انسان کا نظریہ خواہ کچھ بھی ہو اسے بددیانت نہیں ہونا چاہیے۔ انسان کا عقیدہ کچھ بھی ہو اسے کم فہمی سے بلند ہونا چاہیے۔ بدقسمتی سے پاکستان کے سیکولر اور لبرل عناصر کا معاملہ یہ ہے کہ وہ بددیانت بھی ہیں اور کم فہم بھی۔ پاکستان کے سیکولر اور لبرل عناصر کی بددیانتی کا ایک مظہر یہ ہے کہ وہ پاکستان میں فوجی آمریت کی مذمت کرتے ہیں تو انہیں مذمت کے لیے صرف جنرل ضیا الحق نظر آتے ہیں۔ انہیں سیکولر جنرل ایوب، سیکولر جنرل یحییٰ اور سیکولر جنرل پرویز مشرف کی آمریت، آمریت نظر نہیں آتی۔ بلاشبہ جنرل ضیا الحق فوجی آمر تھے اور اس بنیاد پر ان کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے مگر فوجی آمر تو جنرل ایوب، جنرل یحییٰ اور جنرل پرویز بھی تھے چناں چہ ان کی مذمت بھی ہونی چاہیے۔ مگر پاکستان کے سیکولر اور لبرل عناصر اپنی تقریروں اور تحریروں میں صرف جنرل ضیا الحق پر حملے کرتے ہیں۔ اس کی وجہ ہے اور وہ یہ کہ جنرل ضیا الحق مذہبی انسان تھے۔ جنرل ضیا الحق بھی اتفاق سے اگر جنرل ایوب، جنرل یحییٰ اور جنرل پرویز کی طرف سیکولر اور لبرل ہوتے تو پاکستان کے سیکولر اور عناصر کو ان کی فوجی آمریت بھی نظر نہ آتی، پاکستان کے سیکولر اور لبرل عناصر آمریت کے سلسلے میں ایک اور بددیانتی کرتے ہیں۔ وہ آمریت کی مذمت کرتے ہیں تو اس سے ان کی مراد ہمیشہ فوجی آمریت ہوتی ہے اور بلاشبہ فوجی آمریت قابل مذمت چیز ہے لیکن آمریت صرف ’’فوجی‘‘ نہیں ہوتی۔ آمریت ’’سول‘‘ بھی ہوتی ہے۔ چناں چہ فوجی آمروں کے ساتھ ساتھ سول آمروں کی بھی مذمت ہونی چاہیے۔ ذوالفقار علی بھٹو ایک ’’سول آمر‘‘ تھے۔ بے نظیر بھٹو ایک ’’سول آمر‘‘ تھیں۔ میاں نواز شریف ایک ’’سول آمر‘‘ تھے۔ چناں چہ جرنیلوں کی آمریت کے ساتھ ساتھ سول آمروں کی مذمت بھی ہونی چاہیے بلکہ سول آمروں کی زیادہ مذمت ہونی چاہیے اس لیے کہ سول حکمرانوں کو حقیقی معنوں میں جمہوری ہونا چاہیے، بدقسمتی سے نہ بھٹو صاحب جمہوری تھے، نہ بے نظیر جمہوری تھیں نہ نواز شریف جمہوری ہیں۔
پاکستان کے سیکولر اور لبرل عناصر کی بددیانتی کی ایک کلاسکی مثال یہ ہے کہ وہ جنرل ضیا الحق کو اس بات کے لیے مورد الزام ٹھیراتے ہیں کہ انہوں نے معاشرے کو اتنا اسلامی بنایا کہ معاشرہ آج تک سیکولر ازم اور لبرل ازم کی طرف نہیں لوٹ سکا۔ پاکستان کے سیکولر اور لبرل عناصر کا خیال ہے کہ جنرل ضیا الحق نہ ہوتے تو پاکستانی معاشرہ کبھی مذہبی نہ بنتا۔ یہ تجزیہ اتنا سرسری اور سطحی ہے کہ پاکستان کے سیکولر اور لبرل عناصر کی دانش ورانہ اہلیت قابل رحم حد تک کم نظر آتی ہے۔ انہیں مذہب بالخصوص اسلام کی طاقت، شوکت اور جاذبیت کا اندازہ ہی نہیں۔ محمد بن قاسم 711 میں جب سندھ آئے تھے تو برصغیر میں چند سو مسلمان آباد تھے مگر آج 2021ء میں برصغیر میں 55 کروڑ سے زیادہ مسلمان موجود ہیں۔ ان مسلمانوں کی عظیم اکثریت مقامی افراد پر مشتمل ہے۔ اسلام کے جلال و جمال نے کروڑوں ہندوئوں کی قلب ماہیت کی اور انہیں مشرف بہ اسلام کیا۔ اہم بات یہ ہے کہ اس سلسلے میں حکمرانوں اور ریاست کا کوئی کردار نہیں۔ اس سلسلے میں سرمایہ استعمال ہوا نہ ریاستی طاقت بروئے کار آئی۔ ایسا ہوتا تو آج پورا برصغیر مسلمان ہوتا۔ برصغیر میں جو شخص مسلمان ہوا صوفیا اور علما کی کوششوں سے ہوا۔ اس سلسلے میں اس بات کی بھی بڑی اہمیت ہے کہ برصغیر میں اسلام ہمیشہ اقلیت کا مذہب رہا۔ اسلام برصغیر میں اکثریت کا مذہب بن جاتا اور پھر کروڑوں لوگ مسلمان ہوتے تو یہ کوئی خاص بات نہ ہوتی مگر اسلام نے اقلیت کا مذہب ہونے کے باوجود کروڑوں ہندوئوں کے قلوب و اذہان کو بدلا۔ ہندو قیادت نے مسلمانوں کو دوبارہ ہندو بنانے کے لیے ’’شدھی‘‘ کی تحریک چلائی۔ آج بھی ہندوستان میں ’’گھر واپسی‘‘ کی تحریک موجود ہے مگر دوچار مسلمانوں کے سوا شاید ہی کسی مسلمان نے اپنا مذہب چھوڑا ہو۔
اسلام کی طاقت اور زرخیزی کا اندازہ اس بات سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ شاہ ولی اللہ سے پہلے برصغیر میں قرآن اور حدیث کا علم بہت کمزور حالت میں تھا۔ قرآن اور حدیث کے دروس کا سلسلہ رک گیا تھا اور ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اس سرزمین سے قرآن و حدیث کا علم اُٹھ چکا ہے۔ مگر شاہ ولی اللہ اور ان کے خانوادے کی کوششوں سے دیکھتے ہی دیکھتے قرآن و حدیث کا علم برصغیر میں زندہ ہوگیا۔ شاہ ولی اللہ نے قرآن کا ترجمہ فارسی میں کیا اور ان کے فرزند نے قرآن کے اردو ترجمے کا کام کیا۔ دونوں تراجم مقبول ہوئے۔ شاہ ولی اللہ نے خود درس حدیث کا سلسلہ شروع کیا اور یہ سلسلہ پھیلتا ہی چلا گیا۔ کیا کسی خطے کی تاریخ میں کبھی ایسا ہوا ہے کہ صرف ایک خانوادے نے قرآن و حدیث کے علم کو اس طرح زندہ کیا ہو جیسے اسے کبھی کمزوری اور لاغری لاحق ہی نہ ہوئی تھی؟ اقبال کا شعر یاد آیا۔
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
برصغیر کی اجتماعی نفسیات اور اجتماعی ذہنی سانچے میں مذہب کتنی اہمیت رکھتا ہے اس کا اندازہ اس بات سے بھی ہوسکتا ہے کہ برصغیر میں جتنی مزاحمتی تحریکیں چلیں ان کا رنگ مذہبی تھا۔ ٹیپو سلطان کا مذہبی تشخص عیاں ہے۔ 1857 کی جنگ آزادی میں علما اور مذہبی طبقات نے مرکزی کردار ادا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ انگریزوں نے علما کو چن چن کر قتل کرایا۔ انہیں توپوں کے گولوں کا نشانہ بنایا۔ جہاں ایک آدمی مارنے سے کام چل سکتا تھا وہاں انہوں نے دس آدمی مارے۔ 1857 کی جنگ آزادی میں اگرچہ ہندو بھی شریک تھے مگر انگریزوں نے 1857 کی جنگ آزادی کی ساری ذمے داری مسلمانوں پر ڈالی۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے انتقام صرف مسلمانوں سے لیا۔ یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ ترکی میں خلافت کے خاتمے کا اعلان ہوا تو پورے عالم اسلام میں سناٹے کا راج تھا بلکہ عالم عرب میں تو خلافت کے خاتمے پر خوشی کا اظہار کیا گیا۔ خلافت ایک مذہبی آئیڈیا تھی چناں چہ برصغیر کے مسلمانوں نے اس حوالے سے تحریک خلافت کے عنوان سے پوری ایک تحریک منظم کی۔ اس حوالے سے پورے برصغیر میں یہ نعرہ گونج رہا تھا
بولیں اماں محمد علی کی
جان بیٹا خلافت پہ دے دو
خلافت اگر صرف سیاسی معاملہ ہوتا تو برصغیر کے مسلمانوں کبھی اس سلسلے میں جذباتی نہ ہوتے مگر خلافت ایک مذہبی تصور ہے۔ چناں چہ برصغیر کے مسلمان خلافت کی پشت پر کھڑے ہوگئے۔
برصغیر میں مذہب کی قوت اور شوکت کا ایک بہت ہی بڑا مظہر یہ ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں نے برصغیر میں ایک علٰیحدہ ریاست کا مطالبہ کیا تو مذہب کو اس کی بنیاد بنایا۔ برصغیر کے مسلمانوں نے جب پاکستان کا مطالبہ کیا تو قومیت کی تعریف نسل، زبان اور جغرافیے سے متعین ہوتی تھی مگر برصغیر کے مسلمانوںنے کہا ہماری قومیت مذہب سے متعین ہوتی ہے۔ یہ وہ نعرہ تھا جس نے قوم پرست محمد علی جناح کو دو قومی نظریے کا علمبردار بنایا تھا۔ مذہب کی قوت نے یا تو ریاست مدینہ خلق کی تھی یا پھر برصغیر میں پاکستان کو خلق کرکے دکھایا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو یہ جنرل ضیا الحق نہیں تھے جنہوں نے پاکستان میں اسلام کو مضبوط بنایا بلکہ یہ اسلام تھا جس سے جنرل ضیا الحق نے قوت کشید کی۔ آخر سیکولر اور لبرل لوگ اس بات پر کیوں غور نہیں کرتے کہ پاکستان کو اسلامی آئین اسلامی جنرل ضیا الحق نے نہیں سیکولر بھٹو نے فراہم کیا۔ قادیانیوں کو غیر مسلم اسلامی جنرل ضیا الحق نے نہیں سیکولر بھٹو نے قرار دیا۔ شراب پر پابندی اسلامی ضیا الحق نے نہیں سیکولر بھٹو نے عائد کی۔ جمعہ کی تعطیل کا اعلان اسلامی ضیا الحق نے نہیں سیکولر بھٹو نے کیا۔ اسلام سیکولر اور لبرل بھٹو سے اتنے کام لے سکتا ہے تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ کسی اسلامی تشخص کے حامل فرد سے کتنا کام لے سکتا ہوگا۔ پاکستان کے سیکولر عناصر اس بات پر بھی غور کے لیے تیار نہیں کہ جنرل ایوب، جنرل یحییٰ اور ذوالفقار علی بھٹو نے مل جل کر پاکستان کو جتنا سیکولر اور لبرل بنایا تھا تنہا جنرل ضیا الحق نے پاکستان کو اس سے زیادہ اسلامی بنادیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ معاشرے میں سیکولر ازم اور لبرل ازم کی نہیں اسلام کی پیاس موجود ہے۔ معاشرے میں اسلام کی طلب موجود نہ ہوتی تو جنرل ضیا الحق کوشش کے باوجود اس معاشرے کو اسلامی نہیں بنا سکتے تھے۔