ملالہ یوسف زئی نے نکاح کی تضحیک کرکے اسلام اور سنت رسولؐ کی کھلی توہین کی ہے۔ نکاح کسی مسلمان کا ’’انفرادی فعل‘‘ نہیں۔ نکاح ایک مذہبی ادارہ ہے اور اس کی اہمیت اور تقدیس پر کوئی سوال نہیں اٹھایا جاسکتا۔ اس لیے کہ مذہب کوئی ’’ذاتی معاملہ‘‘ نہیں ہے اور اس سلسلے میں ذاتی پسند یا ناپسند کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اس حوالے سے حسن نثار نے اس بات کا مذاق اُڑایا ہے کہ ملالہ نے جو کچھ کہا مغرب کے کہنے پر کہا۔ حسن نثار کے نزدیک یہ خیال ہی فضول ہے کہ مغربی طاقتیں ملالہ جیسے ایجنٹوں کو پال کر ان سے شعائر اسلام پر حملے کراتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ مغربی طاقتوں نے کب اپنے ایجنٹوں سے اسلام پر حملے نہیں کرائے۔ اس مسئلے کا اس سے بھی اہم پہلو یہ ہے کہ مغرب شیطان ہے اور جو شخص شیطان کے زیر اثر چلا جاتا ہے وہ اسلام، پیغمبر اسلام، اسلامی تہذیب اور اسلامی تاریخ پر ضرور حملے کرتا ہے۔ برصغیر میں اس کی سب سے بڑی مثال سرسید ہیں۔ سرسید خدا اور رسول کے منکر نہ تھے مگر مغرب کے غلبے سے پیدا ہونے والی نفسیات نے ان کا تصورِ خدا، تصورِ قرآن بدل دیا۔ سرسید کا خدا اسلام کا خدا نہیں تھا بلکہ سرسید نے اپنا خدا خود گھڑا تھا۔ سرسید قرآن کے منکر نہ تھے مگر انہوں نے قرآن کے ہر معجزے کا انکار کیا ہے اور اصول ہے کہ قرآن کے کسی ایک جزو کا انکار پورے قرآن کا انکار ہے۔ سرسید مغرب سے اتنے مرعوب ہوئے کہ انہوں نے علم حدیث کا انکار کردیا۔ تفسیر کی پوری روایت کو مسترد کردیا۔ فقہ کی پوری روایت کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔ انہوں نے اجماع کے اصول کا انکار کردیا۔ سرسید نے یہ سب کچھ اس لیے نہیں کیا کہ مغرب ان سے یہ سب کروا رہا تھا بلکہ سرسید نے یہ سب کچھ اس لیے کیا کہ مغربی فکر کے زیر اثر جا کر وہ یہی کرسکتے تھے۔ سرسید سلطنت برطانیہ کے پیروکار تھے، سلطنت برطانیہ پروٹسٹنٹ تھی اور پروٹسٹنٹ ازم میں مذہب ’’عقلی‘‘ ہوجاتا ہے۔ چناں چہ سرسید نے بھی اسلام کو ’’عقلی‘‘ بنانے کی شعوری کوشش کی۔ لیکن سرسید کا بنیادی مسئلہ یہ تھا کہ مغرب سیاسی طور پر غالب تھا۔ سرسید نے مغرب کے غلبے سے یہ نتیجہ نکالا کہ جو غالب ہے وہی درست بھی ہوگا اس لیے کہ اگر وہ درست نہ ہوتا تو وہ غالب کیسے ہوتا؟ یہ ایک سامنے کی بات ہے کہ مغرب نے سلمان رشدی سے اسلام اور پیغمبر اسلام پر حملہ کرایا اور وہ مدتوں سے سلمان رشدی کو تحفظ مہیا کیے ہوئے ہے۔ وی ایس نائپال بھارتی ہے اور وہ اپنے ناولوں میں بھارتی سماج اور اس کے کلچر کا مذاق اڑاتا ہے۔ چناں چہ مغرب نے اسے ادب کا نوبل انعام دلا دیا۔ ملالہ نے تو کچھ بھی نہیں کیا ایک اسکول ایک کالج تک تعمیر نہیں کیا مگر اس کے باوجود مغرب نے انہیں امن کا نوبل انعام دلا دیا۔ ان حقائق کے تناظر میں دیکھا جائے تو ملالہ نے نکاح کے حوالے سے جو کچھ کہا وہ ممکن ہے ان سے کہلوایا گیا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ مغرب کے سیکولر ازم اور لبرل ازم نے انہیں خود ہی یہ کہنے پر مائل کیا ہو۔ مغرب شیطان ہے اور جو شخص اس کے زیر اثر چلا جاتا ہے وہ بھی تھوڑا بہت شیطان بن جاتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مغربی دنیا کو ہمیشہ سے اسلام اور مسلمانوں سے نفرت رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس نفرت کے اسباب کیا ہیں؟
سلیم احمد نے اپنی معرکہ آرا نظم ’’مشرق ہار گیا‘‘ میں ادب کے نوبل انعام یافتہ برطانوی ادیب رڈیارڈ کپلنگ کی زبان سے کہلوایا ہے کہ مشرق، مشرق ہے اور مغرب، مغرب ہے اور دونوں کا ملنا ناممکن ہے۔ لیکن یہ مشرق و مغرب کے تعلق کے بارے میں کپلنگ کی سرسری رائے ہے۔ مشرق و مغرب کے تعلق کے بارے میں کپلنگ کی بنیادی رائے یہ ہے کہ مشرق آدھا بچہ ہے اور آدھا شیطان۔ مشرق آدھا بچہ اس لیے ہے کہ وہ مغرب کی طرح نموپا کر عقل پرست یا Rational نہیں بن سکا۔ مشرق آدھا شیطان اس لیے ہے کہ وہ عیسائی نہیں ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو مغرب کو پورے مشرق ہی سے نفرت ہے چوں کہ اسلام اور مسلمان بھی مشرق کا حصہ ہیں اس لیے مغرب کو ان سے بھی نفرت ہے۔ مغرب کو مشرق سے اس لیے نفرت ہے کہ مذہب کے انکار کے بعد مغرب نے مابعد الطبیعات کو بھی رد کردیا اور طبیعات پرست بن کر کھڑا ہوگیا۔ اس کے برعکس مشرق ابھی تک چوں کہ مذہب کو مانتا ہے اس لیے وہ مابعد الطبیعات کا بھی قائل ہے۔ مغرب کو مشرق کا یہ طرزِ فکر و عمل غیر عقلی اور غیر منطقی لگتا ہے۔ اسی لیے کپلنگ مشرق کو بچہ کہتا ہے۔ حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ جو فرد یا تہذیب مابعد الطبیعات کو مانتی ہے وہی حقیقی معنوں میں بالغ ہے۔ صرف طبیعات کو ماننے والے بچوں کی سطح پر زندہ ہیں۔
مسلم دنیا میں بہت کم لوگ اس بات کا شعور رکھتے ہیں کہ اسلام اور پیغمبر اسلام سے مغرب کی نفرت کی ایک وجہ یہ ہے کہ مغربی دنیا معاذ اللہ اسلام کو جھوٹا مذہب اور رسول اکرمؐ کو جھوٹا نبی مانتی ہے۔ مغرب کا خیال ہے کہ رسول اکرمؐ پر وحی نہیں آتی تھی بلکہ آپؐ نے کچھ تعلیمات یہودیت سے لے لیں اور کچھ تعلیمات عیسائیت سے اخذ کرلیں اور ان دونوں کو ملا کر اسلام ’’ایجاد‘‘ کرلیا۔ یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ مستشرقین نے رسول اکرمؐ کی سیرت طیبہ کے اکثر گوشوں پر سخت اعتراضات کیے ہیں۔ انہیں رسول اکرمؐ کی بیویوں کی تعداد پر اعتراض ہے۔ انہیں رسول اکرمؐ کے جہاد اور ریاست کا حکمران ہونے پر اعتراض ہے۔ اصل میں عیسائی مستشرقین کے سامنے اصل ماڈل سیدنا عیسیٰؑ کا ہے۔ جنہوں نے ایک بھی شادی نہیں کی۔ جنہوں نے کبھی جہاد نہیں کیا۔ جنہوں نے کبھی کوئی ریاست قائم نہیں کی۔ چناں چہ مستشرقین کو سیدنا عیسیٰؑ کی سیرت میں روحانیت ہی روحانیت نظر آتی ہے اور انہیں لگتا ہے کہ معاذ اللہ رسول اکرمؐ تو ایک دنیا دار شخص تھے۔ اگرچہ مغرب میں اب بہت سے عیسائی رسول اکرمؐ کو نبی ماننے لگے ہیں مگر یہ ان کی ’’انفرادی رائے‘‘ ہے۔ چرچ کی ’’سرکاری رائے‘‘ ابھی تک یہ ہے کہ رسول اکرمؐ نبی نہیں تھے۔
اسلام اور مسلمانوں کے سلسلے میں مغربی دنیا کے طرز فکر و عمل اور تناظر کی تشکیل میں صلیبی جنگوں نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ صلیبی جنگوں کی وجہ بھی عیسائی مغرب کو اسلام اور پیغمبر سے دشمنی تھی۔ اس وقت کے پوپ اربن دوم نے کلیسا میں کھڑے ہو کر کہا کہ اسلام ایک شیطانی مذہب ہے اور میرے قلب پر یہ بات القا کی گئی ہے کہ ہمیں اس شیطانی مذہب اور اس کے ماننے والوں کو صفحہ ٔ ہستی سے مٹا دینا چاہیے۔ پوپ اربن صرف یہ کہہ کر نہیں رہ گیا اس نے پورے یورپ کو ایک صلیبی جھنڈے کے نیچے جمع بھی کیا اور ان صلیبی جنگوں کا آغاز کیا جو کم و بیش دو سو سال تک جاری رہیں۔ صلیبی جنگوں کا آغاز بھی اہم تھا مگر ان کا انجام اس سے بھی زیادہ اہم تھا اس لیے کہ صلیبی جنگوں کے اختتام سے پہلے سلطان صلاح الدین ایوبی سامنے آچکے تھے اور انہوں نے صلیبی لشکر کو بدترین شکست سے دوچار کیا اور اسے کھدیڑتے ہوئے یورپ تک لے گئے۔
مغرب بالخصوص یورپ آج تک اس تجربے کو نہیں بھولا۔ وہ جب بھی اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں سوچتا ہے اسے صلیبی جنگیں بالخصوص ان کا اختتام یاد آجاتا ہے۔ اسے لگتا ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کو پھر کوئی صلاح الدین ایوبی فراہم ہوسکتا ہے۔
مغرب کی اسلام اور مسلمانوں سے نفرت کی ایک وجہ مغرب کا تصورِ تاریخ ہے۔ مغرب کے تصورِ تاریخ کے مطابق انسانی تاریخ چار ادوار میں منقسم ہے۔ تاریخ کا پہلا دور جادو کا دور تھا۔ اس زمانے کی حتمی حقیقت جادو تھا اور ہر چیز کی معنویت کا تعین اس سے ہوتا تھا۔ انسان کچھ بڑا ہوا تو اس نے مذہب ایجاد کرلیا۔ مذہبی عہد میں ہر چیز مذہب سے معنی اخذ کرتی تھی۔ انسانیت بالغ ہوئی تو فلسفے کا عہد شروع ہوگیا۔ انسان نے ہر چیز کو عقل کے تناظر میں دیکھنا اور پرکھنا شروع کردیا۔ انسانیت کی ’’ترقی‘‘ کا سفر جاری رہا اور فلسفے کا عہد بھی ختم ہوگیا۔ اب ہمارا عہد سائنس کا عہد ہے۔ یہ انسان کی حقیقی بلوغت کا زمانہ ہے۔ اب انسان واقعتاً صاحب شعور ہوا ہے اور اب ہمیں ہر چیز کو سائنسی بنیادوں پر دیکھنا اور پرکھنا چاہیے۔ تاریخ کے اس تصور کے تناظر میں دیکھا جائے تو مذہب ایک بہت پرانی اور ازکار رفتہ چیز نظر آتی ہے۔ مغرب مسلمانوں کو مذہب سے چمٹے ہوئے دیکھتا ہے تو اِسے خیال آتا ہے کہ مسلمان ابھی تک ماضی کے غار سے نہیں نکلے۔ انہیں عہد جدید کی ہوا بھی نہیں لگی۔ چناں چہ ان کا مذہب، ان کی مذہب پرستی اور وہ خود قابل نفرت ہیں۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ مسلمان ڈیڑھ سو دو سو سال تک یورپ کی نوآبادیاتی طاقتوں کے غلام رہے ہیں۔ کسی ایک ملک کے مسلمان نہیں کم و بیش تمام مسلم ملکوں کے مسلمان۔ چناں چہ مغرب خود کو مسلمانوں کا ’’آقا‘‘ اور مسلمانوں کو اپنا ’’غلام‘‘ سمجھتا ہے۔ غلام حقیر ہے تو اس کا مذہب بھی حقیر ہوگا۔ اس کی تہذیب بھی حقیر ہوگی۔ اس کی تاریخ بھی حقیر ہوگی۔ بدقسمتی سے آج بھی مسلمان کسی نہ کسی اعتبار سے مغرب کے غلام ہی ہیں۔ چناں چہ مذہب کی نظر میں مسلمانوں کا مرتبہ آج بھی بلند نہیں۔ چناں چہ وہ آج بھی غلام، ان کے مذہب اور ان کی ہر چیز سے نفرت کرتا ہے۔
مغرب کو اسلام اور مسلمانوں سے اس لیے بھی نفرت ہے کہ مغرب ایک ہزار سال سے اسلام اور مسلمانوں کو مٹانے کے لیے کوشاں ہے مگر وہ ابھی تک اسلام اور مسلمانوں کو مٹا نہیں سکا ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کو جہاں ذرا سا سازگار ماحول فراہم ہوتا ہے وہ مغرب کے خلاف سر اُٹھا کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ مغرب کو اپنے متبادل سے شدید نفرت ہے۔ کمیونزم خود کو سرمایہ داری کا متبادل کہتا تھا اور مغرب کو اسی لیے اس سے شدید نفرت تھی۔ اسلام بھی خود کو مغرب کا متبادل کہتا ہے اس لیے مغرب کو اسلام سے بھی شدید نفرت ہے۔ مغرب کے لیے یہ بات بھی اذیت ناک ہے کہ اسلام کے پاس نہ سیاسی طاقت ہے۔ نہ معاشی طاقت ہے نہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی طاقت ہے اس کے باوجود اسلام مغرب میں لاکھوں لوگوں کو مسلمان بنارہا ہے۔