ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اپنے مذہب، تہذیب اور تاریخ کا پاسبان اور اپنے نبی کی امت کا محافظ ہو۔ اس کے بغیر کوئی مسلمان، مسلمان کہلانے کا حق دار نہیں بن سکتا۔ عام مسلمانوں میں ہزار برائیاں ہوتی ہیں مگر وہ اپنے مذہب، تہذیب، تاریخ اور امت کے سلسلے میں جذباتی ہوتے ہیں۔ مگر امت مسلمہ کے حکمرانوں کا معاملہ اس کے برعکس یہ ہے کہ امت مسلمہ کے بادشاہ، جرنیل اور سول حکمران اپنے مذہب، تہذیب، تاریخ اور اپنے نبی کی امت کے غدار ہیں۔
قائد اعظم کو معلوم تھا کہ قیام پاکستان کے سلسلے میں ہندوستان کے مسلم اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں نے قائدانہ کردار ادا کیا ہے۔ وہ ان صوبوں کے مسلمانوں کو ’’مینارئہ نور‘‘ کہا کرتے تھے۔ ان کو بھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں کی اتنی فکر تھی کہ ایک بار انہوں نے کہا کہ اگر بھارت نے اپنی مسلم اقلیت کا تحفظ نہ کیا تو پاکستان بھارت میں مداخلت کرے گا۔ ظاہر ہے کہ مداخلت سے ان کی مراد عسکری مداخلت سے تھی۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ اگر بابری مسجد قائداعظم کے زمانے میں شہید ہوتی تو قائد اعظم پاک فوج کو بھارت میں مداخلت کا حکم ضرور دیتے۔ یا اگر گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام قائد اعظم کی موجودگی میں ہوا ہوتا تو بھی قائد اعظم پاک فوج کو بھارت پر حملے کا حکم دے ڈالتے۔ ایک مسلم حکمران اپنے مذہب، اپنی تہذیب، اپنی تاریخ اور امت مسلمہ کے تحفظ کے سلسلے میں بے باک ہوتا ہے۔ اقبال نے کیا خوب کہا ہے۔
ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
مگر پاکستان کے حکمرانوں نے قائد اعظم کے تصور کے مطابق بھارت کے مسلمانوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ بھارت میں گزشتہ 73 سال کے دوران پانچ ہزار سے زیادہ چھوٹے بڑے مسلم کش فسادات ہوئے ہیں مگر پاکستان کے حکمرانوں نے اس سلسلے میں کچھ اور کیا بیان دینے کا حق بھی ادا نہیں کیا۔ چلیے بھارت کے مسلمان تو پاکستان کے حکمرانوں کے لیے ’’سیاسی ذمے داری‘‘ نہیں تھے مگر مقبوضہ کشمیر کے مسلمان تو پاکستان کی سیاسی ذمے داری بھی ہیں۔ قائداعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا ہے۔ پاکستان کا پورا دفاع کشمیر مرکز ہے اور بھارت نے گزشتہ 25 سال کے دوران کشمیر میں ایک لاکھ مسلمانوں کو شہید کردیا ہے۔ بھارتی فوجیوں نے 10 ہزار سے زیادہ مسلم خواتین کی عصمتیں پامال ہیں۔ ہزاروں افراد جیلوں میں پڑے سڑ رہے ہیں۔ ہزاروں افراد لاپتا ہیں۔ کشمیری پاکستان کے وقت کے مطابق اپنی گھڑیاں ملاتے ہیں۔ وہ نعرہ لگاتے ہیں۔ تیرا میرا رشتہ کیا لا الہ الا اللہ۔ مگر پاکستان کا حکمران طبقہ کشمیریوں کے تحفظ کے لیے کچھ نہیں کرتا۔ پاکستان کا حکمران طبقہ کشمیریوں کے سلسلے میں صرف لفاظی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ پاکستان کے حکمران کہتے ہیں ہمارے دل کشمیریوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں لیکن پاکستان کے حکمرانوں کے پاس دل ہی نہیں ہے۔ دل ہوتا تو کشمیر کب کا آزاد ہو کر پاکستان کا حصہ بن چکا ہوتا۔ دل ہے تو کشمیری مسلمانوں کے پاس اور یہ دل واقعتاً پاکستان کے لیے دھڑکتا ہے۔
قائد اعظم نے اسرائیل کو مغرب کا ناجائز بچہ قرار دیا ہے۔ اقبال نے اسرائیل کو مشرق وسطیٰ میں مغرب کی چوکی باور کرایا ہے لیکن یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ عرب دنیا کے حکمران نہ اسرائیل کے قیام کو روک سکے نہ اسرائیل کے مقابلے کا حق ادا کرسکے۔ عرب ریاستوں نے 1967ء میں اسرائیل سے پنجہ آزمائی کی اور منہ کی کھائی۔ عرب ریاستوں نے 1973ء میں اسرائیل کے خلاف جنگ لڑی اور بری طرح ناکام ہوئے۔ ایک طویل عرصے تک اسرائیل کی جتنی مزاحمت کی یاسر عرفات اور پی ایل او نے کی۔ اب برسوں سے حماس فلسطین میں ریاست کا کردار ادا کررہی ہے۔ حماس کہنے کو ایک تنظیم ہے مگر وہ کبھی ایک حکومت کی طرح سامنے آتی ہے۔ کبھی ایک قوم بن کر کھڑی ہوجاتی ہے اور کبھی ایک ریاست کا کردار ادا کرتی ہے۔ اسرائیل نے حماس کے دو رہنمائوں شیخ یٰسین اور عبدالعزیز رنتیسی کو شہید کیا۔ اس نے خالد مشعل کو زہر دیا مگر اسرائیل حماس کو ختم کرسکا نہ اس کی قوت مزاحمت کو سلب کرسکا۔ فلسطین کے دفاع کے لیے حماس نے اب تک وہ کیا ہے جو پوری عرب لیگ بھی نہ کرسکی۔ فلسطین کے سلسلے میں عرب حکمرانوں کا کردار مجرمانہ ہے۔ عرب
حکمران ہی تھے جنہوں نے یاسر عرفات کو اسرائیل کے ساتھ اوسلو امن سمجھوتے کے لیے مجبور کیا۔ یاسر عرفات نے اوسلو امن سمجھوتے پر دستخط بھی کیے اور امن کا نوبل انعام بھی حاصل کیا۔ مگر وہ اور ان کے پشت پناہ عرب حکمران اسرائیل سے اوسلو سمجھوتے کی پاسداری نہ کراسکے۔ صہیونیوں نے اوسلو امن سمجھوتے پر دستخط کرنے والے اسرائیلی وزیراعظم اسحق رابن کو مار ڈالا اور اوسلو سمجھوتے کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا۔ یہاں تک کہ اسرائیل نے یاسر عرفات کو ساڑھے تین سال تک ان کے دفتر میں محصور رکھا اور انہیں زہر دے کر مار ڈالا۔ یاسر عرفات کے منظر سے ہٹنے کے بعد حماس فلسطین کی واحد ترجمان اور محافظ بن کر اُبھری۔ اسرائیل نے غزہ کو دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل میں تبدیل کردیا ہے۔ اسرائیل نے کئی بار غزہ پر جارحیت مسلط کی مگر وہ نہ حماس کو فنا کرسکا نہ اس کی عوامی قوت کو ختم کرسکا۔ اس وقت جو منظرنامہ ہمارے سامنے ہے اس میں اسرائیل ایک ایٹمی طاقت ہے۔ وہ سر سے پائوں تک اسلحے میں ڈوبا ہوا ہے۔ امریکا اس کے ساتھ ہے۔ یورپ اس کے ساتھ ہے مگر وہ حماس کا کچھ بھی بگاڑ نہیں پارہا۔ حماس نے جنگ کے ابتدائی سات دنوں میں اسرائیل پر تین ہزار سے زیادہ راکٹ پھینکے۔ اس کے نتیجے میں اسرائیل کا وسیع علاقہ سناٹے میں ڈوب گیا۔ اس کے ہوائی اڈے ویران ہوگئے۔ ہزاروں یہودی بنکروں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے۔ حماس ایک تنظیم ہے مگر اس کی مزاحمت میں ایک ریاست کا سا رنگ ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ عرب حکمران کیا کررہے ہیں؟ انہوں نے دھڑا دھڑ اسرائیل کو تسلیم کیا ہے۔ انہوں نے فلسطینیوں کو تنہا کیا ہے اور اسرائیل کی قوت میں غیر معمولی اضافہ کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ غزہ میں اسرائیل کی جارحیت نے تمام عرب حکمرانوں کی اصل حقیقت آشکار کردی ہے۔ عرب حکمرانوں کی اصل حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنے مذہب، اپنی تہذیب، اپنی تاریخ اور اپنے نبی کی امت کے ساتھ نہیں ہیں۔ بلکہ وہ اسرائیل جیسی شیطانی طاقت کے ساتھ ہیں۔ اصولی اعتبار سے دیکھا جائے تو غزہ پر اسرائیل کے وحشیانہ حملوں کے بعد اسرائیل کو تسلیم کرنے والی تمام عرب ریاستوں کو اسرائیل
کے ساتھ سفارتی تعلق توڑ لینا چاہیے تھا۔ اس کے برعکس اطلاعات یہ آرہی ہیں کہ مختلف عرب ریاستیں حماس پر دبائو ڈال رہی ہیں کہ وہ اسرائیل پر راکٹ نہ برسائے۔ اگر وہ ایسا کرے گی تو عرب حکمران غزہ کی مالی امداد بند کردیں گے۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ عرب حکمران ظالم کے بجائے مظلوم کا ہاتھ پکڑ رہے ہیں۔ جارح کے بجائے مجروح کا راستہ روک رہے ہیں۔ قائداعظم نے ایک بار کہا تھا کہ ہم فلسطین کا دفاع کریں گے خواہ اس کے لیے ہمیں تشدد کا راستہ ہی کیوں نہ اختیار کرنا پڑے، مگر عرب حکمران نہ دامے درمے فلسطینیوں کی مدد کررہے ہیں، نہ قدمے سخنے ان کے لیے کچھ کررہے ہیں۔
چلیے تسلیم کہ امریکا دنیا کی واحد سپر پاور ہے اور مسلم حکمران اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ مان لیا کہ چین اُبھرتی ہوئی سپر پاور ہے اور مسلم حکمران سنکیانگ کے مسلمانوں کی مدد نہیں کرسکتے۔ ہمیں اعتراف ہے کہ بھارت اور اسرائیل کا سر کچلنا بھی آسان نہیں۔ چناں چہ ان کے سلسلے میں مسلم حکمرانوں کی بے حسی اور بے بسی قابل فہم ہے۔ مگر مسلم حکمرانوں کی کمزوری کا یہ عالم ہے کہ ان کے لیے برما بھی ایک سپر پاور ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو مسلم دنیا کے حکمران برما کے مسلمانوں ہی کی مدد کردیتے مگر تاریخ کا ریکارڈ بتارہا ہے کہ مسلم دنیا نے میانمر یا برما کے مسلمانوں کے لیے بھی کچھ نہیں کیا۔ انہوں نے برما کے مسلمانوں کی نسل کشی ہونے دی۔ انہوں نے برما کے مسلمانوں کے لیے نہ آواز اُٹھائی، نہ او آئی سی کا اجلاس طلب کیا، نہ برما کی حکومت کو کوئی دھمکی دی۔ چناں چہ برما کے وحشیوں اور درندوں نے ہزاروں مسلمانوں کو مار ڈالا۔ ہزاروں خواتین کی آبروریزی کی اور 7 لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو برما سے نکال باہر کیا۔
مسلمانوں کی عصری تاریخ کا یہ عجیب پہلو ہے کہ جہاں مسلم حکمران، مسلم حکومتیں، مسلم ریاستیں اور مسلم افواج کچھ نہیں کرپاتیں وہاں چھوٹی چھوٹی تنظیمیں فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہیں۔ کشمیر میں مٹھی بھر مجاہدین بھارت کی 7لاکھ فوج سے نبرد آزما ہیں۔ فلسطین میں صرف حماس اسرائیل کا راستہ روکے ہوئے ہے۔ افغانستان میں چند ہزار مجاہدین نے وقت کی واحد سپر پاور امریکا کو منہ کے بل گرادیا۔ غور کیا جائے تو اس صورت حال کا مفہوم یہ ہے کہ اگر اپنے مذہب، تہذیب، تاریخ اور امت کا دفاع کرنے والے مٹھی بھر بھی ہوں تو وہ حکومتوں اور ریاستوں پر بھاری ہیں۔ یہی مٹھی بھر لوگ امت کا اصل جوہر اور اس کا اصل سرمایہ ہیں۔