورِ انسان ہوتا ہے۔ ہر نظریے کا ایک تصورِ زندگی ہوتا ہے۔ LGBT لوگوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ایک ایسا تصورِ زندگی اور ایک ایسا تصورِ کائنات رکھتے ہیں۔ جس کا کوئی خدا نہیں ہے۔ ان کا تصورِ علم یہ ہے کہ انسان کی انفرادی عقل بلکہ اس کے نفس کی خواہش جو کہے وہی علم ہے اور اس علم پر عمل کرنا چاہیے۔ جنسی انحرافات مذہبی معاشروں میں بھی ہوتے ہیں مگر ان معاشروں میں جنسی انحراف، ’’انحرافات‘‘ اور ’’گناہ‘‘ سمجھے جاتے ہیں اس لیے کہ وہ ایک کُل کا جزو ہوتے ہیں، لیکن جدیدیت نے جنسی انحرافات کو پوری زندگی بنادیا ہے۔ اس لیے LGBT لوگ افراد نہیں ایک نظریہ ہیں۔ جدید مغربی تہذیب میں Will to Power اور Will to Pleasure سے بڑی کوئی چیز نہیں۔ لذت میں جنسی لذت کا مقام اہل مغرب کے نزدیک سب سے بلند ہے۔ یہ ایسی لذت ہے جو کسی مذہب، کسی اخلاق، کسی تہذیب، کسی سماجیات، کسی عقل اور کسی منطق کی پابند نہیں۔ اس کے نزدیک انسانی رشتوں تک کی کوئی تقدیس نہیں۔ چناں چہ مغرب میں تحریم کے رشتوں میں جنسی تعلقات کافی عام بات ہیں۔ مغرب میں آپ کو ایسے گھر مل جاتے ہیں جہاں باپ بیٹی کے جنسی تعلقات ہوتے ہیں۔ جہاں بھائی بہن کے درمیان جنسی تعلقات موجود ہوتے ہیں۔ یہ ایک ایسا تصورِ زندگی اور ایک ایسا تصورِ انسان ہے جو انسانی تاریخ میں پہلے کبھی موجود نہیں رہا۔
خاندان انسانی تہذیب کی بنیاد ہے۔ خاندان نہیں تو تہذیب بھی نہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو LGBT لوگ اس لیے بھی ایک نظریہ ہیں کہ مغرب اور مغرب کے زیر اثر بعض مشرقی معاشروں میں بھی اب ہم جنس پرست مرد اور ہم جنس پرست عورتیں ’’خاندان‘‘ تشکیل دے رہی ہیں۔ ظاہر ہے کہ نہ مردوں، مردوں کے درمیان شادی سے انسانی نسل کی بقا ممکن ہوسکتی ہے، نہ خواتین اور خواتین کے درمیان شادی یا جنسی تعلق سے نسل انسانی کی بقا کی صورت پیدا ہوسکتی ہے۔ چناں چہ LGBT لوگ خاندان اور نسل انسانی کی بقا کے خلاف ایک بھیانک سازش کررہے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ مغرب میں ہم جنس پرستوں کی تعداد سیکڑوں میں تھی۔ پھر ایک وقت آیا کہ ان کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ اس وقت مغرب میں ہم جنس پرستوں کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ ایک نظریہ بنے بغیر ہم جنس پرستوں اور دیگر کی تعداد کروڑوں تک نہیں پہنچ سکتی تھی۔
آج سے تیس چالیس سال پہلے تک مشرق کیا مغرب میں بھی ہم جنس پرستی اور جنسی انحراف کی دوسری صورتیں ’’Abnormal‘‘ سمجھتی جاتی تھیں لیکن آج مغربی دنیا میں LGBT لوگ اور ان کے رجحانات کو ’’Normal‘‘ سمجھ لیا گیا ہے۔ اس کی دو بنیادی وجوہ ہیں۔ ایک یہ کہ مغرب میں مذہب کا ادارہ بدترین زوال سے دوچار ہوچکا ہے۔ برطانیہ کے ممتاز جریدے ’’ڈی اکنامسٹ‘‘ کے ایک قدرے پرانے سروے کے مطابق مغربی یورپ میں 75 فی صد افراد کسی خدا اور کسی مذہب پر ایمان نہیں رکھتے۔ مشرقی یورپ میں خدا اور مذہب پر ایمان نہ رکھنے والوں کی تعداد تقریباً 80 فی صد ہے۔ مغرب میں LGBT لوگوں اور ان کے رجحانات کو ’’Normal‘‘ سمجھنے کی دوسری بڑی وجہ ان کی بڑھتی ہوئی تعداد ہے۔ مغرب میں ’’تعداد‘‘ ایک سطح پر ’’سیاسی‘‘ یا ’’جمہوری‘‘ مسئلہ بن جاتی ہے۔ جمہوریت کا اصول اکثریت ہے۔ مغرب کی اکثریت کو LGBT لوگوں پر کوئی اعتراض نہیں تو مسئلہ ہی ختم ہوگیا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو بھی LGBT لوگ ’’افراد‘‘ سے کہیں زیادہ ایک ’’نظریہ‘‘ نظر آتے ہیں۔ مغرب میں ہم جنس پرستی کس حد تک قابل قبول ہوگئی ہے اس کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ دی اکنامسٹ کے ایک سروے کے مطابق مغرب میں اب 25 سے 30 فی صد ایسے ’’مسلمان‘‘ پائے جاتے ہیں جو ہم جنس پرستی کے بارے میں منفی رائے نہیں رکھتے۔ ہم سے مغرب میں آباد کئی مسلم تارکین وطن پوچھ چکے ہیں کہ اگر ہم پر اچانک اپنے بھائی یا بہن کے ہم جنس پرست ہونے کا انکشاف ہو تو ہم اس کے ساتھ کیا رویہ اختیار کریں؟ ہم اسے سمجھائیں؟ ڈانٹیں؟ ترک کردیں؟ یا اسے تقدیر سمجھ کر قبول کرلیں؟ LGBT لوگ مغرب میں ایک نظریہ نہ بنتے تو یہ صورت حال کبھی رونما نہیں ہوسکتی تھی۔
مغرب کو انسان کے احترام کی ہوا بھی نہیں لگی مگر بہرحال وہاں انسانی حقوق کے سلسلے میں کافی شور و غوغا مچا ہوا ہے۔ جیسے ہی کوئی گروہ سیاسی یا جمہوری اعتبار سے اہم ہوتا ہے اس کے ’’حقوق‘‘ کے تحفظ کا سوال اُٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ چناں چہ مغرب میں LGBT لوگوں کے ’’حقوق‘‘ کے تحفظ پر بڑا زور دیا جارہا ہے۔ یہ صورت حال اس امر کا ثبوت ہے کہ مغربی دنیا میں LGBT لوگ ’’افراد‘‘ نہیں رہے وہ ایک نظریہ بن کر زندگی کے مرکزی دھارے میں شامل ہوگئے ہیں۔
مشرق بالخصوص مسلم دنیا کے بہت سے لوگ اس گمان میں مبتلا رہتے ہیں کہ مغرب کی شیطنت صرف مغرب تک محدود ہے۔ ایسے لوگوں کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ مغرب اب کسی جغرافیے کا نام نہیں۔ مغرب ایک نظریے کا نام ہے۔ ایک تناظر کا نام ہے۔ ایک اقداری نظام کا نام ہے۔ ایک تصورِ انسان کا نام ہے۔ ایک تصورِ زندگی کا نام ہے۔ یہ چیزیں صرف مغرب میں موجود نہیں ہر جگہ موجود ہیں۔ آپ کے اخبار میں آپ کے رسالے میں۔ آپ کے ٹی وی اسکرین پر۔ آپ کے پسندیدہ ڈرامے میں۔ آپ کی پسندیدہ فلم میں۔ آپ کی پسندیدہ موسیقی میں۔ آپ کے انٹرنیٹ کنکشن میں۔ آپ مغرب سے بچ کر کہاں جائیں گے۔ آج سے سو سال پہلے اقبال نے ہندوستان کی ’’روحانیت‘‘ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ہندوئوں کے دیوتا شری رام کو ’’امام ہند‘‘ کا خطاب دیا۔ انہوں نے ہندوئوں کے دیوتا شری کرشن کے فلسفہ عمل کو سراہا۔ انہوں نے گوتم بدھ کی تعریف کی۔ آج اُسی ہندوستان کی عدالت عظمیٰ ہم جنس پرستی کو ’’قانونی‘‘ قرار دیے ہوئے ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ بھارتی عدالت عظمیٰ نے جب ہم جنس پرستی کو قانونی قرار دیا تو بھارت کی قدیم ترین جماعت کانگریس نے اس کا ’’خیر مقدم‘‘ کیا۔ بی جے پی اس پر ’’خاموش‘‘ رہی۔ ہندوستان کی اہم روحانی شخصیت شری شری روی شنکر نے فیصلے کو دل و جان سے قبول کیا۔ ہم نے اس صورت حال پر فرائیڈے اسپیشل کے لیے مضمون لکھنا شروع کیا تو ہمیں خیال آیا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بھی کوئی نہ کوئی لبرل اور سیکولر اس فیصلے کی حمایت ضرور کرے گا۔ ہمارا خیال غلط نہ تھا۔ ریما عمر نے روزنامہ ڈان میں پورے صفحے کا مضمون لکھ کر بھارتی عدالت عظمیٰ کے فیصلے کو سراہا۔ ہمیں گمان تھا کہ علما اور مذہبی و سیاسی رہنمائوں میں سے کوئی نہ کوئی ریما عمر کے مضمون کا نوٹس لے گا مگر ہمارے علما اور مذہبی و سیاسی رہنما اپنے عہدوں، مناصب، اپنے Status، اپنی شہرت کو ’’Enjoy‘‘ کرنے میں اتنے مصروف ہیں کہ ان کے پاس قوم کی موجودہ اور ممکنہ اخلاقی حالت پر توجہ دینے کے لیے وقت ہی نہیں۔ ہمیں یہ سوال بار بار پریشان کرتا ہے کہ جب اللہ قیامت میں ہمارے علما اور مذہبی و سیاسی رہنمائوں سے پوچھے گا کہ تم نے مغرب کی شیطنت کے مقابلے کے لیے فکری اور عملی طور پر کیا کیا تو یہ لوگ کیا جواب دیں گے؟۔