اطلاعات و نشریات کے سابق وزیر اور ماہر اشتہاریات جاوید جبار نے عربی کی آڑ میں اسلام پر بھرپور حملہ کیا ہے۔ روزنامہ ڈان کراچی میں Arabic Pakistan کے عنوان سے شائع ہونے والے اپنے کالم میں جاوید جبار نے فرمایا ہے کہ ملک میں ہونے والے گزشتہ گیارہ عام انتخابات میں مذہبی جماعتوں نے آٹھ سے دس فی صد ووٹ حاصل کیے ہیں مگر اس کے باوجود عوامی زندگی مذہبیت اور تقوے کی ظاہر صورتوں میں ڈوبی نظر آتی ہے۔ جاوید جبار نے لکھا ہے کہ اگرچہ ملک میں ناخواندگی، جہالت اور بچوں و خواتین سے امتیازی سلوک موجود ہے تاہم پاکستان کے عوام کی اکثریت ’’Moderate‘‘ بھی ہے۔ ’’Balanced‘‘ بھی ہے اور ’’Open minded‘‘ بھی ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ عوام کی اکثریت انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا استعمال کررہی ہے۔ علاوہ ازیں وہ ’’جدیدیت‘‘ اور ’’تبدیلی‘‘ کی دوسری علامتوں مثلاً ٹیکنالوجی کو بھی بروئے کار لارہی ہے۔ جاوید جبار کے بقول بہت سے قدامت پسند خاندان بھی اپنے بچوں اور بچیوں کو عیسائیوں کے مشنری اسکولوں میں بھیجتے ہیں۔ وہ اس عمل میں اپنے مذہب کے لیے کوئی خطرہ محسوس نہیں کرتے۔ جاوید جبار نے لکھا ہے کہ اس منظرنامے میں یہ بات بہت ’’پریشان کن‘‘ ہے پنجاب کے گورنر اور پنجاب اسمبلی کے اسپیکر پہلی جماعت سے آخری درجے تک قرآن کی تعلیم کو لازمی بنانے کے لیے بہت ’’بیتاب‘‘ ہیں۔ جاوید جبار نے لکھا ہے کہ ہماری اجتماعی زندگی مذہبی اظہار اور عربی کی اصوات سے بھری ہوئی ہے۔ ہم عربی میں اذان سنتے ہیں۔ عربی میں نماز پڑھتے ہیں۔ ہم عربی میں قرآن پڑھتے ہیں۔ رمضان اور محرم میں تلاوت کا عمل بہت بڑھ جاتا ہے۔ عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ کے مواقع پر بھی عربی اپنی بہاریں دکھا رہی ہوتی ہے۔ لاکھوں افراد حج اور عمرے کے لیے مکے اور مدینے جاتے ہیں۔ ان مواقع پر بھی قرآن کی عربی عبارت بروئے کار آتی ہے۔ ہر گھر میں قرآن کا نسخہ موجود ہے۔ ایف ایم ریڈیو اور ٹیلی وژن چینلوں سے اذان نشر ہوتی ہے۔ قرآن کی آیات کے مطابق ہم زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ شادی بیاہ اور جینے مرنے میں بھی عربی آیات ہمارے ساتھ ہوتی ہیں۔ دفاتر اور گھروں میں قرآنی آیات آویزاں ہوتی ہیں۔ ہم سلام عربی میں کرتے ہیں، کسی کو الوداع بھی عربی میں کیا جاتا ہے۔ اس تناظر میں ہم پہلے ہی ’’Arabic Pakistan‘‘ ہیں۔ (روزنامہ ڈان 18 مئی 2021ء)
جاوید جبار نے اس بات پر بہت بغلیں بجائی ہیں کہ 1970ء سے 2018ء تک گیارہ انتخابات ہوئے اور ان انتخابات میں کبھی مذہبی جماعتوں کو 10 فی صد سے زیادہ ووٹ نہیں ملے۔ جاوید جبار کی یہ بات بالکل درست ہے کہ مذہبی جماعتیں کوئی بڑی انتخابی کامیابی حاصل نہیں کرپاتیں مگر انتخابی کامیابی حاصل نہ کرنے کے باوجود وہ معاشرے اور ریاست کو زیادہ مذہبی بنانے میں کامیاب ہیں۔ جاوید جبار نے خود لکھا ہے کہ مذہبی جماعتوں کے انتخابی سطح پر کامیاب نہ ہونے کے باوجود معاشرہ مذہبی ہوا جارہا ہے۔ یہاں ہمیں آج سے دس بارہ سال پہلے بھارت کے ممتاز صحافی ایم جے اکبر کا ڈان میں شائع ہونے والا ایک مضمون یاد آرہا ہے۔ مضمون میں ایم جے اکبر نے کہا تھا کہ پاکستان میں Father of the nation تو جناح صاحب ہیں اور وہ پاکستان کو سیکولر بنانا چاہتے تھے مگر مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کا ایک God father of the nation بھی ہے اور وہ ہیں مولانا مودودی۔ ایم جے اکبر نے لکھا کہ عجیب بات یہ ہے کہ پاکستان میں سکہ جناح صاحب کا نہیں بلکہ مولانا مودودی کا چل رہا ہے۔ ایم جے اکبر نے قائد اعظم کے بارے میں جھوٹ گھڑا کہ وہ سیکولر تھے۔ قائد اعظم کا سیکولر ازم سے کوئی تعلق ہی نہ تھا لیکن ایم جے اکبر کے بیان سے یہ حقیقت بہرحال واضح ہوئی کہ پاکستان میں بیانیہ مولانا مودودی کا چل رہا ہے۔ اس لیے کہ پاکستان آئینی اعتبار سے اسلامی ہے۔ ملک کے آئین میں لکھا ہے کہ اقتدار اعلیٰ عوام کے نہیں خدا کے پاس ہے اور ملک میں قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنایا جاسکتا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو جاوید جبار اور ان جیسے سیکولر لوگوں کے لیے اس بات پر خوش ہونے کا کوئی جواز نہیں کہ مذہبی جماعتیں انتخابات میں آٹھ سے دس فی صد ووٹ حاصل کرپاتی ہیں۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ آٹھ سے دس فی صد ووٹوں کے باوجود معاشرے کو بدل رہی ہیں تو جب وہ انتخابات میں چالیس پچاس فی صد ووٹ حاصل کریں گی تو معاشرے کی مذہبی ساخت کا کیا عالم ہوگا؟۔ دیکھا جائے تو معاشرے کو مذہبی بنانے کے سلسلے میں مذہبی طبقات کی کامیابی کی اصل وجہ یہ ہے کہ معاشرے میں مذہب کے لیے بڑے پیمانے پر قبولیت موجود ہے۔ اگر مذہبی جماعتوں نے اپنی سیاسی جدوجہد کو نظریاتی جدوجہد میں ڈھالا ہوتا تو مذہبی جماعتوں کا معاشرے پر زیادہ اثر ہوتا اور وہ انتخابی دائرے میں بھی زیادہ کامیاب ہوتیں۔
جاوید جبار نے معاشرے کی اکثریت کو جدیدیت سے ہم آہنگ ہونے کی بنیاد پر moderate یا میانہ رو، balanced یا متوازن اور open minded یا کھلے ذہن کا قرار دیا ہے۔ حالاں کہ تاریخ کا طویل تجربہ بتاتا ہے کہ جدیدیت نے فرد اور قوموں کو جتنا انتہا پسند، جتنا غیر متوازن اور جتنا بند ذہن کا حامل بنایا ہے۔ اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اسلام کفر اور شرک کو سخت ناپسند کرتا ہے مگر اسلامی معاشروں نے کافروں، مشرکوں اور دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو طاقت سے مٹا نہیں دیا۔ چناں چہ اسلامی ریاستوں میں عیسائی پھلے پھولے ہیں۔ یہودیوں نے موج کی ہے۔ ہندوئوں نے آزادی کے ساتھ زندگی بسر کی ہے۔ لیکن جدیدیت اور اس کے مظاہر نے ہر حریف کو طاقت کے زور سے مٹادیا۔ جدید امریکا جدیدیت کا ایک مظہر ہے اور جدید امریکا قائم کرنے والوں نے آٹھ سے دس کروڑ ریڈ انڈینز کو قتل کرکے ان کی زمین پر قبضہ کرلیا۔ انہوں نے ریڈ انڈینز کی نسل ہی ختم کردی۔ مغرب کے ممتاز دانش ور ایرک فرام نے اپنی تصنیف The Anatomy of Human Destructiveness میں اعداد وشمار سے ثابت کیا ہے کہ انسان جیسے جیسے جدید ہوا ہے اس کی خون آشامی اور جنگ پرستی بڑھی ہے۔ ایرک فرام کے اعداد وشمار کے مطابق گزشتہ پانچ سو سال میں مغرب کی طاقتوں نے 2600 سے زیادہ جنگیں لڑی ہیں۔ ایرک فرام نے لکھا ہے کہ قدیم انسان صرف اپنے دفاع میں دوسرے انسانوں کو قتل کرتا تھا مگر جدید انسان کھیل کے طور پر انسانوں کو مارتا ہے۔ یہ حقیقت عیاں ہے کہ دو عالمی جنگیں جدیدیت ہی کا شاخسانہ تھیں اور ان جنگوں میں 10 کروڑ انسان قتل ہوئے۔ روس کا انقلاب جدیدیت کا ایک مظہر تھا اور اس انقلاب میں 80 لاکھ لوگ مارے گئے۔ چین کا انقلاب بھی جدیدیت کی علامت تھا اور اس انقلاب میں 4 کروڑ لوگ قتل ہوئے۔ جدیدیت نے جو عالمی سیاسی و معاشی نظام بنایا ہے۔ اس میں صرف طاقت ور کو غلبہ حاصل ہے۔ جدیدیت نے جو اقوام متحدہ تشکیل دی ہے اس کے ’’جدید‘‘ اور ’’جمہوری‘‘ ہونے کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ اقوام متحدہ میں 5 بڑی طاقتوں کو ویٹو پاور حاصل ہے۔ اس کے باوجود جاوید جبار جدیدیت کو ’’میانہ رو‘‘ قرار دے رہے ہیں۔ اسے ’’متوازن‘‘ باور کرا رہے ہیں۔ اس سے ’’کھلا ذہن‘‘ وابستہ کررہے ہیں۔
تجزیہ کیا جائے تو جاوید جبار نے اپنے کالم میں عربی کی آڑ لے کر اسلام پر حملہ کیا ہے۔ انہوں نے تعلیمی اداروں میں قرآن پڑھانے کی مخالفت کی ہے۔ جاوید جبار نے لکھا ہے کہ ہماری زندگی میں ہر جگہ عربی کا عمل دخل ہے۔ تو کیا جاوید جبار چاہتے ہیں کہ ہم اذان بھی اردو یا پنجابی میں دینے لگیں اور نماز بھی اردو یا پنجابی میں پڑھنے لگیں۔ یہ بات ہم نے مذاق کے طور پر نہیں کہی۔ اتاترک کے ترکی میں کئی دہائیوں تک اذان بھی ترکی زبان میں دی گئی اور نماز بھی ترکی زبان میں پڑھی گئی ہے۔ عربی ہمارے مذہب کی زبان ہے، ہماری تہذیب کی زبان ہے۔ ہماری تاریخ کی زبان ہے۔ ہمارے علم کی زبان ہے۔ عربی جنت کی زبان ہے۔ اس کے باوجود جاوید جبار کو عربی کی فراوانی پر اعتراض ہے مگر انگریزی نہ ہمارے مذہب کی زبان ہے۔ نہ ہماری تہذیب کی زبان ہے۔ نہ ہماری تاریخ کی زبان ہے۔ نہ ہمارے مذہبی، تہذیبی اور ادبی علم کی زبان ہے۔ مگر اس کے باوجود وہ ہماری پوری اجتماعی زندگی کو گھیرے ہوئے ہے لیکن جاوید جبار نے آج تک نہیں کہا کہ ہماری زندگی پر انگریزی کیوں غالب ہے لیکن عربی کی فراوانی انہیں ہراساں کیے ہوئے ہے۔ مگر ان کا مسئلہ عربی کہاں ہے۔ قرآن کوئی عربی سکھانے والی کتاب تو نہیں ہے۔ قرآن تو اسلام سکھانے والی کتاب ہے۔ چناں چہ جاوید جبار کو اصل اعتراض اس بات پر ہے کہ معاشرہ پہلے ہی مذہبی ہے اسے قرآن کی تعلیم کے ذریعے مزید مذہبی کیوں بنایا جارہا ہے؟ لیکن جاوید جبار کھل کر یہ بات کہتے تو اس پر ہنگامہ ہوجاتا۔ چناں چہ انہوں نے عربی کی آڑ لے کر اسلام پر حملہ کیا ہے۔ ہم یہاں جاوید جبار سے عرض کرتے ہیں کہ ہر معاشرے کا ایک مثالیہ اس کا ایک Idealہوتا ہے اور ہر معاشرہ زیادہ سے زیادہ اپنے آئیڈیل سے ہم آہنگ ہونا چاہتا تھا۔ سابق سوویت یونین کا آئیڈیل سوشلزم تھا اور وہ فرد کو زیادہ سے زیادہ سوشلسٹ بنانے کے لیے کوشاں رہتا تھا۔ سوویت یونین میں کبھی کسی نے یہ سوال نہیں اُٹھایا کہ سوویت یونین کو زیادہ سے زیادہ سوشلسٹ یا کمیونسٹ کیوں بنایا جارہا ہے؟ فرانس کا آئیڈیل سیکولر ازم ہے اور فرانس خود کو زیادہ سے زیادہ سیکولر بنارہا ہے۔
چناں چہ فرانس نے صرف اسکارف پر پابندی نہیں لگائی اس نے بچوں کی مذہبی تعلیم کا در بھی بزور طاقت بند کردیا ہے۔ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا۔ پاکستان کے شہریوں کی اکثریت مسلمان ہے اور ان کا Ideal اسلام ہے۔ چناں چہ پاکستانیوں کی اکثریت چاہتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ اسلامی یا مذہبی ہوجائے۔ پنجاب کے گورنر اور پنجاب اسمبلی کے اسپیکر قرآن کی تعلیم کو تعلیمی نظام کا حصہ بنانے کے لیے اس لیے کوشاں ہیں کہ معاشرہ اور زیادہ اسلامی شعور کا حامل ہوجائے۔ مگر اس بات پر جاوید جبار اور ڈان کا دم گھٹ رہا ہے۔ جاوید جبار کو خوف محسوس ہورہا ہے کہ ہمارے طالب علم ترجمے کے ساتھ قرآن پڑھیں گے تو وہ اپنے خدا، اپنے رسول، اپنے مذہب، اپنی تہذیب اور اپنی تاریخ کے اور بھی قریب ہوجائیں گے۔ ایسا ہوجائے گا تو جاوید جبار اور ڈان کی جدیدیت ان کا کچھ نہ بگاڑ سکے گی۔ وہ انہیں سیکولر، لبرل اور مغربیت کا دلدادہ نہیں بناسکے گی۔