مسلم دنیا میں مغرب سے متاثر ہونے والوں کی تین اقسام ہیں۔
(1) مغرب پسند
(2) مغرب پرست
(3) مغرب زدہ
مغرب پسند مسلمان مغرب سے متاثر ہوتے ہیں مگر وہ اپنے مذہب کو چھوڑ نہیں دیتے۔ وہ اسلام اور مغرب کو بیک وقت اپنے شعور میں جگہ دیے ہوئے ہوتے ہیں۔ ان کا طرزِ فکر یہ ہوتا ہے کہ ہم اسلام کو نہیں چھوڑ سکتے مگر مغرب سے استفادہ بھی ہمارے لیے ضروری ہے۔ مغرب پرست مسلمان مغرب ہی کو ’’حق‘‘ مانتے ہیں مگر وہ اسلام کو ایک تہذیبی اور ثقافتی قوت کی حیثیت سے اپنائے رکھتے ہیں۔ مسلم دنیا کے مغرب زدگان کا معاملہ یہ ہے کہ وہ اپنی انفرادی اور اجتماعی ’’اسلامی خودی‘‘ کھوچکے ہوتے ہیں۔ ان کے نزدیک مغرب ہی حق ہے۔ وہی لائق تقلید ہے۔ ان کی نظر میں اسلام ایک ’’پرانا دھرانا‘‘ نظام حیات ہے۔ اس کی اب کوئی ’’عصری قدرو قیمت‘‘ نہیں۔ چناں چہ وہ عقیدے، جذبے اور خیال کی سطح پر اسلام سے وابستہ نہیں ہوتے۔ بعض مسلم معاشروں میں مغرب زدگان کھل کر اپنے اسلام کا انکار کررہے ہیں اور بعض معاشروں میں ابھی انہیں کھل کر اسلام کے انکار کی جرأت نہیں ہورہی، مگر ان کی تحریروں اور گفتگوئوں سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ وہ مغرب کو حق اور اسلام کو ایک ازکارِ رفتہ نظامِ خیال سمجھتے ہیں۔ کشور ناہید پاکستان کی معروف مغرب زدگان میں سے ایک ہیں۔ ان کے اخلاقی انحرافات کی ایسی ایسی داستانیں مستند ذرائع سے ہم تک پہنچی ہوئی ہیں کہ ان کو ضبط تحریر میں لانا ناممکن ہے۔ کشور ناہید روزنامہ جنگ میں کالم نگاری کرتی ہیں۔ ان کے کالموں میں موجود مغرب زدگی چھپائے نہیں چھپتی۔ ذرا اُن کے ایک حالیہ کالم کا یہ اقتباس تو ملاحظہ کیجیے۔ لکھتی ہیں:۔
’’ایک دفعہ شان الحق حقی نے پاکستان کے حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا:
’’کسی قوم کا یہ حال ایک دن میں نہیں ہوتا‘‘۔
دھوپ اور تازہ ہوا کو روکنے کی خاطر جو دروازے بند کرکے چھوڑ دیے جائیں ان میں چپکے سے دیمک سرایت کرجاتی ہے اور پھر آہستہ آہستہ وہ پوری عمارت کو کھوکھلا کردیتی ہے۔ وہ جو ہماری نظر میں ہر برائی کا سبب تھے اور تسخیر کائنات کی منزلیں طے کرچکے ہیں اور ہم ابھی یہ طے کررہے ہیں کہ سوئی کی نوک پر کتنے فرشتے بیٹھ سکتے ہیں۔ 74 برس سے دریا کو ہاتھ پھیلا کر اپنے پاس بلارہے ہیں‘‘۔
(روزنامہ جنگ۔ 21 مئی 2021ء)
کہنے کو یہ صرف گیارہ سطر کا ایک اقتباس ہے مگر اس اقتباس کو بنیاد بنا کر ڈیڑھ سو صفحے کی کتاب لکھی جاسکتی ہے۔ کشور ناہید کے اس اقتباس میں ’’دھوپ‘‘ اور ’’تازہ ہوا‘‘ مغرب کی علامت ہے۔ چناں چہ کشور ناہید زبان حال سے کہہ رہی ہیں کہ تم نے مغربی فکر کو معاشرے میں عام نہیں ہونے دیا تو اس کا خمیازہ بھگتو۔ اب دیمک زدہ نظام حیات تمہارا مقدر ہے۔ ظاہر ہے کہ مغرب ’’دھوپ‘‘ ہے تو اسلام ’’اندھیرا‘‘ ہے۔ مغرب تازہ ہوا ہے تو اسلام اس کی ضد ہے۔ تازہ ہوا کی ضد کیا ہے؟ بساند بھری ہوا۔ باد سموم۔ جھلسا دینے والی ہوا۔ یا لُو۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ کیا پاکستانی معاشرے یا پورے عالم اسلام نے خود کو مغرب سے محظوظ اور مامون کیا ہوا ہے؟ کیا مسلمان واقعتا کشور ناہید کی دھوپ اور تازہ ہوا سے محروم ہیں؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ پاکستان سمیت پوری مسلم دنیا میں کشور ناہید کی ’’دھوپ‘‘ اور ’’تازہ ہوا‘‘ کا سیلاب آیا ہوا ہے۔ ہر مسلم معاشرہ چاہتے ہوئے یا نہ چاہتے ہوئے مغرب کی فکر اور اس کے تہذیبی و ثقافتی مظاہر میں ڈوبا ہوا ہے۔ مسلم دنیا کا سیاسی نظام مغرب سے آیا ہوا ہے۔ مسلم دنیا کا معاشی نظام مغرب کی عطا ہے۔ مسلم دنیا کا مالی نظام مغرب کی دین ہے۔ مسلم دنیا کا عدالتی نظام مغرب کا فراہم کردہ ہے۔ ہمارے نوجوانوں کی اکثریت مغرب کا لباس زیب تن کرتی ہے۔ ہمارے لوگوں کی بڑی تعداد مغرب کی غذائیں کھارہی ہے۔ ہمارے نوجوان مغرب کے علوم و فنون پڑھ رہے ہیں۔ ہمارے کروڑوں نوجوان مغرب کی فلمیں دیکھ رہے ہیں۔ ہمارے کروڑوں نوجوان مغرب کی موسیقی سن رہے ہیں۔ ہمارے نوجوان مغرب کی فن مصوری میں مہارت پیدا کررہے ہیں۔ ہمارے ادب میں مغرب کے ادبی نظریات کا سیلاب آیا ہوا ہے۔ سلیم احمد کے بقول ہمارے ادیب اب بیدل اور حافظ کے بجائے شیکسپیئر اور رکے کی باتیں کرتے ہیں۔ اس کے باوجود کشور ناہید کہہ رہی ہیں کہ ہم نے ’’دھوپ‘‘ اور ’’تازہ ہوا‘‘ کے لیے دروازے بند کیے ہوئے ہیں۔ کشور ناہید ہمیں بتائیں تو کہ انہیں پاکستان سمیت پوری مسلم دنیا میں اور کتنی ’’دھوپ‘‘ اور ’’تازہ ہوا‘‘ درکار ہے؟ اصل میں کشور ناہید چاہتی یہ ہیں کہ مسلم معاشروں میں کوئی خدا اور رسول کا نام لینے والا بھی نہ رہے۔ کوئی قرآن کی تلاوت کرنے والا بھی دستیاب نہ ہو۔ مساجد بند ہوجائیں۔ ان پر تالے لگا دیے جائیں یا انہیں کسی اور مصرف میں بروئے کار لایا جائے۔ وہ چاہتی ہیں کہ مسلم ’’حق و باطل‘‘ اور ’’حلال و حرام‘‘ سے بے نیاز ہو جائیں۔ اسلامی معاشروں کی ’’حیا‘‘ ختم ہوجائے۔ ناجائز جنسی تعلقات عام ہو جائیں۔ مسلم معاشرے ہم جنس پرستوں کے معاشرے بن جائیں۔ شراب عام ہوجائے۔ نائٹ کلب کی زندگی اصل زندگی بن جائے۔ مسلمان خنزیر کا گوشت کھانے لگیں۔ جب ایسا ہوجائے گا تو تب کشور ناہید اپنے کالم میں لکھیں گی کہ اب مسلمانوں نے اپنے معاشروں کو ’’دھوپ‘‘ اور ’’تازہ ہوا‘‘ کے لیے کھولا ہے۔ اگر ایسا ہے اور یقینا ایسا ہی ہے تو کشور ناہید جرأت سے کام لیں۔ کھل کر خدا اور رسول اور اسلام کی مخالفت کا اعلان کریں۔ اس کا نتیجہ کیا ہوگا؟ زیادہ سے زیادہ یہ کہ کوئی کشور ناہید کو مار دے گا۔ تو یہ کوئی خاص بات نہ ہوگی۔ بڑے لوگوں نے ہمیشہ تاریخ میں اپنے ایقان اپنے conviction کے لیے جان دی ہے۔ کشور ناہید اس کے بعد یقینا ’’شہید مغربیت‘‘ کہلائیں گی۔ ممکن ہے کہ مغربی دنیا انہیں شہید مغربیت بننے کے بعد ادب یا امن کا نوبل انعام دلادے۔ اگر مغرب ملالہ کو کچھ کیے بغیر امن کا نوبل انعام دلا سکتا ہے تو کشور ناہید تو ’’شہید مغربیت‘‘ ہوں گی۔ ممکن ہے مغرب انہیں بیک وقت دو نوبل انعام عطا کردے۔
کشور ناہید کا شکوہ ہے کہ ہم اتنے مغربی نہیں ہوپائے جتنا کہ ہمارے مغربی بنے کا حق ہے، مگر کشور ناہید کو یہ حقیقت نظر نہیں آتی کہ مغرب ہمیں مغربی بھی اتنا ہی بننے دیتا ہے جتنا کہ وہ چاہتا ہے۔ اب مثلاً جمہوریت مغرب کی ایک بڑی قدر ہے۔ اس کا ایک بڑا عقیدہ ہے۔ مسلم دنیا دل کی گہرائی سے ’’جمہوری‘‘ ہونا چاہتی ہے۔ چناں چہ الجزائر میں اسلامی فرنٹ نے انتخابات کے پہلے مرحلے میں دوتہائی اکثریت حاصل کی تو مغرب نے الجزائر کے جرنیلوں کو اسلامی فرنٹ پر کتوں کی طرح چھوڑ دیا۔ جرنیلوں نے نہ صرف یہ کہ انتخابات کو سبوتاژ کردیا بلکہ انہوں نے اقتدار پر قبضہ کرکے الجزائر میں جمہوریت کی راہ ہی مسدود کردی۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ مغرب نے الجزائر کو جمہوری ہونے کی اجازت نہیں دی۔ ترکی میں نجم الدین اربکان ملک کے وزیراعظم بن گئے تو انہیں مغرب نے ایک سال سے زیادہ نہ چلنے دیا۔ اس لیے کہ ان پر الزام تھا کہ وہ ’’اسلامسٹ‘‘ ہیں۔ فلسطین میں حماس نے انتخابی کامیابی حاصل کی تو مغرب نے جمہوری کامیابی کو کامیابی ماننے سے انکار کردیا۔ مصر میں صدر مرسی کی حکومت کو ایک سال سے زیادہ نہ چلنے دیا۔ یہاں بھی مغرب نے جنرل سیسی کو صدر مرسی اور اخوان پر ایک کتے کی طرح چھوڑ دیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مغرب کی ’’دھوپ‘‘ اور ’’تازہ ہوا‘‘ ہر ایک کے لیے نہیں ہے۔ آپ مغرب کے ایجنٹ ہوں تو آپ کی فوجی آمریت بھی ٹھیک، آپ کی جمہوریت بھی شاندار۔ آپ مغرب کے ایجنٹ نہ ہوں تو آپ کی جمہوریت بھی بیکار، آپ کی عوامی مقبولیت بھی بے معنی۔ بدقسمتی سے ہم نے آج تک کشور ناہید کو مغرب کی اس شیطنت پر کلام کرتے نہیں دیکھا۔
مغرب کا ایک عقیدہ ’’آزادی‘‘ ہے۔ اس تصور میں بھی بڑی ’’دھوپ‘‘ اور ’’تازہ ہوا‘‘ ہے۔ مگر مغرب کسی مسلم ملک کو نہ سیاسی طور پر آزاد ہونے دیتا ہے نہ معاشی طور پر آزاد ہونے دیتا ہے۔ مسلم دنیا آزادی کی دھوپ اور تازہ ہوا سے بہت استفادہ کرنا چاہتی ہے مگر مغرب نہ اپنی دھوپ ہم تک آنے دیتا ہے نہ اپنی تازہ ہوا ہم تک آنے دیتا ہے۔
سائنس کہنے کو ایک علم ہے مگر اس علم پر بھی مغرب کی اجارہ داری ہے اور مغرب اس علم کی ’’دھوپ‘‘ اور ’’تازہ ہوا‘‘ کو بھی صرف اپنے ایجنٹوں تک پہنچاتا ہے۔ چناں چہ بھارت ایٹم بم بنائے تو ٹھیک، اسرائیل ایٹم بم بنائے تو بجا، لیکن پاکستان ایٹم بم بنائے تو اس کا بم ’’اسلامی بم‘‘، ایران ایٹم بم بنانے کے راستے پر چلے تو اس کے لیے ایٹم بم بنانا حرام۔
کشور ناہید کی مغرب زدگی کا یہ عالم ہے کہ مغرب نے تسخیر کائنات کی طرف ایک قدم ہی اُٹھایا ہے مگر کشور ناہید نے مغرب کو پوری کائنات کی تسخیر کرتے ہوئے دیکھ لیا۔ افسوس اس سلسلے میں انہوں نے اقبال کی فکر سے استفادے کی ضرورت بھی محسوس نہ کی۔ اقبال نے ایک صدی قبل کہا تھا۔
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزر گاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
جس نے سورج کی شعائوں کو گرفتار کیا
زندگی کی شبِ تاریک سحر کر نہ سکا
اقبال کے ان اشعار کا مطلب یہ ہے کہ اصل چیز کائنات کی تسخیر نہیں ہے، اصل چیز زندگی کی تاریکی کو دور کرکے اسے روشنی سے ہمکنار کرنا ہے اور مغربی دنیا کے لوگوں کی اکثریت کی زندگی ایک جہنم کا منظر پیش کررہی ہے۔ اس زندگی میں نہ خدا ہے، نہ آخرت ہے، نہ نبوت کا ادارہ ہے، نہ معروضی اخلاق یا Objective morality ہے۔ چناں چہ ایسا انسان مریخ پر کیا پلوٹو تک بھی پہنچ جائے تو بیکار ہے۔ بقول شاعر
آدمی آید برائے بندگی
زندگی بن بندگی شرمندگی